دنیا کی ستر فیصد فٹ بال سیالکوٹ میں بنتی ہیں

میاں عثمان جاویدسبلائم گروپ کے چیف ایگزیکٹواور سیالکوٹ ڈرائی پورٹ کے سینئر وائس چیئرمین ہیں۔ سبلائم درآمدی اور برآمدی کمپنیوں کا ایک گروپ ہے۔ سیالکوٹ میں پورٹ سروسز لمیٹڈ کے نام سے ایک کمپنی ہے جو کہ ٹرانسپورٹ کو دیکھتی ہے۔ سیالکوٹ ڈرائی پورٹ اور ائیرپورٹ جو ایک منفرد تجربہ تھا اس کے بنانے میں آپ کے والد صاحب پروفیسر امین جاوید کا اہم کردار رہا ہے۔ کورونا کی وبا میں سیالکوٹ ایئرپورٹ واحد ایئرپورٹ ہے جو نقصان میں نہیں گیا اور جو حکومت کی مدد کے بغیر چل رہا ہے۔ فلاحی کاموں میں اپنے والد صاحب کی طرح پیش پیش رہتے ہیں۔ صحت اور تعلیم کے کئی پروجیکٹ چل رہے ہیں، 14 اسکول علامہ اقبال فائونڈیشن کےنام سے چل رہے ہیں۔ امین جاویدصاحب سیالکوٹ کی مشہور سماجی و کاروباری شخصیت تھے، جو مولانا مودودیؒ کے بہت قریب رہے، ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے زندگی گزاری اور اسی تناظر میں اپنے بچوں کی تربیت بھی کی۔ اور اہم بات یہ ہے کہ میاں عثمان ان ہی کے نقشِ قدم پر ہیں۔ وہ ایک اچھے بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار اور رکھ رکھائو والے آدمی ہیں۔ سب کچھ ہونے کے بعد عاجزی و اِنکسار کا ہونا آج کے دور میں مشکل ہے اور ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ پورٹ سروسز کے بھی سی ای او ہیں۔ آپ سے ملاقات کے لیے ہم مقررہ وقت سے خاصی تاخیر سے سید طاہر اکبر اور عرفان احمد کے ساتھ پہنچے۔ کھانے کے بعد آپ سے ہونے والی تفصیلی گفتگو نذر قارئین ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کاروباری دنیا میں آمد کیسے ہوئی؟
میاں عثمان جاوید: میرے والد پروفیسر امین جاوید سیاسیات سائنس اور تاریخ کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے ہمارے کالج ایچ آر میں بھی پڑھایااور اوکاڑہ میں بھی تدریس سے وابستہ رہے، پھر ان کو 1959ء میں جرمنی کے لیے اسکالرشپ ملی۔ ہمارے دادا بھی کاروباری آدمی تھے، چمڑے کا کاروبار کرتے تھے، اسی طرح والد صاحب بھی کاروباری سوچ رکھتے تھے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنا کاروبار کرنا چاہیے۔ کاروبار شروع کیا اور اللہ نے ہاتھ پکڑ لیا۔ اُس وقت سے ہمارا کام چل رہا ہے۔ 1982ء میں پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے فٹ بال پاکستان سے بن کر گئی تھی۔ اس موقع پر مشہور دستاویزی فلم A Ball blank tango بنی تھی جو پی آئی اے اور Adidas کے اشتراک سے بنی تھی، اس کے بعد 1998 کے ورلڈ کپ تک ہم ان کے لیے مختلف قسم کی فٹ بال بناتے رہے۔ اس کے بعد لیدر گارمنٹس میںکام کرنا شروع کیا، پھر لیدر ٹینری میں سیالکوٹ کی دوسری لیدر ٹینری سبلائم گروپ نے لگائی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:والد صاحب نے کس چیز سے کاروبار کا آغاز کیا؟
میاں عثمان جاوید: فٹ بال سے۔ شروع میں چمڑے کی مختلف مصنوعات کا بھی کاروبارکرتے رہے جس طرح بندہ مختلف تجربات کرتا ہے۔ شروع میں بیڈمنٹن ریکٹس بھی بنتے رہے، بیجز کا کام بھی کیا انہوں نے۔ اس طرح مختلف کام کرتے رہے۔
فرائیڈے اسپیشل:توآج جو ہم اتنا بڑسبلائم گروپ دیکھ رہے ہیں اس کو آپ کے والد نے بہت چھوٹے پیمانےپر شروع کیا تھا؟
میاں عثمان جاوید:جی ہاں! شروع میںنوکری کے ساتھ ساتھ بزنس کا آغاز کیا اور پھر جب اسکالرشپ پر جرمنی گئے تو واپس آکر انہوں نے کاروبار پرمکمل توجہ دی، اور پھر اللہ نے ہاتھ پکڑا اور Adidas سے ہمارا 1974ء میں معاہدہ ہوگیا۔ پھر وہ چلتا رہا اوروالد صاحب مکمل کاروبار کی طرف آگئے۔
فرائیڈے اسپیشل:سیالکوٹ شہر ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے، پورے پاکستان میں اس کا اہم مقام ہے۔ موجودہ حکومت نے جو معاشی پالیسیاں بنائی ہیں ان سے آپ کے کاروبار پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
میاں عثمان جاوید: عالمی تناظر میں بڑا فائدہ ہوا ہے۔ جیسے امریکہ اور چین کی آپس میں جنگ ہے، حالانکہ دونوں دشمن ہیں لیکن اپنا کاروبار الگ نہیں کرسکتے۔ پھر چین میں کم سے کم اجرت تھی نیچے سے بہت اوپر چلی گئی۔ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کے حصے میں ان کو کچھ پریشانی کا سامنا ہوا تو اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جنہوں نے ہمیں بہت فائدہ دیا۔ دیکھیے فیصل آباد آج سے چھ ماہ سال پہلے بہت مشکل میں تھا لیکن آج ماشاء اللہ بڑے اچھے لیول پر کام ہورہا ہے۔ اسی طرح سیالکوٹ میں جو ہماری اسپورٹس انڈسٹری سے متعلق کاروبار ہے اس میں بہت اچھا بوم آیا ہے۔ تقریباً چالیس فیصد اس کووڈ میں بھی اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آ ج آپ کو عالمی صورت حال کے باعث فائدہ پہنچ رہا ہے، لیکن ایک وقت آیا تھا جب عالمی حالات کی وجہ سے یہاں کی فٹ بال انڈسٹری پر ضرب لگی تھی، وہ کیا قصہ تھا؟
میاں عثمان جاوید: یہ بات آپ کررہے ہیں 1994 ءکی، جس وقت چائلڈ لیبر کا ایشو اٹھایا گیا تھا اور بدقسمتی سے میڈیا میں بہت اچھلا،ہمارے لوگ اس کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کرسکے۔ ہمارے جتنے بھی پروفیشنل فٹ بالز ہیں وہ کوئی بچہ سی ہی نہیں سکتا۔ جسے آپ میچ بالز کہتے ہیں یا کلب ٹیم کے پاس جو بالز ہوتے ہیں اس کا سینا بچے کے لیے ممکن ہی نہیں، لیکن اُس وقت چونکہ پروپیگنڈا بھی تھا اور مختلف جگہوں پر بچوں سے کام بھی لیا جارہا تھا تو سارا ملبہ آگرا فٹ بال انڈسٹری پر، کیونکہ فٹ بال میں پوری دنیا میں ہمارا کوئی مد مقابل نہیں تھا۔ تو ایسے میں ہندوستان و دیگر ممالک نے مل کر سوچا کہ کس طرح پاکستان کی اس انڈسٹری کو متاثر کیا جائے۔ لیکن ہمارے بزرگوں نے اس سازش کابہت اچھی طرح سے مقابلہ کیا۔ ہمارا آئی ایل او کے ساتھ معاہدہ ہوا جس میں بچوں سے مشقت لینے کی باقاعدہ نگرانی اور مانیٹرنگ کا نظام شروع ہوا اور پھر ان بچوں کو اسکول بھیجنے کے پروگرام بنائے گئے۔ اس طرح ہماری انڈسٹری نے اس حوالے سے بہت تعاون کیا۔ 110 انڈسٹریز نے رضاکارانہ طور پریہ سارا پروگرام اڈاپٹ کیا۔ فی فٹ بال طے کیا گیا تھا کہ اس میں انڈسٹری کی لیبر کو اٹھایا جاسکتا ہو اور بچوں کو تعلیم دی جاسکتی ہو۔ اس حوالے سے آئی ایل او اور یونیسف کے ساتھ مل کر ہمارے یہاں پر ایک ادارہ قائم ہوا جس کا نام تھا آئی میک، اور یہ بہت زبردست پروگرام چل رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:فٹ بال کے ساتھ آپ لوگ ایسا کیا کرتے تھے کہ دو سو ممالک میں سے پاکستان کو ترجیح دی جاتی تھی؟
میاں عثمان جاوید: یہ ہنر ہے جو اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں دیا ہے۔ پوری دنیا میں ہاتھ سے سی جانے والی سب سے بہترین فٹ بال پاکستان میں بنتی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ میرے والد بتاتے ہیں کہ Adidasکے اونرز میں سے ایک شخص تھا جس کے خاندان کے نام پر کمپنی بنی تھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اسپین گئے، ویت نام گئے، انڈیا گئے اور مختلف ممالک میں جاکر انہوں نے سلائی اچھی کرنے کی کوشش کی مگر وہ نتائج برآمد نہ ہوسکے جو انہیں چاہیے تھے، لیکن جب پاکستان میں سبلائم کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوا تو انہیں وہ معیار مل گیا جو ان کو چاہیے تھی۔ دراصل وہ مہارت ہمارے ہی ہنرمند کاریگروں میں تھی۔فٹ بال کو اس طرح اور اس صفائی سے سینا کہ فٹ بال کا شیپ بھی بہتر ہو اور مضبوط بھی ہو، پوری دنیا میں اس مقابلے کے فٹ بال سینے والے لوگ موجود نہیں۔ دنیا کی مجبوری ہے ہم سے فٹ بال لینا۔ اب بھی ماشاء اللہ اسٹیچنگ اور سلائی میں ہمارے کاریگروں نے بہت ترقی کی ہے۔ چین نے بھی کیا اور ایک وقت میں ہم سے چھین کر لے گیا سارا مشینی اسٹچ کا بال۔ لیکن ہمارے یہاں پر اس میں بھی لوگوں نے مہارت حاصل کی ہے اور اس وقت دنیا کی ستّر فیصد فٹ بال سیالکوٹ میں بنتی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:ہاتھ کے کام کا تو کہہ سکتے ہیں کہ قدرت کی طرف سے ایک مہارت اور صلاحیت تھی، لیکن جب یہ چیزیں مشین پر منتقل ہوگئیں تو کیا ہاتھ کا کام ختم ہوگیا؟
میاں عثمان جاوید:جی نہیں، اب بھی ہاتھ کا کام خاصی حد تک ہے، اور معیاری کام ہاتھ ہی کا کہلاتا ہے۔ ہینڈ اسٹچ اور مشین اسٹچ دونوں طرح کی فٹ بال تیار ہورہی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:یہ تو ٹیکنالوجی کی بات آگئی، اس میں آپ نے کیا انفرادیت حاصل کی ہے؟
میاں عثمان جاوید:ہمیں ٹیکنالوجی میں شروع میں ضرور پریشانی کا سامنا ہوا، چونکہ چین ہم سے بہت زیادہ ایڈوانس تھا، ان کے پاس لین مینوفیکچرنگ سسٹم تھے کہ وہ ایک بندے سے زیادہ سے زیادہ پروڈکٹویٹی لے سکتے ہیں۔ مثلاً ایک بندہ ساٹھ سے ستّر فٹ بال سی رہا ہے۔ یہاں پر جو ہاتھ سے سلائی ہوتی ہے اس کا ساڑھے چار یا پانچ اوسط آتا ہے اور وہ ایک ہی بندے سے ساٹھ ستّر فٹ بال کی اوسط لے رہے تھے۔ جب پاکستان میں مشین پر کام شروع ہوا تو لوگوں نے تیس پینتیس سے شروع کیا اور اب ہمارے پاس ہی پچپن سے ساٹھ فٹ بال سیتے ہیں۔ یہ منحصر ہے اس بات پر کہ معیار کیاسی رہے ہیں۔ لیکن ہمیں جو فائدہ حاصل ہوا وہ یہ کہ جیسے جیسے چین ایڈوانس ہوتا گیا اور اس کی فی کس اوسط آمدنی کی شرح اوپر گئی اُس سے کم ازکم اجرت میں اضافہ ہوا، جو بہت اوپر چلا گیا۔ جب ہمارا سترہ ہزار تھا ان کا اس وقت ساڑھے تین سو ڈالر تھا۔ اس فرق سے ہمیں بڑا فائدہ ہوا۔ لیبر ریٹ میں وہ مقابلہ نہ کرسکے حالانکہ میٹریل اُن کا اپنا تھا، جبکہ ہمیں بہت ساری اشیاء درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ مشینری ان کی اپنی تھی جبکہ ہمیں مشینری بھی درآمد کرنی پڑتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کھیلوں کا اور کون سا سامان ہے جو سیالکوٹ میں تیار ہوتا ہے؟
میاں عثمان جاوید:ہر طرح کے کھیلوں کا سامان سیالکوٹ میں تیار ہوتا ہے جس میں کرکٹ بیٹ، ہاکی اسٹک، کمپوٹٹ ہاکی اسٹک شامل ہیں۔ کئی قسم کی گیندیں تیار ہوتی ہیں، اس کے علاوہ اسپورٹس گارمنٹس بھی تیار ہوتی ہے۔ ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن وغیرہ کے ریکٹ بھی تیار ہوتے ہیں۔ نئی نسل باہر سے تعلیم حاصل کرکے بھی آرہی ہے، اس میں بہت سے لوگوں نے انجینئرنگ بھی کی ہے اور بڑے اچھے اذہان کے مالک ہیں۔ ہمارے پرانے لوگوں کا اپنا ایک طریقہ کار تھا سوچنے کا، لیکن نوجوان نسل جو باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئی ہے وہ مختلف یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر ڈیولپمنٹ کررہے ہیں تو اس کا بہت فائدہ ہوا اور سیالکوٹ کا کاروبار ترقی کررہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: سرجیکل اور اسپورٹس کے علاوہ سیالکوٹ میں مزید کون سی اشیاء تیار ہوتی ہیں؟
میاں عثمان جاوید: اب تو بہت چیزیں ہیں، مثلاً اسپورٹس ویئر آگیا، پولی ایسٹر میں ہمارے سیالکوٹ کی صنعت بہت آگے ہے۔ زبردست فیبرکس تیار ہوتے ہیں، پسینہ جذب کرنے والے ملبوسات اور ٹریک سوٹ تیار ہوتے ہیں۔ مارشل آرٹ اور کراٹے سوٹ بھی تیار ہوتے ہیں۔ یہ ساری ہماری اپنی مصنوعات ہیں۔ جس نے زیادہ گرو کیا ہے وہ باکسنگ اور مارشل آرٹ ہے۔ ہمارے دو تین لوکل برانڈز ڈویلپ ہوئے ہیں جنہوں نے ایمازون اور امریکہ میں ای بے پر اپنا نام پیدا کیا ہے اور بڑے بڑے انٹرنیشنل برانڈز کو کمپیٹ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس کاروبار کے پس منظر میں وہ کیا کمی ہے جو آپ سیالکوٹ میں محسوس کرتے ہیں؟ اگر وہ چیزیں درست ہوجائیں تو بزنس زیادہ بہتر ہوسکے؟
میاں عثمان جاوید:بنیادی طور پر انفرااسٹرکچر بہتر نہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ہمارے یہاں لوگ شہروں سے باہر نکل رہے ہیں مگر سڑکیں انتہائی خستہ حال ہیں جس کے سبب ترسیل اور سفر دونوں ہی متاثر ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس کسٹمرز آتے ہیں، انہیں آپ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر لے کر جارہے ہیں، یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ بجلی کا ہے۔ فلیکچوئیشن اتنی زیادہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ اسٹیبلائزر استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ بڑی انڈسٹریز کے لیے یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ اکثر ان میں خرابیاں بھی آتی ہیں۔ بجلی فراہمی میں تواتر نہیں ہے۔ اس کے بعد محکمہ جات ہیں جن میں سوشل سیکورٹی کا محکمہ ہے۔ نیا افسر آئے گا، وہ آکر سب کو تنگ کرنا شروع کردے گا، نوٹس بھیجنا شروع کردے گا کہ آپ کے پاس اتنے لوگ ہیں، اتنے کا کنٹری بیوشن پے کرو۔ اس طرح کے بہت مسائل ہیں۔ پھر ہماری پوری سوسائٹی میں کرپشن کا عنصر اتنا زیادہ ہے کہ اس نے تباہی پھیری ہوئی ہے جس سے ہمیں شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کرپشن موجودہ حکومت میں بھی حسب سابق چل رہی ہے؟
میاں عثمان جاوید: موجودہ حکومت میں بھی وہی لوگ ہیں۔ واشنگ مشین سے دھو کر انہیں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان میں جراثیم وہی رہتے ہیں جو نکل تو نہیں سکتے۔
فرائیڈے اسپیشل:سیالکوٹ میں ایئر پورٹ بنانے کی کیا کہانی ہے؟
میاں عثمان جاوید: سیالکوٹ کا سب سے پہلا پروجیکٹ تھا ڈرائی پورٹ، یہ ایشیا کا پہلا ڈرائی پورٹ تھا جو پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ پر بنا تھا۔ اس کے 52 ٹرسٹیز تھے۔ ہمارے والد، ان کے کئی دوست اور سیٹھ اقبال صاحب تھے، ان سب نے مل کر شروع کیا۔ سیالکوٹ ڈرائی پورٹ ایک کامیاب ماڈل ثابت ہوا۔ یہ تو آپ سمجھتے ہیں کہ ایک کاروبار میں اگر دو بھائی بھی ہوں تو مشکل سے چل رہے ہوتے ہیں، مگر اس میں تو 52 لوگ بیٹھ کر ایک بورڈ میں فیصلہ کرتے ہیں اور وہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس کے بننے کے بعد ہمارے بزرگوں نے سوچا کہ ہمارا اپنا ایئرپورٹ بھی ہونا چاہیے۔ پہلے حکومت کو کہتے رہے کہ بنائیں۔ حکومت نے کچھ سوچا ہی نہیں، جو بھی حکومت آتی ہمیں اپنی کہانی سنا کر چلی جاتی۔ تو اس لیے یہ آواز مزید توانا ہوئی کہ ہمیں اپنا ایئرپورٹ بنانا چاہیے۔ پندرہ بیس لوگوں نے کام شروع کیا جن میں میرے بڑے بھائی میاں نعیم جاوید بھی شامل ہیں جو اس وقت سیالکوٹ ایئرپورٹ کے چیئرمین ہیں۔ بنیادی کردار آٹھ سے دس لوگوں نے ادا کیا اور کام کا آغاز کردیا۔ میرے والد نے بھی بڑی مدد کی۔ یہ اتنا بڑا اقدام تھا اور بہت ہی بڑا پروجیکٹ تھا جس کا آغاز 1994ء میں ہوا اور 2008ء میں تکمیل پایا۔ اس وقت اس کے تقریباً 350 ڈائریکٹر ہیں۔ آپ سوچیں کہ کتنا زبردست اشتراک ہے۔ جہاں چھوٹا سا کاروبار چلانا مشکل ہے وہاں اتنے بڑے پیمانے پر بورڈ تشکیل پانا واقعی بڑا اور مثالی عمل ہے۔ اور یہ تجربہ دنیا میں کہیں بھی ہوسکتا ہے، بس اس کے لیے اپنی انا کی قربانی دینے کا جذبہ اور خلوص ہونا چاہیے، باقی اللہ برکت دیتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کاروبار بہت سے لوگ کرتے ہیں، مگر کامیاب کم ہوتے ہیں۔ وہ کیا گر ہے جو آپ کاروبار کرنے والوں کو بتانا چاہیں گے، وہ بنیادی چیزیں کیا ہیں جن سے کاروبار میں کامیابی ہوسکے؟
میاں عثمان جاوید: میں اگر اپنی بات کروں تو میں اتنا بڑا کاروبار نہیں ہوں۔ جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں ان کو تو اس تکلیف کا پتا ہی نہیں ہوتا جو آپ پوچھنا چاہ رہے ہیں۔ میرے والد صاحب شاید آپ کو بہتر بتاسکتے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے فٹ بال سیے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کاریگر فٹ بال ادھورا چھوڑ کر بھاگ جاتے تو وہ خود بیٹھ کر سیتے تھے اور والدہ ان کی مدد کرتی تھیں۔ عظیم لوگوں کی اپنی الگ داستان ہوتی ہے۔ جو آپ نے بات پوچھی اس کا پوری دنیا میں ایک ہی فارمولا ہے اور بہت عام ہے کہ جو خواب دیکھو اس کو پورا کرنے کے لیے لگ جائو۔ مستقل مزاجی اور محنت شرط ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی کارفرما ہوتی ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جب آپ ان سے باتیں کریں تو لگتا ہے کہ دنیا میں ان سے بڑا عقل مند کوئی نہیں، لیکن وہ دنیاوی لحاظ سے کامیاب نہیں ہوتے۔ کئی لوگوں سے آپ بات کریں تو لگتا ہے کہ ان بیچاروں کو تو بات بھی نہیں کرنی آتی لیکن اللہ نے ان کو ایسا نوازا ہوتا ہے کہ ہر جگہ ان پر رحمتوں کی بارش کی ہوتی ہے۔ میرا یہی ایمان ہے کہ آپ صرف محنت کرسکتے ہیں۔ اب تو دنیا ہی بدل گئی ہے، یہ جو آن لائن بزنس آگئے ہیں انہوں نے پوری دنیا کا ٹرینڈ اور ہر چیز ہی بدل دی ہے۔ کورونا نے آکر ہمیں اپنی اوقات یاد دلائی ہے کہ واپس آجائو، یہ جو تم لوگ باہر نکلے ہو اپنے گھروں میں بیٹھو، کام کرو۔ یعنی پوری طرح سے نظام بدل گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری نسل یا جو نئی نسل آرہی ہے ان کے لیے سب سے ضروری ہے کہ وہ جو لیگیسی ہے اس کو صحیح طرح سے لے کر چلیں، اور جس کی لیگیسی نہیں ہے اور زیرو سے اسٹارٹ کررہا ہے اُسے تو بہت ہی زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ محنت چاہیے، ڈیٹرمنیشن چاہیے، اہداف سیٹ کرنا ہے اور اسے کس طرح حاصل کرنا ہے۔ ہمیں شارٹ کٹ نہیں دیکھنے چاہئیں۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی کریں اور اس پر جتنے کم وقت میں عمل درآمد ممکن ہو وہ کریں تو بہترین نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ اور آج کا زمانہ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کا ہے، جتنی ریسرچ کریں گے اتنا ہی بہترین نتیجہ برآمد ہوگا، اور جتنی مختلف چیز بنائیں گے اس کا اتنا ہی مختلف رزلٹ ملے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: والد صاحب کی کوئی بات جو آپ سمجھتے ہیں کہ شیئر کرنی چاہیے؟
میاں عثمان جاوید: جب والد صاحب نے بزنس شروع کیا تو اُن کے یونیورسٹی کے دوست ہیں خواجہ ذکاء الدین، انہوں نے اس زمانے میں آئی بی اے کراچی سے ایم بی اے کیا۔ آئی بی اے کراچی کا ماشاء اللہ آج بہت بڑا نام ہے۔ ان کی والد صاحب سے بڑی دوستی تھی، اور مزے کی بات یہ کہ وہ نہ میرے والد صاحب کے رشتے دار تھے، نہ ہماری برادری ایک تھی، وہ صرف یونیورسٹی میں ایک کمرے میں اکٹھے رہتے تھے لاہور میں۔ اور ان دونوں کے ایک اور دوست تھے جو یہاں سیالکوٹ میں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے۔ جب ابو یہاں آئے تو ان سے کہا کہ مل کر کام شروع کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں دوستوں نے مل کر پارٹنرشپ پر کام شروع کیا، اور بڑی خوبصورت بات جو والد صاحب بتاتے ہیں کہ جب بزنس تھوڑا سا اسٹیبلش ہوا تو ان کے بھتیجے تھے جو کہ بزنس میں آرہے تھے اور اس طرح میرے بھائی بھی تھے، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ کاروبار میں ہمارے بیٹے، بھتیجے آئیں، آپس میں اچھے طریقے سے دو کمپنیاں بنا لینی چاہئیں۔ تو سبلائم کا جو پہلا بچہ تھا وہ کیپٹل اسپورٹس ہے، ابھی بھی ماشاء اللہ وہ بڑا اسٹیبلش ہے۔ مجھے میٹرک میں آکر یہ بات پتا چلی کہ یہ خواجہ ذکاء الدین ہمارے سگے چچا نہیں ہیں۔ وہ بھی اس طرح پتا چلا کہ جو میرے دادا تھے ان کا نام تھا میاں محمد شفیع، اور یہ لکھتے تھے خواجہ ذکاء الدین، تو میں نے اپنی امی سے پوچھا کہ یہ کیا چکر ہے؟ جب مجھے تھوڑا ہوش آیا تو پتا چلا کہ میاں تو کوئی اور ہیں اور خواجہ تو کشمیری ہیں۔ تو میں نے امی سے پوچھا کہ انہوں نے خواجہ کیوں لکھا ہوا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ تمہارے چچا نہیں ہیں بلکہ تمہارے ابو کے دوست ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بڑی زبردست مثال ہے کہ اپنے تعلقات اور رشتوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ برے وقت میں کون آپ کے کام آیا تھا۔ دونوں دنیا سے چلے گئے ہیں لیکن ہماری پوری فیملی کا آپس میں گہراتعلق ہے، وہی پیار اور احترام والا رشتہ ہے۔ دوسری بات جو اس سے بھی اہم تھی وہ یہ کہ والد صاحب نے کہا کہ ہمیں سود کا کام نہیں کرنا۔ اور جب یہ کمپنی شروع ہوئی تو شروع میں کچھ ڈیفالٹ ہوئے۔ جب آپس میں سپریشن کی تو جو تھوڑا بہت لون آیا تو سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ مجھے سود نہیں دینا۔ انہوں نے دن رات ایک کرکے، خون پسینہ ایک کرکے کہا کہ میں سود سے باہر نکلوں گا۔ اور آخر وقت تک انہوں نے سود نہیں لیا۔ ہم نے ٹیکسٹائل مل لگائی، اپنی ٹینریز لگائیں، فیکٹریاں بنائیں لیکن کبھی بینک سے ایک روپیہ نہیں لیا۔
فرائیڈے اسپیشل: والد صاحب نے آپ کو خصوصی طور پر کچھ نصیحت تو کی ہوگی؟
میاں عثمان جاوید: میرے والد ایک سخت قسم کے نظریاتی شخص تھے۔ میں نے ایک دفعہ ان سے کہا کہ آپ جیسے بندے کو تو لاہور میں ہونا چاہیے، آپ تو قومی سطح کے لیڈر بن سکتے ہیں، اس پر انہوں نے کہا کہ میں سیالکوٹ میں ٹھیک ہوں، مجھے اگر یہاں پر مسجد میں جھاڑو دینا پڑے تو میرے لیے ٹھیک۔ مولانا مودودیؒ کے وہ فالوور تھے اور قرآن سے انہیں بے پناہ محبت تھی۔ جب بھی میں ان کے پاس جاکر بیٹھتا تو کہتے کہ آج میں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی اور مجھے آج یہ نئی چیز سمجھ میں آئی۔ پتا نہیں کتنی بار انہوں نے تفاسیر پڑھیں اور کتنی مرتبہ ترجمہ پڑھا، اور ہر بار کوئی نئی جہت نکال کر ہمیں بتاتے تھے کہ آج مجھے اس میں یہ نئی بات سمجھ میں آئی۔ مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا لیکن میرا سارا ٹائم اپنے والد صاحب کے ساتھ گزرا۔ مجھ سے چھوٹا ایک بھائی تھا، اس کا بہت ہی کم عمر میں ایکسیڈنٹ ہوا اور انتقال ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے والد صاحب کی طرف سے جو بہت اہم ورثہ ملا وہ یہ نظریہ ہی تھا جس میں صرف اللہ اور رسولؐ کی بات تھی، تیسری کوئی بات ہی نہیں تھی، نہ کوئی مسلک تھا، نہ کوئی اور چیز تھی۔ سب سے بڑا تحفہ جو مجھے ملا وہ یہ کہ ہمیں انہوں نے کسی مسلک میں نہیں ڈالا۔