حکیم الاُمت ڈاکٹر محمد اقبال نے مصورِ پاکستان، حضرت قائداعظم نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے بانی اور قابلِ فخر سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مملکتِ خداداد کی ایٹمی طاقت کے معمار کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر ان مِٹ نقوش ثبت کر دیے ہیں جو آنے والی نسلوں کو تازہ بستیاں آباد کرنے کا حوصلہ بخشتے رہیں گے۔ عبدالقدیر خان وسطی ہندوستان میں مسلم تہذیب اور علوم و فنون کی گہوارہ بھوپال ریاست کے ایک متوسط اور دیندار گھرانے میں یکم اپریل 1936کو پیدا ہوئے۔ انٹرنس کا امتحان پاس کرکے وہ 1952میں ایک چھوٹے سے قافلے کے ہمراہ پاپیادہ پاکستان پہنچے۔
کراچی میں اُنہوں نے سندھ کے معروف ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا اور تعلیم کے دوران ایک ایسے تجربے سے روشناس ہوئے جس کے اثرات اُن کی پوری زندگی پر حاوی رہے۔ کالج کے عقب میں اسلامی جمعیت طلبہ کا دفتر تھا جو اُن دنوں سوچنے سمجھنے والے طالبِ علموں کی ایک علمی اور اخلاقی تحریک تھی۔ دفتر میں ایک اچھا دار المطالعہ بھی تھا جس میں درسی کتابوں کے علاوہ دینی لٹریچر بھی دستیاب تھا۔ مطالعے کا شوق اور مذہبی رجحان نوجوان عبدالقدیر خان کو جمعیت کے دفتر میں لے آیا اور یہ معمول بن گیا کہ وہ کالج سے فارغ ہوتے ہی دارالمطالعہ میں آ بیٹھتا، کتابیں پڑھتا رہتا اور جمعیت کی صحت مند سرگرمیوں میں بھی حصّہ لیتا۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب جمعیت کے ساتھ اپنے اِس تعلق کا مختلف تقریبات میں ذکر کرتے رہے۔ اُن دنوں خورشید احمد اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمِ اعلیٰ تھے جو عملی زندگی میں پروفیسر خورشید احمد کی باوقار شخصیت کی صورت میں نمودار ہوئے۔ وہ آج کل لیسٹر (Leicester) برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ میں نے اُنہیں فون کیا اور پوچھا کہ طالبِ علمی کے زمانے میں نوجوان عبدالقدیر خان کے جمعیت کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا تھی؟ اُنہوں نے تفصیل سے بتایا کہ عبدالقدیر خان جمعیت کے رکن تھے اور اُس کے ترجمان ہفت روزہ ’اسٹوڈنٹس وائس‘ کی اشاعت بڑھانے میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ اُنہوں نے سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن کا باقاعدگی سے مطالعہ کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے باہمی مراسم گہرے ہوتے گئے۔ پھر ناگاہ ڈاکٹر صاحب پر اُفتاد آن پڑی۔ میں اُن دنوں سینیٹر تھا اور میں نے اُن کا ایشو متعدد بار سینیٹ میں اُٹھایا۔ اِسی اعتماد کی بدولت وہ مجھے ایسے خطوط بھی لکھتے رہے جن میں انتہائی حساس موضوعات اور معلومات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔بی ایس سی کا امتحان اچھی پوزیشن میں پاس کرنے کے بعد نوجوان عبدالقدیر خان سندھ کے محکمۂ ناپ تول میں انسپکٹر بھرتی ہو گئے اور ساتھ ہی ایم ایس سی میں داخلے کیلئے جرمنی کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی میں درخواست بھیج دی۔ ایک سال بعد جواب آیا کہ ایم ایس سی میں داخلہ منظور ہو گیا ہے اور تمہارے تعلیمی ریکارڈ کی بنیاد پر اسکالرشپ کی پیشکش بھی کی جاتی ہے۔ وہ بےسروسامانی کی حالت میں وطن سے باہر گئے اور علم کی لازوال دولت سے مالامال ہو کر واپس آئے۔ اُنہوں نے جرمنی سے ایم ایس سی اوربلجیم کی ایک عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کیا۔ اُنہیں ہالینڈ میں اُس لیبارٹری میں ایک معقول ملازمت مل گئی جہاں یورینیم کی افزودگی کے تجربات ہو رہے تھے۔ یہ وہ پُرآشوب زمانہ تھا جب بھارت نے پاکستان کو دولخت کر کے 1974میں ایٹمی دھماکے بھی کر دیے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان میں یہ احساس غیرمعمولی شدت اختیار کرتا گیا کہ اگر پاکستان نے آئندہ آٹھ دس برسوں میں ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کی تو بھارت ہمارے وجود پر کاری ضرب لگا سکتا ہے۔ وہ یہ احساس وزیرِاعظم زیڈ اے بھٹو تک پہنچانا چاہتے تھے۔ ہالینڈ میں پاکستانی سفارت خانے نے ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے اُن کا خط وزیرِاعظم تک پہنچایا جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کو فوری طور پہ پاکستان آنے کی دعوت دی۔ حُسنِ اتفاق سے چند سال قبل ہی ڈاکٹر صاحب کی ہالینڈ کی ایک خاتون ہینی خان سے شادی ہو چکی تھی جس میں قدرت اللہ شہاب گواہ کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ اُن کی اہلیہ ہالینڈ میں ڈاکٹر صاحب کی ڈھال بھی ثابت ہوئیں اور اُنہیں پاکستان کیلئے کوئی بہت بڑا کام کرنے کی ڈھارس بھی بندھاتی رہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں 1976میں پاکستان آ گئے اور بھٹو صاحب نے ایٹمی پروجیکٹ فوج کے انتظام و انصرام میں دے دیا۔ اُس وقت جنرل ضیاء الحق آرمی چیف تھے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے بڑی پامردی سے عالمی دباؤ کا مقابلہ کیا اور وسائل میں کمی نہیں آنے دی۔ جناب غلام اسحٰق خان کا کردار بھی قابلِ رشک رہا۔ اِس دوران پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز(پائنا) کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ’مین آف دی نیشن‘ ایوارڈ دینے اور سونے کا ہار پہنانے کا فیصلہ کیا۔ اِس مقصد کیلئے 9ستمبر 1990کی دوپہر الحمرا لاہور میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس کی روداد ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ کے نومبر کے شمارے میں شائع ہوئی۔ میرے خطبۂ استقبالیہ کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہوشربا انکشافات کیے۔ میں کھانے کی میز پر اُن کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اُن پر ایک عجب سرشاری طاری تھی۔ اُنہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے تین خصوصی نعمتوں کا ذکر کیا جو ربِ کریم کی طرف سے اُن کے اور پاکستان کے حصے میں آئی ہیں۔ پہلی یہ کہ اُنہیں سید مودودی کا لٹریچر پڑھنے کا موقع ملا جس نے اُنہیں اسلام کی انقلابی روح سے روشناس کیا اور اُن کے شعور کے اندر یہ اٹل حقیقت جاگزیں کر دی کہ سرورِ کونین حضرت محمدﷺ اِس دنیا کے عظیم ترین لیڈر ہیں اور اُن کے اسوۂ حسنہ پر چلنے ہی میں انسانیت کی فلاح ہے۔ دوسری نعمت یہ کہ اُنہیں اپنی زبان اُردو پر اِس قدر دسترس حاصل ہو گئی تھی کہ اُنہیں سائنسی تصورات کی صورت گری میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ تیسری نعمت یہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ہزاروں سائنس دانوں، انجینئروں، فوجی افسروں اور جوانوں کی شبانہ روز کوششوں سے پاکستان ایٹمی طاقت کے درجے پر پہنچ گیا ہے۔ اُنہوں نے یہ اعلان ایٹمی دھماکوں سے کوئی آٹھ سال قبل کیا تھا اور ہماری آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے تھے۔
پائنا کی تقریب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے واضح اشارہ دے دیا تھا کہ ہمالیہ جیسی مشکلات کے باوجود پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا ہے اور اِس ناممکن کام کی تکمیل میں تمام ریاستی اداروں اور سیاسی حکومتوں نے تعاون کیا۔ سرِعام اِس کھلے بیانِ حقیقت کے باوجود ہم یہ تلخ حقیقت نظرانداز نہیں کر سکتے کہ جب نوازشریف کے دورِ حکومت کے دوران مئی 1998ء میں بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں میں مشاورت ہوئی کہ ہمارا رسپانس کیا ہونا چاہیے۔ اُس مشاورت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان شامل نہیں کئے گئے جن کی بےمثال ذہنی صلاحیتوں اور نادر سائنسی تجربات کے بغیر پاکستان ایٹمی طاقت بن ہی نہیں سکتا تھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جس صبح چاغی پہاڑوں میں پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے، اُس سے ایک شام پہلے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قدِآدم پوسٹر لگے ہوئے تھے جن میں ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے سر ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا سہرا باندھا گیا تھا۔ اِس سے بھی زیادہ تعجب انگیز یہ بات تھی کہ چاغی میں ایٹمی دھماکوں کے وقت جو تقریب منعقد ہوئی، اُس میں بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سینکڑوں سرکاری ملازمین کے ساتھ سی۔130 میں ایک سامع کے طور پر لائے گئے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان یہ تمام اعصاب شکن وارداتیں کمال تحمل سے برداشت کر گئے، مگر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اُن پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ کرنل قذافی کے صاحبزادے نے یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستان نے ہمیں ایٹم بم دیئے ہیں۔اِس پر عالمی طاقتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا تیاپانچہ کرنے کے لیے فعال ہو گئیں۔ تب ڈاکٹر صاحب پر دباؤ ڈال کر اُنہیں ناکردہ جرائم کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اسلام آباد میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں پورے ملک سے صحافی مدعو کیے گئے تھے۔اُن کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحب نے اپنا معافی نامہ پڑھا جو حکومت کے فراہم کردہ معافی نامے سے مختلف تھا۔ اُنہوں نے ملکی مفاد میں تمام الزامات اپنے سر لے لیے تھے۔ اِس واردات کے مناظر سے ہمارے کلیجے منہ کو آرہے تھے۔ قوم کے ہیرو کو جس نے عوام کا خواب حقیقت میں ڈھال دیا تھا اور پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیا تھااُسے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنے عزیز وطن کی خاطر اُس مشکل مقام سے بھی آگے گزر گئے، لیکن حکمرانوں کی ایذا رَسانی کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ اب عالمی دنیا کی نظر میں وہ ایک مجرم تھے جو ایٹمی پھیلاؤ کا باعث بنےتھے۔ اُن کی حفاظت بلاشبہ حکومت کی ذمےداری تھی مگر اِس ’’ذمےداری‘‘ کے نام پر حکمرانوں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ وہ اٹھارہ سال آزادی کی نعمت سے محروم رہے۔ اُن کے اہلِ خانہ بڑی بڑی اذیتوں سے گزرتے اور ڈاکٹر صاحب مالی مشکلات سے دوچار ہوتے رہے۔ حکمرانوں کی دلآزار تحریروں کے مقابلے میں ڈاکٹر صاحب کے دفاع میں اور اُن کی شخصیت کے اعلیٰ اوصاف کے بیان میں اہلِ دانش نے اچھی کتابیں لکھیں اور نوجوانوں کو جب کبھی موقع ملا وہ اپنے قومی ہیرو کی راہ میں آنکھیں بچھائے دیتے تھے۔
جگر پاش پاش کر دینے والا واقعہ 10؍اکتوبر 2021ءکو اُس وقت پیش آیا جب ڈاکٹر صاحب اِس دنیا کی عقوبتوں سے نجات پا کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ حکومت کی طرف سے اعلان ہوا کہ نمازِ جنازہ فیصل مسجد میں پڑھائی جائے گی اور اُن کی تدفین ریاستی اعزاز کے ساتھ کی جائے گی۔ سہ پہر کو لاکھوں لوگ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے جمع ہو گئے جبکہ چھاجوں بارش ہو رہی تھی۔ اِس قدر اَژدھام کے باوجود ہال کے لاؤڈاسپیکر بند رکھے گئے جس کے باعث نمازِ جنازہ بڑی افراتفری میں ادا ہوئی۔ سب سے ناقابلِ تصور یہ واقعہ پیش آیا کہ وزیرِاعظم اور قائد حزبِ اختلاف غائب تھے، البتہ وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور جناب لیاقت بلوچ کی قیادت میں جماعتِ اسلامی کا وفد شامل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی بیماری کے دوران حکومت نے خبرگیری کا رسمی طریقہ بھی اختیار نہیں کیا۔ اِن رویوں اور ان مناظر سے زخم گہرے ہوتے گئے ۔ ڈاکٹر عبدالکلام کی میت جب دیدارِ عام کے لیے لائی گئی، تو بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی اپنی پوری کابینہ کے ساتھ ہاتھ جوڑے میت کے چرنوں میں کھڑے رہے تھے۔
حکمرانوں کے اِن دل شکن رویوں کے مقابلے میں عوام نے اپنے ہیرو سے غیرمعمولی محبت کا اظہار کیا۔ اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ قریےقریے پڑھی گئی۔ تاریخ کے اِس نابغہ روزگار کردار کی یادوں کی خوشبو صدیوں تک پھیلتی رہے گی۔ اللّٰہ تعالیٰ اُنہیں جنت میں بہت بلند مقام عطا کرے اور اُن کے پس ماندگان کو صبرِ جمیل سے سرفراز فرمائے! ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا سب سے اعلیٰ وصف یہ تھا کہ وہ لوگوں کی عزتِ نفس کا خاص خیال رکھتے اور اُن کے دکھ کم کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ نظربندی کے زمانے میں وہ تواتر کے ساتھ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے اور اَہلِ وطن کی فکری رہنمائی کرتے رہے۔ اُن کے بیشتر کالم اسلامی تعلیمات اور اِسلامی تاریخ کے عظیم واقعات پر مبنی ہوتے۔ اُن کی تحریروں سے امید کے چراغ روشن رہتے۔ اُن کے مزاج میں بڑی شائستگی اور تہذیبی رچاؤ تھا۔ سائنس دان ہونے کے باوجود وُہ اُردو شعرواَدب کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اپنی تمام تر صعوبتوں کی مکمل روداد اَیک شعر میں قلم بند کر رکھی تھی ؎
گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
میرا اُن سے تعلق اُردو ڈائجسٹ کے حوالے سے قائم ہوا جو باہمی اعتماد کا ایک روشن چہرہ بن گیا۔ وہ سالہاسال سے مجھے ہر جمعے کی صبح سلامتی کا پیغام بھیجتے اور قرآن و حدیث کے الفاظ میں نصیحت بھی فرماتے۔ اِن تمام خوبیوں کے باوجود وہ ایک انسان تھے جس سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات میں خیر کا عنصر بہت غالب تھا اور اِسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کی حیثیت سے جو تربیت حاصل کی تھی، وہ اُن کے مزاج کا مستقل حصّہ بن گئی تھی۔
(بحوالہ جنگ22،29 اکتوبر2021ء)