آدمی کی اصل۔۔۔۔ اور انسانی ساخت میں تغیرات کے ادوار(1)

قرآن کی بہت سی آیتیں، کہ جب ان کی اقتدا کی جائے، گہرے روحانی معانی ملتے ہیں۔ مزید یہ کہ مجھے لگتا ہے انسان کی ساخت میں علم اشکال الاعضاء (morphology) جن تبدیلیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے، وہ یہاں نظر آتے ہیں۔ علم اشکال الاعضاء مکمل طور پر مادی حالت بیان کرتا ہے، جو مختلف مراحل میں وقوع پذیر ہوتی ہے لیکن ہمیشہ درست ترتیب سے آگے بڑھتی ہے۔ انسانی ساخت کے ردوبدل میں متواتر الوہی تخلیقی ارادے کی کارگزاری کا تذکرہ ان آیات میں ملتا ہے۔ یہ ایسی تبدیلیوں کی جانب براہِ راست اشارہ کرتی نظر آتی ہیں کہ جنہیں ’ارتقائی عمل‘ (یہاں ارتقاء کی اصطلاح سے مراد micro evolution ہے۔ مترجم) ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں اس لفظ کا مطلب انسانی جسم میں ترامیم کا وہ سلسلہ ہے جن کا مقصد انسانی ساخت کی حتمی صورت گری تھا۔
مزید یہ کہ خدا کی الوہیت کے بیان میں نہاں یہ خیال اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ اُس نے انسانی آبادیاں نیست و نابود کیں اور نئے انسان اٹھائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قدیم مفسرین اور شارحین قرآنی آیات میں انسانی ساخت کی تبدیلیوں کی بات متخیل نہ کرسکے، تاہم وہ یہ تسلیم کررہے تھے کہ ایسی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں، اور انسان کی صورت گری میں جنینی (embryonic)نشوونما ایک ایسا مظہر ہے جس کا عام مشاہدہ تاریخ کے ہر دور میں کیا گیا۔ یہ آج ممکن ہوا ہے کہ جدید علم نے ہمیں مکمل طور پر یہ سمجھنے کے قابل بنایا ہے کہ رحم میں جنینی نشوونما کی بابت قرآن کی آیات کیا کہتی ہیں۔ درحقیقت ہم یہ جان کر حیران رہ جاتے ہیں کہ قرآن کی آیتیں نہ صرف رحم میں جنینی نشوونما کی وضاحت کرتی ہیں بلکہ اس سے بڑھ کرانسانی ساخت میں اُن تبدیلیوں کی جانب بھی توجہ دلاتی ہیں جومختلف ادوار میں ہوئیں۔ اس قسم کی تبدیلیاں باقاعدہ طور پر palaeontology (متحجر ڈھانچوں کے مطالعے) میں ثابت ہوچکی ہیں، اور ان پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
قدیم شارحینِ قرآن کا شائبہ خیال اُس وقت ایسی دریافتوں کی جانب نہیں جاسکا تھا جوصدیوں بعد سامنے آئیں۔ وہ ان آیات کو جنینی تبدیلیوں کے سیاق و سباق ہی میں دیکھ رہے تھے۔ بعدازاں ڈارون ازم کا بم شیل آگیا، ابتدائی مقلدین نے ڈارون کے کلیے میں بڑی رنگ آمیزی کی، نظریہ ’ارتقاء‘ کی قیاسی صورت گری کی، کہ شاید کسی طور اس کا اطلاق انسان پر ہو ہی جائے، حالانکہ یہ حیوانات میں بھی پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ سکی تھی۔ ڈارون کی زندگی میں ہی کلیہ ارتقاء انتہاؤں میں دھکیل دیا گیا تھا، محققین دعوے کررہے تھے کہ اُن کے پاس اس بات کا ثبوت آچکا ہے کہ انسان بندر کی نسل ہے، ایک ایسا خیال جس پر آج تک کوئی معتبر palaeontologist (قدیم حیاتیات کا ماہر)کوئی ٹھوس بات یا ثبوت پیش کرنے کے قابل نہیں ہوسکا ہے۔ یہاں واضح طور پر ایک بہت بڑا خلا موجود ہے، تاہم اُس نظریہ ارتقا میں کہ جو انسان کوبندر کی نسل قرار دیتا ہے (ایسا کلیہ جو پایہ ثبوت کونہیں پہنچ سکا ہے)، اور اس خیال (وہ نظریہ جو ثابت شدہ ہے) میں کہ انسان مختلف ادوار میں تبدیلیوں سے گزرا ہے، بڑا بنیادی تفاوت نمایاں ہے۔ الجھاؤ اُس وقت بہت بڑھ جاتا ہے جب ان دونوں کو ’’نظریہ ارتقا‘‘ کے جھنڈے تلے، کھوکھلے دلائل کے ذریعے گڈمڈکردیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس الجھاؤ نے لوگوں کا تصور خلط ملط کیا ہے، وہ ’آدمی کی اصل‘ کے باب میں اصطلاح ’ارتقا‘ کی پیروی میں عام ڈگر پر چل نکلے ہیں کہ آدمی بندرکی جدید ترین شکل ہے۔
واضح طور پر یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ دونوں نظریات یا تفہیمات کے درمیان فرق بنیادی نوعیت کا ہے، دوسری صورت میں قرآن کی بہت سی آیات کی تفہیم میں تقصیر کا خدشہ ہوسکتا ہے، کہ جنہیں میں یہاں اقتباس کررہا ہوں۔ یہاں معمولی سا اشارہ بھی ایسا نہیں کہ جوآدمی کی اصل پر ’ڈارون کے کلیے‘ کی حمایت کرتا ہو، کہ جو بالکل جائز طور پر مسلمانوں، یہودیوں، اور عیسائیوں میں یکساں طور پر ناپسندیدہ ہے۔ مٹی سے انسان کی تخلیق کے روحانی معانی ان دو آیات میں سامنے آتے ہیں کہ جوآدمی کے وجود کا زمین سے تعلق پیش کرتی ہیں:
’’ اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اُگایا، پھر وہ تمہیں اِسی زمین میں واپس لے جائے گا، اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا، تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو۔‘‘ (نوح، 71، 81)
’’اِس زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے، اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔‘‘(طٰہٰ)
یہ آیات آدمی کی پیدائش کے زمین سے تعلق پر زور دیتی ہیں، یہ حقیقت واضح کرتی ہیں کہ ہم مرکر مٹی میں مل جائیں گے، اور خدا روزِ حشر ہمیں مٹی سے پھر اٹھا کھڑا کرے گا۔
زمین کے اجزائے ترکیبی سے آدمی کی تشکیل کا نظریہ یہاں نمایاں ہے۔ اسے آج ہم کیمیائی اجزائے ترکیبی کہتے ہیں، وہ کیمیائی اجزا جو زمین میں پائے جاتے ہیں۔ ہم انہیںانسانی جسم کے ’بنیادی عناصر‘ کی اصطلاح میں بھی سمجھتے ہیں۔ میں اُس مادے کا حوالہ دے رہا ہوں کہ جسے زمین سے حاصل کیا جاسکتا ہے، یہ اساسی اجزا ہیں اور کبھی خراب نہیں ہوتے۔ کئی طرح کے ایٹمی اجزا جو مالیکیولز تشکیل دیتے ہیں، وہ سارے عناصر جو انسانی جسم کی صورت گری کرتے ہیں، یہ بڑی تعداد میں زمین میں پائے جاتے ہیں۔
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا ہے۔‘‘(ہود،61)
قرآن کی دیگر بہت سی آیات میں مٹی سے انسان کی تخلیق کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
’’ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔‘‘(حج، آیت 5)
’’اُس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی۔‘‘(سجدہ، آیت 7)
اس نکتے پر رُکنا اور یہ سمجھنا اہم ہوگا کہ قرآن تخلیق کی ابتدا کے لیے ’گارے‘ کی اصطلاح استعمال کررہا ہے، یعنی یہ عمل مرحلہ وار ہے۔
’’انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سُوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا۔‘‘(رحمٰن، آیت 14)
اس خیال سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں آدمی کی صورت گری کی گئی۔ یہ اشارہ ملتا ہے کہ آدمی خاص سانچے (باقی صفحہ 41پر)
میں ڈھالا گیا۔ اس ضمن میں سوکھے گارے اور سنسناتی ہوئی مٹی کے تذکرے دیگر کئی آیات میں بھی واضح ہیں۔ مٹی سے تخلیق کے بعد نطفے سے یہ ست چلائی گئی۔ (یہ آج ایک معلوم حقیقت ہے کہ زندہ نطفہ کے سیال میں یک خلیہ جُز ہوتا ہے جسے ہم spermatozoonکہتے ہیں) میں خیال کرتا ہوں کہ مٹی یا گارے کے جوہر سے مراد لازماً وہ کیمیائی اجزا ہیں جو صورت گری کرتے ہیں، پانی سے کشید ہوتے ہیں، اور پانی اس کا مرکزی عنصر رہتا ہے۔
پانی، کہ جسے قرآن میں زندگی کی اصل بیان کیا گیا ہے، آیات میں لازمی عنصر کے طور پر سامنے آتا ہے۔
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سُسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا ربّ بڑا ہی قدرت والا ہے۔‘‘(فرقان، آیت 54)
ایک اور جگہ قرآن انسان کا حوالہ ’’آدم‘‘ کے نام سے پیش کرتا ہے۔ کئی آیات عورت کی تخلیق کی جانب بھی اشارہ کرتی ہیں:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دُنیا میں پھیلا دیے۔‘‘(نسا،آیت 1)
یہ نفسِ مضمون ساتویں سورت کی آیت 189اور سورہ 39کی آیت 6میں دہرایا گیا ہے۔ یہی موضوع اصطلاحوں کے تھوڑے بہت فرق سے سورت 30 کی آیت 21، اورسورت 42کی آیت 11 میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ بلاشبہ ان حوالوں میں انسان کی اصل پر علامتی معانی منعکس ہوتے ہیں۔ یہ اشارہ واضح ملتا ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کے ساتھ کیا ہوگا، یہ حقیقت یہاں پنہاں ہے کہ کس طرح آدمی زمین میں لوٹے گا اور پھر کس طرح روزِ حشر پھر اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ یہاں انسانی جسم کی کیمیائی تشکیل کی طرف بھی اشارہ محسوس ہوتا ہے۔
(جاری ہے)