ایک شاعر نے سیّد علی گیلانی کو بہت خوبصورت اور شایانِ شان خراجِ تحسین پیش کیا ہے:
لہو میں بھیگے تمام موسم
گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے
وفا کے رستے کا ہر مسافر
گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے
سحر کا سورج گواہی دے گا
کہ جب اندھیرے کی کوکھ سے
نکلنے والے یہ سوچتے تھے کہ
کوئی بھی جگنو نہیں بچا ہے تو تم کھڑے تھے
تمھاری آنکھوں کے طاقچوں میں
جلے چراغوں کی روشنی نے
نئی منازل ہمیں دکھائیں
تمھارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے ولولوں کو نمود بخشی
تمھارے بھائی، تمھارے بیٹے،
تمھاری بہنیں، تمھاری مائیں،
تمھاری مٹی کا ذرّہ ذرّہ گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے
ہماری دھرتی کے جسم سے جب ہوس کے مارے
سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے تو تم کھڑے تھے
تمھاری ہمت، تمھاری عظمت اور استقامت
تو وہ ہمالہ ہے جس کی چوٹی تلک پہنچنا
نہ پہلے بس میں رہا کسی کے، نہ آنے والے دنوں میں ہوگا
سو آنے والی تمام نسلیں گواہی دیں گی کہ تم کھڑے تھے
سیّد علی گیلانی 27 ستمبر 1929ء کو ولر جھیل کے کنارے واقع ایک گاؤں زوری منس میں پیدا ہوئے۔ علی گیلانی کا نام کشمیر کی معروف روحانی شخصیت میر سیّد علی ہمدانی(1314ء -1387ء)کے نام پر رکھا گیا۔ ان کے والد سیّد پیر شاہ گیلانی معمولی یومیہ مزدور تھے، ماہوار دس روپے تنخواہ ملتی۔عسرت کی زندگی تھی۔ اَن پڑھ تھے مگر وسائل کی کمی کے باوجود بچّوں کو پڑھانے کے خواہش مند تھے۔ جیسے تیسے دونوں بیٹوں (علی گیلانی اور اُن کے بڑے بھائی سیّد میرک شاہ گیلانی) کو اسکول میں داخل کرا دیا۔ علی گیلانی سوپور ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ روزانہ 9میل پیدل چل کر اسکول پہنچتے اور پھر اسی طرح واپس، یعنی روز 18 میل سفر کرتے۔
معروف صحافی اور ادیب منشی محمد دین فوق(1877ء-1945ء) لاہور سے اپنے رشتے داروں سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ اُن کے مشورے سے علی گیلانی کو تعلیم کے لیے لاہور بھیج دیا گیا۔ بارہ تیرہ سال کی عمر تھی، فوق نے اپنے داماد کے ہاں علی گیلانی کے قیام کا انتظام کردیا۔ کہتے ہیں: ”وہاں پڑھائی کا انتظام تو نہ ہوسکا لیکن میں گھریلو نوکر کی حیثیت سے کام کرتا رہا“۔ علی گیلانی جب سوپور کے ہائی اسکول میں پڑھتے تھے تو علّامہ اقبال کی نظم ”پرندے کی فریاد“ اُنھیں یاد تھی۔ یہ اُن کے نصاب میں شامل تھی۔ گھر سے دوری، والدین کی جدائی اور ایک اجنبی ماحول میں بارہ، تیرہ سالہ لڑکا سخت پریشان تھا۔ فوق صاحب نے علی گیلانی کو پڑھانے کے لیے مبارک شاہ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ بُھلا دیا۔ چنانچہ گیلانی صاحب لکھتے ہیں: ”اس عرصے میں میرا کام صرف اور صرف اس نظم کا پڑھنا، مکان کے صحن یا چھت پر بیٹھ کر رونا یا آنسو بہانا تھا۔“
یہاں اُنھوں نے پوری نظم نقل کی ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں: ”مَیں یہ نظم پڑھتا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا تھا۔ مجھے ولر کے کنارے اپنی چھوٹی سی بستی یاد آتی تھی۔ عقب کی پہاڑی اور اُس پر کبھی کبھی زیرہ کی تلاش میں چکوروں کی طرح اُچھلنا کودنا، اپنے غریب والدین کی محبت، اُن کا پیار، میری جدائی میں اُن کا دکھ درد اور اُن کا آنسو بہانا… یہ سب کچھ مجھے بے حد اُداس اور غمگین بناتا تھا۔ مرحوم محمد دین فوق کی نواسیاں مجھے دلاسا دیتی تھیں۔ اُن کی بڑی بیٹی بھی اپنی اولاد کی طرح میری دیکھ بھال اور مجھ سے پیار کرتی تھی۔ لیکن مجھے اپنی تعلیم کے چھوٹ جانے اور گھر سے دور ہوجانے کا غم برابر اس طرح ستاتا اور بے چین رکھتا تھا جس طرح پرندہ قفس میں بند ہوکر اپنی فریاد کررہا ہو۔“(ص 24)
ایک سال کے بعد وہ تنہا لاہور سے بذریعہ ٹرین جموں پہنچے اور وہاں سے سری نگر اور سوپور سے ہوتے ہوئے گھر پہنچ گئے۔ سوپور میں اسکول میں دوبارہ داخلہ لے کر پڑھائی شروع کی۔
تقریباً دو تین سال بعد اپنے بھائی اور بہنوئی کی وساطت سے پھر لاہور پہنچے۔ اِس بار پیشِ نظر مقصد صرف حصولِ تعلیم تھا۔ مسجد وزیر خان میں حفظِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلی تین سورتیں یاد کرلیں۔ کچھ عرصے کے بعد آقا بیدار بخت خان کے پرائیویٹ کالج میں تعلیم پانے لگے۔ کہتے ہیں: ”اُنھوں نے بغیر کوئی فیس لیے مجھے اریب عالم میں داخلہ دے دیا۔ حالانکہ ابتدائی درجہ ادیب تھا۔“ تعلیم کے ساتھ ساتھ لاہور کے ادبی رسائل دیکھتے اور پڑھتے، ادبی محفلوں اور مشاعروں میں جاتے، انجمن حمایت اسلام کی ہر تقریب میں شریک ہوتے۔ یوں اُن کے ذوق کی تسکین ہوتی رہی۔ آقا بیدار بخت نے اُنھیں کلاسیکی شاعری پڑھائی۔ اقبالیات کا درس اُنھوں نے اسی کالج کے ایک استاد پروفیسر عاشق حسین سے لیا۔ لکھتے ہیں: ”بانگِ درا، ضربِ کلیم اور بالِ جبریل درساً پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ اقبال اللہ کی طرف سے پوری ملّتِ اسلامیہ کے لیے ایک انعام تھا۔ کاش ملّت اس انعامِ الٰہی کی قدر کرتی تو آج کے زوال، انحطاط اور اِدبار سے محفوظ ومامون رہتی۔“(ص 26)
لاہور کے اِسی قیام کے زمانے میں وہ اقبال کی تربت پر جاتے اور اپنے بقول ”قلبی سکون اور طمانیت حاصل کرتے۔“ حالانکہ کہتے ہیں کہ مَیں اقبال کے مرتبے اور مقام سے بالکل بے خبر اور نابلد تھا۔
آزاد کشمیر کے ایک سیاست دان نے لکھا ہے کہ علی گیلانی اسی قیامِ لاہور کے زمانے میں علّامہ اقبال سے متعارف ہوئے اور اُن کی مجالس سے اکتسابِ فیض حاصل کیا (92 نیوز، 2 ستمبر 2021ء)۔ خیال رہے کہ اقبال کی وفات کے وقت گیلانی کی عمر نو برس تھی، اِس لیے اقبال کی مجالس اور ان سے اکتسابِ فیض کی بات درست نہیں۔
آزادیِ کشمیر کے لیے علی گیلانی کی جدوجہد، تحرّک، بے خوفی، جرات مندی اور اپنے مؤقف پر استقامت ان کی زندگی کے روشن عنوانات ہیں۔ وہ حریت اور مزاحمت کا ایک روشن استعارہ تھے۔ اُن کی ساری جدوجہد نظریاتی تھی اور قوم پرستی سے اُنھیں کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے: ”اسلام کی نسبت سے، اسلام کے تعلق سے، اسلام کی محبت سے، ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔“ (بحوالہ اوریا مقبول جان، 92 نیوز، 3 ستمبر 2021ء)
آصف محمود لکھتے ہیں: ”سابق وزیرِ خارجہ عبدالستار کہا کرتے تھے کہ یہ تو ہوسکتا ہے کبھی میں اپنی پاکستانیت پر بھی شک کرنے لگوں، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ میں ایک لمحے کو بھی علی گیلانی کی پاکستانیت پر شک کرنے کا خیال بھی دل میں لاؤں۔ عبدالستار وہ سفارت کار تھے جو دو مرتبہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔ سیکرٹری خارجہ بھی رہے اور وزیرِ خارجہ بھی۔ وہ اگر یہ گواہی دیتے تھے تو یہ محض حسنِ ظن میں لپٹا مبالغہ نہیں تھا، یہ ایک جہاندیدہ سفارت کار کا مشاہدہ تھا“(92 نیوز، 3ستمبر 2021ء)۔ علی گیلانی نے اپنے محبوب پاکستان کے بارے میں فرمایا: ”ہم پاکستان کے حکمرانوں سے بھی، سیاسی قیادت سے بھی اور وہاں کے عوام سے بھی یہ مطالبہ کریں گے کہ پاکستان اسلام کے لیے حاصل کیا گیا ہے اور اس کو اسلام کے لیے ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔“ کشمیر کی آزادی کے لیے وہ اپنے مؤقف پر بڑی جرات سے ڈٹے رہے۔ کشمیر کی حریت کانفرنس کے دوسرے لیڈر کئی بار مصالحت کے لیے تیار ہوگئے، مگر کشمیری عوام صرف اور صرف علی گیلانی کی آواز سنتے تھے۔
ارشاد محمود لکھتے ہیں: ”کوئی دس برس پہلے کی بات ہے کہ بنکاک میں کشمیر پر ایک کانفرنس تھی، کشمیر کے سیاسی مستقبل پر گرما گرم بحث ہورہی تھی۔ کچھ شخصیات کا کہنا تھا کہ فاروق عبداللہ، مفتی محمد سعید اور میر واعظ عمر فاروق کسی ایک نکتے پر متفق ہوجائیں تو یہ قصّہ تمام ہوسکتا ہے۔ ایک کشمیری پنڈت نے جو فاروق عبداللہ کے قریبی تھے، کہا: ”کیوں اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہو! علی گیلانی ہڑتال کی کال دیتا ہے تو کالا کتا بھی گلی میں نہیں نکلتا۔ انھیں مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کی راہ تلاش کرو۔“
غالباً 2005ء میں جنرل پرویزمشرف کوئی فارمولا لے کر دہلی گئے۔ حسبِ پروگرام وہ پاکستان ہاؤس (سابق رہائش گاہ، لیاقت علی خان) پہنچے۔ افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ ”طاقت کے نشے میں سرشار پرویزمشرف نے گیلانی صاحب کے وفد میں شامل دیگر اراکین سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا“ (92 نیوز، 9 ستمبر 2021ء)۔ بہرحال علی گیلانی سے ملاقات ہوئی۔ کشمیر کے مسئلے پر جنرل پرویزمشرف غالباً بھارت سے مصالحت کرنا چاہتے تھے۔ علی گیلانی تو استصوابِ رائے سے کم کسی مصالحت پر کبھی تیار نہ ہوئے۔ دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ جنرل کو اپنے بااختیار ہونے کا زعم تھا مگر علی گیلانی کو اس کی پروا نہ تھی۔ وہ شدید غصے کی حالت میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور باہر چلے گئے۔ جنرل پرویزمشرف گیلانی سے ناراض ہوگئے۔
علّامہ اقبال کی معروف نظم ہے: ”حضورؐ رسالت مآب میں“۔ اس میں اقبال تخیلاتی طور پر دنیائے فانی سے رخصت ہوکر جب عالمِ تصوّر میں دربارِ رسالتؐ میں پہنچتے ہیں تو آنحضورؐ اُن سے پوچھتے ہیں:
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تُو آیا؟
علی گیلانی عمر بھر کی جدوجہد و کاوش کے بعد اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ فرشتے جب اُنھیں دربارِ رسالت میں لے گئے ہوں گے تو آپؐ نے پوچھا ہوگا: کیا تحفہ لے کے تُو آیا؟ علی گیلانی (بقول اقبال) عرض کریں گے:
حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے، وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اِس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری امّت کی آبرو اِس میں
”کشامرہ“ کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں
موضوع کوئی بھی ہو، گیلانی صاحب اپنی تحریروں میں اسلام، امتِمسلمہ، کشمیر اور پاکستان کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں اور صورتِ حال کو اس تذکرے سے مربوط کرکے پیش کرتے ہیں۔ مقصود اس سے مسلمانوں اور مسلم حکومتوں کو جھنجھوڑنا ہوتا ہے۔ ذیل کے چند اقتباسات سے اِس کا اندازہ ہوگا:
”سعودی عرب کی پوری سرزمین اسلامی شعائر اور خدوخال سے مزین ہے اور قدم قدم پر روح پرور مناظر باصرہ نواز ہوجاتے ہیں۔ کاش اس سرزمین پر خلافت کا نظام قائم ہوتا اور یہ اسلام کے عادلانہ اور منصفانہ نظامِ زندگی کا علَم بردار بن کر پوری دنیا کے لیے ہدایت و راہ نمائی کا مرکز، مصدر اور منبع ثابت ہوجاتا، تاکہ موجودہ دنیا جارحانہ طاقتوں کی رزم آرائی، توسیع پسندانہ عزائم کی آماج گاہ اور انسانی خون کی ارزانی کا میدان نہ بنتی۔ پوری انسانی برادری کی بالعموم اور امتِ مسلمہ کی بالخصوص حرماں نصیبی ہے کہ 57 ممالک میں سے کہیں بھی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کانظام قائم نہیں ہے۔ واحسرتا!
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے“
(ولّر کنارے سوم، ص 418-419)
”میں نے او آئی سی کے ذمہ داروں کو احساس دلایا کہ یہ آرگنائزیشن پوری ملّت کی ترجمان ہے۔ پوری ملّت جس صورتِ حال سے اِس وقت دوچار ہے، اس آرگنائزیشن کو اس صورتِ حال کا نہایت سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر اقدامات کرنے چاہیے تھے، مگر ایسا نہیں ہورہا ہے۔ او آئی سی بھی عالمی طاقتوں کے اثر میں ہے اور وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کر پا رہی ہے جو عالمی طاقتوں کے مفادات اور اُن کے جارحانہ اور اسلام دشمن اقدامات کا توڑ کرسکے۔ او آئی سی نے ”بغیر دانت کے شیر“(Toothless Tiger)کی حیثیت اختیار کررکھی ہے۔ یہ اپنی نمائندہ حیثیت کو منوانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ فلسطین، عراق، افغانستان، جموں وکشمیر، چیچنیا اور دوسرے ممالک جہاں مسلمانوں کے پیدائشی اور بنیادی حقوق پامال کیے جارہے ہیں مگر OICاُن کی کوئی مدد نہیں کررہی ہے۔“ (ولّر کنارے سوم، ص420)
”رسولؐ کا اسوۂ حسنہ فرد، معاشرے اور نظام کے لیے ہر حیثیت اور ہر جہت سے باعثِ فلاح و کامرانی ہے۔ امتِ مسلمہ کی حرماں نصیبی اور زبوں بختی ہے کہ اس نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس بہترین نمونۂ عمل کو ترک کرکے اپنے آپ کو ایک محدود دائرے تک محدود کرلیا ہے۔ پوری دنیا میں اس کے زوال، انحطاط، اِدبار، ذلّت، محکومی و غلامی کی یہی بنیادی وجہ اور سبب ہے:
بہ مصطفےٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است“
(اقبال: روحِ دین کا شناسا، ص 66)
”مردِ حق، تیری پہچان اور ایمان رکھنے والا، حق پسند مسلمان جو روشن نفس تھا اور جس کو تُو نے اس دُنیا میں اپنا نائب اور خلیفہ بنایا تھا، وہ اب نہیں ہے۔
وہ سونا، چاندی، فرزند اور زن کی محبت میں گرفتار ہوچکا ہے۔ وہ اپنا منصب اور مقام بھول چکا ہے۔ اس کا سینہ بے سوز اور اس کی روح مُردہ اور بے خروش ہے۔ وہ اسرافیل ہے مگر اس کا صُور خاموش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ دُنیا میں صالح انقلاب لانے کا مکلّف اور ذمہ دار تھا، مگر وہ دُنیا پرست اور شکم پرست بن کر اپنا کام اور منصب بھول چکا ہے۔“(اقبال: روحِ دین کا شناسا، ص 126)
(باقی صفحہ 41پر)
”60،62 سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو مسئلۂ کشمیر کا کوئی مستقل اور پائے دار حل تلاش کیا جا سکا ہے، نہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پائے دار اور حقیقی امن کی بنیادیں ہی رکھی جاسکی ہیں۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنائے جانے کے بعد بھی امن و آشتی اور دوستی و برادری کا وہ ماحول دیکھنے میں نہیں آرہا ہے، جس کی تینوں ملکوں کے عوام کو ضرورت تھی۔ اس ساری صورتِ حال کی وجہ صرف اور صرف مسئلۂ کشمیر ہے۔ بھارت طاقت کی بنیاد پر جموں و کشمیر پر قابض ہے۔ خطے کے عوام کی اکثریت اور نہ پاکستان ہی اس جبری قبضے کو تسلیم کرتے ہیں، اور جب تک بھارت قومی اور بین الاقوامی سطح پر کیے گئے وعدوں کو ایفا کرتے ہوئے، حقِ خودارادیت کی بنیاد پر اس رستے ناسور کو مندمل کرنے کا اقدام نہیں کرے گا، اُس کا قبضہ غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر جمہوری، غیر انسانی ہی رہے گا اور اس کے خلاف مزاحمت ہمیشہ باقی رہے گی، ان شاء اللہ!
دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند“
(اقبال: روحِ دین کا شناسا، ص 169-170)
علی گیلانی کے عرصۂ حیات کا تقریباً ایک چوتھائی زمانہ پسِ دیوارِ زنداں گزرا۔ جدوجہد آزادی کے لیے برعظیم کے بہت سے راہ نماؤں نے جیل کاٹی مگر اتنا طویل عرصہ اور رونگٹے کھڑے کردینے والا اذیتوں بھرا زمانہ کم ہی لیڈروں نے سلاخوں کے پیچھے گزارا ہوگا۔ اس کی تفصیل اُن کی آپ بیتی ”ولّر کنارے“ میں ملتی ہے۔
وہ تو اپنے رب کے پاس چلے گئے، مجاہدینِ آزادی کے کاروانِ عزیمت میں اُن کی جگہ لینے والا کون ہوگا؟ ہمیں نہیں معلوم، مگر اللہ کی قدرت سے بعید نہیں کہ وہ اسی قافلے کی صفوں سے گیلانی کی مانند کوئی اور راہ نما کھڑا کردے۔ خدا کرے ایسا ہو، آمین۔