موسم بدل رہا ہے، خطۂ پوٹھوہار میں ہلکی ہلکی سردی اتر چکی ہے۔ موسم کی یہ تبدیلی سیاست کا رنگ بھی بدل رہی ہے۔ پنجاب کے بیشتر شہر اسموگ کا شکار ہیں۔ لاہور سے راولپنڈی تک جی ٹی روڈ 12 روز تک خوف کا شکار رہی۔ موسموں کی تبدیلی فطرت کے توازن کی علامت ہے مگر سیاسی موسم کی تبدیلی ناخوش گوار واقعات کا نتیجہ ہے۔ کچھ برسوں سے اسلام آباد پر چڑھائی کا موسم ہر سال ہی آتا ہے۔ کوئی نہ کوئی جتھہ اپنا ایجنڈا لے کر اسلام آباد پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ کبھی ان کا ایجنڈا معلوم ہوتا ہے اور کبھی نامعلوم۔ بہرحال سڑکوں پر تشدد، مار دھاڑ ہوتی ہے اور پھر معاہدہ ہوجاتا ہے اور جتھے واپس چلے جاتے ہیں، مگر اپنے پیچھے لاشوں کا سوگ دے جاتے ہیں اور معیشت کی بربادی کی فصل بو جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں حزبِ اختلاف میں تو جتھوں کا ساتھ دیتی ہیں، حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے تحریک انصاف بھی ایسا ہی کرتی رہی۔ یہ سب قانون اور ریاستی اداروں کی عمل داری کے نام پر قانون کی درگت بناتی رہی ہیں۔ یہ تماشا کئی سال سے جاری ہے، کسی کو احساس ہی نہیں کہ جوہری طاقت کی حامل ریاست کن اندرونی اور بیرونی مسائل اور خطرات کے علاوہ چیلنجز میں گھری ہوئی ہے۔
پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری حکمران رہے، مگر کسی بھی دور میں عدل اور شہریوں کے حقوق کی ضمانت نہیں ملی۔ ٹی ایل پی کے حالیہ احتجاج کی نوبت کبھی نہ آتی اگر حکومت ان کے مطالبات تسلیم کرلیتی۔ لیکن معاملہ یہاں سے بگڑا کہ ان کے مطالبات کو غلط رنگ دیا گیا۔ بارہ روز کی مار دھاڑ اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار ارب کے معاشی نقصان کے بعد حکومت نے معاہدہ کیا۔ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان مذاکرات کے لیے اسلام آباد آئے، جن کا قائدانہ کردار تھا۔ فرائیڈے اسپیشل کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ’’معاہدہ بہت اچھی پیش رفت ہے، اب اصل بات یہ ہے کہ وعدہ کیا جائے توپورا کیا جائے، کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ نہیں کیا، حکومتی لوگ جھوٹ بولنا شروع کردیں تو اعتماد کیسے قائم ہوگا! ملک بھر کے علماء نے کہا مذاکرات میں اپنا کردار ادا کریں، ہمیں ریاستی طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دی جائیں، ہر شخص جانتا ہے حکومت کے پاس طاقت بھی ہوتی ہے جس کا غیر محتاط استعمال حکومت کے لیے تباہ کن ہوتا ہے، ہم اپنے طور پر پیغام دے رہے تھے، ہم سب کی کوشش تھی کہ یہ کام حکمت سے پسِ پردہ کیا جائے۔ فرانسیسی سفارت خانہ بند، فرانسیسی سفیرکو بھیج دو، یورپی یونین سے تعلقات توڑ دو… یہ سراسرجھوٹ تھا۔ جب حکومت کے بااختیارلوگ غلط بیانی کریں توکسی پراعتماد کیسے قائم ہو؟ ہمارے لیے اسی صورت معاہدہ قبول تھا جب پوری طرح عمل درآمد کی ضمانت ہو۔ ہمارے مذاکرات حکمت اور دانش مندی کی فتح ہے۔‘‘سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان نے حکومت کو ضمانت دی ہے کہ ٹی ایل پی آئندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے سے گریز کرے گی اور سیاسی جماعت کے طور پر ملک کے سیاسی دھارے میں شریک ہوگی۔
کئی روز کے شدید احتجاج، پولیس سے جھڑپوں میں کئی قیمتی جانوں کے ضیاع، سڑکوں کی بندش اور شہری زندگی عملاً مفلوج ہونے کے بعد حکومت پسپا ہوئی، وزیراعظم عمران خان نے مذاکرات کی ہامی بھری، اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کوششیں بار آور ہوئیں، جس کے بعد حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا۔ اب جی ٹی روڈ اور راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف مقامات سے رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں، روزمرہ کے معمولات بحال ہوگئے ہیں۔ اس معاہدے کو ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ وزیر آباد میں ٹی ایل پی کے کارکنوں کا دھرنا فوری ختم نہیں ہوگا، البتہ 50فیصد عمل درآمد کے بعد دھرنے کے شرکا منتشر ہوجائیں گے۔ سرکاری سطح پر معاہدے کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں، سینہ بہ سینہ جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اُن کے مطابق فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ ختم سمجھا جائے، حکومت احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے کارکنوں کو رہا کردے گی اور احتجاجی دھرنے کے شرکا کے خلاف کسی قسم کی کارروائی بھی نہیں کرے گی، تاہم دہشت گردی اور دوسرے سنگین مقدمات میں ملوث سید سعد حسین رضوی اور دیگر کارکنوں کو عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لینا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی تسلیم کرلیاکہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے مذاکرات ہی مسئلے کا واحد حل تھا۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے پارٹی رہنمائوں کو اعتماد میں لیا۔
بہرحال وزیراعظم اب اظہارِ خیال کریں یا خاموش رہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اقتدار کے درخت کے پتّے زرد ہونا شروع ہوگئے ہیں اور پت جھڑ کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ اب انہیں پارلیمنٹ کی بقیہ آئینی مدت کی تکمیل تک پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا، ہوسکتا ہے کہ اب وہ پارٹی کی تنظیم پر توجہ دیں اور عوامی رابطہ مہم شروع کریں۔ کور کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ حکومت مہنگائی کے حوالے سے پیکیج کا اعلان کرنے جارہی ہے اور ایک کروڑ سے زائد آبادی کو براہِ راست ریلیف ملے گا۔ لیکن یہ فیصلہ حکومت نے اُس وقت کیا ہے جب اقتدار اُس کے ہاتھ سے ریت کی طرح تیزی سے پھسل رہا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہوگا حکومت ردعمل میں کرے گی، اور فیصلوںکا اختیار حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، وہ جس طرح چاہیں گی حکومت کو سیڑھی سے نیچے اترنے پر مجبور کریں گی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ حکومت کا پاور پلے کا دور ختم ہوگیا ہے۔ اقتدار اور اختیار ہاتھ سے جاتا دیکھ کرہی حکومت معاہدے پر مجبور ہوئی ہے، اور وزیراعظم عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں پارلیمنٹ میں کمزور اپوزیشن ملی ہوئی ہے، اور سرپرست ابھی انہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے، مگر جس قیمت پر حکومت نے معاہدہ کیا یہ قیمت بہت بھاری ہے۔ اس پس منظر کو یوں دیکھنا ہوگا کہ مظاہروں کے دوران حکومت اور وزرا کے تیور اور زبانیں کیا اگل رہی تھیں، اور جب معاہدہ ہوا ہے توکن شرائط پر ہوا۔ ایک جانب سرنڈر کرتی ہوئی اور بے بسی کے عالم میں معاہدے کی خواہش مند حکومت تھی، اور دوسری جانب اپنی شرائط منوانے والا گروہ۔ یہ فرق ہی حکومت کی رٹ اور اس کے اختیارات عیاں کردینے کے لیے کافی ہے۔ حکومت اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان جو معاہدہ ہوا مفتی منیب الرحمان اس کے ضامن بنائے گئے ہیں، انہی کے اعتراض پر ایک وفاقی وزیر اور وزیراعظم کے ایک معاونِ خصوصی اس مجلس میں شریک نہیں ہونے دیے گئے، جس میں معاہدے کے لیے حتمی بات چیت ہوئی۔ مفتی منیب الرحمان نے معاہدے پر عمل درآمد کی ذمہ داری اٹھالی۔ انہوں نے اس پورے بحران میں جماعت اسلامی کے کردار کی بھی تعریف کی۔ جماعت اسلامی نے حکومت کو تشدد کے بجائے مذاکرات اور بات چیت کا مشورہ دیا تھا۔ مفتی منیب الرحمان نے حکومت کو اس بات کی ضمانت دی ہے کہ آئندہ ٹی ایل پی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرے گی، معاہدے میں درج ہے کہ ٹی ایل پی سیاسی دھارے میں آئے گی، آئندہ کوئی دھرنا نہیں دے گی، سعد رضوی سمیت تمام گرفتار کارکنوں کی قسمت کا فیصلہ قانون کے ذریعے ہوگا، معاہدے میں فرانس کے سفیر کی ملک بدری سے متعلق کوئی جملہ نہیں ہے کیونکہ یہ مطالبہ کیا ہی نہیں گیا تھا، اسے تو حکومت کے وزرا نے رنگ بدلنے کے لیے اچھال رکھا تھا۔ حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور علی محمد خان شامل تھے۔ وزیر مملکت علی محمد خان کی سربراہی میں اسٹیئرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے۔ وزیرِ قانون پنجاب راجا بشارت، سیکرٹری وزارتِ داخلہ اور سیکرٹری محکمہ داخلہ پنجاب کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ اب یہی کمیٹی معاہدے پر عمل درآمد کی راہ نکالے گی۔ کالعدم تنظیم ٹی ایل پی کی طرف سے مفتی غلام غوث بغدادی اور حفیظ اللہ علوی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ اسٹیئرنگ کمیٹی معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی۔ علمائے کرام کی جانب سے مفتی منیب الرحمان نے قائدانہ کردار ادا کیا، یہ معاہدہ ٹی ایل پی کے سربراہ مولانا سعد رضوی کی حمایت کے باعث ہوا، جنہیں ایک طاقت ور ضمانت ملی تو بات آگے بڑھی، ورنہ حکومت الٹی بھی ہوجاتی، سر کے بَل بھی کھڑی ہوجاتی تو معاہدہ نہیں ہوسکتا تھا۔ معاہدے کے لیے پیش رفت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ہوئی جس میں مذاکرات کو ترجیح دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ مولانا بشیر قادری، صاحب زادہ حامد رضا، ثروت اعجاز قادری اور دیگر تمام علما و مشائخ بھی مذاکرات کو حتمی شکل دینے میں معاونت فراہم کرتے رہے۔ ان علما کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کا مقصد بھی یہی تھا۔ امکان ہے کہ اب ٹی ایل پی آئندہ نیکٹا کے طے شدہ ضابطوں کی روشنی میں کام کرے گی۔ معاہدے میں کیا کچھ طے پایا اگرچہ حکومت اور علما کی جانب سے اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں، تاہم حکومت کا عمل ہی بتائے گا کہ معاہدے میں کیا کچھ تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر معاہدے کی تعمیل شروع ہوچکی ہے اور ہر فریق کواس سے آگاہ بھی کیا جارہا ہے۔ ابھی تک علامات یہی ہیں کہ اس معاہدے پر عمل کیا جائے گا، کارکن جی ٹی روڈ چھوڑ کر جلد ہی گھروں کو واپس چلے جائیں گے، اس معاہدے کے نتیجے میں تحریک لبیک پاکستان قانونی و آئینی جماعت بنے گی اور قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوگی، اور مستقبل میں انتخابات میں حصہ بھی لے گی۔ عین ممکن ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں دینی جماعتوں کی ہم رکاب بن کر کسی انتخابی سیاسی اتحاد کا حصہ بن جائے۔ حکومت نے جس معاہدے پر دستخط کیے ہیں اُس پر عمل ہوگا۔ اب کوئی یوٹرن نہیں ہوگا۔ وہی ہوگا جو معاہدے میں طے پایا ہے۔کالعدم تحریک لبیک سے مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے بارہ رکنی علما کمیٹی کا قیام ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوگا جس سے آئندہ کے لیے بھی مسئلے کے پُرامن حل کی راہ مل جائے گی۔
اگر حکومت اس تنظیم کے کچھ مطالبات پہلے ہی تسلیم کرلیتی تو احتجاج کی نوبت نہ آتی، لیکن حکومت نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں پُرتشدد احتجاج ہوا، اور بارہ روز تک ملکی معیشت روزانہ کم و بیش 80 ارب کے نقصان سے دوچار ہوئی۔ اس احتجاج کے باعث پنجاب اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی، راستے بند ہوجانے سے روزمرہ کے معمولات بدترین حد تک متاثر ہوئے۔ حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ جہاں آگ لگی ہو وہاں پانی ڈال کر اسے ٹھنڈا کرے، مگر وزرا ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بیان دینے کے مقابلے میں شریک نظر آئے، اور سابقہ معاہدے سے وزیراعظم کے لاعلم ہونے تک کا دعویٰ کیا گیا جس سے صورتِ حال مزید سنگین ہوئی۔ اس کے بعد سارا بوجھ قومی سلامتی کمیٹی نے اٹھایا اور حکومت کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی راہ بھی دکھائی، ممکن حد تک مدد بھی کی، اور علماء کی کاوشوں سے یہ سب کچھ ممکن ہوا جس میں ڈاکٹر ابوالخیرمحمد زبیر، حامد سعید کاظمی، پیر محمد امین، پیر خواجہ غلام قطب فرید، پیر نظام سیالوی، صاحب زادہ حافظ حامد رضا، مفتی وزیر قادری، میاں جلیل احمد شرقپوری، ثروت اعجاز قادری، پیر خالد سلطان باہو، پیر عبدالخالق، پیر مخدوم عباس بنگالی، پیر سید علی رضا بخاری، صاحب زادہ حسین رضا کے نام نمایاں ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی ملاقات میں علمائے کرام کو رحمت للعالمینؐ اتھارٹی کی تفصیلات اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے موجودہ ملکی صورت حال سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے علما سے حکومت اور کالعدم جماعت کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی، جس کے بعد مظاہرین کی قیادت اور حکومت معاہدے اور سمجھوتے تک پہنچی۔ جو شخصیات بھی معاملہ حل کرانے کی کوششوں میں شریک رہیں اُن میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ جہاں تک فرانس کے سفیر کی بے دخلی کا تعلق ہے ٹی ایل پی کا مؤقف ہے کہ یہ نکتہ خادم حسین رضوری اپنی زندگی میں طے کرگئے تھے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ دیکھے گی اور ٹی ایل پی کی قیادت بھی اسی معاہدے پر پہرہ دے رہی تھی کہ جو معاہدہ خادم حسین رضوی نے کیا ہے یہ معاملہ پارلیمنٹ دیکھے، ہم اسی پر پہرہ دیں گے اور کوئی نئی بات نہیں کی جائے گی، لیکن حکومت کے وزرا نہ جانے کیوں یہ معاملہ اچھالتے رہے! حالیہ احتجاج صرف اس لیے تھا کہ ٹی ایل پی کو قانونی تنظیم تسلیم کیا جائے، اور سعد رضوی سمیت اس کے گرفتار کارکن رہا کیے جائیں۔ یہ دو مطالبے تھے، نہ جانے حکومت نے کیوں معاملے کو طول دیا! اب بھی یہی فیصلہ ہوا ہے کہ ٹی ایل پی قانونی تنظیم بنے گی، اور گرفتار کارکن قانون کے ذریعے اپنے مقدمات نمٹائیں گے۔ یہی بات بارہ روز پہلے تسلیم کرلی جاتی تو پنجاب میدانِ جنگ نہ بنتا۔
لانگ مارچ پُرامن آغاز کے بعد ایک متشدد اور خونیں احتجاج میں تبدیل ہوا اور بہت سی قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد حکومت معاہدے کی جانب بڑھی۔ لیکن تجزیہ یہ ہے کہ یہ سوچ درست نہیں، کیونکہ لبرلز کچھ اور چاہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ابھی بے شمار سوالوں کے جواب حکومت اور مظاہرین کی قیادت کے ذمے ہیں جن کا جواب آنا باقی ہے۔ لہٰذا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ صورتِ حال ختم نہیں ہوئی بلکہ غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی ہوئی ہے۔ جو معاہدہ کیا گیا ہے اس کی تفصیلات صیغۂ راز میں رکھی گئی ہیں اور صرف یہ بتایا گیا ہے کہ معاملات طے پا گئے ہیں، اس سے آگے کچھ نہیں بتایا جارہا صرف دعا اور خواہش ہے کہ معاملات جو طے پا گئے ہیں، مستقل اور قابلِ عمل بن جائیں۔ رکن مذاکراتی کمیٹی مولانا بشیر احمد فاروقی کی گواہی ہے کہ ’’ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات آرمی چیف کے تعاون سے ہوئے ہیں، حکومت کا بھی بھرپور کردار شامل ہے‘‘۔ یہاں تک کی گواہی میں کسی کو اختلاف نہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاہدے کا مستقبل کیا ہے؟ اور وہ کون ہے جسے معاہدے کی تمام تفصیلات ظاہر کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ حکومت اگرچہ معاہدہ کرچکی ہے تاہم اس کے لبرل حامی کسی بھی وقت چنگاری کو ہوا دے سکتے ہیں۔ آئینی طور پرکابینہ میں کسی بھی مسئلے پر بحث کے دوران مؤقف الگ الگ ہوسکتا ہے، مگر جب کابینہ میں کوئی فیصلہ ہوجائے تو پھر یہ حکومت کا فیصلہ ہوتا ہے جسے وزرا قبول اور تسلیم کرتے ہیں۔ فیصلے کے بعد اپنا مؤقف بیان کرنے کا حق نہیں رہتا۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ قانون کی عمل داری ہوگی تو اس کے بھی اپنے معنی ہیں۔ بہرحال معاملہ اس وقت’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مترادف ہے۔ معاہدے کے باوجود لبرل یہ سوال اٹھاتے رہیں گے کہ احتجاج کرنے والوں کا سیاسی ایجنڈا کیا تھا؟ سیاسی ایجنڈے کے لیے ناموسِ رسالت ﷺ کا نام استعمال کیا گیا؟ حکومت کے وزرا اگر یکسو رہے اور معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں بچھے ہوئے کانٹے چنتے رہے تو حالات درست ہوجائیں گے، دوسری صورت میں بات کسی اور جانب بھی نکل سکتی ہے۔
پی ڈی ایم نے بھی اپنا سربراہی اجلاس بلالیا ہے، جو 11نومبر کو ہوگا۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کے حوالے سے بھی مشاورت اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔