مہنگائی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حکومت اور حزب اختلاف سمیت معاشرے کے تمام طبقات میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ عمومی طور پر حکمران طبقہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ ملک میں مہنگائی ہے۔ مگر وزیراعظم عمران خان سمیت حکومتی وزرا بھی یہ تسلیم کررہے ہیں کہ ان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج حزبِ اختلاف کے بجائے مہنگائی اور اس کے نتیجے میں عوام کا شدید ردعمل ہے۔ چند دن قبل ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے حکومت کو عوامی سطح پر دفاعی پوزیشن میں کھڑا کردیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے مہنگائی کو ہی بنیاد بنا کر 120ارب روپے کے بڑے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے، اور ان کے بقول اس 30 فیصد رعایتی سبسڈی پیکیج سے13لاکھ افراد مستفید ہوسکیں گے۔ مگر ایک طرف امدادی پیکیج اور دوسری طرف تسلسل اور تواتر کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام میں حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔
اگرچہ مہنگائی کا اثر مجموعی طور پر پورے معاشرے پر پڑتا ہے، لیکن اس سے سب سے زیادہ متاثر عام افراد، کمزور طبقات اور کم آمدن والے ہوتے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی کا طوفان ہے، تو دوسری طرف بے روزگاری، کورونا کے باعث نوکریوں کے خاتمے یا آمدن میںکمی نے بھی عوام کے لیے سخت مشکلات پیدا کردی ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومتی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا کوئی علاج تلاش کیا جاسکے گا؟ کیونکہ اگر مہنگائی کا علاج تلاش نہ کیا گیا تو ایک طرف عوام کی زندگیوں میں خوشحالی کے امکانات کم ہوں گے، دوسری طرف حکومت کو بھی اگلے عام انتخابات میں مہنگائی کے طوفان کی بڑی بھاری قیمت عوامی ردعمل کی صورت میں چکانا پڑے گی۔
یہ بات تسلیم کرنے کی ہے کہ دنیا بھر کی معیشت میں بڑی تیزی سے بگاڑ سامنے آیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ عالمی سطح پر کورونا کا بحران ہے جس نے عالمی معیشت کو کمزور کیا ہے۔ یہ بحران ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس کی مختلف شکلیں آج بھی ملکی یا عالمی سطح پر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے دنیا میں معاشی ترقی اور سرگرمیوں میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 40 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 80 ڈالر فی بیرل سے بھی بڑھ گئی ہے۔ اسی لیے پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ایک سطح پر عالمی حالات کی وجہ سے ہے۔ یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ حکومت نے عالمی صورتِ حال میں معاشی بگاڑ کے باوجود سارا بوجھ صارفین پر نہیں ڈالا، وگرنہ مہنگائی کی صورت حال اور زیادہ خراب ہوتی اور عوام کو مزید مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا۔
حکومت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ مختلف اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتی ہے، اور مثال کے طور پر حکومت کے بقول چینی بازار میں عام فرد کو 90روپے کلو ملے گی۔ اوّل تو 90روپے کلو چینی کہیں بھی دستیاب نہیں، اور اگر کہیں مل رہی ہے تو بہت ہی باریک اور خراب کوالٹی کی… اور وہ بھی محض ایک یا دو کلو تک فراہم کی جارہی ہے۔ اصل مسئلہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا عدم شفافیت اور عدم جواب دہی پر مبنی نظام ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں شفافیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری لینے کے لیے بالکل تیار نہیں، اور نہ ہی مہنگائی، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، یا لوٹ مار کا کوئی سدباب کرسکی ہیں۔ اس میں سب سے اہم پہلو ضلعی سطح پر سیاسی اور انتظامی نظام کی نااہلی کا ہے، کیونکہ روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں کی نگرانی اور شفافیت کے نظام کو قائم رکھنا صوبائی اور مقامی سطح کے سیاسی وانتظامی اداروں کی ہی ذمہ داری بنتی ہے۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر ایک بڑا چیلنج معاشی معاملات کے تناظر میں بروقت فیصلوں کا نہ ہونا اور کمزور مینجمنٹ ہے۔ معاملات میں بلاوجہ کی تاخیر اور باربار معاشی ٹیم میں تبدیلیوں سمیت انتظامی افسران کے بھی تسلسل سے تبدیل ہونے اور مستقل بنیادوں پر مربوط پالیسیوں یا فیصلوں کے فقدان نے بھی حالات کو بگاڑا ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر ہم لانگ ٹرم، مڈٹرم یا شارٹ ٹرم پالیسیوں پر کام کرنے کے بجائے روزمرہ کے معاملات کو بنیاد بناکر فیصلے کرتے ہیں۔ جب تک حکومتی یا ادارہ جاتی سطح پر ٹھوس بنیادوں پر مربوط پالیسی، حکمت عملی، قانون سازی اور عمل درآمد کے نظام کو منصفانہ اور شفاف نہیں بنایا جائے گا، بڑی تبدیلی یا عوامی مفاد میں پالیسیوں کا سامنے آنا ممکن نہیں۔ سیاسی حکومتوں کا ایک مسئلہ واضح مینڈیٹ کا نہ ہونا بھی ہے۔ اس وقت اتحادی جماعتوں کی بنیاد پر کھڑی تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے معاملات چلانے کے لیے اتحادی جماعتوں کی سیاسی بلیک میلنگ کا شکار ہونا پڑتا ہے، یا کوئی بڑا فیصلہ کرتے وقت سمجھوتوں کی سیاست آڑے آتی ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان میں زرعی اور صنعتی دونوں شعبوں میں پیداواری صلاحیت جمود کا شکار ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اسے بڑھانا ناگزیر ہے۔
اگرچہ حکومتی سطح پر عالمی صورتِ حال کو بنیاد بناکر مختلف طور طریقوں سے مہنگائی پر سیاسی، معاشی جواز پیش کیے جاتے ہیں، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کچھ سوالات کی نوعیت علمی و فکری سطح کی ہوتی ہے اور یہ فیصلہ ساز لوگوں کے دائرۂ کار میں آتے ہیں۔ عام آدمی کی سمجھ بوجھ مہنگائی تک ہی محدود ہوتی ہے، اور وہ اسے حکومت کی ناکامی کی صورت میں دیکھتا ہے۔ اس لیے حکومت کو اپنے بیانیے میں عوامی سوچ اور فکر کو بھی بنیاد بناکر کچھ کرنا ہوگا جس سے عوام میں حکومت کے بارے میں اعتماد بحال ہوسکے۔ اسی طرح حکومت کا یہ بیانیہ کہ صورتِ حال کے بگاڑ میں سابقہ حکمرانوںکا عمل دخل زیادہ ہے… اس پر حکومت کے پہلے برس تک تو عوام یقین کرسکتے تھے، مگر اب اس پر اعتبارکرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ ان کے بقول خراب معاشی حالات کو درست کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی اور ہے۔ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہی مہنگائی کا ہے۔ مہنگائی کا یہی مسئلہ اگلی انتخابی وسیاسی صورت حال کا تعین کرے گا، اور اسی بنیاد پر سیاسی تانے بانے بھی بُنے جائیں گے۔
ایک مسئلہ اگر حکومت ہے تو دوسرا مسئلہ حزبِ اختلاف کی سیاست ہے۔ کیونکہ یہ بات ماننی ہوگی کہ حزبِ اختلاف کے پاس بھی مہنگائی کے خاتمے یا معاشی بہتری کا کوئی متبادل نظام نہیں، اور نہ ہی یہ لوگ ان حالات میں معاشی یا سیاسی ماہرین کے سامنے اپنا لائحہ عمل پیش کرسکے ہیں۔ ان کی سیاست بھی محض حکومت کی مخالفت اور بلند بانگ سیاسی نعروں اور جذباتیت پر مبنی سیاست کے ساتھ جڑی ہے۔ جذباتیت پر مبنی یہی سیاست تحریک انصاف کی اپنے دورِ حزب اختلاف میں تھی، اور اب اُسے ان جذباتی نعروں کی اپنی حکومت کے دور میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے۔ یہ جو موجودہ سیاسی نظام اور اس کے تحت چلنے والا سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی نظام ہے، خود اپنے اندر ایک غیر معمولی تبدیلی چاہتا ہے۔ روایتی سطح کی سیاست، اور بڑے فیصلے، یا کڑوے، سخت گیر فیصلے نہ کرنے کی پالیسی نے بھی عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں سیاسی اور ریاستی نظام پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات ابھر رہے ہیں کہ نظام جس انداز سے چلایا جارہا ہے کیا یہ لوگوں کی توقعات پر پورا اترسکے گا؟ اصل مسئلہ معاشی صورتِ حال کو بنیاد بنا کر سازگار معاشی حالات کی بحالی اور ریاستی و حکومتی فیصلوں میں عوامی مفاد کا ہے جو واضح، صاف اور شفاف نظر آنا چاہیے تاکہ عوام کا اس نظام پر اعتماد بحال ہوسکے۔