برطانوی رکن پارلیمان کا قتل سوشل میڈیا پر پابندیوں کے لیے نئی قانون سازی کا آغاز

برطانیہ میں ایسکس کے علاقے لی آن سی میں برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ ایمس کو چھری کے وار کرکے قتل کردیا گیا۔ یہ افسوس ناک واقعہ 15 اکتوبر 2021ء کو اُس وقت پیش آیا جب رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ ایمس اپنے حلقہ انتخاب میں لوگوں سے اُن کے مسائل کے سلسلے میں ملاقاتوں میں مصروف تھے۔ سر ڈیوڈ ایمس کا تعلق حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی سے تھا اور وہ 1983ء سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے آرہے تھے۔ پولیس نے موقع واردات سے ہی حملہ اور کو گرفتار کرلیا جس کی شناخت 25 سالہ صومالی نژاد مسلمان علی حربی علی کے نام سے ہوئی۔ اس افسوس ناک واقعہ کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے قومی سوگ کا اعلان کیا اور قومی پرچم سرنگوں کردیا۔
برطانیہ میں قتل کا واقعہ عام طور پر نہیں ہوتا، اور رکن پارلیمنٹ کا قتل گو کہ ہر لحاظ سے بہت بڑا واقعہ ہے، لیکن افسوس ناک طور پر برطانوی میڈیا خاص طور پر بی بی سی نے اس کو مذہبی شناخت سے جوڑنے کی کوشش کی۔ قتل کے واقعہ کے 24 گھنٹے کے اندر ہی نہ صرف قاتل کی شناخت بلکہ اُس کے مذہب کے ساتھ خبر نشر کرکے برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کو براہِ راست طور پر اس میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ اس سے قبل برطانوی رکن پارلیمنٹ کے قتل کا واقعہ 5 سال قبل پیش آیا تھا جب 16 جون 2016ء کو برطانوی خاتون رکن پارلیمنٹ جوکوکس کو فائرنگ اور چاقو کے وار کرکے ویسٹ یارک شائر کے علاقے برسٹل میں قتل کردیا گیا۔ قاتل کو پولیس نے موقع واردات سے تھوڑے فاصلے پر گرفتار کرلیا جس کی شناخت تھامس الیگزینڈر میئر کے نام سے ہوئی، اور اُس کی شناخت میں مذہب کے بجائے گورے نسل پرست کا نام استعمال کیا گیا۔
لندن کے علاقے جنوب مشرقی لندن میں خاتون اسکول استاد سبینہ نساء کو قتل کردیا گیا۔ سبینہ مسلمان بنگلہ دیشی نژاد برطانوی شہری تھیں، ان کو رات کے اندھیرے میں 18 ستمبر 2021ء کو اُس وقت قتل کیا گیا جب وہ اپنے گھر سے اپنی دوست کے پاس جانے کے لیے نکلی تھیں۔ بعد ازاں پولیس نے قتل کے الزام میں 36 سالہ کوسی سلامیج کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا، لیکن حیرت انگیز طور پر ملزم کے مذہب کو کہیں بھی ظاہر نہیں کیا، اور نہ ہی میڈیا نے مبینہ قاتل کی مذہبی شناخت کو میڈیا کی زینت بنایا، کیونکہ اب مقتول مسلمان تھا اور مبینہ قاتل مسلمان نہیں۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ ایمس کے قتل کے بعد پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث جاری ہے جہاں دہشت گردی کی ممکنہ وجوہات پر غور کیا جارہا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے بھی دہشت گردی کا ذمہ دار سوشل میڈیا کو قرار دینے کی کوشش کی ہے، اور سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد کو اس کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ نے سوشل میڈیا پر قدغن لگانے اور نفرت انگیز مواد کی موجودگی پر سوشل میڈیا کے مالکان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے لیے نئے میڈیا قوانین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جوکہ اِس سال دسمبر تک قانون کو حتمی شکل دے کر پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کرے گی، اور منظوری کے بعد یہ قوانین نئے سال سے نافذ العمل ہوں گے۔ سوشل میڈیا کے خلاف سخت قانون سازی کے خلاف مہم شروع ہوگئی ہے اور اسے اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ حکومت و اپوزیشن دونوں کا یہ کہنا ہے کہ اس میڈیا کو نفرت آمیز مواد کے لیے کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا اور یہ سوشل میڈیا کمپنیوں کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے مواد کو فوری طور پر ہٹائیں ورنہ ان کے مالکان و کمپنیوں کے خلاف نئے قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
برطانوی وزیر داخلہ پریٹی پٹیل نے تمام ارکانِ پارلیمنٹ کو اُن کی سیکورٹی کے حوالے سے ریڈ الرٹ جاری کیا اور ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رابطے میں رہیں اور کسی بھی عوامی اجتماع میں جانے سے فی الحال گریز کریں۔ جبکہ برطانوی میڈیا کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کہ جن میں ارکانِ پارلیمنٹ کے لیے سیکورٹی پلان کی بابت پوچھ گچھ کی گئی تھی، کو پارلیمنٹ اور وزیر داخلہ نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر پلان کی پوری تفصیل میڈیا کو ہی جاری کرنی ہے تو پھر سیکورٹی پلان کی کیا افادیت رہ جاتی ہے؟
یہ وہ بات ہے جو پاکستانی میڈیا کو آج تک سمجھ میں نہ اسکی۔ اگر اس طرح کا جواب پاکستان میں دیا جاتا تو شاید یہ بھی اظہار ِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دے دیا جاتا۔ اسی طرح ڈیوڈ ایمس کے قتل کے بعد جائے وقوعہ پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور اپوزیشن لیڈر کیئر اسٹارمر نے ایک ساتھ حاضری دی اور مقتول رکن پارلیمنٹ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ادھر لیبر پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ سر ڈیوڈ ایمس کے قتل کے بعد خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں وہ کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار کے خلاف اپنا کوئی امیدوار نہیں لائیں گے تاکہ برطانوی عوام میں تقسیم کا تاثر ختم ہو، اور اس دہشت گردی کے خلاف قومی یک جہتی کا پیغام قوم کو دیا جائے۔
برطانیہ کی مستحکم جمہوری روایات سے پاکستانی سیاست دانوں کو بھی بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان بارہا کہتے ہیں کہ وہ مغرب کو زیادہ جانتے ہیں، تو انہیں اِن روایات کو بھی جاننا اور پاکستان میں پروان چڑھانا چاہیے۔ اسی طرح میڈیا کو بھی ہر معاملے میں ٹانگ اَڑانے کی عادت ترک کرکے برطانوی میڈیا کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ خبر کی حیثیت انسانی زندگی سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔