اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حکومت کی بے تدبیری سے جنم لینے والا ایک سنگین بحران علمائے کرام کی حکمت و تدبر سے حل ہوگیا ہے، اور حکومت اور تحریک لبیک کے مابین ایک بار پھر معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس 13 نکاتی معاہدے کی تفصیلات تو ابھی منظرعام پر نہیں لائی گئیں، تاہم اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت تحریک لبیک کا کئی روز سے جاری احتجاجی دھرنا اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان ہوگیا ہے۔ تحریک لبیک کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر سیاسی عمل کا حصہ بننے کا موقع دینے، دھرنے کے شرکاء کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے، اور تحریک کے گرفتار کارکنوں کی رہائی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ البتہ دہشت گردی اور دیگر سنگین دفعات کے تحت درج کیے گئے مقدمات میں ملوث کارکنوں کو عدالتوں کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ فریقین کے مابین معاہدے پر عمل درآمد کے لیے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس نے کام بھی شروع کردیا ہے۔ فریقین کو معاہدے تک پہنچانے میں رویتِ ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین، ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمٰن کا کردار نہایت مثبت اور ضامن کا رہا۔ انہوں نے حکومتی اور تحریک لبیک کی مذاکراتی کمیٹیوں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے بہت درست بات کہی ہے کہ معاہدہ کسی فریق کی فتح یا شکست نہیں، یہ اسلام، پاکستان اور انسانی جانوں کی حرمت کی فتح ہے، معاہدے کی تفصیلات ہفتہ دس دن میں سامنے آ جائیں گی اور آئندہ عشرے میں اس کے مثبت نتائج بھی قوم محسوس کرلے گی۔
حکومت اور تحریک لبیک کے مابین معاہدہ یقیناً خوش آئند اور باعثِ اطمینان ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید اضطراب اور اذیت میں مبتلا عوام نے سکون کا سانس لیا ہے۔ دھرنے اور اسلام آباد کی جانب مارچ کے باعث اس علاقے میں عام آدمی بے پناہ مشکلات سے دوچار تھا، سڑکیں اور ریل کے راستے حکومت نے خود بند کر رکھے تھے، لاہور اسلام آباد سڑک پر خندقیں کھودی گئی تھیں، خاردار تاروں اور کنٹینروں کے ذریعے مارچ کے شرکاء کو آگے بڑھنے سے روکنے کا اہتمام کیا گیا تھا، اس پورے علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کرکے باقی ملک سے رابطے بھی بڑی حد تک ختم کردیئے گئے تھے۔ ان حکومتی اقدامات کے لازمی نتیجے کے طور پر مارچ کے راستے کے وسیع علاقے میں اشیائے ضروریہ کی فراہمی بھی معطل ہوگئی تھی، پولیس کی ناکامی کے اعتراف کے بعد حکومت نے تمام اختیارات رینجرز کے سپرد کردیئے تھے۔ اس دوران بعض حکومتی وزراء کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کرتے رہے اور انہوں نے ایسی فضا بنادی تھی کہ تصادم اور خونریزی ناگزیر دکھائی دے رہی تھی۔ ان وزراء نے دھرنے کے شرکاء کو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی جانب سے امداد ملنے کے شرمناک الزامات عائد کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، یوں انہوں نے دھرنے کے شرکاء کو ملک دشمن اور دہشت گرد قرار دے کر اشتعال انگیزی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ تو علمائے کرام اور حکومت میں موجود دین سے محبت کرنے والے بعض ارکان کی تدبیر اور تدبر کام آئے اور معاملہ بگڑنے سے بچ گیا۔ وزیراعظم عمران خاں نے بھی بات چیت ہی کو مسئلے کا واحد حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک میں خون خرابہ بالکل نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ طاقت کے استعمال کے کبھی حامی رہے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بیان بھی مثبت سوچ کا عکاس ہے، تاہم اپنی کابینہ کے لبرل اور سیکولر ذہنیت کے جن وزراء کو زبان بند رکھنے کی انہوں نے ہدایت کی تھی، انہوں نے اب پھر سے ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر تحریک لبیک اور دوسری مذہبی تنظیموں کے خلاف منفی بیان بازی شروع کردی ہے، گویا وہ نہیں چاہتے کہ معاہدے پر بخیر و خوبی عمل درآمد ہوجائے، چنانچہ انہوں نے ابھی سے اسے سبوتاژ کرنے کے لیے شرارتیں شروع کردی ہیں۔ وزیراعظم اگر اپنی سوچ میں واقعی سنجیدہ ہیں تو کابینہ کے ایسے عناصر پر انہیں کڑی نظر رکھنا ہوگی، ورنہ یہ اپنام کام دکھانے سے باز نہیں آئیں گے۔
دھرنے کی صورتِ حال کی اصلاح میں فوج کا کردار بھی نمایاں رہا۔ وزیراعظم نے بھی حالات خراب ہونے پر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جس میں فوجی قیادت کی جانب سے انہیں طاقت کے استعمال سے گریز کا مشورہ دیا گیا، پھر فریقین کے مابین مذاکرات اور معاہدے کے مراحل میں بھی مسلح افواج کے سربراہ کی علمائے کرام سے ملاقات کا اہتمام اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کی تشہیر ضروری سمجھی گئی، جو معاملات میں فوج کے دخیل ہونے کا واضح پیغام تھا۔ حکومت کو اس سارے معاملے میں حزبِ اختلاف خصوصاً دینی سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان وغیرہ کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے حالات سے فائدہ اٹھانے اور کشیدگی میں اضافے کے بجائے قومی سوچ کا مظاہرہ کیا۔ جماعت اسلامی کے امیر نے تو 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں بے روزگار نوجوانوں کے بڑے احتجاج کا اعلان کررکھا تھا، تاہم کشیدہ صورتِ حال کے پیش نظر انہوں نے یہ احتجاج ملتوی کرنے کا اعلان کرکے قابلِ ستائش ذمہ دارانہ طرزعمل اور تعمیری سوچ کا مظاہرہ کیا۔
(حامد ریاض ڈوگر)