جنوبی ایشیا کی نوآبادیاتی سیاست میں اقبال کا زاویۂ نظر

تاریخ میں بہت کم شاعر ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اپنی قوم پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہو جتنا اقبال نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر ڈالا ہے۔ وہ بیسویں صدی میں ملّتِ اسلامیہ کے ذہن کی تعمیر کرنے والے اکابر مفکرین و رہنماؤں میں اوّلیت رکھتے ہیں، اور انھوں نے اس کی بیداری میں سب سے نمایاں حصہ لیا ہے۔ اسلامی فکر کو جدید تقاضوں کے مطابق نئے سانچوں میں ڈھالنے اور وقت کے فکری اور جذباتی رجحانات کو تبدیل کرنے میں بھی ان کا حصہ سب سے نمایاں ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے زوال کے حقیقی اسباب کا جائزہ لیا تھا، اور ان اسباب کے مطابق انھوں نے اسلام کے حرکی اور انقلابی پہلوؤں کو اجاگر کیا تھا۔ اپنے مقاصد کے تحت انھوں نے ایک تو اسلامی فکر کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور اسلامی قومیت کے حقیقی تصور کو نمایاں کیا، اور دوسرے، مغربی افکار اور مغربی تہذیب کے زیر ِ اثر رونما ہونے والی مختلف تحریکوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی تعلیمات کو اختیار کرنے کی تلقین کی اور اس کے جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔
اقبال کا دور عالمِ اسلام کے لیے نہایت ابتلاء اور انتشار کا دور تھا۔ ان پر عالمِ اسلام کی ساری بے چارگی اور بے بسی نمایاں تھی، اور اس کے پس منظر میں مسلمانوں کے خلاف مغربی طاقتوں کی جو سازشیں، جارحیت اور اسلام دشمنی کارفرما تھی، وہ ان سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ اپنی قوم کے سیاسی اور تہذیبی مسائل کو وہ ایک مفکر شاعر کی نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ قیام یورپ کے زمانے میں جہاں وہ 1905ء سے 1908ء تک اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے گئے تھے، ان کے مشاہدات نے ان کی فکر و نظر میں وسعت اور گہرائی پیدا کی تھی۔ ان کے خیال میں عالم اسلام کا انتشار اہلِ مغرب کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ مغربی طاقتوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا جائے اور انھیں متحد نہ ہونے دیا جائے۔ ان خیالات کے مطابق علامہ اقبال نے عالم اسلام کے اتحاد پر بہت زور دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے وطن پرستی کی شدید مذمت کی اور اسے سب سے تباہ کن اور مذہب کے منافی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ایک مسلمان وطن پرست نہیں ہوسکتا، خواہ اس کا وطن ایک مسلم ملک ہی کیوں نہ ہو۔ انھوں نے اس خیال کو بڑی شدومد کے ساتھ پیش کیا کہ مسلم ملّت زمان و مکان میں محدود نہیں ہے۔ دنیائے اسلام ناقابلِ تقسیم ہے اور مسلمان اپنے آپ کو ترکوں، عربوں، ہندوستانیوں، ایرانیوں اور افغانیوں میں تقسیم نہ کریں۔ وہ جہاں بھی ہیں ایک قوم ہیں، اور اس اعتبار سے دنیا میں صرف دو قومیں آباد ہیں، ایک مسلمان اور دوسری غیر مسلم۔ دنیائے اسلام کی طرح ہندوستان کے مسلمان بھی علامہ اقبال کو ان ہی امراض میں مبتلا نظر آئے، جن سے دنیائے اسلام کے دیگر مسلمان دوچار تھے۔ ان کے خیال میں یہ امراض بے عملی، محکومی اور وطن پرستی پر مشتمل تھے۔ ان کو اپنی قوم کی محکومی کا بھی شدید احساس تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا یہ احساس عام ہوجائے۔ چناںچہ ان کے پیغام کا بیشتر حصہ درسِ خودآگاہی،آزادی اور پیغام ِعمل پرمشتمل ہے۔
اقبال نے اپنا پیغام نظم اور نثر دونوں طریقوں سے پیش کیا، لیکن انھوں نے شاعری کے ذریعے بہت مؤثر کام لیا ہے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک زوال پذیر، مایوس اور محکوم قوم کو حرکت اور جدوجہد پر ابھارنے کے لیے فکری غذا کے ساتھ ساتھ جذباتی توانائی کی بھی ضرورت تھی۔ وقت کی ضرورت کے تحت محض عقل اور فکر کو مطمئن کرنا نہ تھا، بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ جذبات میں ہیجان پیدا کرکے اُس جمود کو توڑا جائے جو ملّت پر طاری تھا۔ ایک طویل عرصے سے ملّتِ اسلامیہ اپنے عقیدے پر تو قائم تھی مگر اس میں وہ حرکت و حرارت باقی نہ تھی جو انسان کو بے عملی اور مایوسی کے بجائے عمل اور جدوجہد سے آشنا کرتی ہے۔
اقبال نے اگرچہ شاعری کے ذریعے شہرت اور مقبولیت حاصل کی، لیکن شاعری میں محض تصوراتی اور خیالاتی اظہار کبھی ان کا مطمح نظر نہ رہا۔ ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خیالات میں انقلاب پیدا ہو۔ وہ چاہتے تو اپنا پورا وقت وکالت یا ملازمت میں بسر کرتے تو بلند مرتبے پر پہنچ جاتے اور زندگی عیش و آرام میں گزارتے۔ لیکن ملّتِ اسلامیہ کی بہبود کے جذبے نے انھیں اس طرف متوجہ نہ ہونے دیا۔ ہندوستان میں اسلام کا مستقبل انھیں پیہم مضطرب اور بے چین رکھتا تھا۔ سیاست میں ان کا نصب العین اسلامی مقاصد کے تحفظ اور مسلمانوں کی بہبود کے سوا کچھ نہ تھا، اور وہ بعض بنیادی مسائل میں اپنی فکر و رائے پر پوری استقامت کے ساتھ قائم رہے۔ جداگانہ انتخاب کے مسئلے کو، کہ مسلمان اپنے سیاسی اور قومی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے لیے اپنے نمائندے خود منتخب کریں، وہ مسلمانوں کی حیاتِ قومی اور ترقی کے لیے ضروری سمجھتے تھے اور ہمیشہ اس کے حامی رہے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے دستوری تجاویز ترتیب دینے کے لیے موتی لال نہرو (1889ء۔1964ء) کی سربراہی میں جو ’’نہرو رپورٹ‘‘ تیار کرائی تھی، اقبال نے اس کی مخالفت کی، کیوں کہ اس رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق کو مسلمانوں کے دیرینہ اور شدید مطالبے کے باوجود نظرانداز کردیا گیا تھا۔ چناں چہ اس مسئلے پر مسلمانوں کا مؤقف طے کرنے کے لیے منعقد ہونے والی ”کل جماعتی مسلم کانفرنس“ میں وہ شریک ہوئے اور مسلمانوں کے مطالبات کی ترتیب میں حصہ لیا۔ یہ فکرِ اقبال کے ایک نئے دور کا آغاز تھا، جس کا نتیجہ بعد میں ایک آزاد قوم اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کے تصور کی صورت میں نکلنے والا تھا، جو بالآخر اقبال کا مقصدِ اولیٰ بن گیا، کیوں کہ ان کے خیال میں ہر قوم کے لیے ایک ملک ضروری ہے۔ بعد میں ہندوستان میں اس خیال کو عملی صورت دینے کے لیے انھوں نے ایک انتہائی تعمیری انداز میں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ دسمبر1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لیے، جو الٰہ آباد میں منعقد ہوا، وہ صدر منتخب کیے گئے۔ اس موقع پر انھوں نے اپنا تاریخی اہمیت کا حامل مدلل اور مبسوط خطبہ پیش کیا، اور بعد میں بھی جب کبھی انھیں موقع ملا، وہ اپنے اس تصور کو وضاحت کے ساتھ پیش کرتے رہے، اور اس کے لیے وہ کہیں تحریر و تقریر اور کہیں اپنے مکاتیب کا وسیلہ بھی اختیار کرتے۔ ویسے قومی اور سیاسی مسائل کے تعلق سے ان کے خیالات کا ایک بڑا حصہ اُن تقریروں اور خطابات میں ملتا ہے جو انھوں نے مختلف جلسوں اور اجتماعات میں قوم کے سامنے پیش کیے تھے۔
ان کا یہ خطبۂ الٰہ آباد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اس لحاظ سے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں اقبال نے ایک ایسے موقع پر کہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کے قومی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے مختلف تجاویز پیش کی جارہی تھیں اور دستوری خاکے مرتب ہورہے تھے، بہت واضح اور مدلل انداز میں برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے قومی و ملّی مسائل کا جائزہ لیا تھا اور ان کے حل کے لیے اپنا تصور پیش کیا تھا۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے قومی اور سیاسی مسائل کا حل ان کی نظر میں صرف انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے ہی میں نہیں بلکہ ہندوستان میں ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام میں تھا۔ اپنے تاریخ ساز خطبے میں انھوں نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کو ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل قرار دیا۔ جس زمانے میں انھوں نے یہ تصور پیش کیا، وہ ہندوستانی سیاست اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ ہندوستانیوں کے سیاسی حقوق کے مسلسل مطالبوں کے نتیجے میں حکومتِ برطانیہ مختلف دستوری تجاویز مرتب کررہی تھی اوراس نے ایک برطانوی مدبر جان سائمن (John Simon)، (1873ء۔1954ء)کی سربراہی میں دستوری خاکہ مرتب کرنے کے لیے ایک مجلس، جوسائمن کمیشن (Simon Commission) کے نام سے مشہور ہوئی، ترتیب دی تھی، جس نے اپنی سفارشات حکومت کے سامنے پیش کردی تھیں، مگر ان کی روشنی میں عملی قدم ابھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔ ہندوستان کے دستوری مسائل حل کرنے کے لیے لندن میں برطانوی حکومت کی دعوت پر1930ء سے ”گول میز کانفرنس“ کے اجلاس منعقد ہورہے تھے، جن میں ہندوستانی قوموں کے نمائندے اور سیاسی جماعتیں شریک تھیں، لیکن ”انڈین نیشنل کانگریس“ اس کانفرنس سے لاتعلق رہی۔ وہ اس کانفرنس کی میز پر بیٹھ کر سیاسی مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے اور دستوری الجھنوں کو سلجھانے کے بجائے قانون شکنی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مصروف تھی۔ مسلمان بحیثیت قوم کانگریس اور اُس کی تحریک سے علیحدہ تھے، کیوں کہ کانگریس نے ’’نہرو رپورٹ‘‘ کو تسلیم کرکے اور مسلمانوں کے حقوق کو نظرانداز کرکے ان کے تعاون کو ٹھکرا دیا تھا۔ اس طرح برعظیم پاک و ہند کے بنیادی سیاسی حقوق کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر حکومتِ برطانیہ گول میز کانفرنس منعقد کررہی تھی اور کانگریس ہندو اکثریت کے غرور میں مبتلا ہوکر ’’ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے آزادی‘‘ کا اصول نظرانداز کررہی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندو مذہب اور ہندو تہذیب میں ضم کرنا، یا اکھنڈ بھارت تشکیل دینا تھا۔ یہ تحریکیں بڑے پیمانے پر اور جارحانہ انداز میں سرگرم تھیں۔ چناں چہ ایسی صورت حال میں انگریزوں اور ہندوؤں کے رویّے سے مجبور اور مایوس ہوکر ایک عرصے سے مسلمان اپنے لیے برعظیم میں ایک علیحدہ اور آزاد اسلامی مملکت کا خواب دیکھنے لگے تھے۔ اب ان میں ایسے تصورات عام اور مقبول ہورہے تھے کہ ہندوستان کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوجانا چاہیے۔ سیداحمد خان سے لے کر اقبال تک… اور پھر ان کے بعد بھی متعدد مسلمان رہنماؤں نے ایسے تصورات پیش کیے تھے جن کا مقصد مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنا تھا۔ اقبال کے تصور کے پیش کیے جانے تک ہندوستانی مسلمانوں میں ایک جداگانہ مسلم مملکت کے قیام کا تصور خاصا عام ہوچکا تھا، لیکن اقبال نے مسلمانوں کے تمام عمومی اور سیاسی تقاضوں کا جائزہ لیتے ہوئے بہت واضح اور مدلل انداز میں اپنے اس خطبے میں ایک علیحدہ مسلم مملکت کا ایک جامع تصور پیش کیا۔ اس اعتبار سے یہ پہلا مکمل تصور تھا، جسے مقبولیت اور اہمیت بھی حاصل ہوئی۔
اقبال کا یہ تصور اُن ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوا جو ایک عرصے سے ہندوستان میں اپنی ایک آزاد مملکت کا خواب دیکھ رہے تھے، اور ان کا وہ خواب ابھی غیر واضح تھا، اس تصور کے منظرعام پر آنے کے بعد اسے ایک واضح صورت مل گئی تھی۔ عام طور پر اس کا پُرجوش خیرمقدم کیا گیا۔ مسلمان اسے ایک نصب العین کی حیثیت دے کر اس کے حصول کے لیے مستعد ہوئے، اور اب برعظیم میں مسلمانوں نے جو جدوجہد اور تحریک شروع کی وہ صرف انگریزوں سے آزادی کے حصول کے لیے محدود نہ رہی، بلکہ اس کا عین مقصد مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت کا قیام بھی تھا۔