اقتصادی بحران مصنوعی ہے

پی ٹی آئی کی حکومت نے رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت مقرر کیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے عمران خان وزیراعظم اور عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب ہیں، اور عمران اسماعیل گورنر سندھ۔ رضا باقر کہتے ہیں کہ ڈالر کی قدر میں روپے کے مقابلے میں اضافہ ہونے سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو فائدہ ہوتا ہے، عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں 12 موسم ہوتے ہیں، اور عمران اسماعیل نے کہا کہ لیاقت علی خان کراچی میں پیدا ہوئے اور کراچی میں شہید ہوئے۔ عثمان بزدار ہوائی جہاز میں مرشد کے قدموں میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ وزراء کے عالمانہ بیانات کی فہرست الگ ہے۔ یہ لوگ کیسے عوامی مسائل کا ادراک کرسکتے ہیں جو نہ پاکستان سے واقف ہیں اور نہ ہی یہاں کے مسائل سے! اب تو پاکستان میں مہنگائی کے اصل مقاصد واضح ہوکر سامنے آرہے ہیں۔ وزیر خزانہ بن کر آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے جانے والے، مشیر خزانہ ہوکر واپس آرہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر پیشگی عمل کرنے کے بعد مذاکرات کی کیا ضرورت تھی؟ ایف اے ٹی ایف میں جانے والی پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام خطرے میں ڈال دیا ہے۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ کا اصل نشانہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے، اور اسی کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اسی مقصد سے رضا باقر کو پاکستان بھیجا گیا تاکہ پاکستان کو اقتصادی طور پر اتنا کمزور کردیا جائے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام بلکہ ایٹمی توانائی کے حصول کے تمام منصوبوں سے دست بردار ہوجائے۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت آئی ایس آئی چیف کا تقررنامہ جاری کرنے سے گریز کررہی ہے، جس سے سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوچکی ہے۔ یہ امریکہ کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کبھی بھی اس نہج کو نہ پہنچیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ پہلے وہ اس کام کے لیے فوج کو ہی اکساتے تھے، جیسے کہ پرویزمشرف نے ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد پاکستان کے اُس وقار کو ٹھیس پہنچائی جو اسے ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا، اور سول حکومت کو جو بھرپور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آئی تھی اپنی فوجی طاقت کے زور پر ختم کردیا۔ لیکن اِس بار امریکہ کی اس خواہش کو پی ٹی آئی حکومت نے پورا کیا ہے۔ فوج نے مداخلت کے جائز جواز کے باوجود مداخلت نہیں کی، لیکن پی ٹی آئی حکومت مسلم لیگ (ن) کی 2013ء کی حکومت کی عسکری دشمنی سے بھی آگے نکل گئی۔ شاید آرمی چیف کو یہ احساس ہورہا ہوگا کہ ان کے عہدے کی مدت میں توسیع دے کر ان سے اور فوج کے ادارے سے کیسا انتقام لیا گیا ہے۔ ان کے فیصلوں کو وزیراعظم نہ صرف نظرانداز کررہے ہیں بلکہ اس کے بارے میں سرعام تبصرہ بھی کررہے ہیں۔ ملک میں بڑھتی مہنگائی پر عوام شکوہ کناں ہیں لیکن وہ کسی سیاسی جماعت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسی لیے مہنگائی کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے انہیں نظر نہیں آتے۔ عوام کو شکوہ ہے کہ مقتدر حلقے پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کی سرپرستی کررہے ہیں۔ مقتدر حلقے اگر چاہیں تو ایم کیو ایم اور قاف لیگ کو اشارہ کردیں کہ وہ اپنی حمایت واپس لے لیں تو پی ٹی آئی حکومت آسمان سے زمین پر آجائے گی اور موکل جنات کی شیطانی قوتیں بھی فرار ہوجائیں گی۔
ملک میں ایک بحران ہوگا، امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی عالمی اقتصادی ادارے پاکستان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ اس کام کے لیے بہت پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ 4 مئی 2019ء ہفتے کا دن تھا جس دن سرکاری دفاتر کی تعطیل ہوتی ہے، اسی دن آئی ایم ایف کے ملازم ایک معمولی سے اکنامسٹ کو پاکستان میں اقتصادی بحران پیدا کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اسے پاکستان کے خزانے کے ضامن اسٹیٹ بینک کا گورنر بنایا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ رات کے اندھیرے میں کیا جاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں اسٹیٹ بینک کا بننے والا گورنر سب سے پہلا فیصلہ یہ کرتا ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومتِ پاکستان کو اسٹیٹ بینک میں مداخلت سے روک دیتا ہے۔ یعنی وہ پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں آزاد ہوجاتا ہے۔ وہ شرح سود بڑھاتا چلا جاتا ہے اور پاکستان کی اسلامی بینکاری کا بیڑہ غرق کردیتا ہے، اور لوگوں کی بچتوں پر ڈاکہ ڈالنا شروع کردیتا ہے تاکہ لوگ بینکوں سے اپنی بچتیں نکال لیں اور ملکی خزانہ خالی ہوجائے۔ رضاباقر 2022ء میں جائیں گے لیکن ان سے پہلے کے گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کو مقررہ وقت سے پہلے ہی برطرف کردیا گیا تھا، کیونکہ وہ پاکستان کی سول سروس سے آئے تھے اور پاکستان کی اقتصادی حالت سے بخوبی واقف تھے، جبکہ رضا باقر کے پاس آئی ایم ایف کے ناکام تجربات کے سوا کچھ نہیں تھا۔ مصر اور رومانیہ میں آئی ایم ایف مشن کی سربراہی کے سوا اُن کے پاس کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے پی ایچ ڈی کی اسناد تھیں۔ 18 سال آئی ایم ایف میں اور 2 سال عالمی بینک میں کام کیا، لیکن تجارتی بینکاری کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ البتہ ان کی پی ایچ ڈی سیاسی اقتصادیات میں ہے، یعنی وہ پاکستان کی اقتصادیات کو اس طرح نقصان پہنچائیں گے جس کے نتیجے میں اُن کے آقائوں کا پاکستان کو کمزور کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوسکے۔ رضا باقر نے پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں چھوٹا تو کیا ہی ہے کہ آج ایک ڈالر 174 روپے سے زیادہ میں فروخت ہورہا ہے، جبکہ بھارت میں 75 روپے میں، بنگلہ دیش میں 85 سے 86 روپے میں، افغانستان میں 89 سے 90 روپے میں ایک ڈالر مل رہا ہے۔ پاکستان میں زرمبادلہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی رقوم سے حاصل کیا جاتا ہے، یہ نہایت کمزور اور ناقابل اعتماد راستہ ہے۔ کئی برسوں سے پاکستان کی پیداواری صلاحیت کمزور پڑچکی ہے، زرعی اجناس کی برآمدات صفر ہے، ٹیکسٹائل کی برآمدات بھی ناقابلِ ذکر ہے۔پھلوں کو محفوظ بنا کر فروخت کرنے کا کوئی نظام نہیں، اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی سازگار ماحول نہیں ہے۔
(باقی صفحہ 41 پر)
پاکستان کی کرنسی کے استحکام کے لیے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، لیکن پاکستان میں توانائی کا بحران ہے۔گیس اور بجلی دونو ں مہنگی ہیں اور آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کیا جائے، رعایتیں واپس لی جائیں، نئے ٹیکس لگائے جائیں۔ آئی ایم ایف نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ پاکستان کی حکومت کسی کو 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ تنخواہ نہ دے۔ رضا باقر کو ایک ماہ کی اتنی تنخواہ دی جاتی ہے کہ اس سے پاکستان میں کم ازکم 200 اسکول قائم کیے جاسکتے ہیں، ایک درمیانے درجے کا اسپتال قائم ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ پاکستان سے مفت بجلی اور مفت پیٹرول لیتے ہیں اور ٹیکس کا بوجھ عوام پر ڈالتے ہیں۔ پاکستان کی نوکر شاہی کنونس کی مد میں لاکھوں لیٹر پیٹرول بھسم کردیتی ہے کیونکہ گریڈ 20 سے گریڈ 21 اور 22 تک کے ہزاروں افسران کو مفت سیکڑوں بلکہ لاکھوں لیٹر پیٹرول دیا جاتا ہے۔ گریڈ 20 اور 21 کا افسر ماہانہ 180 لیٹر پیٹرول خرچ کرسکتا ہے اور گریڈ 22 کا افسر 240 لیٹر ماہانہ خرچ کرسکتا ہے۔ یہ افسران اس پیٹرول کی رقم اپنی تنخواہ میں شامل کرلیتے ہیں، انہیں پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں سے کوئی صدمہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو خوش ہوتے ہیں کہ ان کی تنخواہ میں اتنی رقم کا اضافہ ہوگا۔ ان کے علاوہ رضا باقر جیسے کئی اور افراد ہیں جو کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہ اور مراعات کے نام پر قومی خزانے سے لوٹ رہے ہیں۔ قومی خزانے پر چمٹی ان دیمکوں پر انقلاب کے اسپرے کی سخت ضرورت ہے۔