افغان فوج کیوں ناکام ہوئی؟

افغان فوج کے لیفٹیننٹ جنرل سمیع سادات کے تاثرات

ویت نام کے بعد امریکی استعمار کو دوسری بڑی شکست ہوئی ہے اور طالبان فاتح بن کر ابھرے ہیں۔ امریکہ اور یورپ صدمے میں ہیں کہ یہ کیسے ہوگیا کہ ایک سیکولر مادہ پرست قوت جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے، ایک مسلح فوجی قوت رکھتی ہے اور جدید وسائل کی حامل بھی ہے، اور نیٹو بھی اس وحشیانہ جنگ میں امریکہ کے ہم رکاب تھی، ان سب کو طالبان کے ہاتھوں تاریخی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ بعض قوتوں کے لیے ذہنی اور ہیجان انگیز صدمہ ہے۔ طالبان کی فتح ان کو ناگوار گزر رہی ہے، وہ کچھ لکھنا چاہ رہے ہیں لیکن بات بن نہیں رہی۔ ابھی امریکہ شکست کے صدمے میں ہے، اس سے تعزیت ہی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں دو قسم کے دانشور تھے جو اپنے قلم کا جادو دکھا رہے تھے، ان میں ایک حصہ ایسے دانشوروں کا تھا جو روسی کیمپ میں کھڑے تھے، اور دوسرا حصہ امریکی کیمپ میں قلم سنبھالے دانشوروں کا تھا جو سراب کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔
افغانستان جب نور محمد ترہ کئی کے سائے میں کمیونسٹ افغانستان میں تبدیل ہوگیا تھا تو یہ دانشور پاکستان کو بکھرتے ہوئے اور مختلف خطے وجود میں آتے دیکھ رہے تھے۔ اس موقع پر دو بڑی اور اہم شخصیات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب سوویت یونین افغانستان میں اپنی سرخ فوج کے ساتھ موجود تھا، اور افغان مجاہدین جہاد کا علَم بلند کیے ہوئے تھے۔ یہ شخصیات افغانستان کو ایک کمیونسٹ ملک سمجھ رہی تھیں، اور سوویت یونین کی سرخ فوج کو ناقابلِ شکست تسلیم کرتی تھیں، بلکہ انہیں یقین تھا کہ پوری دنیا میں کمیونسٹ راج ہوجائے گا اور سرمایہ داری کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے گا۔ اس موقع پر ایک حوالہ مرحوم غوث بخش بزنجو کا، اور دوسرا حوالہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کا دینا چاہتا ہوں۔ کتاب Pakistan The Indian Factor (Rajendra Sareen 1984)
مرحوم بزنجو نے صاحب ِکتاب کو7 اپریل 1982ء کو انٹرویو دیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:
“The Soviet union could never permit a government there which worked against its interests”, Page 247)
اور کہا:
“You cannot throw them out by force. you cannot defeat expect them through war or by sending by sabotages to you cannot defeat the red army, its utter foolishness to think in that strain. It can only create more bitterness.”
نواب بگٹی شہید قوم پرست لیڈر تھے لیکن کمیونسٹ نہ تھے، ایک لحاظ سے وہ آزاد خیال شخصیت تھی۔
انہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
“If you expect the west to evict the Russian physically from there or undo the revolution that can be straightaway ruled out. The situation in Afghanistan “As Lord Carrington send” is irreversible” (page 281)
یہ حوالے ماضی کے افغانستان کے حوالے سے تھے تاکہ آج کی نوجوان نسل کو ماضی سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ اور تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے کہ سرخ سامراج کو افغانستان کی سرزمین پر بدترین شکست ہوئی، اور اب امریکہ نے ناقابلِ یقین شکست کھائی ہے، اور بعض لکھنے والوںکو بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی ہے۔ سابقہ بائیں بازو کے لکھاری امریکہ سے امید باندھے ہوئے تھے، انہیں بھی بڑا صدمہ ہوا ہے اور وہ سکتے میں ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ امریکہ بھاگ رہا تھا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ امریکی شکست کی مختلف تاویلیں کرکے دل کو تسلی دے رہے ہیں، امریکہ شکست کھائے گا انہیں اس کا یقین نہیں آرہا ہے، اب ان دانشوروں اور سیاسی دانشوروں کے لیے کوئی کیمپ موجود نہیں ہے۔ ان نام نہاد دانشوروں کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ افغان جنرل کی طرح کھل کر اعتراف کرلیتے کہ امریکہ نے ہمیں دھوکا دیا۔ طالبان مخالف کیمپ میں ان کے لیے صرف امریکی کیمپ رہ گیا تھا، وہ بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر بھاگ گیا۔
طالبان کو تاریخ فراموش نہ کرسکے گی کہ انہوں نے امریکہ اور نیٹو کی جدید فوجی قوت کو شکستِ فاش دی ہے۔ امریکی کیمپ میں سکتہ طاری ہے۔
ہم جب بھی افغانستان کی تاریخ کا ذکر کریں گے، ماضی کے حالات اور تجزیے کو فراموش نہ کرسکیں گے، اس کے بغیر تاریخ ادھوری رہے گی۔ ہم یہ تجزیہ اس حوالے سے کررہے ہیں کہ افغان فوج کے لیفٹیننٹ جنرل سمیع سادات نے کھل کر اپنا اظہار کیا ہے اور امریکہ کی منافقت کا پردہ چاک کیا ہے، انہوں نے کچھ حوالے قوم پرستوں کے بھی دیئے ہیں تاکہ ماضی نظر میں رہے اور اوجھل نہ ہوجائے۔ آیئے جنرل کے احساسات اور خیالات کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ اس نے امریکی فوج اور انتظامیہ کو کس طرح دیکھا ہے۔ جنرل نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا:
’’گزشتہ ساڑھے تین ماہ سے جنوبی افغانستان کے صوبہ ہلمند میں طالبان کی انتہائی خونریز اور دم بہ دم بڑھتی ہوئی یلغار کے خلاف دن رات لڑتا رہا ہوں، اس دوران ہمیں ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملا۔ ہم کئی بار طالبان کے حملوں کی زد میں آئے مگر پھر بھی ہم نے انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا اور بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے دوچار کیا۔ اس کے بعد مجھے افغانستان کی اسپیشل فورسز کی قیادت کے لیے دارالحکومت کابل بلایا گیا، مگر اُس وقت جب طالبان شہر میں داخل ہورہے تھے، یعنی بہت دیر ہوچکی تھی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا میں تھک چکا ہوں، میرے حواس قابو میں نہیں، تو مجھے اُن کے ان الفاظ نے شدید رنج پہنچایا کہ امریکی فوجیوں کو ایک ایسی جنگ میں لڑ کر جان نہیں دینی چاہیے جو خود افغان فورسز بھی لڑنا نہیں چاہتی ہیں۔‘‘
جنرل سمیع سادات نے کہا ’’یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ افغان فوج لڑنے کا عزم کھوچکی تھی، مگر یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ہم میں یہ احساس بہت شدت کے ساتھ پروان چڑھا کہ ہمارے امریکی شراکت داروں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے، چند ماہ کے دوران امریکی صدر کے الفاظ سے ہمارے لیے شدید عدم احترام جھلکا ہے اور وفاداری بھی کہیں دکھائی نہیں دی۔ افغان فوج کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے بھی مسائل تھے جن میں اقربا پروری، کرپشن اور بیورو کریسی نمایاں ہیں، مگر ہم نے لڑنا اُس وقت چھوڑا جب ہمارے شراکت داروں نے لڑنا چھوڑ دیا۔
امریکی صدر اور یورپی یونین کے قائدین افغان قومی فوج کے ناکام ہوجانے کی باتیں کرکے مجھے اور دوسرے بہت سے لوگوں کو شدید دکھ پہنچا رہے ہیں، کیونکہ اس صورتِ حال کے اسباب کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا جارہا۔ واشنگٹن اور کابل کے درمیان سیاسی تقسیم نے افغان فوج کو الجھنوں سے دوچار کردیا اور ہم اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے کرنے کے قابل نہ ہوسکے۔ امریکہ کئی سال ہمیں لڑائی کے میدان میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا رہا تھا۔ یہ لاجسٹک سپورٹ روک دی گئی تو ہم مفلوج ہوگئے، امریکہ اور افغان قیادت نے ہماری معقول راہ نمائی بھی نہیں کی۔
میں افغان فوج میں تھری اسٹار جنرل ہوں، 11 ماہ تک 15 ہزار فوجی جنوب مغربی افغانستان میں طالبان سے نبرد آزما رہے۔ میں نے اس لڑائی میں اپنے سیکڑوں افسران اور سپاہی کھو دیئے۔ یہی سبب ہے کہ میں تھکن سے چُور اور قدرے منتشر خیال فرد کی حیثیت سے عملی تناظر پیش کرکے افغان فوج کے وقار کے دفاع کی کوشش کررہا ہوں، میں یہ سب کچھ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میں افغان فوج کو تمام کوتاہیوں اور خرابیوں سے بری الذمہ قرار دینا چاہتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سوں نے پوری شان اور وقار سے اپنے حصے کا کام کیا ہے، یعنی میدان میں ڈٹے رہے، مگر امریکیوں اور افغان قیادت نے ہمیں دھوکا دیا۔
اگست کے دوران جب ہم جنوبی افغانستان کے شہر لشکرگاہ پر طالبان کو قابض ہونے سے روکنے کی کوشش میں خاصی بے جگری سے لڑ رہے تھے تب افغان صدر اشرف غنی نے اسپیشل فورسز کی قیادت کے لیے میرا نام تجویز کیا، میں نے خاصی ہچکچاہٹ کے ساتھ اپنے سپاہیوں کو وہیں چھوڑا اور 13 اگست کو کابل پہنچا۔ میں لڑنے کے لیے تیار تھا، مگر مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ صورتِ حال کتنی خراب ہوچکی ہے۔ صدر اشرف غنی نے مجھے کابل میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کا ٹاسک دیا تھا، مجھے اس حوالے سے کچھ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا، کیونکہ طالبان شہر میں داخل ہورہے تھے اور اشرف غنی ملک سے فرار ہوچکے تھے۔
یہ احساس اب بھی غیر معمولی شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ ہمیں بری طرح دھوکا دیا گیا ہے۔ اشرف غنی جس عجلت کے ساتھ فرار ہوئے ہیں اُس سے انتقالِ اقتدار کے حوالے سے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی راہ مسدود ہوگئی۔ اگر کچھ ایسا ہوتا تو انخلا کے عمل میں اتنی ہڑبونگ دکھائی نہ دی ہوتی۔ نظم و ضبط یقینی بنانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، یہی سبب ہے کہ انتشار پھیلا اور کابل ایئرپورٹ پر دل خراش اور دل دہلانے والے مناظر دکھائی دیئے۔
کابل ایئرپورٹ کے مناظر کو بنیاد بناکر امریکی صدر جوبائیڈن نے 16 اگست کو قوم سے خطاب میں کہاکہ افغان فوج مکمل طور پر ناکام رہی ہے، اور کہیں کہیں تو برائے نام بھی لڑائی نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آخر تک غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 20 سالوں کے دوران 60 ہزار فوجی کھو دیئے۔ یہ پوری فوج کا کم و بیش 20فیصد ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغان فوج کیوں ناکام ہوئی؟ اس کے تین جواب ہیں۔‘‘
(جاری ہے)