ہمیں عظیم تر ہونا چاہیے

غریبوں کو نان و نفقہ کے مسائل اور مراحل سے آزاد کرایا جائے۔ ان کی زندگی میں امید کی شمع روشن ہونی چاہیے… انہیں مایوسی کی تاریکی سے نکالنا چاہیے… تاکہ وہ بھی وطن پرستی کے عظیم مقصد اور سفر میں شامل ہوں… امیروں سے پیسے کی محبت نکال لی جائے… انہیں مال کی نمائش کا موقع نہ دیا جائے… ان کی شادیوں کو اسلامی رنگ میں ڈھالا جائے… انہیں ایک سادہ زندگی کا شعور دیا جائے تاکہ وہ بیچارے بھی حصولِ منزلِ ملت کے عمل میں شریک ہوسکیں… ورنہ آدھے راستے کی بدقسمتی سے بچنا مشکل ہوگا۔ یہ سب کا سفر ہے سب کے لیے، یہ سب کا مقصد ہے سب کے لیے، یہ سب کا ملک ہے سب کے لیے، یہ سب کے وسائل ہیں سب کے لیے۔ غور کیا جائے… اللہ آسانیاں پیدا کرے گا… جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا تھا… یاد تو ہے؟ اگر یاد ہے تو حاصل کرنے میں کیا دیر ہے…!
کیا اب اکثریت سے پوچھا جائے گا کہ اسلام کیا ہوتا ہے… اسے کیسے حقیقی معنوں میں نافذ کیا جاسکتا ہے…! یہ بات خدا سے پوچھی جائے، قرآن سے معلوم کیا جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے روشنی حاصل کی جائے… گردشِ لیل و نہار پر نگاہ رکھنے والے بیدار روح انسانوں سے رجوع کیا جائے، وحدتِ عمل اور وحدتِ کردار کا پھر سے پیدا ہونا مشکل نہیں ہے… صاحبانِ اقتدار صادق ہوجائیں، ہر طرف صداقت ہی صداقت ہوجائے گی… شکر ہے کہ بہت کچھ ہورہا ہے لیکن ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے… قافلہ آدھے رستے میں ہی تھک کر سستا رہا ہے… جاگو اور جگائو… وقت انتظار نہیں کرتا… مواقع اپنے آپ کو دہراتے نہیں… مرتبے اور آسائشیں ملتی ہیں کہ اپنے آپ کو خوش نصیب بنایا جائے… خوش نصیب بننے والا سب کو خوش نصیبی عطا کرے… قافلہ بددل ہوگیا ہے… اس کی تکالیف کا ازالہ کیا جائے، اسے گلے اور تقاضوں سے نجات دی جائے… یہ قوم جاگ گئی تو قوموں کی امامت کا فریضہ اسی کو سونپا جائے گا… حال کی خوش حالی میں مست ہوکر مستقبل کے فرائض فراموش نہ ہوں… وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب اقبالؒ کے خواب کی تعبیر میسر ہو… قائداعظمؒ کی محنت کا صلہ حاصل ہو… قوم کے لیے شہید ہونے والوں کی روحوں کو قرار نصیب ہو… ہم منزل فراموش نہ ہوں تو آنے والی نسلیں ہمیں عزت سے یاد کریں گی…
اپنی لاڈلی اولاد کے لیے پیسہ جمع کرنا ہی مقصد نہیں ہے۔ اگر اولاد نے مفت حاصل ہونے والا مال گناہ میں لگایا تو اس گناہ کی سزا، پیسہ مہیا کرنے والوں کو بھی ملے گی… اگر اولاد کو تصورِ پاکستان سے متعارف نہ کرایا گیا، شعور عظمت ِ اسلام کی تعلیم نہ دی گئی تو خدا نہ کرے ہمارے لیے ’’آدھے رستے کے مسافروں‘‘ کا طعنہ ہوگا… خدا ہمیں اس عذاب سے بچائے… ہم عظیم قوم ہیں… ہمیں عظیم تر ہونا چاہیے… یہ ملک خدا کا ہے، خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، انہی کی منشا کے مطابق چلنا چاہیے۔
(’’حرف حرف حقیقت‘‘… واصف علی واصفؔ)

اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی

علامہ دیکھتے ہیں کہ مغرب سے مرعوب مسلمان جب وہاں کے مفکروں کو ذہنوں پر سوار کرکے اُن کے افکار کی بھیک مانگتے ہیں تو وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی تو ان کے پاس ہے، یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید، جو خالق و مدبر کائنات نے عطا فرمائی ہے اور حضور رحمت اللعالمینؐ جیسی معلم ہستی کی عطا کردہ حکمت و ہدایت ان کے پاس ہے، مگر وہ اپنی حقیقت اور مقامِ بلند سے ہی بے خبر ہیں۔ یعنی اپنی خودی (حقیقت) کا انہیں اندازہ نہیں کہ وہ اصلاً کتنے خوش نصیب ہیں۔