مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم اور بھارت کے کئی دیگر نومسلموں کی رودادوں میں ایک کتاب ’’تحفتہ الہند‘‘ کا بار بار ذکر پڑھا تو اس کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ لائبریری میں جاکر کتاب نکلوائی مگر وہاں بیٹھ کر اسے پڑھنا مشکل تھا کہ کتاب کی زبان خاصی نامانوس تھی، اس لیے فوٹو کاپی کروائی کہ گھر میں بیٹھ کر اس کا آرام سے مطالعہ کرسکوں۔ جو مطالعہ کیا تو بلاشبہ اسے نہایت معلوماتی اور دلچسپ پایا۔ یہ کتاب ایک نومسلم مولانا عبیداللہ (سابق نام اننت رام) نے لکھی ہے۔ کتاب سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
٭ہندو عقیدے میں ’’اپنا دھرم‘‘
تحفتہ الہند کے مصنف مولانا عبیداللہ مرحوم لکھتے ہیں:” اکثر ہندوئوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اپنا دھرم اگرچہ رائی سمان (رائی کے دانے کے برابر) ہو، اور دوسرے کا دھرم پربت سمان (پہاڑ کے برابر) ہو تب بھی اپنا دھرم نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تعجب ہے کہ یہ قاعدہ و اصول صرف دین اور دھرم کے بارے میں اختیار کیا جاتا ہے مگر دنیا کے اکثر کاموں میں بزرگوں کی پیروی کا خیال نہیں کیا جاتا، مثلاً اگر کسی کے باپ اور دادا مفلس، خوار، محتاج اور گمنام ہوتے ہیں تو اولاد کو ہرگز یہ خیال نہیں ہوتا کہ ان کی متابعت میں دولت مندی اور نام و نمود کی خواہش نہ کریں، بلکہ جس طرح بھی بن پڑتا ہے مال و دولت کے حصول میں نہایت محنت اور کوشش کرتے ہیں، اور دین کے معاملے میں ہرچند کہ اپنے مذہب کا ناحق ہونا اور دینِ اسلام کا برحق ہونا سورج کی طرح روشن ہوجاتا ہے مگر اُس وقت اپنے بزرگوں کی پیروی کا جھوٹا عذر پیش کردیتے ہیں۔“
٭ہندوئوں کا عقیدۂ تثلیث
اس کتاب کے مطالعے سے پہلے میرے علم کے مطابق صرف عیسائی ہی عقیدۂ تثلیث رکھتے تھے، مگر اس کتاب کے مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ ہندوئوں میں بھی عقیدۂ تثلیث پایا جاتا ہے۔ مولانا عبیداللہ مرحوم لکھتے ہیں: ’’خدا روح کی جہت سے برہما کی صورت میں ظاہر ہوکر خلقت کو پیدا کرتا ہے اور ست کی جہت سے بشن (وشنو دیوتا) کی صورت میں ظاہر ہوکر خلقت کو پالتا ہے، اور تم کے رو سے مہادیو کی صورت میں ظاہر ہوکر خلقت کو فنا کرتا ہے۔ تو گویا برہما، بشن اور مہادیو (بقول ہندوئوں کے) یہ تینوں دیوتا خدا کے مظہر اور نائب خدا ہیں، یعنی ایک خدا میں تین خدا، جو حاکم و مختار ساری دنیا کے ہیں‘‘۔
٭برہما، بشن اور مہادیو کے کرتوت
مولانا عبیداللہ مرحوم لکھتے ہیں: ’’مہا بھارت میں لکھا ہے کہ اتری منی کی بیوی بہت نیک تھی۔ برہما، بشن اور مہادیو تینوں اس کی عصمت میں رخنہ ڈالنے کے لیے اس کے دروازے پر بھیک مانگنے گئے۔ وہ بے چاری بھیک دینے باہر آئی تو وہ کہنے لگے: ’’ہم کیا بھوکے ہیں کہ ایسی بھیک لیں گے! ہاں اگر ہم کو اپنے گھر کے اندر لے جاکر اور ننگی ہوکر کھانا کھلائے تو پھر ہم ٹھیرتے ہیں‘‘۔ وہ بے چاری اپنے خصم سے اجازت لے کر تینوں کو اپنے گھر لے گئی۔ جب کھانا کھلانے لگی تو اس نے ان کے بدن پر پانی چھڑکا، وہ تینوں چھوٹے لڑکے بن گئے‘‘۔ (مولانا عبیداللہ پوچھتے ہیں: بھلا کیا ایسے شہوت پرست خدا یا خدا کے نائب اور امورِ دنیا کے مالک ہوسکتے ہیں؟)
٭گنیش دیوتا کی پیدائش
ایک مرتبہ مہادیو کی بیوی پاربتی ابٹن مَل کر نہانے لگی۔ اس نے اپنے بدن کے میل سے ایک بیٹا بنایا اور اس کا نام گنیش رکھا۔ گنیش کو اس نے گھر کے دروازے پر بٹھایا تاکہ کسی کو اندر نہ جانے دے۔ اتنے میں مہادیو باہر سے آگئے۔ گنیش نے ان کو اندر جانے سے منع کیا تو مہادیو نے خفا ہوکر اس کا سر کاٹ کر دور پھینک دیا۔ پاربتی اس کے غم میں بہت روئی اور اصرار کرنے لگی کہ اس کو زندہ کرو۔ مہادیو نے ہر چند اس کے سر کو تلاش کیا مگر کہیں نہ ملا، ناچار ایک ہاتھی کا سر کاٹ کر گنیش کے جسم سے ملاکر زندہ کردیا اور اس کو یہ انعام دیا (یعنی اعزاز بخشا) کہ جو شخص بھی کوئی کام کرے پہلے تیرا نام (یعنی گنیش کا نام) لے، اور جو کوئی کسی دیوتا کی پوجا کرے پہلے تیری پوجا کرے تب اُس کی وہ پوجا قبول ہوگی۔
(انتخاب: ملک احمد سرور)
صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمت شب میں راہی
علامہ اپنے کلام کی حکمتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میرے اشعار میری فکر کی روشنیوں سے مالامال ہوکر بجلی کی طرح انسانی دل و دماغ کو روشنیاں مہیا کررہے ہیں تاکہ میری ملت کے افراد غلامی کی تاریکیوں میں بھٹکتے نہ پھریں، ٹھوکریں نہ کھاتے رہیں بلکہ میری سوچ کی روشنیاں قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتی رہیں۔