مغرب جنس زدہ کیوں ہے؟

مغربی دنیا میں جنسی انحرافات کے رجحانات کو بالعموم مذہب اور اخلاق کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، اور انہیں مذہب اور اخلاق سے دوری کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ رائے غلط نہیں، البتہ سرسری یا Simplistic بہت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان مذہب اور اخلاق سے دور ہوکر ہی مختلف انحرافات کا شکار ہوتا ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ انسان مذہب اور اخلاق سے دور ہوکر ایسی کن قوتوں یا رجحانات کا اسیر ہوجاتا ہے جو اسے انحرافات کی دلدل میں پھنساکر رکھ دیتے ہیں؟
مذہبی کائنات ایک ’’خدا مرکز‘‘ کائنات ہوتی ہے، اس کے مقابلے پر جدید مغرب نے خدا کا انکار کرکے ’’انسان مرکز‘‘ کائنات پیدا کی۔ یہاں تک کہ الیگزینڈر پوپ صاحب بھی فرما گئے کہ “The proper study of mankind is man.”
لیکن انسان، انسان کا پیمانہ نہیں ہوسکتا۔ انسانوں کے باہمی تعلقات صرف خدا کے وجود ہی سے بامعنی، خوب صورت اور انسانی بنتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان سے خدا کو نکال دیا جائے تو انسان اور انسان کا تعلق تصادم، تنازع اور آویزش کا تعلق بن جاتا ہے… اور تصادم، تنازع اور آویزش کی حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اور صرف اَنا کی بنیاد پر بروئے کار آتے ہیں۔ مغرب کے بڑے بڑے لوگوں کا مغالطہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ’’خدا مرکز‘‘ کائنات کی جگہ ایک ’’انسان مرکز‘‘ کائنات پیدا کی اور انسان کے وقار میں اضافہ کیا، یا اس کا ازلی و ابدی وقار بحال کیا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ انسان پرستی اچھی بات ہو یا بری بات، لیکن یہ بہرحال ایک ٹھوس چیز ہے۔ اس کے مقابلے پر اَنا اور اَنا پرستی ایک مجرد صورتِ حال ہے۔ مغرب کا خیال ہے کہ اس نے خدا کا انکار کرکے اور انسان مرکز کائنات خلق کرکے تجرید سے ٹھوس پن کی جانب سفر کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا سفر ٹھوس پن سے تجرید کی جانب ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ مغرب کی انسان پرستی ایک ڈھکوسلے اور مغالطے کے سوا کچھ نہیں تھی۔ اس کی پشت پر اصل کھیل اَنا ہی کا تھا اور اَنا ہی کا ہے، جو جبلتوں کے ساتھ ایک تکمیلی یا Complimentry تعلق استوار کرتی نظر آتی ہے۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی ’’اَنا مرکز‘‘ کائنات، یا اَنا مرکز تہذیب کا اثر مغربی دنیا کے لوگوں کے جنسی رویوں اور رجحانات پر بھی پڑا ہے۔
کولن ولسن کی مشہورِ زمانہ تصنیف The Outsider کا آغاز مغربی دنیا کے ایک معروف ناول نگار کے اس اقتباس سے ہوتا ہے:
In the air on top of a tram, a girl is sitting. Her dress lifted a little blows out. But a block in the traffic separates us. The tramcar glides away, fading like a nightmare.
Moving in both directions, the street is full of dresses which sway, offering themselves airily, the skirts lifting, dresses that lift and yet do not lift.
In the tall narrow shop mirror I see full myself approching, rather pale and heavy-eyed. It is all women I want. It is all women and I seek for them in those around me one by one.
ہم اس اقتباس کے تاثر کو مجروح ہونے سے بچانے کے لیے اس کا ترجمہ نہیں کررہے ہیں، تاہم زیر بحث موضوع کے اعتبار سے یہ پورا اقتباس اہم ہے، خاص طور پر اس کی آخری سطریں۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم بات آگے بڑھائیں، کولن ولسن کی The outsider کے بارے میں چند باتیں۔
آئوٹ سائیڈر 1950ء کے اواخر میں شائع ہوئی تھی۔ اُس وقت کولن ولسن کی عمر صرف پچیس سال تھی اور یہ کتاب اُس کے لیے ایک رات میں عالمگیر شہرت کا سبب بن گئی تھی۔ آئوٹ سائیڈر کا تصور نیا نہیں تھا، لیکن کولن ولسن کی آئوٹ سائیڈر نے اسے دنیا بھر میں ادبی تنقید کا ایک مستقل موضوع اور ایک زاویۂ نگاہ بنا کر رکھ دیا۔ سوال یہ ہے کہ آئوٹ سائیڈر کون ہے؟ وہ صنعتی معاشرے کا ایک ایسا فرد ہے جو معاشرے سے کٹ گیا ہے، جو معاشرے میں اجنبی ہوگیا ہے، جس کی شناخت گم ہوگئی ہے۔ کولن ولسن نے مغربی ادب میں اس شخص کی جڑیں اور اس کے مختلف چہرے تلاش کیے۔ اس سلسلے میں اس نے کافکا، دوستو وسکی، جیمز جوائس، ٹی ایس ایلیٹ، ارنسٹ ہیمنگ وے اور نتشے سمیت مغرب کے ایک درجن سے زیادہ اہم شاعروں، ادیبوں اور مفکروں کی تخلیقات کا تجزیہ کیا ہے۔ یادش بخیر، عسکری صاحب نے کولن ولسن پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب مغرب کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہاں بیس پچیس سال کے لونڈے پیغمبری کا دعویٰ کررہے ہیں۔ عسکری صاحب کا تبصرہ اس اعتبار سے درست تھا کہ ولسن کے یہاں وہ بصیرت موجود نہیں جو انسان اور تہذیب کی روح کو بیان کرتی ہے، لیکن اِس کے باوجود اُس کی تصانیف اور خاص طور پر آئوٹ سائیڈر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کولن ولسن کا کمال یہ ہے کہ اُس نے ایک اہم رجحان مغرب کے اہم لوگوں کے یہاں دریافت کیا، اور ادبی شہ پاروں کے مواد کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا تجزیہ کیا۔ اُس نے مثالیں درست دی ہیں لیکن نتیجہ ہر جگہ غلط نکالا ہے۔ یہ سانحہ اقدار کے پیمانے کی عدم موجودگی کا شاخسانہ ہے۔
بہرحال کہنے کی بات یہ ہے کہ آئوٹ سائیڈر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاشرے میں اجنبی ہوگیا ہے، اس کی شناخت گم ہوگئی ہے۔ چنانچہ اس کی اوّلین ضرورت معاشرے میں خود کو Relocate کرنا ہے تاکہ اس کی شناخت متعین ہوسکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ یہ کام کیسے کرے اور کس کے ذریعے کرے؟ اقدار کا پیمانہ اس کے پاس نہیں، معاشرے سے اس کا تعلق آویزش اور تصادم کا ہے۔ اب اس کے پاس ایک ہی چیز ہے، اس کی اَنا۔ لیکن اَنا ایک مجرد شے ہے، اس کے بروئے کار آنے کے لیے ٹھوس شے کی ضرورت ہے۔ یہاں جبلتیں اور خاص طور پر جنسی جبلت اس کے کام آتی ہے، اور اس لیے کام آتی ہے کہ یہ انسان کی بنیادی جبلت ہے، اور اس میں ٹھوس تجربہ پیدا کرنے کا امکان سب سے زیادہ ہے۔
اب آپ کولن ولسن کی جانب سے دیئے گئے اقتباس پر غور کیجیے۔ اس اقتباس میں جس شخص کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ناول کا ہیرو ہے اور اس کا کوئی نام نہیں۔ اس کی جو بھی انحرافی خواہش ہے اور جو بھی انحرافی مشاہدہ ہے، وہ محض جنس تک محدود نہیں بلکہ اس کی پشت پر خود کو Relocate کرنے کی تمنا موجود ہے۔ لیکن جس طرح ایک جھوٹ انسان سے سو جھوٹ بلواتا ہے، اسی طرح ایک انحراف انسان پر ہزار انحرافات کے در کھولتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ شخص کو کوئی عورت درکار نہیں بلکہ اسے ایک ایک کرکے ہر عورت درکار ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کا مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا۔ وہ جہاں کھڑا ہوتا ہے، وہیں کھڑا رہ جاتا ہے۔ بلکہ وہیں کھڑے رہ جانے کی بات بھی درست نہیں، وہ پہلے سے زیادہ کھوکھلا، پہلے سے زیادہ بنجر اور معاشرے میں پہلے سے زیادہ اجنبی بن جاتا ہے۔ یہ جدید مغرب کے اکثر انسانوں کا مقدر ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ مغرب میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب جنسی انحرافات کے ساتھ ایک قسم کی جھوٹی رومانیت کو وابستہ کیا گیا، اور وہاں پر ہندو یوگیوں اور رشیوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی، اور یہ تصور عام ہوا کہ ’’نروان‘‘ کا ایک راستہ جنس بھی ہے۔ اس رجحان کو ہپیوں کی تحریک کے زمانے میں بہت فروغ حاصل ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جنس محض ایک بھوک ہے اور مغرب میں جنسی انحرافات محض مذہب اور اخلاق سے روگردانی کا نتیجہ ہیں تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ جنس کے ساتھ ایک طرح کی جھوٹی رومانیت وابستہ کی گئی؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اس رجحان کی پشت پر اَنا کا کھیل جاری تھا، جس کا ہدف فرد کی کھوئی ہوئی شناخت کی تلاش اور اس کا تعین تھا۔ لیکن اس طریقے سے نہ فرد کی کھوئی ہوئی شناخت بازیاب ہوسکتی تھی، نہ اس کا تعین ہوسکتا تھا، اور نہ فرد کی اجنبیت کا خاتمہ ممکن تھا۔ چنانچہ یہ تحریک اپنی آگ میں جل کر راکھ ہوگئی۔ لیکن یہ مغرب میں جنسی انحرافات کی پہلی منزل تھی اور دوسری منزل کو ابھی آنا تھا۔
دوسری منزل اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ اس منزل کو ’ہم جنس پرستی‘ کا پھیلائو کہا جاسکتا ہے۔ ہم جنس پرستی انسانی تاریخ میں کوئی نیا رجحان نہیں۔ حضرت لوطؑ کی قوم اس قبیح فعل کی وجہ سے ہی عذابِ الٰہی کی مستحق ٹھیری تھی، مگر بہرحال یہ محض ایک قوم کا مسئلہ تھا۔ لیکن مغرب میں یہ ایک پوری تہذیب کا مسئلہ بن گیا ہے۔ مغرب کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں یہ رجحان مسلسل فروغ نہ پارہا ہو۔ اس سلسلے میں صرف امریکہ کے بعض اعداد و شمار پر نظر ڈال لینا کافی ہوگا۔
ایک سروے کے مطابق 1994ء میں صرف 32 فیصد افراد نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ان کے خاندان یا احباب میں کوئی ہم جنس پرست موجود ہے، لیکن 1998ء میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ کر 41 فیصد ہوگئی۔ 1978ء میں ہم جنس پرستی صرف 35 فیصد لوگوں کے لیے قابلِ قبول تھی، لیکن 1998ء میں 52 فیصد لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہوچکی ہے بشرطیکہ ہم جنس پرستوں کا تعلق جواب دہندگان سے نہ ہو۔ 1994ء میں ایسے لوگوں کی تعداد 42 فیصد تھی جو ہم جنس پرستوں کو اسکولوں میں پڑھانے کی اجازت دینے پر آمادہ تھے، لیکن 1998ء میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ کر 52 فیصد ہوگئی۔
ان رجحانات پر مغربی دنیا میں مختلف ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ معاشرے کا فہم اور قوتِ برداشت بڑھ رہی ہے اور اس لیے ہم جنس پرستوں کے لیے گنجائش پیدا ہورہی ہے۔ تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم جنس پرستی کا پھیلائو مغربی تہذیب کے خاتمے کی آخری منزل ہے۔
اس صورتِ حال کو دیکھا جائے تو مغربی دنیا جنس میں ڈوبی نظر آتی ہے، عام رائے بھی یہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جنس پرستی جنسی بیزاری بلکہ جنس کی تردید کا اعلان ہے، اور اس کا اُس مسئلے سے گہرا تعلق ہے جس کی نشاندہی ہم نے کولن ولسن اور اس کے آئوٹ سائیڈر کے تصور کے حوالے سے کی ہے۔
کولن ولسن نے ایک ناول کے جس بے نام کردارکی نشاندہی کی ہے، وہ خود کو Re-locate کرنے کے عمل کا آغاز ’’عورت‘‘ سے کرتا ہے۔ لیکن بہت جلد ایک عورت ہر عورت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ اُس کا مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس طرح حل ہو بھی نہیں سکتا۔ چنانچہ اس پورے تجربے سے بے زاری پیدا ہونا بالکل فطری بات ہے۔ بے زاری کا ایک نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ انسان پورے دائرے کو مسترد کرکے کسی دوسرے دائرے کا رخ کرے، لیکن ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان کے پاس اقدار کا پیمانہ ہو۔ لیکن چونکہ اقدار موجود نہیں، اس لیے مغربی انسان کا سفر ایک پستی سے دوسری پستی کی جانب ہے۔ اس مرحلے پر آکر اَنا اور جبلت اور ان کے تکمیلی دائرے کی بھی نفی ہوجاتی ہے، صرف ایک میکانکی حرکت باقی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ مغرب ادب، غیرادب اور فلموں کے ذریعے جنس کا جو تصور پیش کررہا ہے، اس میں جنس کسی انسانی عمل کے بجائے ایک Performence نظر آتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک جمناسٹ، ایک کرکٹر، ایک پیشہ ور مقرر کی Performence ہوتی ہے۔ انسانیت کے نام پر غیر انسانیت، لذت کے نام پر بے لذتی، اور آزادی کے نام پر ایسی سنگین قید کی مثال پوری انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ سوال یہ ہے کہ جنسی انحرافات کے حوالے سے مغرب کی اگلی منزل کیا ہوگی؟ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ امکانات صرف دو ہیں: مغربی تہذیب کا مکمل خاتمہ یا ایک نئی ابتدا۔ ایسی ابتدا جو اپنی کلیّت کی تردید سے عبارت ہوگی۔ لیکن یہاں زیربحث مسئلے کے ایک ذیلی مگر اہم محرک کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔
مغرب آزادی کے تصور کے تحت مردوخواتین کی علیحدگی کے سخت خلاف ہے، اور اس کا خیال ہے کہ مردوزن کے اختلاط ہی سے وہ معاشرتی ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے جو تہذیب کی معراج ہے۔ ہمارے یہاں اس تصور پر اخلاقی اور معاشرتی نقطہ نگاہ سے سخت اعتراضات کیے جاتے ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ مردو زن کے اختلاط سے وہ تمام برائیاں جنم لیتی ہیں جو اس وقت مغربی معاشروں میں بہت عام ہیں۔ یہ اعتراضات درست ہیں، لیکن اس مسئلے کا ایک پہلو ایسا ہے جس پر کسی کی نگاہ نہیں جاتی۔ مغربی معاشروں کا تجربہ شاہد ہے کہ وہاں مرد و زن کے اختلاط کا سب سے ہولناک نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ مردوں کی بہت بڑی تعداد کسی نہ کسی حد تک مرد پن سے، اور عورتوں کی بڑی تعداد عورت پن سے محروم ہوگئی ہے۔ یعنی مردوں کی نفسیات میں تھوڑی یا بہت خواتین کی نفسیات در آئی ہے، اور خواتین کی نفسیات میں مردوں کی نفسیات درآئی ہے۔ مردوزن کے اختلاط سے پیدا ہونے والی برائیاں ہولناک سہی، لیکن ان کا ازالہ ہوسکتا ہے، ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر مرد، مرد پن، اور عورت، عورت پن سے محروم ہوجائے تو یہ ایک ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسا عدم توازن ہے جس کی بحالی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اس صورتِ حال نے مغرب میں ہم جنس پرستی کے رجحان کے فروغ میں یقیناً اہم کردار ادا کیا ہے۔
مغرب کو مذہب، اور خاص طور پر اسلام میں مردو عورت کے جائز تعلق یا شادی کے ادارے سے سخت وحشت ہوتی ہے، دوسری جانب وہ مردوں کو چار شادیوں کی اجازت کو عورت کے حقوق پر ڈاکا تصورکرتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ عورت کی حیثیت اسلام کے نزدیک ایک غلام سے زیادہ نہیں، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں: نماز، عورت اور خوشبو۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو کسی مذہب اور کسی تہذیب کو نصیب نہیں۔ اس تصور کی تعبیر میں ہزار باتیں کہی جا سکتی ہیں لیکن ان کا ذکر پھر کبھی۔