دبئی کے میدان میں ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم نے بھارت کو بری طرح شکست سے دوچار کیا تو حالات کی ستائی ہوئی پاکستانی قوم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل گئی اور اسے کھل کر جشن منانے کا موقع ملا۔ پوری قوم سجدئہ شکر بجالائی۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو منانے کا یہ انداز مثبت رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔ بلاشبہ کرکٹ ٹیم اس شاندار کارکردگی پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ پاکستان کی اس فتح کا سب سے زیادہ، نمایاں اور خوبصورت جشن9 لاکھ بھارتی فوجیوں میں گھری ہوئی وادیِ کشمیر میں منایا گیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ کشمیریوں نے اپنی نبضیں ٹی وی سیٹس پر ٹیون کر رکھی تھیں، اور پاکستانی ٹیم کی ہر کامیابی ان دھڑکنوں کو تیز، اور ہر کمزوری دھڑکنوں کی رفتار سست کرتی تھی۔ پاکستان کی جیت ہوئی تو کشمیری نوجوان بے ساختہ گھروں سے باہر نکل آئے اور پٹاخوں، ”جیوے جیوے پاکستان“ اور ”وی وانٹ فریڈم“ کے نعروں کے ساتھ پاکستانی جھنڈے لہراکر اپنے جذبات کا اظہار کرنے لگے۔ بدترین محاصرے اور دوسال کی تالہ بندی کا شکار جامع مسجد کے گرد و نواح سری نگر کے ڈائون ٹائون میں آتش بازی کا ایک فقیدالمثال مظاہرہ کیا گیا۔ میڈیکل کالج کے طلبہ و طالبات نے اس فتح کا جشن مناکر مزاحمت کو نیا رنگ و آہنگ بخشا۔ کشمیری نوجوان جہاں بھی تھے، بے ساختہ اس فتح کا جشن منانے لگ گئے، جس پر ایک بھارتی خاتون نے پھبتی کسی کہ کشمیریوں نے پاکستان سے زیادہ پاکستان کی فتح کا جشن منایا۔
کشمیر میں یہ جشن اُس وقت برپا ہوا جب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ سری نگر میں موجود تھے اور اس موقع پر بہت سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔ چند دن پہلے سات سو ایسے فعال نوجوانوں کو گھروں سے اُٹھاکر جیلوں میں ڈالا گیا تھا جن پر یہ شبہ تھا کہ کسی بھی احتجاج میں نمایاں اور سرگرم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کشمیری نوجوانوں نے باہر نکل کر اپنا فیصلہ سنادیا کہ اُن کے دل اور جذبات دہلی کے ساتھ وابستہ نہیں۔ 5 اگست 2019ء کے بعد یہ کشمیریوں کا باہر نکل کر اپنے جذبات کے اظہار کا پہلا پُرزور اور پُرشور اظہار تھا۔ بھارت نے کشمیر کے عارضی سکوت سے یہ سمجھ لیا تھا کہ کشمیریوں نے پانچ اگست کے یک طرفہ اقدام کے آگے سرجھکا دیا ہے۔ وقت نے اس تاثر کو پٹاخوں کی روشنیوں کے ساتھ ہی ہوائوں میں تحلیل کردیا۔ ثابت یہ ہوا کہ کشمیری آج بھی آزاد منش ہیں اور ان کا جذبہ ٔ آزادی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا ہے۔ جب بھی انہیں جذبات کے اظہار کا موقع ملے گا وہ بھارت کے خلاف عوامی ریفرنڈم میں اپنا فیصلہ سناتے رہیں گے۔ امیت شاہ نے کشمیری نوجوانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا، کشمیری نوجوانوں نے دستِ قاتل پر بیعت سے انکار کرکے اُسی شام اپنا فیصلہ سنادیا۔
بھارت کی ہندو توا ذہنیت نے کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم کی جیت کا جشن منانے والے کشمیری طلبہ کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈائون اور معاندانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے میچ کے نتیجے پر کشمیریوں کا ردعمل قطعی طور پر ’’فعلِ معکوسہ‘‘ یعنی کسی منصوبہ بندی اور طویل سوچ بچار کے بغیر فوری اور فطری ردعمل تھا۔ ردعمل کا یہ انداز کشمیر کی روایت اور کشمیریوں کی ریت ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں پاکستان اور بھارت کی معرکہ آرائی کھیل کے میدان میں ہو یا جنگ کے محاذ پر… کشمیریوں کا فطری ردعمل یہی رہا ہے۔ انہوں نے خود کو ہمیشہ لکیر کی اُسی سمت میں کھڑا کیا ہے جس میں کشمیری نوجوان میچ میں پاکستان کی جیت کے بعد کھڑے نظر آئے۔ ڈائون ٹائون میں ہونے والا آتش بازی اور نعرے بازی کا مظاہرہ اور تعلیمی اداروں میں ہونے والا جشنِ مسرت تاریخ کے ایک تسلسل کا حصہ ہے۔ 2003ء میں دہلی کے ایک سفر کے دوران مَیں دہلی کے وسط میں چانکیہ پوری علاقے کے یوتھ ہاسٹل میں مقیم تھا جہاں جموں کے ایک معروف سماجی کارکن بھی ٹھیرے ہوئے تھے جو خود کو گاندھین کہلاتے تھے۔ ایک شام میں نے اُن سے مہاراجا کشمیر ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ سے انٹرویو کرانے کی خواہش ظاہر کی۔ ڈاکٹر کرن سنگھ کی رہائش گاہ یوتھ ہاسٹل سے تھوڑی سی دوری پر تھی۔ ایک سہ پہر ہم یوتھ ہاسٹل سے واک کرتے ہوئے ڈاکٹر کرن سنگھ کی رہائش گاہ پر پہنچے، جہاں کشمیر پولیس کا کڑا پہرہ تھا۔ ڈاکٹر کرن سنگھ گردوں کے آپریشن کے باعث ہسپتال میں تھے مگر یہاں جموں کے ہندو اور حفاظت پر مامور کشمیری ہندو پولیس کے اہلکار کے درمیان دلچسپ نوک جھونک ہوئی۔ جموں کے ڈوگرہ ہندو نے کشمیر کے ہندو پولیس اہلکار کے ہاتھ میں رائفل پر طنز کیا ”اوئے تم لوگوں نے بھی بندوق اُٹھانا سیکھ لیا! چلانی آتی ہے یا نہیں؟“ جس پر کشمیری پنڈت نے جواب دیا ”صاحب آپ جموں والے تو ہمیشہ مزے کرتے رہے، ہم وادی والوں سے پوچھو کہ ہم پر کیا گزرتی رہی، پاکستان کرکٹ میچ جیت جاتا تھا تو شیشے ہمارے گھروں کے ٹوٹتے تھے“۔
صرف اتنا ہی نہیں، تاریخ کے ہر دور میں کشمیریوں نے خود کو بھارت کے ساتھ کھڑا کرنے کے بجائے پاکستان کے ساتھ کھڑا کیا ہے۔ کچھ یہی اِس بار ہوا کہ بھارت سے ناراض اور نالاں کشمیری نوجوانوں نے پاکستان کی جیت کا جشن منایا، جسے بھارت کی ہار کا جشن بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے دوسرے ہی روز مظاہرے کرکے ایسے تمام نوجوانوں کے خلاف کارروائی کے مطالبات دہرانا شروع کردیے، جس کے بعد سری نگر کے دو میڈیکل کالجوں گورنمنٹ میڈیکل کالج اور شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے طلبہ و طالبات کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ آگرہ میں انجینئرنگ کے تین طلبہ کو گرفتار کرکے ادارے سے نکال دیا گیا۔ ان کشمیری طلبہ کے خلاف بجرنگ دل کے کارکنوں کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا، جبکہ ادارے کی انتظامیہ نے کالج میں داخل ہونے والے بیرونی عناصر کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کے اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے کہ پاکستان کی کامیابی کا جشن منانے والوں کے خلاف غداری کے مقدمات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ بھارت کی ان کارروائیوں پر کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اہم تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری طلبہ کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے بھارتی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ نوجوان اپنی شناخت بھارت کے بجائے پاکستان کے ساتھ کیوں ظاہر کرنا چاہتے ہیں؟ محبوبہ مفتی کا یہ سوال بھارت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بھارت کشمیری نوجوانوں کے خلاف کارروائی کرکے کشمیریوں کے غصے، ناراضی اور نفرت میں اضافہ کررہا ہے۔ یوں بھارت حماقتوں کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔