شخصیت اور فن

کتاب
:
ڈاکٹر تحسین فراقی: شخصیت اور فن
مصنف
:
ڈاکٹر طارق ہاشمی
صفحات
:
212 قیمت:مجلّد300 روپے
غیر مجلّد 260 روپے
ناشر
:
اکادمی ادبیات پاکستان ، پطرس بخاری روڈ، H-8/1، اسلام آباد

فون051-9269711

اکادمی ادبیات پاکستان کا سلسلہ ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ ہے، جس کے تحت 152 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ تازہ ترین کتاب ڈاکٹر تحسین فراقی پر ہے، جس کو ڈاکٹر طارق ہاشمی نے تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی اردو شاعری اور تنقید و تحقیق کے جدید منظرنامے میں ایک نہایت نمایاں نام ہے۔ آپ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبۂ اردو سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں، اور تحقیقی مجلہ ’’زبان و ادب‘‘ کے مدیر ہیں۔ آپ کے تحقیقی مضامین کثیر تعداد میں اردو کے معتبر جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ درج ذیل تصانیف آپ کی وسیع علمی و ادبی خدمات کی آئینہ دار ہیں۔
شاعری میں:
٭ ’’دل دسواں سیارہ ہے‘‘۔ ابلاغ، اسلام آباد
٭’’دستک دیا دل‘‘۔ مثال پبلشرز، فیصل آباد
تنقید:
٭جدید نظم کی تیسری جہت۔ دستاویز، لاہور
٭اردو غزل نئی تشکیل۔ نیشنل بک فائونڈیشن، آباد
٭فارغ بخاری… شخصیت اور فن۔ اکادمی ادبیات
٭مولانا صلاح الدین احمد… شخیصت اور فن۔ مقتدرہ قومی زبان
٭شعریاتِ خیبر، عصری تناظر۔ روہی پبلشرز، فیصل آباد
٭اردو نظم اور معاصر انسان۔ پورب، اسلام آباد
٭جدید غزل کا باب ظفر۔ رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
٭داغ دہلوی (مابعد نوآبادیاتی مطالعہ)۔ مثال پبلشرز، فیصل آباد
تدوین:
٭محاسنِ کلام ِغالب۔ از ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری۔ مثال پبلشرز، فیصل آباد
٭ادب، علامت اور جمالِ متن۔ رنگِ ادب، کراچی
ڈاکٹر طارق ہاشمی ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کے شاگردِ رشید ہیں۔ ڈاکٹر یوسف خشک میریٹوریس پروفیسر چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر تحسین فراقی کا نام تنقید و تحقیق کے شعبے میں تو خاص قدر و منزلت کا حامل ہے لیکن اقبالیات کے حوالے سے بھی آپ کی تحریریں آپ کی علمی بصیرت اور گہرائی کی آئینہ دار ہیں۔ آپ شاعر بھی ہیں۔ تمام عمر اردو زبان و ادب کی تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ کچھ عرصہ معروف ادبی ادارے ’مجلس ترقی ادب‘ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
ترجمے کا میدان ہو یا شاعری کا، تحقیق و تدوین اور تنقید کا شعبہ ہو یا پھر تدریس کا سلسلہ ہو… آپ کی خدمات کا سلسلہ ان تمام شعبوں تک دراز ہے۔ آپ کی زیر سربراہی محققین اور ناقدین کی ایک نسل نے تربیت پائی۔
آپ کی شاعری میں اردو کی کلاسیکی روایت کا رچائو موجود ہے اور جدید طرز نگارش کی خوبو بھی ملتی ہے۔ آپ کی وسعتِ مطالعہ، ریاضت اور ذخیرۂ الفاظ نے آپ کی شاعری و دیگر نثری تحریروں کو قدر و منزلت کی اعلیٰ منزلوں پر فائز کیا۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی، ڈاکٹر تحسین فراقی کے شاگردوں اور نیازمندوں میں شامل ہیں، اور اس کتاب کو انہوں نے اپنی عقیدت مندی کے باوجود تنقید کے اعلیٰ معیارات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحریر کیا ہے۔ آپ خود بھی ایک شفیق استاد اور شاعر و نقاد ہیں۔ ان کی یہ کتاب ڈاکٹر تحسین فراقی کی ادبی خدمات کا فہم حاصل کرنے میں نہایت ممدو معاون ثابت ہوگی‘‘۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر تحسین فراقی اردو زبان و ادب، نیز دنیائے تدریس میں علمی تشخص اور تہذیبی و تخلیقی مساعی کی بنیاد پر یگانۂ روزگارفرد ہیں۔ شاعری، تنقید اور تحقیق کے ساتھ ساتھ ترجمے کے شعبے میں ان کی خدمات گراں قدر ہیں۔ ان کا شمار برصغیر کی عظیم درس گاہ جامعہ پنجاب لاہور کے شعبۂ اردو کے اُن اساتذہ میں ہوتا ہے جو علم و فضل کی علامت قرار پائے۔
پاکستانی ادب کی تعمیر میں اُن کا کردار ہمہ جہت اور ہمہ پہلو قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک تخلیق کار، نقاد اور محقق تو ہیں لیکن تدریس کے شعبے سے اُن کی بصیرت افروز نسبت سے قدرتِ حق نے ان کو یہ بھی توفیق عطا کی ہے کہ پاکستانی ادب کے معماروں کی ایک نسل نے اُن کے سائے میں پرورش و پرداخت کا اعزاز حاصل کیا‘‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’نہیں کہ کوہ کن و قیس کا زمانہ نہیں
مگر یہ بات کہ یہ لوگ خال خال ہوئے
ڈاکٹر تحسین فراقی نے اس شعر میں سماج کی ایک ایسی تصویر دکھائی ہے جس سے معاشرتی زوال کا سبب کھل کر سامنے آتا ہے، لیکن اپنے اردگرد کی علمی و ادبی فضا کو دیکھا جائے تو ذاتی طور پر میرے لیے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ فراقی صاحب نے اپنے شعر میں جن خال خال افراد کا ذکر کیا ہے، ان معدودے چند لوگوں میں خود اُن کا بھی شمار ہوتا ہے۔ وہ تحقیق و تنقید کی دنیا کے کوہ کن ہیں، اور تخلیقی سطح پر ایسے دشت کے مکیں جو ایک دلِ درد مند رکھتے ہیں۔
اب سے ربع صدی قبل جب شعبۂ اردو اورینٹل کالج لاہور کے احاطے میں بطور طالب علم داخل ہوا تو جن اساتذہ کی جامع علمی شخصیت نے نہایت متاثرکیا، ڈاکٹر تحسین فراقی اُن میں بہت معتبر ہیں۔ معاملاتِ شعر سے چونکہ میرا شغف زیادہ تھا لہٰذا استادِ گرامی سے اس نسبت سے اور بھی زیادہ قربت نصیب ہوئی، اور رموزِ سخن سیکھنے کے کشادہ مواقع دستیاب ہوئے۔
میرے لیے یہ امر سعادت کا باعث ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے سلسلے ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے تحت مجھے ان کی تخلیقی شخصیت کی تہذیبی جہتوں پر ایک ایسی دستاویز تیار کرنے کا موقع ملا جو میرے لیے اُن علمی اسباق کا آموختہ ثابت ہوئی جو میں نے ربع صدی پیشتر اُن سے روبرو حاصل کیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی تصانیف کے اس جامع مطالعے اور تجزیات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور متعدد علمی نکات کی گرہ کشائی ہوئی۔
میں نے اپنی اس کاوش کو چار ابواب میں تقسیم کرکے اُن کے حالاتِ زندگی اور شخصیت کے ساتھ اُن کی شاعری، تحقیق و تنقید اور ترجمہ کاری کا جائزہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں اُن کی تصانیف سے بطور اصل مآخذ استفادہ کیا گیا۔ آخر میں چونکہ ناقدین کی آرا الگ سے درج کی گئی ہیں لہٰذا مباحث میں اُن کی کسی نوع کی رائے سے اعتنا نہیں کیا گیا۔ تاہم ڈاکٹر تحسین فراقی کے اٹھائے ہوئے کسی تحقیقی پہلو پر اہلِ نظر نے بطور ایک بحث اگر اپنی آرا پیش کی ہیں تو انہیں یکجا کرکے ضرور درج کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بھی انتخاب اور اختصار کو بطور خاص پیش نظر رکھا ہے‘‘۔
’’اپنی معروضات کے اختتام پر اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے سپاس گزار ہوں کہ ادارے نے استادِ گرامی کے لیے حرفِ نقد کا موقع دیا۔ چیئرمین محترم ڈاکٹر محمد یوسف خشک صاحب کا شکریہ بھی واجب ہے کہ آپ نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے مشفقانہ سرپرستی فرمائی۔
اپنے اس حرفِ آغاز کا اختتام شعبۂ اردو اورینٹل کالج کے زمانۂ طالب علمی کی یاد آوری پر کررہا ہوں اور اس کے لیے بھی استادِ گرامی ہی کے تخلیقی الفاظ پیکرِ شعری میں دست گیری کررہے ہیں:
عجیب دن تھے کہ تھی پور پور وقفِ جمال
ستارے ڈھالتے، قوسِ قزح بناتے ہوئے
سرورِ علم بھی تھا، انبساطِ شوق بھی تھا
شباب پڑھتے ہوئے اور کتاب پاتے ہوئے‘‘
کتاب چار ابواب پر منقسم ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلا باب ’’ڈاکٹر تحسین فراقی… احوال و آثار‘‘ کے عنوان کے تحت ہے، اس میں ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کا خاندانی پس منظر، نام اور پیدائش، تعلیمی سفر، ازدواجی زندگی، تدریسی سفر، بیرونِ ملک تدریسی ذمہ داریاں، علمی و ادبی کاوشیں، منصبی مصروفیات، امتیازات و اعزازات، بیرونِ ملک علمی مجالس میں شرکت، اندرونِ ملک بین الاقوامی علمی مجالس میں شرکت، ملکی اور بین الاقوامی علمی اداروں کی رکنیت، ادبی تخلیقات، تنقید و تحقیق کے تحت ڈاکٹر صاحب کی سات تخلیقات کا تذکرہ ہے۔ اقبالیات کے تحت چار کتب کا ذکر ہے۔ غالبیات کے تحت دو کتب مذکور ہیں۔ شاعری میں دو مجموعوں کا ذکر ہے۔ تراجم میں چار تالیفات کے ذیل میں تدوین/ ترتیب/ انتخاب کے تحت سات کتابیں مذکور ہیں۔ مرتبات بحیثیت شریک مرتب پانچ کتابیں ہیں۔ نصابیات میں ایک اور زیر طبع کتب کی تعداد دو ہے۔ اس کے علاوہ چار کتابیں زیر ترتیب ہیں، ان کی زیر ادارت ایک عمدہ علمی، ادبی، تحقیقی مجلہ ’’مباحث‘‘ بھی شائع ہوتا ہے جس کے اب تک دو شمارے منظرعام پر آئے ہیں۔
باب دوم میں ڈاکٹر تحسین فراقی کی تحقیق و تنقید پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، یہ باب کتاب کے سو صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔
باب سوم میں ڈاکٹر صاحب کی شاعری زیر بحث ہے اور باب چہارم میں ان کی ترجمہ نگاری۔ آخر میں ناقدین کی آرا درج کی گئی ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔ فراقیات میں وقیع اضافہ ہے۔