عبدالقدوس بزنجو کا انتخاب

بلوچستان کے اندر ستمبر سے شروع کی جانے والی اقتدار کی بازی اکتوبر2021ء میں اُس طرح اختتام پذیر ہوئی کہ عبدالقدوس بزنجو دوسری بار صوبے کے وزیراعلیٰ بنادیے گئے۔ اسمبلی کے65 میں سے 39 ارکان نے انہیں قائدِ ایوان چنا ہے، مقابل کوئی امیدوار نہ تھا۔30 اکتوبر کو ہونے والے اسپیکر کے انتخاب میں بھی دوسرا امیدوار نہ تھا۔ سو، بی اے پی کے جان محمد جمالی اسپیکر منتخب ہوئے۔ بزنجو نے 29 اکتوبر کو حلف اُٹھایا۔ زبان و ذہن ایک جگہ نہ تھے۔ حلف کے الفاظ ادا کرنے میں فاش غلطیاں کیں۔ گورنر ہائوس کے اندر بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے کیے گئے تھے۔ معززین و اراکین اسمبلی آتے تو ان کے لیے اندر سے کرسیاں اُٹھا اُٹھا کر لگائی جاتیں۔ حلف برداری کے دوران گورنر اور وزیراعلیٰ کے پیچھے اور دائیں بائیں لوگوں کا ہجوم تھا۔ گورنر ہائوس کے اندر یہ سارے مناظر پہلے نہیں دیکھے گئے۔ افراتفری اور بدنظمی کی کیفیت تھی۔ تقریب ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے اس لیے شروع ہوئی کہ عبدالقدوس بزنجو صفائی مہم شروع کرنے گئے تھے۔ بہرکیف نواب جام کمال خان اسمبلی کے اِن اجلاسوں میں شریک نہ ہوئے۔ جام کمال کے استعفے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے باقی ارکان بھی عبدالقدوس بزنجو کے پاس لپکے۔ نیزتحریک انصاف کے وہ اراکین جو بظاہر جام کمال کے ساتھ تھے، اُن سمیت عوامی نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی کے گہرام بگٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان نے نئی حکومت کی جانب دستِ تعاون بڑھادیا۔ قدوس بزنجو کے انتخاب کے وقت متحدہ حزب اختلاف ایوان میں موجود نہ تھی، انتخاب ہوا تو اسمبلی اجلاس کا حصہ بنی۔ سبھی نے عبدالقدوس بزنجو کو تہِ دل سے جیت پر مبارکباد پیش کی۔ ظہور بلیدی وزارتِ اعلیٰ کی اُمید بر نہ آ نے پربُجھے بُجھے سے تھے۔ انہوں نے اُس روز جام کمال کے ترقیاتی کام کا پھر سے اعتراف کیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے اسد بلوچ اور سید احسان شاہ ’قدوس قبیل‘ کے ساتھ ہیں۔ سید احسان شاہ کا میاب بی این پی عوامی کے ٹکٹ پر ہوئے ہیں لیکن اسد بلوچ سے اختلاف کی بنا پر پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے اپنی جماعت بنا ڈالی ہے۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حصہ نہ لے کر دراصل متحدہ حزب اختلاف کی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی کوشش کی ہے۔ مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ عوام اور اہلِ سیاست پریہ سارا منظر عیاں ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پورے تناظر میں ان جماعتوں کی ترجیح اور پالیسی کیا رہی ہے۔ گویاحزبِ اختلاف اس سارے مکروہ کھیل سے بری الذمہ نہیں ٹھیرائی جاسکتی۔ حزبِ اختلاف جلی و خفی طور پر کنگز اور مقتدرہ کے عمل میں شریک رہی ہے، اور متحدہ حزبِ اختلاف کی جانب سے جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تک اسی کی کڑی تھی۔ اس کے بعد11 اکتوبر کو کنگز پارٹی کے چند ارکان نے ان کے تعاون سے دوبارہ نواب جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرا دی۔ نواب اسلم رئیسانی بھی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے عبدالقدوس بزنجو کی وزارتِ اعلیٰ کے معاملے سے خود کو الگ رکھا ہے،اور یہ کہ بی اے پی کی مدد کرنا اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے مترادف ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ جام کمال کو ہٹانے کے سوا حزبِ اختلاف نے بدلا کیا ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نواب اسلم رئیسانی نے صوبے کے اندر قبیح روایات میں ایک اور کا اضافہ کردیا ہے۔ حکومت میں بالواسطہ شرکت کے فریب کے بجائے بہتر ہوتا کہ یہ جماعتیں حکومت کا ہی حصہ بنتیں۔ بلاشبہ یہ اشتراک سیاسی خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی ان جماعتوں کو وفاقی اور صوبائی حکومت کو اب مزید سلیکٹڈ کہہ کر پکارنا زیب نہیں دیتا۔ یقینی طور پر حزب اختلاف سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کی ہم رکاب بن چکی ہے۔
عبدالقدوس بزنجو حلف برداری کے بعد وزیراعلیٰ ہائوس پہنچے تو ’باپ‘ اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کے ارکان نے انہیں کرسی پر بٹھایا۔ حیرت ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے کے بعد بھی ان جماعتوں کے لبوں سے سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کے الفاظ نکلتے رہے۔ سردار یار محمد رند کا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ جام کمال کے ساتھ تھے۔ وہ کئی بار کہہ چکے تھے کہ وہ ’باپ‘ پارٹی کے ساتھ ہیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ سردار رند کے تحریک انصاف کے اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ہونے کے باوجود پارٹی کے اراکینِ اسمبلی اُن کے ساتھ نہ تھے، اور اس دوران سردار رند کو بار بار سبکی کا سامنا رہا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی کوئٹہ موجودگی کے باوجود وہ ان سے نہ ملے۔ یہ دو حضرات جام مخالف مہم پر تھے۔ سنجرانی آئندہ صوبے کے وزیراعلیٰ بننے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ پرویز خٹک اور چند دوسرے اُس لابی کے کہنے پر متحرک تھے جس نے اس کھیل کا نقشہ بنایا۔ نقشہ تیار کرنے میں بھاری سرمایہ لگا ہے۔ اوپر سے نیچے تک مختلف سطح و مقام کے افراد کا حصہ طے ہوچکا ہے۔ پرویز خٹک اور عبدالقدوس بزنجو نے دیگر کے ہمراہ سردار رند کے پاس جاکر تحریک انصاف کی حمایت کی رسم پوری کرلی۔ سردار رند وزارتِ اعلیٰ کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر ان کے لیے آئندہ بھی کوئی حمایت دستیاب نہ ہوگی۔ مناسب ہوتا کہ نواب ثناء اللہ زہری بھی کوئٹہ نہ آتے، بے شک وہ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کو بطور نمائندہ بھیج دیتے۔ نواب زہری نے اس سب کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت کے فیصلے کو جواز کے طور پر پیش کیا ہے، حالانکہ اس کے برعکس جب وہ نون لیگ میں تھے تو پارٹی فیصلہ تسلیم نہ کیا تھا۔ یعنی انہیں کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی دعوت نہ دی گئی اور کہا گیا کہ سردار اختر مینگل شریک ہوں گے، تو وہ خفا ہوکر نون لیگ سے علیحدہ ہوگئے۔ حالاں کہ پیش ازیں نوازشریف کے کہنے پر نواب زہری نے بیٹے، بھائی اور بھتیجے کے بم دھماکے میں قتل کی ایف آئی آر سے سردار عطاء اللہ مینگل، سردار اختر مینگل و دیگرکے نام نکلوا دیے تھے۔ یہ تب ہوا جب نواب زہری وزیراعلیٰ بننے جارہے تھے۔ وہ عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر قائم کیے گئے کیمپ بھی گئے جہاں بی این پی کے اراکین اسمبلی بھی مقیم تھے۔
یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ سردار اختر مینگل کی حکومت گرانے پر نوازشریف نے برملا اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنوری 2018ء میں عدم اعتماد اور منتخب حکومت گراکر صوبے کی تذلیل میں شریک پارلیمنٹیرینز اور سیاسی جماعتیں نادم ہیں؟ یا اِس بار کی سیاہ سیاست و گراوٹ پر کوئی شرمند ہوا ہے؟ بقول ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ’’غیر جمہوری عناصر اپنے مفادات کے لیے ہر غیر جمہوری عمل بلوچستان سے شروع کرتے ہیں۔ عدم اعتماد سیاسی عمل کا حصہ ہے لیکن سیاست میں اصول و نظریات سب سے مقدم ہیں۔ اگر غیر جمہوری عناصر کی مفاداتی کشمکش کے لیے اپنے سیاسی نظریے کو قربان کرنا پڑے تو وہ عدم اعتماد نہیں بلکہ کارندے کا کردار کہلائے گا۔‘‘
بلاشبہ اِس بار بھی سیاسی لوگوں اور جماعتوں نے کارندے کا کردار ادا کیا ہے، اور جس سطح کی تبدیلی بلوچستان
میں یہ کارندے لاچکے ہیں اس سے اُن کی ترجیحات اور سیاسی ظرف کا اندازہ ہوا ہے۔ اور پھر اس سب کو تبدیلی نہیں کہا جاسکتا۔آزمائے ہوئے کے لیے اقتدار کا راستہ صاف کیا گیا ہے،یعنی1976ء سے اب تک 45سالوں کے دوران ہونے والے9 انتخابات میں7بار عبدالقدوس بزنجو، ان کے والد عبدالمجید بزنجو اور والد کے چچا کریم بزنجو آواران سے بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔ یہ خاندان پاکستان کے اس پسماندہ ترین ضلع کی تقدیر نہیں بد ل سکا ہے۔ چھ اضلاع سے سرحدیں لگنے کے باوجود ایسی کوئی پختہ سڑک نہیں جو آواران کو کسی دوسرے ضلع سے ملائے۔پورے ضلع میں بجلی صرف ضلع اور تحصیل ہیڈ کوارٹر میں جنریٹرسے چند سو گھرانوں کو مل رہی ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ میژرمنٹ سروے 2019-20ء میں معیارِ زندگی اور سہولیات کے حوالے سے آواران کو بلوچستان کے تین بد ترین اضلاع میں سے ایک قرار دیا گیاہے۔چناں چہ یقینا صوبے کے عوام پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جام کمال کو ہٹاکر صوبے کو متبادل کیا دیا گیا ہے؟