نسلہ ٹاور کو دھماکا خیز مواد سے منہدم کرنے کا حکم

کراچی کی شارع فیصل پر قائم رہائشی عمارت نسلہ ٹاور گرانے کا معاملہ اب ایک گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے اور کسی بڑے انسانی المیے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اسے واضح طور پر ایک بار پھر گرانے کا کہا ہے، اور اِس بار ایک ہفتے میں کنٹرولڈ دھماکا خیز مواد سے منہدم کرنے کا حکم دیا ہے، ساتھ ہی ہدایت کی ہے کہ دھماکے سے قریبی عمارتوں یا کسی انسان کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ اگر آپ کے پاس مشینری نہیں تو جائیں پاکستان آرمی سے مدد لیں اور ٹاور گرانے کی کارروائی ایک ہفتے میں مکمل کریں۔
نسلہ ٹاور کے معاملے پر اب روزانہ کی بنیاد پر ڈیولپمنٹ ہورہی ہے، پوری مشینری متحرک ہے، ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو نسلہ ٹاور کے مکین بے گھر ہوچکے ہوں اور نئے گھروں کی تگ و دو میں لگے ہوں۔ عدالت نے ڈی جی کے ڈی اے سے دریافت کیا کہ روڈ پر گھر کیسے بن گئے؟ گزشتہ 30 برسوں سے شہر کا یہی حال ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورا کراچی گرے اسٹرکچر ہوگیا ہے، آپ لوگ دفتر میں بیٹھتے ہیں، چائے پینے آتے ہیں، آپ کو شہر کو بنانا ہے، آپ کو پتا ہے شہر کیا ہوتا ہے! ضیا الدین ہسپتال کے سامنے والی سڑک بند پڑی ہے۔ شہری نے کہا کہ جی سڑک بند ہے، ہسپتال نے قبضہ کیا ہوا ہے، بی ون، بی ٹو ہمارا پلاٹ ہے اور لیزڈ ہے اس پر کوئی قبضہ نہیں کیا ہے، میری جگہ پر تھانہ بنایا جارہا تھا، ضیا الدین ہسپتال نے ساڑھے 3 ہزار گز اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ نسلہ ٹاور صرف ساڑھے 3 سو گز پر توڑا جارہا ہے۔ دورانِ سماعت عدالت کے طلب کیے جانے پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب، کمشنر کراچی سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیدار پیش ہوئے۔ اس کے ساتھ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نسلہ ٹاور کا مالک متاثرین کو رقم واپس کرے، اور کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ وہ متاثرین کو رقوم کی واپسی یقینی بنائیں۔
اس سے قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 16 جون کو سروس روڈ کی اراضی پر اس عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دیا تھا اور پھر 20 جون کو بلڈرز کو رہائشی اور تجارتی یونٹس کے رجسٹرڈ خریداروں کو 3 ماہ کے اندر رقم واپس کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا، لیکن تاحال سپریم کورٹ کے حکم پر بلڈرز نے کوئی معاوضہ نہیں دیا، لیکن نسلہ ٹاور کی بجلی، گیس، پانی کی لائنیں کاٹ دی گئی ہیں۔
اس وقت عدالت کے سامنے جو حقائق ہیں ان سے انکار نہیں، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ نسلہ ٹاور کے تمام کاغذات حکومتی محکمے سے منظور شدہ ہیں، ان تمام اتھارٹیز کو طلب کریں جن کی سرپرستی اور اجازت سے یہ ٹاور بنا اور دیگر غیر قانونی تعمیرات ہوئیں۔ اس میں ایک عام آدمی کا کیا قصور ہے؟ اور یہی بات متاثرین بھی کہہ رہے ہیں جو پریس کانفرنسیں کررہے ہیں، احتجاج کررہے ہیں، جس میں معمر اور معذور مکینوں کے علاوہ خواتین اور معصوم بچوں کی بڑی تعداد شریک ہورہی ہے۔ بلکہ اس احتجاج کے دوران ہی ایک متاثرہ بزرگ خاتون دورانِ گفتگو ہارٹ اٹیک کے باعث زمین پر گر گئیں جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس وقت المیہ یہ ہے کہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتِں عملی طور پر خاموش بیٹھی ہیں۔ پیپلز پارٹی خاموش ہے، وہ سپریم کورٹ کے پاس نہیں جاتی۔ پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا کوئی وزیر، مشیر اور کراچی کے ایم این اے اور ایم پی اے نسلہ ٹاور کے مسئلے پر بات نہیں کررہے ہیں، لیکن جماعت اسلامی ہمیشہ کی طرح اصولوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ان متاثرین کا مقدمہ لڑرہی ہے۔ عملی طور پر اس نے نسلہ ٹاور کے سامنے متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اُن کا دکھ اور درد سنا بھی ہے اور پہلے دن سے آج تک ان کے ساتھ کھڑی ہے اور درست موقف کےساتھ کھڑی ہے۔ اس ضمن میں امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن بار بار کہہ رہے ہیں کہ متاثرین کو متبادل فراہم کیے بغیر کسی صورت نسلہ ٹاور کو نہ گرایا جائے۔ مکینوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر گھر بنائے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ نسلہ ٹاور گرانے کے فیصلے پر نظرثانی کریں اور جس قانون کے تحت بنی گالہ کو ریگولرائز کیا گیا ہے اسی قانون کے تحت نسلہ ٹاور کو بھی ریگولرائز کیا جائے، نسلہ ٹاور کے متاثرین کے پاس تمام حکومتی اداروں کی دستاویزات موجود ہیں پھر کس بنیاد پر نسلہ ٹاور کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا؟ لیکن اب ایک بار پھر چیف جسٹس کا حکم آگیا ہے کہ اسے بم برسا کر گرادیا جائے تو کم از کم سپریم کورٹ اپنے جون والے حکم پر پہلے عمل کروالے کہ متاثرین کو ان کی رقم واپس کی جائے۔
اس وقت پورے شہر میں کئی غیر قانونی عمارتیں موجود ہیں، سوسائٹیز میں پورشن بن رہے ہیں، عدالتی احکامات کے باوجود غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے، بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں، مکین مستقل ناجائز پورشن کے خلاف احتجاج کررہے ہیں لیکن اتنی مستعدی کہیں اور نظر نہیں آتی جتنی نسلہ ٹاور کے معاملے میں ہے۔ یہی بات امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی کہی ہے کہ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے پاس تمام حکومتی اداروں کی دستاویزات موجود ہیں، پھر کس بنیاد پر نسلہ ٹاور کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا؟ انہوں نے کہا اور بالکل درست کہا کہ شہر میں متعدد مقامات پر ناجائز عمارتیں قائم ہیں، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ سندھ سیکرٹریٹ میں ناجائز عمارتوں کو جائز بنانے کا عمل جاری ہے اسے روکا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نسلہ ٹاور میں کوئی جاگیردار اور سرمایہ دار نہیں رہتا، لوگوں نے کاروبار اور ملازمتیں کرکے اپنا آشیانہ بنایا ہے، سب چاہتے ہیں کہ تجاوزات ختم ہوں، جماعت اسلامی نے قبضے اور چائنا کٹنگ پر سب سے پہلے آواز اٹھائی۔ کراچی میں تاریخی دہشت گردی کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بارہ مئی کی آفت میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے، ریاست ان دہشت گردوں کو سپورٹ کررہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کورٹس کی ناکہ بندی کی گئی تھی، بارہ مئی کو اس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس تھے، آگ لگتی رہی، کسی عدالت نے خوف کی وجہ سے کمیشن کی کارروائی آگے نہیں بڑھائی، چودہ سال گزر گئے مگر عدالتوں نے حقیقت عوام کو نہیں بتائی۔ چائنا کٹنگ کرنے والے کون لوگ تھے، سب کو معلوم ہے۔ کیا چیف جسٹس نے ابھی تک کسی چائنا کٹنگ والے یا ان کے سربراہوں کے خلاف کوئی کارروائی کی؟
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ چیف جسٹس بم سے گرائیں یا جہازوں سے حملہ کروائیں، ہمیں بس انصاف دیں۔ طاقتور لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، این او سی جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ صوبائی اور وفاقی حکومت کا کوئی نمائندہ یہاں نہیں آرہا۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ”بحیثیت امیر جماعت اسلامی کراچی میں نسلہ ٹاور کے مکینوں کے ساتھ ہوں، جماعت اسلامی ان کے ساتھ ہے اور ان سے بھرپور اظہارِ یکجہتی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمشنر صاحب بند کنکشن کو بحال کریں، بجلی بحال کی جائے۔ کے الیکٹرک کی کرپشن جاری ہے، سپریم کورٹ کے الیکٹرک کے معاملے پر کیوں خاموش ہے؟ انتظامیہ فوری ان کے پیسے واپس دلوائے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ لوگوں کو ان کے پیسے مارکیٹ ویلیو کے حساب سے دیے جائیں، ہمیں بتایا جائے کون رقم دے گا اور کب دے گا؟ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ وزیراعلیٰ، وزیر بلدیات اور کمشنر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہ بنیں، چیف جسٹس نے ملک ریاض کے خلاف کیا کارروائی کی؟ وزیراعلیٰ اور زرداری ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اگر فیلکن کے نام سے کوئی پلازہ بن رہا ہے تو وہ ناجائز ہے، فیلکن پلازہ اور عسکری فور کے ساتھ والے پلازہ کو بھی اڑایا جائے۔ بنی گالہ کو اجازت دی گئی، ان کو کیوں نہیں دی؟ ایک ملک میں دو قانون کیسے چل رہے ہیں؟
جیسا کہ میں نے ابتدا میں لکھا کہ نسلہ ٹاور کی عمارت گرانے کا فیصلہ انسانی المیوں کو جنم دے سکتا ہے، کیونکہ متاثرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں موجود رہیں گے، مسمار کرنے والوں کو پہلے ہمارے اوپر بلڈوزر چلانا ہوگا۔ رہائش عوام کا بنیادی حق ہے، بدقسمتی سے ہماری ریاست پہلے ہی یہ حق اور سہولت دینے سے قاصر ہے۔ یہ ریاست لوگوں کو جینے کا حق نہیں دے رہی، روزانہ المیے جنم لے رہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پہلے ہی لوگوں کا برا حال ہے۔ اس وقت ملک حالتِ جنگ جیسی صورت حال میں ہے، ایسے میں یہ کہنا کہ ”سب کچھ غیر قانونی ہے اور گرا دیا جائے“ انصاف کا تقاضا نہیں۔ اگر اس عمارت کو گرانا قانون کا تقاضا ہے تو یہ بھی آئین و قانون کا تقاضا ہے کہ نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کو ان کی جمع پونجی واپس دلائی جائے، کیونکہ اگر ان کے ساتھ کسی نے دھوکہ کیا ہے تو وہ ریاست اور اُس کے اداروں نے کیا ہے۔ اصل بات اور سوال یہی ہے کہ یہ یا اِس جیسا کوئی بھی پروجیکٹ کیسے تعمیر ہوگیا؟ جبکہ اس میں بجلی، گیس، پانی کے بل ادا کیے جاتے ہیں اور پھر پراپرٹی ٹیکس بھی لیا جاتا رہا ہے۔ اصل میں ان اداروں کو کٹہرے میں  لانے اور سزا دینے کی ضرورت ہے جو کہ اب تک ممکن نہیں ہوسکا، اور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں آج بھی شہر کراچی میں بڑے پیمانے پر ناجائز تعمیرات ہورہی ہیں جو مستقبل کی ”نسلہ ٹاور“ ہوں گی۔