غریب ملک کے امیر حکمراں افسر شاہی کو دی جانے والی مراعات

حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے پر بدعنوانی اور قومی خزانے کو لوٹنے کا الزام عاید کرتے ہیں۔ حکومتی معاشی ٹیم کے ارکان عوام پر ٹیکس چوری کا الزام لگاتے ہیں، لیکن افسر شاہی پر ہاتھ نہیں ڈالتے، جو روزانہ قومی خزانے پر ڈاکا ڈالتی ہے۔ آئیے ذرا موٹا موٹا حساب لگاتے ہیں۔
پہلے موبائل فون سروس کو لیتے ہیں۔ پی ٹی اے کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں موبائل فون کے 18 کروڑ 32 لاکھ صارفین ہیں۔ ان سے اس مد میں اربوں روپے سالانہ وصول ہوتے ہیں۔ لاکھوں لیٹر پیٹرول اور ڈیزل روزانہ فروخت ہوتا ہے۔ اس میں عملاً حکومت فی لیٹر 50 روپے ٹیکس کی مد میں حاصل کرتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 5 لاکھ 56 ہزار بیرل یعنی 88 کروڑ 40 لاکھ 4ہزار لیٹر پیٹرول کو 50 روپے سے ضرب دے کر جو رقم روزانہ حاصل ہوتی ہے وہ کہاں گئی؟ 44 ارب 20 کروڑ2 لاکھ روپے پیٹرول کی آمدنی میں ٹیکس کی مد میں روزانہ وصول کیے جاتے ہیں۔ اس کو بھی 30 سے ضرب دے دیجیے۔ بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بلوں سے حاصل ہونے والے ٹیکس اور بینکوں میں لین دین پر ٹیکس وغیرہ الگ ہیں۔ عوام کی جیب سے روزانہ یہ رقم نکلتی ہے چاہے ان کے پاس اپنی ذاتی سواری ہو یا نہ ہو۔ یعنی ٹیکس کی مد میں عوام سے کم سے کم 50 ارب روپے روزانہ وصول کیے جارہے ہیں، لیکن خرچ کہاں ہورہے ہیں؟ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ آف اکنامکس (پائیڈ) کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سیکرٹری تعینات ہونے کے بعد گریڈ 22 کے افسر کی تنخواہ اقوام متحدہ کے افسر سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے، جبکہ سرکاری ملازمین کو رہائش، میڈیکل اور آمد و رفت الاؤنس تنخواہ کا حصہ شمار نہیں ہوتے۔ انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ آف اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق محض بی اے کی ڈگری رکھنے والے سول سرونٹ پرائیوٹ سیکٹر کے مقابلے میں ساڑھے 9 فیصد زیاہ تنخواہ وصول کررہے ہیں۔ صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کو نجی شعبے میں پُرکشش ملازمتیں مل پاتی ہیں۔ سول سرونٹ کی آمدن نجی شعبے کی نسبت 20 فیصد زیادہ، جبکہ گریڈ 22 کے افسر کی تنخواہ دوسرے افسروں کی تنخواہوں سے دس گنا زائد ہے۔ پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق بیوروکریسی خفیہ طور پر بہت زیادہ مالی فوائد حاصل کررہی ہے۔ گریڈ 20 کے ملازم کی تنخواہ ایک لاکھ 660 روپے ہے، تاہم اس میں مختلف الاؤنسز، گاڑی، میڈ یکل اور گھر کی سہولت شامل کرلی جائے تو ماہانہ آمدن 7 لاکھ 30 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح گریڈ 21 کے افسر کی تنخواہ ایک لاکھ 12 ہزار کے قریب ہے جو سہولتیں شامل کرنے کے بعد 9 لاکھ 80 ہزار ماہانہ بنتی ہے، جبکہ گریڈ 22 کے افسر کی تنخواہ ایک لاکھ 23 ہزار 500 کے قریب ہے جو دوسری سہولتیں ملانے کے بعد 11 لاکھ روپے بن جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق افسران تمام سہولتوں کے باوجود تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں، جبکہ سرکاری افسروں کی مختلف سہولتوں پرماہانہ 2 ارب 30 کروڑ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔(پائیڈ نے محتاط اندازہ لگایا ہے، اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہوں گے)۔ ہوائی سفر اوردیگر جگہوں پر بعض افسران کو 75 فیصد تک رعایت ملتی ہے۔قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے اراکین ماہانہ 44 کروڑ88 لاکھ 19 ہزار روپے سے زیادہ کی رقم تنخواہ اورسفری اخراجات کی مد میں لیتے ہیں۔ایک رکن قومی اسمبلی ہر ماہ سرکاری خزانے سے ایک لاکھ 88 ہزارروپے اوراگر وہ کسی قائمہ کمیٹی کا چیرمین ہوتو2لاکھ 13 ہزارروپے وصول کرتا ہے۔ سینیٹ کے رکن کی تنخواہ 76 ہزار روپے ہے، سالانہ 3 لاکھ روپے ٹریول الائونس ہے اور کھانے پینے کے لیے 90 ہزار سالانہ الگ سے دیےجاتے ہیں۔ یہ قومی اسمبلی سے کم ہے۔ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، چیرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیرمین سینیٹ کی تنخواہیں اس میں شامل نہیں ہیں۔ وزراء کی تنخواہیں اس میں شامل نہیں ہیں۔ بھارت میں رکن پارلیمنٹ اور وزیر کی تنخواہ برابر ہے، پہلے یہ تنخواہ ایک لاکھ تھی، اب اسے کم کرکے 70 ہزار کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ 50 ہزار روپے ہے۔ گزیٹڈ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پنشن کی مد میں جو رقم ملتی ہے وہ نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ ہے اور قومی خزانے کے ٹیکس دہندگان پر بوجھ ہے۔ صدرِ پاکستان کی تنخواہ 8لاکھ 46 ہزار روپے ہے۔ وہ ٹیکس اور بل بھی ادا کرتے ہیں۔ وزیراعظم کی تنخواہ 10 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ لیکن ان دونوں کے ماہانہ اخراجات ان کی تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ جبکہ عدلیہ کے سربراہوں کو ریٹائرمنٹ کے بعدتقریباً 10 لاکھ روپے ماہانہ پنشن دی جاتی ہے جو ان کی تنخواہ کا 85 فیصد ہے، تین ہزار ٹیلی فون کال ماہانہ مفت ہے، 2ہزار یونٹ بجلی ماہانہ مفت ہے،25 ہیکٹو میٹر زیونٹ گیس مفت ہے، پانی کی فراہمی مفت ہے اور ماہانہ 300 لیٹر پیٹرول مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ڈرائیور اور اردلی کی تنخواہ بھی دی جاتی ہے، اور 24 گھنٹے ایک گارڈ بھی ان کے لیے موجود ہے۔ اس طرح کی مراعات بہت سے سابق سیکریٹری بھی حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے تمام رعایات چھین لی گئی تھیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جس میں اس نے پائیڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق سے گفتگو کی تھی اور یہ سوال کیا تھا کہ مراعات پاکستان کے نظام میں کیسے اور کہاں سے آئیں؟ پاکستان میں سرکاری شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے ماضی میں کئی کوششیں کی گئیں تاہم وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوپائیں۔ ان کوششوں میں بنیادی طور پر سرکاری ملازمین اور خصوصاً افسران کو ملنے والی مراعات ہمیشہ زیرِ بحث رہی ہیں۔ پائیڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق سرکاری ملازمین کو ملنے والی مراعات بنیادی طور پر نوآبادیاتی میراث ہے (یعنی دور غلامی کی یادگار ہے )، ”ایسٹ انڈیا کمپنی یا انگریز جب برصغیر پر قابض ہوئے تھے تو انھوں نے یہاں کام کرنے والے اپنے افسران کو خوش رکھنے کے لیے اچھی تنخواہ کے ساتھ ساتھ مراعات بھی دینے کا آغاز کیا تھا“۔ ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق ان افسران کے لیے بڑے بڑے گھر اور بنگلے بنائے گئے، کئی نوکر چاکر اور ملازمین انھیں ذاتی کاموں کے لیے دیے جاتے تھے، اور ان کے رہن سہن اور علاج معالجے کا تمام تر خرچ حکومت برداشت کرتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ابتدا ہی سے اسی نوآبادیاتی میراث کے تحت سرکاری افسران کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ یہ مراعات دی جاتی رہی ہیں جو کہ اب نظام کا حصہ بن چکی ہیں۔ اگر اعلیٰ افسران کو ملنے والی مراعات کو دوسرے زاویے سے دیکھا جائے اور ان کو ملنے والی ماہانہ تنخواہ میں سے اگر مراعات کو نکال دیا جائے تو ان کی بنیادی تنخواہ بظاہر بہت کم رہ جاتی ہے۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی کم تنخواہ میں اس درجے کا افسر گزارا کیسے کرسکتا ہے؟پائیڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمین یا افسران کی تنخواہ کم نہیں ہونی چاہیے، یعنی ان کی جیب میں پیسے ہونے چاہئیں ورنہ ”کرپشن جنم لیتی ہے“۔ تاہم ان کے خیال میں بنیادی تنخواہ کو بڑھا کر مراعات کو ختم کردینا چاہیے۔ اگر ایک افسر کی تنخواہ کم ہوگی تو وہ بچوں کی تعلیم کا خرچ کیسے برداشت کرے گا۔ نہیں کرپائے گا تو رشوت لے گا۔ اس لیے اس کی جیب میں تنخواہ کے اچھے پیسے ہونا ضروری ہیں۔ پلاننگ کمیشن میں ہم نے ایک دفعہ یہ تخمینہ لگایا تھا کہ اگر اعلیٰ درجے کے سرکاری افسران سے تمام تر مراعات واپس لے لی جائیں اور ان کی بنیادی تنخواہ کئی گنا بھی بڑھا دی جائے تو حکومت کو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ اس کی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر ندیم کا کہنا تھا کہ صرف ان افسران کو ملنے والے وہ گھر جو مکمل طور پر سرکاری خرچ پر چلتے ہیں، جن میں کام کرنے کے لیے ملازمین بھی فراہم کیے جاتے ہیں، ان کا خرچ کئی ارب روپے بنتا ہے۔ ان کے خیال میں اگر بنیادی تنخواہ بڑھا دی جائے تو سرکاری افسران کو کیش یعنی نقد ملنے والی رقم کئی گنا بڑھ جائے گی اور اس سے وہ اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری کر پائیں گے۔
یہ تو ڈاکٹر ندیم الحق کا مشورہ ہے جو نہایت صائب ہے۔ قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے افسران کو بجلی، گیس، پانی، پیٹرول اور ٹیلی فون کی مفت فراہمی بند ہونی چاہیے تاکہ انہیں احساس ہو کہ قوم جو ٹیکس بھی دے رہی ہے اس پر کیا گزرتی ہے۔ اگر یہ مراعات ختم کردی جائیں تو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے قوم کا تیل نہیں نکالنا پڑے گا۔