پنڈورا پیپرز… عدالتِ عظمیٰ کے کٹہرے میں

آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری، ناجائز اثاثے بنانے، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں ملوث پاکستانی و دیگر کم و بیش نوّے ممالک کے باشندوں کے ناموں پر مشتمل ’’پنڈورا پیپرز‘‘ کو منظرعام پر آئے دو ماہ ہونے کو ہیں، ان ’’پنڈورا پیپرز‘‘ میں پاکستانیوں کی تعداد سات سو کے قریب بتائی گئی تھی، جن میں وفاقی و صوبائی کابینائوں کے ارکان، پیپلز پارٹی، نواز لیگ، ق لیگ اور حکمران تحریک انصاف سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کے قائدینِ کرام، ملک کے تقریباً تمام بااختیار اداروں کے موجودہ اور سابق وابستگان، اور ملک کے مؤثر طبقات سے تعلق رکھنے والے اہل ثروت کے نام شامل تھے۔ ان ’’پنڈورا پیپرز‘‘ کے افشاء کے وقت جناب وزیراعظم عمران خان نے حسبِ عادت کرپشن کو ملک و قوم کی تباہی اور عوام کی بدحالی کا سبب ٹھیرایا تھا، اور حسبِ معمول قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ بدعنوانی میں ملوث ان افراد کو نہیں چھوڑیں گے، بلکہ قومی دولت ملک سے باہر لے جانے والے ان قومی مجرموں کو چن چن کر نشانِ عبرت بنائیں گے۔ چنانچہ اپنے ان بلند عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کسی دوسرے فرد پر اعتماد کے بجائے اپنی ذاتی نگرانی اور سربراہی میں ایک تین رکنی خصوصی تحقیقاتی سیل بھی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، جو ’’پنڈورا پیپرز‘‘ میں سامنے آنے والے افراد کے خلاف تحقیق و تفتیش کے بعد حقائق سے قوم کو بھی آگاہ کرے گا اور ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اہتمام بھی کرے گا۔ مگر ’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘ کے مصداق جناب وزیراعظم کے اس خصوصی تحقیقاتی سیل کا مقدر بھی وہی ہوا جو ماضی میں ایسی کمیٹیوں کا ہوتا رہا ہے۔ یہاں صورتِ حال ماضی سے بھی بدتر ہے، کیونکہ ماضی میں اس قسم کی جو کمیٹیاں اور کمیشن وغیرہ بنتے رہے اُن میں سے اکثر نے حقائق کی چھان بین، تحقیق اور تفتیش کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کی اور اپنی سفارشات کے ساتھ حکمرانوں کو پیش کردی، تاہم حکمرانوں نے ان کی سفارشات پر عمل درآمد کے بجائے اسے طاقِ نسیاں کے سپرد کردیا۔ مگر یہاں خصوصی تحقیقاتی سیل کے سربراہ خود وزیراعظم عمران خان تھے، شاید اس لیے ’پنڈورا پیپرز‘ کے منظرعام پر آنے کے ڈیڑھ دو ماہ گزر جانے کے باوجود اس تحقیقاتی سیل کا افتتاحی اجلاس تک منعقد نہیں ہوسکا، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ تحقیقاتی سیل تاحال وجود پذیر نہیں ہوا، کیونکہ قوم آج تک وزیراعظم کے سوا دیگر ارکان کے ناموں تک سے واقف نہیں۔
جماعت اسلامی اور اس کے امیر جناب سراج الحق کا تدبر اور دور اندیشی قابل داد ہیں کہ جنہوں نے وزیراعظم کے خصوصی تحقیقاتی سیل کے قیام کے وقت ہی اسے ایک دھوکا اور اپنوں کو بچانے کی کوشش قرار دیا تھا، اور یہ بات بھی واضح کردی تھی کہ پنڈورا پیپرز میں ملوث افراد سے استعفے لیے بغیر شفاف تحقیقات ممکن ہی نہیں، کیونکہ جب تک یہ لوگ وزارتوں اور اعلیٰ مناصب پر موجود رہیں گے ان کے ماتحت ادارے ان کے خلاف مبنی برانصاف، صاف اور شفاف تحقیقات کیسے کرسکیں گے! جناب سراج الحق نے اُس وقت اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جماعت اسلامی ’’پانامہ پیپرز‘‘ کی طرح ’’پنڈورا پیپرز‘‘ کی تحقیقات اور ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کرے گی۔ چنانچہ امیر جماعت اسلامی نے 8 نومبر کو عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دائر کردی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ’پانامہ لیکس‘ اور پنڈورا پیپرز میں شامل تمام افراد کے خلاف آزادانہ تحقیقات کے لیے عدالتِ عظمیٰ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے، کیونکہ ’پنڈورا پیپرز‘ بھی ’پانامہ لیکس‘ ہی کا تسلسل ہے۔ جناب سراج الحق نے عدالتِ عظمیٰ میں اپنی یہ آئینی درخواست دائر کرنے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پانامہ لیکس‘ کے بعد عدالتِ عظمیٰ میں دائر شدہ ہماری درخواست چار سال سے زائد عرصے سے عمل درآمد اور عدالتی فیصلے کی منتظر تھی کہ پنڈورا پیپرز اسکینڈل بھی منظرعام پر آگیا، ہم نے ایک بار پھر اس یقین کے ساتھ عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ پاکستانی قوم کو اب انصاف ملے گا۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کی تازہ آئینی درخواست کے بعد عدالتِ عظمیٰ کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے، ملک و قوم کا لوٹا ہوا سرمایہ واپس قومی خزانے میں جمع کرانے، اور بدعنوان و لوٹ کھسوٹ میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دلوانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ یہ امر یقیناً قوم کے لیے تشویش کا باعث ہے کہ بعض نہایت اہم اور ملک و ملت کے مفاد سے متعلق معاملات سالہا سال ملکی عدالتوں میں زیر التوا پڑے رہتے ہیں اور ان کی سماعت کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اب اسی ’پانامہ لیکس‘ کے معاملے کو جس میں کم و بیش چار سو چالیس لوگوں کو ملکی دولت لوٹنے کا ملزم قرار دیا گیا ہے، اگر اہمیت دی جاتی تو نہ صرف بہت سے بدعنوان چہرے قوم کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہوتے بلکہ قومی خزانے میں بھی خاطر خواہ دولت واپس جمع ہوتی اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں بدعنوانی کے مرتکب لوگوں کو ملنے والی سزائیں دوسرے لوگوں کے لیے عبرت کا سبب بنتیں۔ جب کہ اس اہم معاملے میں عدم توجہی کے عدالتِ عظمیٰ کے موجودہ رویّے کے سبب بدعنوانوں کے حوصلے بڑھے ہیں اور ملک میں بدعنوانی کو فروغ ملا ہے ۔ توقع کی جانی چاہیے کہ عدالتِ عظمیٰ جناب سراج الحق کی پہلے سے ’پانامہ پیپرز‘ سے متعلق درخواست اور ’پنڈورا پیپرز‘ کے بارے میں تازہ آئینی درخواست کی تیز رفتار بلکہ روزانہ سماعت کے ذریعے ملک و قوم کو بدعنوان عناصر سے نجات دلانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے گی۔