اہل کشمیر بھارت کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے

جشن منانے والے کشمیریوں کے خلاف بھارتی حکومت کا جبر تشدد کل جماعتی حریت کانفرنس(سید علی گیلانی) کے کنوینر محمد فاروق رحمانی کاانٹرویو

فرائیڈے اسپیشل: بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کو ڈھائی سال ہونے والے ہیں، یہ مدت کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی قیادت کے لیے کس طرح کا امتحان لائی ہے؟
محمد فاروق رحمانی: آزادیِ کشمیرکی جدوجہد کی راہ میں یہ کوئی نئی رکاوٹ نہیں آئی، ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ہمارے اسلاف اس سے بھی زیادہ بڑی آزمائش سے گزر کر آئے تھے اور انہوں نے بھی ہار نہیں مانی۔ لہٰذا ہم بھی ہار نہیں مان رہے۔ جس طرح انہوں نے آزادی کی تحریک کی شمع ہمارے حوالے کی، ہم بھی اپنا کردار ادا کرتے کرتے یہ شمع اپنی اگلی نسل کے حوالے کردیں گے۔ یوں یہ جدوجہد ایک روز کامیاب ہوجائے گی۔ یہ بات درست ہے کہ ہم بڑی مشکلات سے دوچار زندگی گزار رہے ہیں، سری نگر میں آزادی اور زندگی نام کی کوئی چیز نہیں ہے، وہاں اذان دینے کی آزادی ہے اور نہ نماز ادا کرنے مہلت ہے۔ ممتاز رہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد جو رویہ مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ اور بھارتی فورسز نے روا رکھا اُسے تو ساری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ اُن کے لواحقین کو اُن کی وصیت کے مطابق تدفین کی بھی اجازت نہیں ملی۔ لیکن اس کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے، انہیں علم ہے کہ جب بھی وہ پاکستان کی بات کریں گے ان پر نئی آزمائش آئے گی، لیکن وہ پھر بھی پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ ابھی آپ نے دیکھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جب سے کشمیری عوام نے بھارت کے خلاف پاکستان کی کرکٹ میچ میں کامیابی کا جشن منایا ہے تب سے ان پر ایک نئی آفت ٹوٹ پڑی ہے اور بے شمار گرفتاریاں ہورہی ہیں، نوجوان لاپتا کیے جارہے ہیں، گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں، خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے، مگر کشمیری عوام بھارت کو کبھی اپنا تسلیم نہیں کریں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ بتائیے کہ عالمی برادری کی جانب سے کیوں خاموشی ہے؟ اس کی کوئی خاص وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے؟
محمد فاروق رحمانی: ہمیں دنیا سے کوئی گلہ شکوہ نہیں، ہم اقوام متحدہ سے مسلسل مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں حقِ خودارادیت دیا جائے تاکہ ہم فیصلہ کرسکیں کہ کس کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ لیکن جب بھی یہ موقع آیا تو کشمیری کبھی بھارت کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔ بھارت اور اُس کی حامی عالمی قوتیں جو کچھ بھی کرلیں، کشمیری عوام بھارت سے ہر قیمت پر آزادی چاہتے ہیں۔ ہاں ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ حالات کچھ تبدیل ہورہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں ایک مسلم ملک کا قونصل خانہ کھلنے جارہا ہے، سری نگر ہوائی اڈے کی شاہراہ جو بڈگام کی جانب جاتی ہے اس پر بھارت سرکار نے لوگوں کی بے دخلی شروع کردی ہے اور اراضی ہتھیائی جارہی ہے۔ اس شاہراہ پر جتنی بھی انسانی بستیاں ہیں، وہاں سے لوگوں کو بے دخل کیا جارہا ہے اور انہیں زبردستی خالی کرایا جارہا ہے، اور انتظامیہ نے دھمکیاں دی ہیں کہ اگر کوئی یہاں رہنا چاہتا ہے تو وہ سرکار کی طے کردہ قیمت ادا کرے۔ اور یہ رقم کروڑوں میں بنتی ہے۔ لہٰذا غریب لوگوں کو یہ بستیاں خالی کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض مودی حکومت نے ہندوتوا پالیسی کے تحت ایک اور کشمیر مخالف اقدام کیا ہے۔ اس اقدام کے تحت بھارتی قابض انتظامیہ نے وادی کے تعلیمی اداروں، سڑکوں اور اہم عمارتوں کا نام تبدیل کرنے کی منظوری دے دی ہے، اس پالیسی کے تحت اسکولوں، سڑکوں اور عمارتوں کے نام بے گناہ کشمیریوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث بھارتی فورسز کے اہلکاروں کے نام پر رکھے جائیں گے اور کشمیری رسم الخط بھی تبدیل کیا، بلکہ مٹایا جارہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا یہ بات درست ہے کہ کشمیریوں کا پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوش ہوکر جھومنا، سڑکوں پر نکل کر پٹاخے پھوڑنا اور سوشل میڈیا پر اپنی خوشی کا اظہار کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر اِس بار اس جشن کی کشمیریوں کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے؟
محمد فاروق رحمانی: بالکل، یہ سچ ہے، اور اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ سری نگر اور کشمیر کے ہر شہر، دیہات، قصبے میں پاکستان کے پرچم لہرائے گئے۔ آپ دیکھیے کہ حالیہ کرکٹ میچ بھارت کو پاکستان سے ہارے دس دن گزر چکے ہیں، لیکن اس کا جشن منانے والے کشمیریوں کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات کا اندراج، جیلوں میں ڈالنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور ملازمتوں سے ’زبردستی‘ فارغ کرنے کی کارروائیاں لگاتار جاری ہیں۔ کشمیر اور بھارت کی مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کے خلاف مقدمے درج کیے جارہے ہیں، ان مقدمات میں بغاوت اور انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ اترپردیش اور پنجاب میں کشمیری طلبہ پر سخت گیر ہندو نظریات رکھنے والے افراد کی جانب سے جان لیوا حملے کیے گئے ہیں، جبکہ کشمیر کے شعبۂ صحت میں کام کرنے والی ایک خاتون ٹیکنیشن کو نوکری سے فارغ کردیا گیا ہے۔ آگرہ میں مقامی پولیس نے راجا بلونت سنگھ انجینئرنگ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں زیر تعلیم تین کشمیری طلبہ کے خلاف ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کی شکایت پر ’ملک سے بغاوت‘ کا مقدمہ درج کیا ہے کہ کشمیری طلبہ ارشد یوسف، عنایت شیخ اور شوکت احمد گنائی نے کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت کے بعد ’بھارت مخالف اور پاکستان حامی‘ نعرے کیوں لگائے؟ پولیس ’جھوٹے الزامات‘ پر مبنی بی جے پی کی شکایت کو بنیاد بناکر ان طلبہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کررہی ہے۔ کشمیری طلبہ کی تنظیم ’جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ کے صدر ناصرکہویہامی پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، ان طلبہ نے صرف واٹس ایپ پر اسٹیٹس اَپ لوڈ کیا تھا جس میں پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ پولیس نے ان طلبہ کو آگرہ کی عدالت میں پیش کیا تو وہاں بی جے پی سمیت مختلف کٹر ہندو تنظیموں کے کارکنوں اور مقامی وکلا نے ان پر جان لیوا حملہ کیا مگر پولیس خاموش رہی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حملہ کرنے والوں میں آگرہ کی عدالت کے بعض وکلا بھی شامل تھے۔ کشمیری طلبہ پر حملہ کرنے والے افراد ’بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم، پاکستان مُردہ باد اور دیش کے غداروں کو گولی مارو…‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کیا چاہتے ہیں؟
محمد فاروق رحمانی: ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ کے خلاف درج کیا جانے والا مقدمہ واپس لیا جائے، کیوں کہ یہ سخت دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کی وجہ سے ان طلبہ کا کیریئر داؤ پر لگ چکا ہے۔ ان طلبہ کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کو حد درجہ احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ ہم نے کشمیری طلبہ پر آگرہ کی عدالت میں وکلا کے حملے کو ناقابلِ قبول اور مقامی پولیس کے کردار کو مشکوک قرار دیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آزاد کشمیر جسے آزادی کی تحریک کے لیے بیس کیمپ ہونا چاہیے یہاں کی سیاسی قیادت کا رویہ آپ کیسے دیکھ رہے ہیں؟
محمد فاروق رحمانی: آزادکشمیر حکومت پر بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بیس کیمپ کے عوام اور اقوام عالم کو مکمل آگاہی فراہم کرے۔
فرائیڈے اسپیشل: کشمیر کے مسئلے کا حل آئوٹ آف بکس بھی تلاش کیا جارہا ہے، اس کے کتنے امکانات ہیں؟
محمد فاروق رحمانی: حل صرف ایک ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری ہو، اور کشمیری عوام اس میں آزادانہ و منصفامہ ماحول میں ووٹ دیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک حل جنرل پرویزمشرف نے دینے کی کوشش کی تھی، اس پر سید علی گیلانی بھی ان سے ناراض ہوئے۔
محمد فاروق رحمانی: میں نے کہا نا، حل صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے اقوام متحدہ کی قراردادیں، اس کے سوا جو بھی کرلیں وہ حل نہیں ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا یہ بات درست ہے کہ اب یہاں امریکہ اور چین کے مفادات بھی بڑھ گئے ہیں؟
محمد فاروق رحمانی: امریکہ نے ایک رویہ ہی اپنایا ہوا ہے کہ وہ دنیا بھر میں اپنے مفادات پہلے طے کرتا ہے اور پھر ان کی حفاظت کے نام پر کارروائی کرتا ہے۔ ہم کشمیری تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق رائے شماری ملنا چاہیے، اور اس مقصد کے لیے عالمی سطح پر جارحانہ مہم چلانا ہوگی، جب کہ اقوام عالم کی کوشش ہے کہ یہاں اس خطے میں مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر امن قائم ہوجائے۔ یہ کیسے ممکن ہے!
فرائیڈے اسپیشل: کیا مستقبل میں حالات خرابی کی جانب بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے؟
محمد فاروق رحمانی: کشمیر میں حالات اس جانب جارہے ہیں کہ سیاسی قیادت کے ہاتھ سے وقت نکل جائے گا اور پھر ایسی قوتوں سے بات کرنا ہوگی جن کی کوئی سمت نہیں ہوگی۔ اس لیے وقت سے پہلے حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوام جب بھی پاکستان کا نام لیتے ہیں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔لیکن وہ وقت دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت سے آزاد ہوجائیں گے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق انہیں رائے شماری کا حق مل جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر دنیا میں سب سے زیادہ ملٹرائزڈ علاقہ ہے جہاں ہر دس کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی مسلط ہے۔ پاکستان سات دہائیوں پر مشتمل کشمیری عوام کے آزادی کے سفر میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہے۔ جدوجہد آزادی میں جس طرح کشمیریوں نے قربانیاں دیں، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کاز کو دبا نہیں سکتی، یہ سفر کشمیر کی آزادی پر ہی منتج ہوگا۔ کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیر کے عوام نے جو قربانیاں دی ہیں، ان کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ کشمیری عوام نے شہادتیں دی ہیں اور قبرستان شہیدوں کے خون سے مہکتے ہیں۔ یہ جذبے ہمیشہ سلامت رہیں گے۔ کشمیر کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کاز کو دبا نہیں سکتی۔
فرائیڈے اسپیشل: وزیراعظم عمران خان نے وکیل بننے کا وعدہ کیا تھا؟
محمد فاروق رحمانی: بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر کے عوام 74 سال سے بھارتی سرکار اور غاصب افواج کی طرف سے روا رکھی گئی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مسلسل سامنا کرتے آرہے ہیں، پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، پاکستان ہر فورم پر نہتے کشمیری عوام کی پُرامن جدوجہد کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019ء کے اقدامات کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جب بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے کشمیر کی مسلمہ متنازع حیثیت کو ختم کردیا، تب سے پاکستان دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھا رہا ہے، اور ہمارا یہ دوٹوک، واضح اور بھرپور مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے اور کشمیریوں کو ان کا بنیادی خودارادیت کا حق دیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کی پُرامن سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ بھارت کے ناجائز قبضے کا مقصد کشمیری عوام کی اپنے مستقبل کا آزادانہ طور پر تعین کرنے کی جائز امنگوں کو دبانا ہے، لیکن بھارتی قابض افواج کے 7 دہائیوں کے ظلم و جبر کے باوجود کشمیریوں کا عزم مضبوط ہے۔ کشمیری باشندوں، عورتوں اور بچوں کے عزم وحوصلے دنیا کے تمام آزادی پسند لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ جموں و کشمیر کا دیرینہ تنازع جنوری 1948ء سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم کرنے کے بعد بھارتی حکومت کی طرف سے سلامتی کونسل، پاکستان، دیگر ریاستوں اور جموں و کشمیر کے عوام سے کیے گئے پختہ وعدوں کے باوجود 5 اگست 2019ء کی بھارتی یک طرفہ کارروائی بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا بے توقیری ہے، اور کوشش ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ترک کردے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت تو اقوام عالم کے دبائو کے سامنے ٹس سے مس نہیں ہورہا؟
محمد فاروق رحمانی: بدقسمتی سے آج کے بھارت پر آر ایس ایس کے نظریے کی حکمرانی ہے جس کے انتہا پسند نظریے میں مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔اس کی وجہ سے حکمراں بی جے پی نے کشمیریوں کی آوازکو دبانے کے لیے مزید ظالمانہ طریقے اختیار کرلیے ہیں تاکہ ان کی حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے آواز کو دبایاجا سکے۔ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو یک طرفہ اور غیر قانونی کارروائی کے ساتھ فوجی محاصرہ، میڈیا بلیک آؤٹ اور دیگر پابندیاں عائد کیے ہوئے 8 سو سے زیادہ دن ہوچکے ہیں، جعلی مقابلوں، عصمت دری اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی شکل میں انسانی مصائب ناقابلِ بیان ہیں۔ وادی کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے ڈومیسائل قوانین متعارف کروانا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اس تنازعے کے بارے میں زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کے بھارتی ارادوں کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دو سال میں ان تمام غیر قانونی بھارتی اقدامات کی سختی سے مخالفت کی ہے اور مظلوم کشمیریوں کے حقوق کی واضح حمایت کی ہے۔ پاکستان نے جموں و کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ، او آئی سی سمیت ہر فورم
پر اور دو طرفہ طور پر اہم عالمی رہنماؤں اور ممالک کے ساتھ اٹھایا ہے۔ 55 سال میں پہلی بار جموں و کشمیر کے تنازعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل زیرغور لائی ہے۔ سلامتی کونسل نے تین بار اس تنازعے کو اٹھایا ہے اور اس طرح جھوٹ پر مبنی ہندوستانی دعوے کو رد کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں سمیت بین الاقوامی برادری کے ذریعے ہندوستانی اقدامات کی مذمت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں ہندوستان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ڈوزیئر جسے پاکستان نے گزشتہ ماہ پیش کیا، وہ دنیا کے لیے چشم کشا ہونا چاہیے۔ اس میں بھارت کے غیر انسانی رویّے کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے، جس سے جموں و کشمیر کے عوام کو خود ارادیت کا بنیادی حق مل سکے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازع جموں و کشمیر کا منصفانہ اور پُرامن حل جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ عالمی برادری پر بھی زور دینا چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر روکے، اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔