قلمی نسخہ کا سرقہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف جھوٹا مقدمہ

چند روز قبل ایک ایسا خط نظر سے گزرا جو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے لیے وجۂ حیرت تھا۔ جماعت اسلامی کے قائدین عمومی طور پر انتظامی افسروں خصوصاً پولیس، ضلعی انتظامیہ اور فارن سروس کے لوگوں سے بہت کم رابطہ رکھتے ہیں، بلکہ بیشتر معاملات میں ان افراد سے میل ملاقات اور رابطوں سے گریزاں رہتے ہیں، اگرچہ جماعت اسلامی کے بیشتر قائدین کی اعلیٰ افسران، عدلیہ کے ججوں اور انتظامی عہدوں پر تعینات افسران کے ساتھ قریبی شناسائی بھی ہے۔ پنجاب کی حد تک جناب لیاقت بلوچ اور جناب امیرالعظیم کا حلقۂ احباب اور تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ دونوں افراد اسلامی جمعیت طلبہ، پھر پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر، اور بعد میں اپنی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے باعث ملک بھر میں اپنی شناخت اور تعارف رکھتے ہیں۔ چوں کہ پنجاب میں بیوروکریسی میں آنے والے 80 فی صد افراد پنجاب یونیورسٹی سے آتے ہیں، اس لیے ان میں سے بہت سے افسران ماضی میں ان دونوں رہنمائوں کے کارکن، ساتھی یا شریکِ سفر رہے۔ جو مخالف تھے وہ اِن کی ذاتی شرافت اور اوصاف کے قائل تھے۔ بہت سے ہم عصر، ہم جماعت یا ایک ہی شعبے کے طالب علم رہے ہیں۔ کچھ اسکول کے ساتھی، کالج کے ہم جولی، محلے کے ساتھی، کچھ علمی ادبی مجالس کے شرکا، کچھ غیر نصابی سرگرمیوں کے حلیف و حریف اور کچھ لائبریریوں کے ہم ذوق ہیں۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کے قائدین اُن سے میل ملاقات سے گریزاں رہتے ہیں کہ اُن کے لیے اس وجہ سے کوئی مشکلات پیدا نہ ہوجائیں۔ خاص طور پر افسران کے نام درخواست یا خط لکھنے سے ہمیشہ بچتے ہیں کہ یہ ریکارڈ کا حصہ بن کر کبھی خود اُن کے لیے، متعلقہ افسر کے لیے، یا کسی متاثرہ یا فائدہ اٹھانے والے فریق کے لیے دردِ سر نہ بن جائے۔ اس تمام تر احتیاطی مزاج کے باوجود حال ہی میں ایک خط سامنے آیا ہے جس نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ یہ تمہید بھی اسی غیر متوقع خط کی وجہ سے باندھی گئی ہے۔ یہ خط جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب امیرالعظیم کا ہے، اور اُن کے مخاطب ہیں انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) پنجاب۔ بظاہر یہ ایک عام سا خط ہے۔ شاید آئی جی کو ایسے کئی خطوط روزانہ موصول ہوتے ہوں جو ہمارے روایتی انتظامی رویّے کے باعث محض فائلوں میں دفن ہوجاتے ہوں گے۔ خط کے مندرجات ملاحظہ ہوں۔
جناب امیرالعظیم نے محترم رائو سردار علی خان انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ وہ اس کے ذریعے ایک اہم قومی معاملے پر آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ مورخہ 17 اکتوبر 2021ء کو ایک ایف آئی آر نمبر 449/21 تھانہ گڑھ مہاراجا ضلع جھنگ میں پاکستان کی معروف علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف درج کی گئی، جس نے معروف سیاست دان چودھری ظہور الٰہی مرحوم کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج ہونے کی یادتازہ کردی۔ جناب امیرالعظیم کے بقول ڈاکٹر تحسین فراقی کو کچھ عرصہ قبل مجلس ترقی ادب کی سربراہی سے کسی وجہ کے بغیر ہٹا دیا گیا تھا، جس کے خلاف انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے۔ لیکن کچھ نادان لوگ ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں اپنا کیس واپس لینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں اور ہماری پولیس ان ناجائز ہتھکنڈوں میں شریک ہو کر پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ جناب امیر العظیم نے اس معاملے کا نوٹس لینے اور اس مکروہ کھیل میں شریک پولیس اہلکاروں کے خلاف انضباطی کارروائی کی استدعا کی ہے اور اس کیس کی پیش رفت سے انہیں آگاہ رکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔
جناب امیرالعظیم کی یہ خواہش تو پوری ہوتی نظر نہیں آتی، کہ ہمارے افسران اور ادارے اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے، اور کسی سائل یا درخواست گزار کو اُس کے کیس کی پیش رفت سے آگاہ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آئی جی پنجاب معاملے کی تحقیقات کرکے ضروری کارروائی فرمادیں۔
جناب امیرالعظیم نے جس ایف آئی آر کا ذکر کیا ہے وہ خود بہت دلچسپ ہے۔ یہ ایف آئی آر فضل عباس ولد محمد اسماعیل، ساکن موضع عنایت شاہ تحصیل احمد پور سیال ضلع جھنگ کی درخواست پر درج ہوئی ہے، جس میں مدعی کا کہنا ہے کہ اُن کے خاندان کے پاس میرانیس کی شاعری اور نوحوں کا ایک قلمی نسخہ محفوظ ہے، جسے دو سال قبل لاہور کا کوئی شخص (جس کا نام درج نہیں ہے) بیس لاکھ روپے میں خریدنا چاہتا تھا مگر مدعی کے والد نے انکار کردیا۔ 17 اکتوبر کو تحسین فراقی نام کے ایک صاحب ان کے گھر آئے اور بتایا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور یہ متذکرہ قلمی نسخہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ فضل عباس نے انہیں نسخہ دکھایا جسے وہ دیر تک دیکھتے رہے۔ اس دوران وہ چائے کا بندوبست کرنے گھر کے اندر گیا تو اس کے بقول تحسین فراقی یہ نادر نسخہ لے کر غائب ہوچکا تھا جبکہ اُس وقت جائے وقوعہ پر غلام عباس اور خضر حیات موجود تھے (گویا وہ ایف آئی آر کے گواہ ہیں)۔ یہ درخواست مقامی تھانے کے بجائے ڈی پی او جھنگ کو دی گئی ہے۔ نیز مدعی کا پتا تو احمد پور سیال کا ہے لیکن اس نے ایف آئی آرگڑھ مہاراجا میں درج کرائی ہے۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ خود ایک سوال ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی ایک باعزت اور باوقار استاد اور انتہائی اعلیٰ شہرت کے حامل ادیب، شاعر اور نقاد ہیں۔ ان کی پوری زندگی کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے۔ اُن کے بدترین مخالف بھی اُن پر کسی بددیانتی یا سرقے کا الزام نہیں لگاتے۔ اُن کے منصب پر متمکن منصور آفاق بھی ایک پبلک تقریب میں یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ڈاکٹر فراقی انتہائی دیانت دار شخص ہیں۔ انہوں نے مجلس ترقی ادب میں نہ صرف پانچ کروڑ کا فنڈ چھوڑا بلکہ سرکاری گاڑی کا استعمال کرتے ہوئے فوری طور پر لاگ بک میں میٹر کی ریڈنگ کا خود اندراج کرتے تھے۔ ایسے شخص پر اس طرح کا الزام، اور اس کے لیے ایف آئی آر کا درج ہونا ہماری اجتماعی بے حسی اور معاشرے کے مُردہ ہوجانے کی دلیل ہے۔ انہیں ان کے عہدے سے قبل از وقت کسی وجہ کے بغیر ہٹایا گیا، اور اب دبائو کے لیے جھوٹے مقدمات کا سہارا لیا جارہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آئی جی پنجاب اس معاملے کا فوری نوٹس لیں گے۔ ڈی پی او ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں گے، اور اگر خود ڈی پی او کو اس معاملے میں استعمال کیا گیا ہے تو وہ بھی کسی ضروری کارروائی سے نہیں بچ سکیں گے۔ ہماری دانست میں وزیراعلیٰ پنجاب کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے کہ یہ خود ان کے لیے کسی لسانی تعصب کے نام پر بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔