سرسید شناسی کے محقق ضیا الدین لاہوری(مرحوم)

ضیا ء الدین لاہوری مرحوم سے میری پہلی ملاقات جولائی ۲۰۱۶ء میں ہوئی ۔جب میں اپنا مقالہ لکھنے کی غرض سے ان کے پاس مصاحبے کے لیے حاضرہوا۔آپ ایک شریف اوردرویش طبع انسان تھے۔ ۱۲ جولائی ۱۹۳۵ ء کو معراج الدین کے ہاں لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں پیدا ہوئے ۔جناب لاہوری صاحب، سر سید احمد پر متخصص کا درجہ رکھتے تھے۔ انھوں نے سر سید احمد خاں پر لکھتے ہوئے جس دِقت نظر اور وسعتِ مطالعہ کا ثبوت دیا ہے، وہ اُردو زبان میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے سر سید کی زندگی ، فکر ، کاموں اور کارناموں ہر شے اور ہر شعبے پر دادِ تحقیق دی ہے۔ انھوں نے یہ کام نہ تو کسی یونی ورسٹی میں بیٹھ کر کیا ہے، نہ یونی ورسٹی کی کسی ڈگری کے حصول کے لیے، اِس کے باوجود اُن کا کام یو نی ورسٹیوںکے اسکالرز کے لیے ایک نمونہ اور معیار بن سکتا ہے اور بننا چاہیے۔
سر سید شناسی کی روایت کا جائزہ لیں تو ہمیں تین طبقے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وہ طبقہ جس نے سر سید کی ان کے مذہبی وسیاسی نظریات کی بنا پر مخالفت کی ، دوسرا وہ طبقہ جس نے سر سید کے افکارونظریات اور ان کے کارناموں کی تحسین کی اور تیسرا وہ طبقہ جس نے معتدل رویہ اختیار کرتے ہوئے سر سید کے بعض افکار کی حمایت اور بعض کی مخالفت کی۔ سر سید کے حوالے سے لکھنے والوں کے ہاں ایسے تضادات سامنے آتے ہیں کہ قاری مشکل میں پڑجاتا ہے کہ کس کی بات پر یقین کرے اور کس کی بات کو رد کرے، کس بات کو مبنی برحقائق تصور کرے اور کسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے۔ اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی محقق عقیدت وتعصب کی عینک اتار کر غیر جانب داری سے سر سید کے اصل افکار وخیالات کو قارئین کے سامنے پیش کرے تاکہ قاری پراصل صورتحال واضح ہو، مزید یہ کہ قاری اصل مواد کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے قائم کرنے کے قابل ہو سکے۔
ضیا ء الدین لاہوری نے سر سید پر تحقیق میں اپنی عمرِ عزیز کا ایک طویل دورصرف کیا۔سر سید احمد خان کی شخصیت ، ان کی تحریروں اور اقوال پر نصف درجن سے زائد کتب تحریر کیں۔اسی کے ساتھ ساتھ تقویم، رویتِ ہلال اور آخری مغلیہ دور کا ہندوستان ان کی تحقیق کے میدان ہیں۔ انھوں نے انڈیا آفس‘ برٹش میوزیم، رائل ایشیا ٹک سوسائٹی، لندن یونیورسٹی اور پاکستان وہندوستان کے معروف وغیر معروف علمی خزائن سے استفادہ کیا۔ سینکڑوں کتب اور فائلوں کی ورق گردانی کے بعد انھوں نے ناقابلِ تردید حقائق پیش کیے اور تحقیق کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے سر سید کو اس انداز میں پیش کیا جیسا کہ وہ تھے۔ ان کی تحریروں سے بعض لوگ یہ تاثر لیتے ہیں کہ وہ سر سید کے خلاف لکھ رہے ہیں حالاں کہ معاملہ اس سے مختلف ہے۔ سر سید کے پرستاروں نے سر سید کی جو تصویر پیش کی وہ بہت حد تک حقائق کے برعکس تھی اور سر سید کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ کوئی ملکوتی شخصیت تھے۔ بہت سے ایسے بیانات ان کے نام سے منسلک کر دیے گئے جو سر سید نے کبھی نہ دیے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ باتیں لوگوں کے ذہنوں میںراسخ ہوتی گئیں اور حافظے کا حصہ بنتی گئیں۔ ضیا ء الدین لاہوری نے اپنی تحقیق کے ذریعے اس طرح کی باتوں کا رد کیا اور سر سید کے اصل افکار کو قارئین کے سامنے پیش کیا،سر سیدکے ان افکارو خیالات کو قارئین کے سامنے پیش کیا جن کا پرچار سر سید عمر بھر کرتے رہے اور کبھی ان سے پیچھے نہیں ہٹے ۔سر سید سچے آدمی تھے، وہ جو سوچتے تھے وہ کہتے تھے ۔ وہ اپنے نظریات کو گول مول انداز میں پیش نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے خیالات کا اظہار صاف لفظوں میں برملا کرتے تھے۔ ضیا ء الدین لاہوری نے بھی سر سید کو ان کے اصل نظریات کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے اور گرد کی ان تہوں اور جالوں کو صاف کیا ہے جنھوں نے سر سید کے اصل افکار کو چھپایا ہوا تھا، ان پر دوں کو چاک کر دیا ہے جو سر سید کے اصل افکار پر ڈال دیے گئے تھے۔ ضیا ء الدین لاہوری نے جو کچھ پیش کیا وہ مستند اور ناقابلِ تردید شہادتوں اور حوالوں کے ساتھ پیش کیااس لیے ان کی تحقیق کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہے، محض سنی سنائی باتوں پر نہیں۔ انھوں نے مدح سرائی اور قصیدہ گوئی کے روایتی انداز سے ہٹ کرسر سید کی زندگی اور ان کے افکار پر روشنی ڈالی اور حیاتِ سر سید کے بہت سے ان پہلوئوں کو بھی سامنے لائے جنھیں مصلحت کوشوں نے ارادتاً بیان نہیں کیا تھا۔ یوں انھوں نے سر سید کی ذات کا ایک ہی رخ پیش کرنے کی بجائے سر سید کی مکمل ذات کو ان کے نظریات کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنے کا فریضہ سر انجام دیا۔ ان کا یہ انداز تحقیق ، تحقیق کا ایک صحت مندرحجان ہے۔ لاہوری صاحب مصلحتوں کا شکار نہیں ہوئے اور انھوں نے تمام حقائق چن چن کر پیش کیے۔
ضیا ء الدین لاہوری کی تحقیقی کتب تاویل وتفسیر بالرائے سے پاک ہیں۔ ان کی تحقیقی کتب انھیں محققین عصر میں ایک منفرد اور بلند مقام عطا کرتی ہیں۔ ان کی تحقیقی کتب نے سر سید کی شخصیت اور ان کے افکار کے حوالے سے نہ صرف بہت سے ابہام دور کیے بلکہ سر سید کی اصل شخصیت اور افکاربھی لوگوں کے سامنے پیش کیے۔ ان کی یہ کتب اپنے بلند تحقیقی معیار کی بنا پر نئے محققین کے لیے مشعلِ راہ ہیں اور انھیں تحقیق کے اعلیٰ معیار سے روشناس کرواتی ہیں۔
ضیا ء الدین لاہوری کے بہ قول سر سید کے کردار کے دورخ نظر آتے ہیں۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے قطعی مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ سر سید کے کردار کا ایک رخ تو وہ ہے جہاں انھیں ایک مثالی شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔سرسید ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شکست سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، لہٰذا انھوں نے انگریزی حکومت کے ظلم وستم سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے وقتی مصلحت کے تحت انگریزی حکومت سے تعاون کی حکمتِ عملی اختیار کی۔ انھوں نے علی گڑھ میں کالج قائم کیا تاکہ مسلمانانِ ہند اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے کے قابل ہو سکیں۔ انھیں دو قومی نظریے کا موجدوبانی بھی قرار دیا گیا۔
ضیا ء الدین لاہوری کے بقول سر سید کا اصل رنگ وروپ وہ ہے جو ُان کی تحریروں، تقریروں ،ان کے معاصرین کے بیانات، ان کے احباب کی تحریروں یاا س زمانے کے اخبارات ،رسائل، سرکاری رپورٹس اور مراسلات کے ذریعے سامنے آتا ہے۔ یہ وہ مواد ہے جوسامنے نہیں لایا جاتا جس کیے باعث سر سید کی اصل تصویر پر پردہ پڑا رہا اور حقائق ماضی کی گرد میں چھپے رہے اس سلسلے میں ضیا ء الدین لاہوری کہتے ہیں:
’’ایک سر سید وہ ہے جسے میں نے اور آپ نے نصابی ضرورتوں کے تحت کتابوں میں پڑھا اور نصاب سے متاثرہ مضمون نگاروں کے تراشے ہوئے ایک عظیم بُت کے روپ میں اُسے ذرائع ابلاغ میں ملا حظہ کیا، دوسرا سر سید وہ ہے جو اپنی اور اپنے رفقائے کار کی مطبوعہ تحریروں، تقریروں ، سرکاری رپورٹوں اور پچھلی صدی کے اخبارات ورسائل اور جرائد کی فائلوں میں مجسم بالذات پایا جاتا ہے مگر ہماری آنکھوں سے بوجوہ اوجھل رکھا جاتا ہے۔‘‘
ضیا ء الدین لاہوری نے سر سید احمد خان کی ذات، ان کی تحریروں ، تقریروں،بیانات، خطبات اور متعلقہ مواد کو جمع کیا اور اس کا تجزیہ کیا۔ انھوں نے صلے کی تمنا سے بے پروا ہو کر حقائق پر مبنی دلائل سے پر مقالات اور کتب لکھیں۔ اس سلسلے میں انھیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، اخبارات ورسائل نے ان کی تحریروں کی اشاعت سے انکار بھی کیا مگر وہ اپنے کام میں لگے رہے اور برصغیر پاک وہند کے معروف اور غیر معروف علمی مراکز اور کتب خانوں کے علاوہ انھوں نے لندن میں موجود ریکارڈ سے بھی استفادہ کیا اورسر سید کی تحریروں، تقریروں اور بیانات کی روشنی میں سر سید پر تحقیق کی۔ ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر انھوںنے اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں صرف ایک موضوع پر تحقیق میں کیوں صرف کیں۔
سر سید احمد خان کی ذات سے دل چسپی اور اسے موضوع تحقیق بنانے کا خیال انھیں ایم۔اے کے دوران سوجھا۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ان کے ایک استاد نے لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی کو ہدف تنقید بنایا ۔چند ہی روز قبل انھوں نے سر سید کی سوانح عمری ’’حیات جاوید‘‘ کو پڑھا تھا جس کے مصنف سر سید کے قریبی ساتھی اور ممتاز ادیب مولانا الطاف حسین حالی تھے۔ اس کتاب میں سر سید کے حوالے سے ایک تحریر تھی، جس میں لارڈ میکالے کی انھوں نے بہت زیادہ تعریف وتوصیف کی تھی۔ ضیا ء الدین لاہوری نے لارڈ میکالے کے بارے میں سر سید احمد خان کے خیالات کو استاد کے گوش گزار کیا اور ان سے استفسار کیا کہ آپ لارڈمیکالے کی مذمت کر رہے ہیں اور ادھر سر سید احمد خان اس کی شان میں رطب اللسان ہیں آخر کس کی بات کو صحیح مانا جائے ؟ اس پر استاد نے سر سید کی مدافعت میں جو عذر تراشے وہ انھیں قائل نہ کر سکے۔ لارڈ میکالے کے بارے میں وہ حیاتِ جاوید، کا جو اقتباس انھوں نے اپنے استاد کے گوش گزار کیا تھا وہ انھوں نے ہمارے سامنے بھی بیان کر کے دم لیا۔ ضیا ء الدین لاہوری، سر سید احمد خان کی ذات اور ان کے افکار کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کرنا چاہتے تھے اور سرسید احمد خان کی ذات کو اس کے اصل رنگ میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ اسی لیے عمر بھر انھوں نے سر سید احمد خان کی ذات اور ان کی تحریر وں کو اپنی تحقیق کا محور ومرکز بنائے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بعض دوسرے موضوعات پر بھی تحقیق کی مگر ان کااصل موضوع تو سر سید شناسی ہے۔ ان کی اب تک درجن سے زائد تحقیقی کتب اشاعت کے مراحل سے گزر کر قارئین تک پہنچ چکی ہیں۔ضیا ء الدین لاہوری کی متعلقہ موضوع پر اب تک سات تحقیقی کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں اور محققین وناقدین ، دانش وروں، صحافیوں اور قارئین سے دادوتحسین وصول کر چکی ہیں۔ آئندہ سطور میں ان کی تحقیقی کتب کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
۱۔ سرسید کی کہانی،ان کی اپنی زبانی:ضیا ء الدین لاہوری کا یہ پہلا تحقیقی شاہ کار ہے۔ اس کتاب کو ادارہ تصنیف وتحقیق، کراچی نے ۱۹۸۲ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کے ۱۰۹ صفحات ہیں ۔ اس کتاب کے تین مزید ایڈیشن ۲۰۰۴ء ۲۰۰۵ ء اور ۲۰۱۰ء شائع ہوچکے ہیں۔
یہ ایک اہم تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب میں سر سید کی شخصیت ، ان کے افکار ونظریات ان کی تعلیمی مساعی اور انگریزی حکومت کے متعلق ان کے نظریات کو قارئین تک پہنچایا گیا ہے۔ اس کتاب کی تمام تحریریں فاضل مصنف نے سرسید احمد خان کے مضامین ومقالات سے حاصل کی ہیں۔ ضیا ء الدین لاہوری نے بڑی محنت اور ایمانداری سے تمام موادکو ترتیب دیا اور سر سید کی جو تصویر بنتی ہے وہ ایک عام نوجوان کی تصویرہے جس کے اندر خیروشر کی قوتیں موجود ہیں ۔ ان اقتباسات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کس طرح سر سید نے مسلمانوں کو انگریزکی غلامی کے لیے ذہنی طورپر تیار کیا اور مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کی بنیادوں کو کمزور کیا۔تہذیب الاخلاق اور قرآن کی تفسیر لکھ کر مسلمانوں کو مسلم تہذیب وتمدن، قرآن اور اخلاقیات سے دور کیا۔ مصنف نے اس کتاب میں حیات جاویدسے مختلف یاد داشتوں اور سر سید کے مختلف خطبات اور بیانات سے اقتباسات لے کر سر سید احمد خان کی کہانی بیان کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے سر سید کی شخصیت کے جو پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں وہ بڑے فکر انگیز اور لائقِ مطالعہ ہیں۔
۲۔خود نوشت حیات سر سید:یہ کتاب بھی سر سید پر تحقیق سے متعلق ہے۔ اس کتاب میں ضیا ء الدین لاہوری نے تمام کارآمد اور قیمتی معلومات اکٹھی کر دی ہیں۔انھوں نے نہ صرف سر سید احمد خان کی زندگی سے استفادہ کیا بل کہ اس دور کے اخبارات ، خود نوشتوں، تقاریر اور خطوط کو بھی کھنگال ڈالا، انھوں نے سر سید کی ایسی خود نوشت تیار کی ہے کہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں حیات سر سید کے متعلق جو معلومات پیش کی ہیں وہ بیشتر ایسی ہیں جن سے اردو دنیا بے خبر تھی یا یوں کہہ لیجیے کہ اس ترتیب شدہ انداز سے بے خبر تھی۔ انھوں نے جہاں سر سید کی قومی، ملی، علمی اور ادبی خدمات کا تذکرہ کیا ہے وہاں سر سید کی انگریزوں اورانگریزی حکومت کے ساتھ وفاداری اور برطانوی مفادات کی حفاظت کے لیے کی گئی کاوشوں کا تذکرہ بھی کیاہے۔ اس کتاب میں سر سید کی ذات کے بہت سے پہلو نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں ۔ فاضل محقق نے ان تمام معلومات کو بڑی محنت اور عرق ریزی سے اکٹھا کر دیا ہے جو سرسید کی اپنی تحریروں اور اس دور کی کتب اور رسائل میں بکھری ہوئی تھیں۔ انھوں نے اس بکھرے ہوئے مواد کو ایک خاص زمانی ترتیب دے کر پیش کیا اور ایک عمدہ مفید اور قابل قدر تحقیقی کتاب منظر عام پر لائے۔ اس کتاب کو پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے سر سید احمد خود اپنی کہانی، اپنے حالات زندگی بیان کر رہے ہیں۔ اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر تحسین فراقی رقم طراز ہیں :
’’نہایت بیش قیمت معلومات سر سید کی اپنی تصانیف میں بکھری پڑی تھیں جنہیں یک جا کرنے کا خیال گوشہ نشین، درویش صفت اور بے باک نگار ضیا ء الدین لاہوری کو سوجھا اور اُنھوں نے اسے سر سید کی خود نوِشت سوانح کا روپ دے دیا۔ ضیا ء الدین لاہوری سر سید کے متخصص کی حیثیت سے اُردو دنیا میں خوب معروف ہیں۔ ‘‘
۳۔خود نوشت افکار سر سید:ضیا ء الدین لاہوری کی یہ کتاب بھی سر سید شناسی کے سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے سر سید کے حوالے سے اپنے خیالات وافکار کو پیش نہیں کیا بلکہ خود سر سید کے افکار اور خیالات کو پیش کیا اور سر سید کے اپنے افکار کے آئینے میں سر سید کی شخصیت کو قارئین کے سامنے لاکھڑا کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے پاکستان، ہندوستان اور برطانیہ کے بڑے بڑے علمی مراکز اور ان اداروں اور اشخاص سے استفادہ کیا جہاں سے انھیں متعلقہ مواد مل سکتا تھا۔ انھوں نے تمام تحریری سرمائے کابہ نظرعمیق جائزہ لیا اور پھر افکار سر سید کے بکھرے ہوئے حروف چن چن کر یہ تحقیقی شاہکار مرتب کیا جس کا ایک ایک لفظ صداقت پر مبنی ہے اور جسے تحقیق کے کڑے مراحل سے گزار کر قارئین ِادب کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب سر سید کے افکار اور ان کی سوانح کا دلچسپ اورحقائق پر مبنی مرقع ہے۔ فاضل محقق نے صحیح اور غلط سے بحث نہیں کی۔ انھوں نے سر سید کے اپنے خیالات وافکار کو جمع کر کے پیش کیا ہے اور سر سید کی شخصیت اور افکار پر خود کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کیا ،بلکہ یہ کام قارئین کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سر سید کے حوالے سے کیا رائے قائم کرتے ہیں۔
۴۔نقش سر سید: ضیا ء الدین لاہوری کی یہ کتاب بھی ان کی دوسری کتب کی طرح سر سید شناسی کے سلسلے کی ایک اور اہم کڑی ہے۔ اس کتاب کے مندرجات کا مقصد سر سید کی ’’اصل شخصیت ،اصل افکار اور ان کے تحقیقی رنگ، روپ‘‘ کو قارئین کے سامنے لانا ہے۔ اس سے قبل سر سید کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر بہت سی تحریر یں لکھی گئیں لیکن وہ ایک خاص ذہنیت کی عکاس تھیں اور ان تحریروں پر لاہوری صاحب کے بقول ’’میڈ اِن علی گڑھ‘‘ کی مہر ثبت ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ سر سید کی ذات کو داستانوی ہیرو کی حیثیت سے متعارف کروانے کی بجائے ان کی حقیقی شکل میں پیش کیا جائے،ان کی شخصیت پر پڑے پردوں کو ہٹایا جائے،تضاد بیانی کو دور کیا جائے اور عقیدت کی عینک اتار کر ان کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے ۔اس کام کا بیٹرا ضیا ء الدین لاہوری نے اٹھایا اور متعلقہ موضوع پر تحقیق کا حق ادا کردیا۔ فاضل محقق سر سید کی شخصیت کا اصل رخ ان کی اپنی تحریروں اور تقریروں کی بنیاد پر سامنے لائے ،جو ا س معروف شخصیت کی ضد ہے۔ سر سید احمد خان جہاں انگریزی حکومت کی طرف سے انعام واکرام ملنے پر شاداں وفرحاں ہیں وہاں انگریزی حکومت کے استحکام کے خواہش مند بھی ہیں۔ فاضل محقق نے اپنی تحقیق کی بنیاد صداقت پر رکھی ہے اور کوئی غیر مستند تحریر اپنی کتاب میں شامل نہیںکی ۔بلاشبہ اِس کتاب میں بعض ایسے حقائق ہیں جو کہ سر سید احمد خان کے عقیدت مندوں کے لیے تلخ ہوں لیکن حقائق حقائق ہیں، اُن سے انکار نہیں اور نہ ہی اِس سے چشم پوشی کر کے اِس کی نوعیت بدل سکتی ہے ۔مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے اصل مآخذ کی طرف رجوع کیا ہے اور سر سید احمد خان کے افکار ونظریات کا نقش خود اُن کی تحریروں ا ور مضامین کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ تحقیق وتنقیداور ریسرچ کے حوالے سے کتاب کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔
۵۔سر سید احمد خان اور ان کی تحریک،نقدونظر کی میزان میں: ضیا ء الدین لاہوری وہ خا ص محقق ہیں جن کے پاس سر سید کی تمام تحریریں اور ان کی کتب کے تمام ایڈیشن موجود ہیں۔ یہ ایک ایسا سرمایہ ہے جو شاید کسی اور جگہ موجود نہ ہو۔ انھوں نے عمر بھر متعلقہ موضوع پر تحقیق کی اور بکھرے ہوئے اجزا کو جمع کر کے اپنی تحقیق کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے سر سید پر لکھتے وقت جس دقت نظری اور وسعت مطالعہ کا ثبوت دیا اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ انھوں نے حیاتِ سر سید اور ان کی فکراور کارناموں کے ایک ایک پہلو کا بہ نظر عمیق جائزہ لیا اور نتائج کو اپنی تحقیقی کتب کی صورت میں پیش کیا۔
۶۔آثار ِسر سید : یہ کتاب بھی ضیا ء الدین لاہوری کا ایک اہم تحقیقی کارنامہ ہے۔ انھوں نے سر سید کی شخصیت اور ان کے افکار وخیالات پر تحقیق کی۔ اس کتاب میں محقق نے سر سید احمد خان کی اپنی تحریروں اور خودنوشتوں کی روشنی میں سر سید کی شخصیت اور افکار کو آشکار کیا ہے اور سر سید کی ذات کا اصل رخ قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔
یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب سر سید کے عشاق کے لکھے ہوئے مضامین کے تحقیقی وتنقیدی جائزے پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب میں سر سید کی ذات پر لگائے جانیوالے الزامات اور ان کی ذات کے حوالے سے موجود مغالطوںکی تردید اور نشاندہی کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں سر سید کے افکار کو سر سید ہی کی زبان میں پیش کیا گیا ہے جبکہ چوتھے باب میں سر سید اور ان کے ساتھیوں کے ان افکار کو پیش کیا گیا ہے جو خلافِ عقل ودانش بھی ہیں اور دوراز کار بھی ۔ فاضل محقق نے اپنی تحقیق سے جونتائج اخذ کیے ہیں وہ ان لوگوں کے لیے تو قابل قبول نہیں ہیں جو سرسید کی شان میں ہر وقت رطب اللسان رہتے ہیں مگر جو بھی بیان ہوا وہ حقائق پر مشتمل ہے اور اس کی تردید ممکن نہیں ۔
۷۔کتابیات سر سید:ضیا ء الدین لاہوری کی تحقیق کا محورومرکز سر سید احمد خان کی ذات، ان کی تحریریں اور افکاروخیالات ہیں۔ انھوں نے اپنے قیام لندن ۱۹۷۰ء تا ۱۹۹۷ء کے دوران لندن کے معروف علمی مراکز انڈیا آفس لائبریری، برٹش میوزیم لائبریری، رائل ایشیاٹک سوسائٹی لائبریری اور لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کی لائبریریوں میں سرسید کی بہت سی کتب کے اولین ایڈیشن دیکھے اور ان کا مطالعہ کیا اور اپنی تحقیق کے نتائج اپنی تحقیقی کتب کی صورت میں پیش کیے اور کتابیات سرسید کو ترتیب دیا۔
اس کتاب میں فاضل محقق نے لندن کی لائبریریوں میں موجود سر سید احمد خان کی کتب (مطبوعہ وغیر مطبوعہ) کے تراجم اور بعض قدیم اشاعتوں کے سرورق بھی شامل کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تہذیب الاخلاق ، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور ان میں شائع شدہ تحریروں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ان کے خطوط اور تقاریر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے خطوط ، تقاریر کے مجموعوں اور تحریروں کے انتخابات کو بھی شامل کیا ہے۔فاضل محقق نے سر سید کی کتب کے جملہ ایڈیشنوںکا احاطہ کر کے انھیں اس کتابیات میں شامل کیا ہے۔ بہت سی کتب کے اولین ایڈیشنوں کے سرورق کے عکس بھی دیے گیے ہیں۔ فاضل محقق نے یہ اشاریہ بڑی محنت اور عرق ریزی سے ترتیب دیا ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں :
’’جناب ضیا ء الدین لاہوری شاید اُردوکے واحد محقق ہیں جنہوں نے مختلف موضوعات پر مغزکھپائی کرنے کی بجائے صرف ایک موضوع کو تاریخ اور زمانے کی گہرائیوں سے تلاش کرنے کا فریضہ اختیار کر رکھا ہے اور یہ موضوع ہے ’’سرسید احمد خان‘‘زیر نظر کتاب کا عنوان ’’کتابیاتِ سر سید‘‘ ہے اور اِس میں متذکرہ لندنی اداروںسے حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں سر سید کی کتابوں کا ایک مستند اشاریہ تیار کیا گیا ہے۔ فاضل محقق نے یہ کتابیں زمانی ترتیب سے پیش کی ہیں تاکہ اہلِ نظر سر سید کی ذہنی اور فکری تبدیلیوں کا اندازہ لگا سکیں۔ اتنی جامع اورمستند کتابیات سر سید پہلے شائع نہیں ہوئی اور فاضل مؤلف کی محنت ہر لحاظ سے قابلِ تعریف ہے۔‘‘
ضیا ء الدین لاہوری نے عمر بھر سر سید کی شخصیت اور ان کی تحریروں پر تحقیق کی۔ ان کا کہنا ہے کہ سر سید کو آج تک اس طرح پیش نہیں کیا گیا جس طرح کہ پیش کیا جانا چاہیے تھا ۔ان کے افکاروخیالات کو سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیا جاتا رہا،سرسید کے حوالے سے لکھنے والے دو طبقے ہمیشہ موجود رہے ۔ایک طبقہ وہ جس نے حمایت میں لکھا اور اعتدال کی حد کو برقرار نہ رکھا، دوسرا طبقہ وہ جس نے مخالفت میں لکھا اور اعتدال کو قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ دونوں طبقوں کا رویہ نا مناسب تھا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ سر سید کی شخصیت کا جائزہ ان کے افکار وخیالات کی روشنی میں لیا جاتا اور ان کو اُسی طرح پیش کیا جاتا جیسا کہ وہ تھے ۔ ضیا ء الدین لاہوری نے تحقیق کر کے سر سید کے اصل خیالات اور ان کے حق اور مخالفت میں لکھے گئے مواد کو یکجا کر دیا ہے اور فیصلہ قاری کی ذات پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اِن حقائق کے مطالعے کے بعد کیا رائے قائم کرتا ہے۔ ضیا ء الدین لاہوری نے جو بھی بات کی ہے وہ سند اور حوالے کے ساتھ کی ہے ،یوں ان کا تحقیقی رویہ قابلِ داداورقابل توجہ ٹھہرتا ۔ امجدعلی شاکرصاحب نے ایک بار لاہوری صاحب سے کہا آپ سرسید احمد کے بارے جولکھ رہے ہیں وہ بڑا قابلِ اعتراض ہے۔آپ روزِقیامت سرسید کوکیا منہ دکھائیں گے۔۔؟ اس کے جواب میںلاہوری صاحب نے بڑے معصومانہ اندازمیںکہاروزِقیامت سرسید سب سرشناسوں سے منہ پھیر لیں گے اور مجھے آگے بڑھ کرگلے لگاکرکہیں گے یہ میراحقیقی بیٹاہے جس نے میرے سہی افکارکواپنی کتب میں پیش کیاہے۔
بالآخراردو ادب کا یہ ستارہ جوسرسیدشناسی میں بے مثال تھا،۲۶۔۲۷ستمبر کی درمیانی شب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا اور ۲۷ستمبر۲۰۲۱ء کولاہورمیں آصف بلاک ،علامہ اقبال ٹائون کے قبرستان میں سپردخاک ہوا۔حق مغفرت فرمائے۔آمین
ضیاء الدین لاہوری مرحوم اب ہم میں نہیں رہے مگر ان کی تصانیف ان کو اردو ادب میں زندہ رہیں گی۔