عرب امارات کے پردے میں اسرائیل کا نیا کھیل

متحدہ عرب امارات کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ سے براہِ راست ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت عرب امارات مقبوضہ علاقے میں رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹس، انڈسٹریل پارکس، آئی ٹی ٹاور، کثیرالمقاصد ٹاور، لاجسٹک، میڈیکل کالجز اور سپر اسپیشلٹی ہسپتالوں کی تعمیر میں تعاون کرے گا۔ اس میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ پر ایک طرف مقبوضہ کشمیر انتظامیہ کے اہلکار اور دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے اہلکار نے دستخط کیے۔ اس موقع پر بھارت کے وزیر تجارت پیوش گویل اور جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا بھی موجود تھے۔ اس موقع پر کہا گیا کہ یہ میمورنڈم دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ بھارت ایک عالمی طاقت بن چکا ہے اور اس میں کشمیر کا اہم کردار ہوگا۔
جب کشمیر میں متحدہ عرب امارات کا نمائندہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ اس یادداشت پر دستخط کررہا تھا، اُس وقت بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر اسرائیل کا دورہ کررہے تھے، اور وہ اسرائیل کی حکومت کو اس خطے میں کسی نئے کردار پر آمادہ کررہے تھے۔ متحدہ عرب امارات کچھ ہی عرصہ قبل اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے، اور وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں اور گہرائیوں کی طرف لے جارہا ہے۔ دونوں ملک اسٹرے ٹیجک تعاون میں بھی بندھ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان فضائی سروس بھی بحال ہوچکی ہے۔ کچھ یہی تعلقات بھارت کے ان دونوں ملکوں کے ساتھ ہیں۔ متحدہ عرب امارات سرزمینِ عرب پر ایک بڑا اور پہلا مندر تعمیر کرچکا ہے۔ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کو جس ملک نے سب سے پہلے سندِ جواز دی وہ متحدہ عرب امارات ہی تھا، جس نے اس اقدام کو بھارت کا اندرونی مسئلہ کہا تھا۔ اس طرح بھارت نے کشمیر میں متحدہ عرب امارت کو امن کا شراکت دار بناکر ایک گہری چال چلی ہے۔ عین ممکن ہے کہ متحدہ عرب امارات کے پردے میں یہ اسرائیل کو کشمیر میں اسپیس دینے کی حکمت عملی ہو، کیونکہ اسرائیل جن گمشدہ یہودی قبائل کی بات کرتا ہے اُن میں وادیِ کشمیر کے کئی قبیلے بھی گنے جاتے ہیں۔ اس طرح اسرائیل اس خطے میں پہلے سے ایک دلچسپی رکھتا ہے۔
مسلمان ممالک کسی دوسرے ملک میں بہت زیادہ بامعنی اور نظر آنے والی سرمایہ کاری کا ریکارڈ نہیں رکھتے، البتہ اسرائیل زرعی ٹیکنالوجی کی تیاری میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ عرب کے بے آب و گیاہ بنجروں کو گل و گلزار میں بدلنے کے ذریعے وہ زراعت اور فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی بستیاں تعمیر کرکے ہائوسنگ کے شعبے میں اپنا تجربہ اور مہارت ثابت کرچکا ہے۔ اس کے برعکس متحدہ عرب امارات کا تجربہ اور مہارت تو درہم اور ریالوں کے ذریعے خریدی ہوئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ متحدہ عرب امارات کو دی جانے والی یہ اسپیس بعد میں اسرائیل کے کام آئے۔
پانچ اگست کے بعد متحدہ عرب امارات اور کئی دوسرے عرب ملکوں نے پاکستان آکر یہاں کبھی دھمکی اور کبھی تھپکی سے کام لے کر پاکستان کو زیادہ ردعمل نہ دکھانے اور بھارت کے اقدام کو صبر و شکر سے قبول کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی تھیں۔ انہی کوششوں میں او آئی سی کو مفقودالخبر بنانا بھی شامل تھا۔ او آئی سی خاصی مدت تک بھارت کے اس اقدام کے جواب میں گونگی، بہری اور اندھی بنی رہی۔ اس کے پس منظر میں بھارت کا متحدہ عرب امارات اور دوسرے مسلمان ملکوں کو کشمیر میں سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنے کا لالچ دینا تھا۔ بھارت متحدہ عرب امارات کے بعد کسی دوسرے مسلمان ملک کو بھی کشمیر میں سرمایہ کاری کے نام پر اپنے ساتھ شامل کرسکتا ہے۔ جس طرح پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری نے چین کو جنوبی ایشیا کے تنازعے میں امن کا ایک اسٹیک ہولڈر بنایا ہے، اسی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے بھارت نے ایک بااثر مسلمان ملک متحدہ عرب امارت کو کشمیر میں امن کا اسٹیک ہولڈر بنانے کی کوشش کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کا سرمایہ اور وسائل اگر کشمیر میں لگیں گے تو اس کی خواہش اور کوشش ہوگی کہ یہ سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہو۔ اس کے ذریعے ماحول میں امن کی ہوائوں کا راج اور چلن عام ہو۔ اس طرح کشمیر میں امن اب بھارت کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کی ضرورت اور مجبوری ہوگی۔ اس سرمایہ کاری کارڈ کے ذریعے متحدہ عرب امارات کو کشمیر میں امن کا خواہش مند اور ضرورت مند بنایا گیا ہے۔ یہ وہ دانہ ہے جو جنرل پرویزمشرف کو بھی ڈالا گیا تھا، اور کہا گیا تھا کہ پاکستان کشمیر کے اقتدارِ اعلیٰ کے حصول کے لیے کوششیں چھوڑے، اور جنگ کا فریق بننے کے بجائے کشمیر میں امن کا شریک بن جائے۔ پاکستان اور بھارت مل کر ہائیڈل، منرل، سیاحت کے شعبوں میں کام کریں۔ بھارت کے معروف صحافی اے جی نورانی نے اس پر تحریری طور پر خاصا کام بھی کیا جس کے مطابق پاکستان اور بھارت کس طرح کشمیر کی اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ منصوبوں کا آغاز کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے بھارت کی ایک دانشور کے خیالات کا سہارا بھی لیا تھا جو برسوں پہلے ’’پولیٹکل اکانومی آف جموں و کشمیر‘‘ کے نام سے ایک تحقیق سامنے لائی تھی۔ بھارت کے اس اقدام سے مترشح ہے کہ وہ تنہا کشمیر کے حالات کو سنبھال نہیں سکا۔ بھارت مار دھاڑ اور ظلم و ستم کی پالیسی سے کشمیریوں کے دل جیت سکا نہ انہیں اپنا ہمنوا بنا سکا، بلکہ بھارت کا ہر ستم کشمیریوں کو اُس سے دور کرنے کا باعث بنا ہے، اس لیے اب بھارت نے سرمایہ کاری کے نام پر ایک مسلمان ملک کو امن عمل میں شراکت دار بناکر حالات کو ایک نیا رخ دینے کا راستہ اپنالیا ہے۔