ناظم جوکھیو کا بہیمانہ قتل

صوبہ سندھ صدیوں سے ظالم وڈیروں، سرداروں، پیروں، میروں، جاگیرداروں اور بھوتاروں کے شکنجے میں ہے، جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں مقامی عوام پر اپنا تسلط قائم کررکھا ہے، اور ان کے یہ زیر تسلط، مقبوضہ علاقے گویا ایک طرح سے ان کے ایسے رجواڑے ہیں جہاں پر محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً پرندے کو بھی بغیر ان کی مرضی اور منشا کے پَر مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہر ضلع میں تعینات ڈپٹی کمشنر، ایس پی، تھانے دار، اور شاید ہی کوئی سرکاری افسر یا اہلکار ان سے سرتابی یا ان کی حکم عدولی کی جرأت کرتا ہے، اور اگر کوئی اس نوع کی جسارت غلطی سے کر بیٹھے تو اُسے نتیجتاً فوری طور پر ٹرانسفر اور علاقہ بدری کی صورت میں سزا دے دی جاتی ہے۔ یہ وڈیرے اپنے اپنے علاقوں میں اکثر عوامی منتخب نمائندے بھی ہوا کرتے ہیں۔ ضلعی ناظم، نائب ناظم، رکن صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کے طور پر منتخب ہونے والے یہ بھوتار خود تو اپنا بیشتر وقت اسلام آباد یا کراچی میں گزارتے ہیں، البتہ ان کے منیجرز، منشی اور کم دار اُن کے پیچھے علاقے میں کاروبار اور زرعی زمینوں کے امور سنبھالتے اور انہیں سرانجام دیتے ہیں۔ اصل وڈیروں اور بھوتاروں کی عدم موجودگی میں پھر اُن کے مقرر کردہ مذکورہ ذمہ داران بھی ایک طرح سے چھوٹے موٹے ’’فرعون‘‘ کا سا روپ دھار لیتے ہیں اور اہلِ علاقہ کے لیے ایک عذاب اور آزمائش سے کم ہرگز نہیں ہوتے۔ آئے دن الیکٹرانک، سوشل میڈیا اور سندھی اخبارات کے ذریعے بھوتاروں کی جانب سے روا رکھے گئے ظالمانہ واقعات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں، اور ان میں سے بیشتر بعدازاں مختلف وجوہات کی بنا پر دبادی جاتی ہیں۔
وقت بہت ترقی کرگیا ہے اور ہم عہدِ جدید میں سانس لے رہے ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ، سندھ آج بھی ظالم وڈیروں اور بھوتاروں کے چنگل میں گرفتار ہے۔ بہ ظاہر اس گرفت اور شکنجے سے رہائی کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دیتی، تاہم گاہے بگاہے اس نوع کی اطلاعات بھی ضرور سامنے آجاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اب مقامی عوام میں خود پر مسلط کردہ بھوتاروں کے خلاف بتدریج ردعمل اور مزاحمت جنم لے رہی ہے۔ سندھ کے بھوتار اور وڈیرے بے حد چالاک، بڑے عیار اور کائیاں ہیں۔ وہ بدلتی ہوئی ہوائوں کا رخ پہلے ہی سے جان لیتے ہیں، اور جس پارٹی کی حکومت بننے کا ذرا سا بھی امکان پاتے ہیں فوراً جوق درجوق اُس میں شامل ہونے لگتے ہیں۔ اس وقت سندھ کے وڈیرے معتدبہ تعداد میں ہر سطح پر پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ سابق صدر آصف زرداری سندھ کے وڈیروں کے نباض ہیں اور ان کی تمام کمزوریوں اور خامیوں سے بہ خوبی آگاہ ہیں، اس لیے وہ ان وڈیروں کو ہر وہ فائدہ اور مراعات دے رہے ہیں جو انہیں درکار ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنے اپنے علاقوں میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے بلکہ مقامی ٹھیکے اور دیگر تمام فوائد و ثمرات بھی ان کے حوالے کردیئے گئے ہیں۔ البتہ اہلِ سندھ کی حالت ہر لحاظ سے پتلی بلکہ بے حد ناگفتہ بہ ہے۔ سندھ کا انفرا اسٹرکچر کلی طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ عوام بدحال اور روزافزوں مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کے باعث نیم جان اور نڈھال ہوچکے ہیں، جن کا کوئی پرسانِ حال ہے اور نہ ہی آنسو پونچھنے والا۔ مرغانِ بادنما کی طرح سندھ کے وڈیروں کا کوئی بھی سیاسی نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی مثبت آئیڈیالوجی… اور یہ سچ مچ چڑھتے سورج کے بے حس پجاری ہیں۔ ان کی سوچ کا محور و مرکز صرف اور صرف پیسہ یا پھر ذاتی مفادات کا حصول ہے۔ سندھ کے وڈیروں نے ماضی میں سندھ کے عوام کی مرضی کے خلاف فوجی حکمرانوں کا ساتھ بھی بڑے دھڑلے اور طمطراق کے ساتھ دیا، اور بعدازاں مختلف ادوار میں بننے والی جمہوری حکومتوں کے ساجھی دار بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بنتے رہے، اور جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہوچکا ہے آج کل سندھ کے بیشتر وڈیرے اور بھوتار غیر مشروط طور پر پی پی پی کے ساتھ شامل ہیں۔ بالفرض اگر مستقبل میں پی پی کے بجائے کسی اور جماعت کے اقتدار میں آنے کے امکانات دکھائی دیئے تو یہ بھوتار اور وڈیرے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس پارٹی میں جاشامل ہوں گے اور پی پی سے کیے گئے سارے قول و قرار کو اس طرح سے فراموش کر ڈالیں گے گویا یہ عہد انہوں نے کبھی استوار ہی نہیں کیے تھے۔ سندھ کے وڈیروں کی مفاد پرستی پر اَن گنت لطائف اور حقیقی واقعات بھی عوام میں زبان زدِ عام ہیں جن کے بیان کا یہ محل نہیں، کیوں کہ اس طرح سے اصل موضوع پسِ پردہ چلا جائے گا۔
سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے متحرک ہونے کی بنا پر اب بتدریج سندھ میں شدید دبے اور گھٹے ہوئے عوامی ردعمل کو ایک نئی جہت مل رہی ہے اور مقامی وڈیروں کے مظالم کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ تعلقہ میہڑ ضلع دادو سے تعلق رکھنے والے چانڈیو قبیلے کے تین افراد کے قتل کی مدعی 20 برس کی اُم رباب چانڈیو کی مسلسل اَن تھک جدوجہد اور سعیِ بسیار کے نتیجے میں ہی کچھ عرصہ قبل سردار برہان چانڈیو اور سردار خان چانڈیو، ان کے والد، چچا اور دادا کے وحشی قاتل چانڈیو قبیلے کے سرداروں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگیں، اور امید ہے کہ وہ مستقبل میں اپنے مظالم کے خلاف آوازۂ حق بلند کرنے پر اپنے ہی قبیلے کے تین بے گناہ افراد کو بے رحمی سے قتل کرانے کی پاداش میں کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے، اور بے گناہ مقتولین کا خون بہادر اور دلیر اُم رباب چانڈیو کی کوششوں سے رنگ لاکر سندھ میں ایک نئے عہد کے آغاز کی نیو ثابت ہوسکے گا۔
ہفتۂ رفتہ سندھ میں دو ایسے لرزہ خیز اور ہولناک سانحات ایک ہی روز اس طرح سے وقوع پذیر ہوئے ہیں جن کی بنا پر بیک وقت اہلِ سندھ حد درجہ خوف، تشویش اور غم و غصے میں مبتلا ہوئے ہیں، جس کا اظہار سندھ بھر میں عوامی سطح پر شدید احتجاج اور ناراضی کی صورت میں سامنے آیا ہے، بلکہ ان لرزہ خیز واقعات کے خلاف سندھ کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم اہلِ سندھ نے بھی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ پہلا واقعہ تو اُم رباب چانڈیو کے دادا، چچا اور والد کے قتل میں ملوث گرفتار مبینہ ملزمان چانڈیو سرداروں ہی کے زیر اثر علاقے قنبر شہداد کوٹ میں پیش آیا، جہاں پر میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پی پی سے وابستہ منتخب ایم پی اے اسران قبیلے کے بے لگام سردار نے اپنے ہی حلقے کے سیال برداری کے افراد کے گھروں میں گھس کر اور اندھا دھند فائرنگ کرکے ایک بے گناہ عورت فہمیدہ سیال کو بے رحمی سے قتل کر ڈالا۔ اس قتل کے بعد ساری مقامی سیال برادری کے افراد نے مقتولہ خاتون کی لاش روڈ پر رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا اور سارا روڈ بلاک کرکے دوطرفہ ٹریفک روک دی۔ صورتِ حال کو بگڑتا دیکھ کر مقامی انتظامیہ اور پولیس حرکت میں آگئی، اور پولیس نے مبینہ طور پر اصل ملزم پی پی کے ایم پی اے اسران کو گرفتار کرنے کے بجائے ان کے دو محافظوں کو گرفتار کرلیا جس کی بنا پر اہلِ علاقہ تاحال سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور اصل ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اسی روز دوسرا بڑا الم ناک سانحہ ضلع ٹھٹہ کے شہر دھابے جی کے قریب گھگھر پھاٹک کراچی کے گوٹھ سالار جوکھیو کے نوجوان ناظم الدین جوکھیو عرف ناظم جوکھیو کا بہیمانہ قتل ہے۔ مقتول نوجوان ناظم جوکھیو کا جرم صرف اتنا تھا کہ اُس نے عرب شکاریوں کو اپنے گوٹھ کے قریب شکار کرنے سے منع کیا اور غیر قانونی شکار کے اس عمل کی اپنے موبائل فون کے توسط سے وڈیو بنائی، جس پر برہم ہوکر عرب شکاریوں کے ہر سال پردیسی پرندوں تلور کا غیر قانونی شکار کرنے کے لیے آنے پر میزبانی کے فرائض انجام دینے والے پی پی سے تعلق رکھنے والے کوہستان کے بے لگام وڈیروں پی ایس 79 میرپور ساکرو ضلع ٹھٹہ کے ایم پی اے جام اویس گہرام جوکھیو اور اُن کے بھائی ایم این اے جام عبدالکریم جوکھیو نے اپنے گماشتوں کے توسط سے نیم شب کو نوجوان ناظم جوکھیو کو مذکورہ جرمِ بے گناہی کی پاداش میں اس کے گھر سے اٹھوا کر اپنے بنگلے پر قید کرنے کے بعد اپنے کارندوں سے سخت تشدد کروانے کے بعد قتل کردیا، جس کے بعد مقتول نوجوان کی لاش قریبی جنگل میں پھینک دی گئی۔
ایک ہی روز قتل کے مذکورہ دونوں واقعات میں ورثا کی طرف سے پی پی سے تعلق رکھنے والے منتخب عوامی نمائندے ہی ملوث اور مبینہ نامزد ملزمان قرار دیئے گئے ہیں۔
قبل ازیں ذکر ہوچکا ہے کہ اُم رباب چانڈیو کی بہادری اور دلیری سے چلائی گئی مہم کی وجہ سے اُن کے قریبی رشتے داروں کے قتل میں ملوث مبینہ نامزد ملزمان چانڈیو قبیلے کے سردار ایم پی اے سردار خان چانڈیو اور ان کے بھائی برہان خان چانڈیو بھی پی پی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ سندھی نیوز چینلز پر دکھائی گئی مظلوم مقتول ناظم جوکھیو کی تینوں معصوم کم سن بیٹیوں، عمر رسیدہ والدہ، اہلیہ اور بہنوں کی اپنے پیارے کے قتل پر کی گئی چیخ و پکار اور فلک شگاف آہ و زاری نے نہ صرف تمام اہلِ سندھ کی آنکھیں بار بار آنسوئوں سے بھگوئی ہیں بلکہ ان کے اندر مبینہ قاتلوں کے خلاف شدید ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ سندھی نیوز چینلز اور سندھی اخبارات نے آوازۂ حق بلند کرنے پر مقتول ناظم جوکھیو کو ماحولیاتی تباہی پھیلانے اور جانوروں، پرندوں کا غیر قانونی شکار کرنے والے عناصر کے خلاف ’’شہیدِ اوّل‘‘ قرار دے کر اسے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اور اس حوالے سے نمایاں انداز میں احتجاجی مظاہروں اور مقتول کے ورثا کا مؤقف شائع کیا۔ مقتول ناظم جوکھیو کی اپنے قتل سے پیشتر جو ریکارڈ کردہ وڈیو وائرل ہوکر منظرعام پر آئی ہے اُس میں بھی اس نے اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے مبینہ نامزد ملزمان ہی سے اپنی جان کو درپیش خطرات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ مظلوم مقتول ناظم جوکھیو کا جرم محض اتنا تھا کہ اس نے ماحول کو بچانے کے لیے ایک چھوٹی سی بغاوت کرنے کی جسارت کر ڈالی، جس کی وجہ سے برہم ہوکر حلقے کے ایم پی اے اور ایم این اے نے اسے گھر سے اپنے کارندوں کے ذریعے اٹھواکر شدید تشدد کا نشانہ بنواکر قتل کرڈالا۔ رات کو گھر سے جبراً لے جاتے وقت بھی مقتول نوجوان چلاّتا رہا کہ میری سب سے چھوٹی بیٹی میرے بغیر نہیں سوتی اس لیے میں صبح خود آجائوں گا، لیکن ظالموں کو ذرہ برابر بھی اس پر ترس نہ آیا۔ بڑا المیہ یہ ہے کہ اپنے اغوا اور قتل سے پیشتر مقتول نوجوان نے بذریعہ وڈیو مقامی پولیس سے خود کو تحفظ دینے کی بھی التجا کی، مگر وڈیروں کی غلام پولیس کے بے حس ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور ناظم جوکھیو کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
کوہستان اور کاچھو میں ہر سال موسم سرماکے آغاز پر عرب شہزادے بڑی تعداد میں اپنے کیمپ قائم کرکے نایاب پرندوں اور جانوروں کے شکار کا شوق پورا کرتے ہیں۔ اس عرصے میں مقامی افراد کے لیے شکارگاہ قرار دیئے گئے علاقے ممنوعہ ایریا قرار پاتے ہیں۔ اگر کوئی مقامی فرد اس غیر قانونی عمل کے خلاف آواز بلند کرے تو اُسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یا پھر ناظم جوکھیو کی طرح بے رحمی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ مقامی میزبان وڈیرے اپنی مذکورہ خدمات کے عوض مہمان شہزادوں سے قیمتی تحائف اور بھاری رقومات وصول کرتے ہیں، اور اس امر کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی کہ غیر قانونی شکار کی وجہ سے نہ صرف ماحول تباہ ہورہا ہے اور پردیسی و دیسی نایاب پرندے اور بے حد قیمتی جانور ختم ہوتے چلے جارہے ہیں، بلکہ مقامی افراد کو بھی کئی ماہ تک سخت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ نوجوان ناظم جوکھیو کے قتل کے خلاف سندھ بھر میں بہت بڑے پیمانے پر احتجاج کی وجہ سے اُس کے قتل کے نامزد ملزم جام جوکھیو ایم پی اے کو بغیر ہتھکڑیوں کے تھانے لایا گیا۔ جماعت اسلامی یوتھ سندھ نے سکھر سمیت سندھ بھر میں اس قتل کے خلاف زوردار احتجاج بھی کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن اظہارِ تعزیت کے لیے مقتول کے ورثا کے ہاں پہنچے، اور تمام احتجاج میں ڈاکٹر امتیاز پالاری رہنما جماعت اسلامی یوتھ سندھ کارکنان کے ہمراہ آخر دم تک شریک رہے۔ ڈپٹی جنرل سیکریٹری جماعت اسلامی سندھ عبدالحفیظ بجارانی نے جیکب آباد میں پریس کانفرنس کرکے مذکورہ قتل کی شدید مذمت کی۔ تمام اہلِ سندھ یک آواز یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مقتول نوجوان ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے اور انہیں نشانِ عبرت بنادیا جائے تاکہ آئندہ کوئی اور ناظم جوکھیو قتل نہ ہوسکے۔