تین سال پہلے تحریک انصاف کے ماہرین ملک میں سستے انصاف، مثالی قانون سازی، کڑے احتساب، آئی ایم ایف سے مستقل چھٹکارے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے کا دعویٰ کیا کرتے تھے، آج تین سال بعد تحریک انصاف نے ملک کا یہ منظرنامہ بنایا ہے کہ بلدیاتی ادارے تباہ، احتساب ایک مذاق اور سستا انصاف ایک خواب بن چکا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے دعوے کی روشنی میں صرف ایک عہدِ وفا ہوا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں بڑھا دی گئی۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت میں اضافے اور لاقانونیت کے باعث ملک میں بسنے والے اکیس کروڑ لوگوں کا ذہنی سکون لحد میں اتر رہا ہے۔ یہ وہ منظر ہے جس میں آج تین سال کے بعد ملک غیر یقینی کی جھلستی ہوئی فضائوں کی لو میں گزر رہا ہے۔ ملک میں بسنے والے کسی شخص کے چہرے پر فرحت نہیں ہے، پریشانیاں سائے کی طرح مسلسل لگی ہوئی ہیں۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک کو ایک مضبوط بلدیاتی نظام دیا جائے گا تاکہ شہری کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے ڈیرے کی خاک نہ چھانیں۔ تحریک انصاف کا منشور اور وزیراعظم عمران خان کی تقریریں افسانے معلوم ہورہی ہیں۔ حکومت نے اقتدار ملتے ہی بلدیاتی ادارے معطل کیے، اور آج یہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر بحال ہوئے ہیں۔ حکومت نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو ختم کرکے 6 ماہ میں قانون سازی کرکے نئے انتخابات کرانے کا دعویٰ کیا تھا، اور پھر ایک آرڈیننس کے تحت اس مدت میں مزید سوا سال کی توسیع کردی گئی۔ اصلاحات کی آڑ میں وقت لیا گیا مگر اصلاحات نہ ہوئیں۔ نئے بلدیاتی نظام اور قانون کے نام پر پنجاب حکومت اب تک تین مختلف مسودے سامنے لا چکی ہے۔ مجوزہ قانون کو صوبائی اسمبلی سے منظور بھی کرایا گیا مگر ہر 6 ماہ بعد اس میں کوئی نہ کوئی ترمیم کردی جاتی ہے۔ مزید غور کے لیے کمیٹی پر کمیٹی بنائی گئی تاہم تحریک انصاف ملک کو آئیڈیل بلدیاتی نظام نہیں دے سکی۔ پرانے بلدیاتی ادارے تختہ مشق بنے رہے۔ بیوروکریسی یہی چاہتی تھی کہ اختیارات اس کے ہاتھ میں رہیں۔ سپریم کورٹ میں حال ہی میں کیس کی سماعت کے دوران جب مسودہ پیش کیا گیا تو عدلیہ نے توجہ دلائی کہ بلدیاتی ایکٹ کی شق 3 آئین کا حصہ رہنے والے قانون 58 ٹو بی کے مترادف ہے۔ بہرحال اب سپریم کورٹ نے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم دیا ہے لیکن بیوروکریسی رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد پنجاب حکومت نے بلدیاتی نمائندوں کو بحال تو کردیا ہے مگرتعاون کس طرح کا ہو، یہ ابھی واضح نہیں۔ گزشتہ 3 سال کے دوران سرکار کا اس حوالے سے جو طرزعمل رہا اس کے بعد کون حکومتی اقدامات پر یقین کرے گا؟ بلدیاتی انتخابات نہ کروانے پر تحریک انصاف کے اندر سے بھی آوازیں اٹھتی رہی ہیں، اسی لیے خیبر پختون خوا کی حکومت نے بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار کرانے کی خواہش ظاہر کی ہے جس کے تحت ولیج اور نیبرہڈ کونسل کے انتخابات اس سال دسمبر، جبکہ تحصیل چیئرمین کے لیے انتخابات مارچ 2022ء میں کروائے جائیں گے۔ تاہم الیکشن کمیشن انتخابات ایک ساتھ کروانا چاہتا ہے۔ حکومت نے انتخابات کے حوالے سے تین صفحات پر مشتمل مراسلہ الیکشن کمیشن کو بھیجا ہے جس میں حکومت نے دو مرحلوں میں انتخابات کروانے کی تجویز پیش کی ہے۔ پہلے مرحلے میں 15 دسمبر کو ولیج اور نیبرہڈ کونسل، جبکہ دوسرے مرحلے میں تحصیل کونسل کے انتخابات 25 مارچ 2022ء کو کروائے جائیں گے۔ پورے صوبے میں 4201 ولیج کونسل اور نیبرہڈ کونسلز کی سطح پر انتخابات کروائے جائیں گے اور ولیج اور نیبرہڈ کونسل میں سے 8 ارکان پر مشتمل کونسل بنائی جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے اس کے لیے شیڈول جاری کردیا ہے، یہ انتخابات کنٹونمنٹ بورڈ والے نتائج لائے تو حکومت کی مشکلات بڑھ جائیں گی اور ملک میں ایک نیا سیاسی منظرنامہ قریب آجائے گا۔
سب جانتے ہیں کہ ملک کو اس وقت سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدے سے ہم مزید مشکلات میں گھر جائیں گے۔ ہمارے لیے خارجہ پالیسی کو خودمختاری کے ساتھ آگے بڑھانا مشکل ہوچکا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر نہ ملیں تو ہماری معیشت ایک قدم نہیں چل سکتی۔ اگر یہی حالات رہے تو ہمارے لیے غیر ملکی قرض اتارنے، ان قرضوں پر سود ادا کرنے، اور ملک کے اخراجات چلانے کے لیے آئی ایم ایف کی دہلیز سے اٹھنا ممکن نہیں رہے گا، اور دفاعی ضروریات پوری کرنے میں بھی مشکل پیش آئے گی۔ ایک عالمی لابی یہی چاہتی ہے کہ پاکستان اپنے دفاعی اخراجات کے لیے آئی ایم ایف کا محتاج ہوجائے۔ کیا حکومت کی معاشی ٹیم اسی مقصد کو آگے بڑھا رہی ہے؟ حکومت مسائل کا حل چاہتی ہے تو اسے پارلیمنٹ سے رجوع کرنا ہوگا، اور اپوزیشن سے تعاون حاصل کیے بغیر یہ ممکن نہیں۔
پہلے سمجھا جارہا تھا کہ قومی سطح پر لیڈرشپ کے لیے عمران خان کا کوئی متبادل نہیں۔ اب اس سوچ میں تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے۔ پی ڈی ایم اور ملک کی اپوزیشن جماعتوں کا متحرک ہونا بے معنی نہیں ہے۔ اگر یہ احتجاج جاری رہا اور زور پکڑ گیا تو ملک میں نئے انتخابات لازمی ہوجائیں گے۔ تحریک انصاف کے ہاتھ سے وقت نکل رہا ہے کہ مہنگائی، حکومتی تساہل اور وعدوں کے پورا نہ ہونے کی بنا پر حکومت کے خلاف فضا بن رہی ہے، اور عوام بھی تحریک انصاف کے رومانس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ عالمی بینک نے 2022ء میں مہنگائی میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2023ء تک غربت میں کمی کا امکان ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے خلاف سینیٹ میں قرارداد کے ذریعے اپنے ارادوں کا اظہار کردیا ہے۔ یہ ایسا نازک وقت ہے کہ حکومت کو پارلیمنٹ کے ذریعے ایک متفقہ پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے تھا، لیکن حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ تقرریوں کے حوالے سے مقتدر حلقوں کے ساتھ بھی تعلقات کو دائو پر لگا دیا ہے۔
سب سے اہم توجہ طلب مسئلہ افغانستان ہے جہاں طالبان حکومت کو درپیش مشکلات کے دو پہلو ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کا مطالبہ ہے کہ وہ ماضی بھول کر اقوام عالم کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ طالبان رہنمائوں کا خیال ہے کہ وہ جن کے خلاف جہاد کرتے رہے ہیں، جنہیں اپنے ملک سے نکالا اب انہی کی پالیسیوں کو کیسے نافذ کردیں؟ بہرحال طالبان قابلِ عمل راہ نکال رہے ہیں، ان کی لیڈرشپ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ معیشت سنبھل سکے، اسی لیے ایک وفد ازبکستان بھیجا گیا اور دوسرا وفد قائم مقام وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی کی قیادت میں ترکی گیا۔ طالبان ان ممالک سے دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے بات چیت کررہے ہیں، اور قطر کے ساتھ بھی رابطہ کیا گیا ہے۔ تینوں ملک افغان عوام کی امداد کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ ہیں تاہم طالبان حکومت تسلیم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔
کابل کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ملک میں خوراک کی کمی ہے، حکومت کے خزانے میں پیسے نہیں ہیں، اور عوام کسمپرسی کا شکار ہیں۔ عالمی برادری حالات کا جائزہ لینے کے بعد کچھ متحرک ہوئی ہے، ہوسکتا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے روس اور چین کوئی بڑا کردار اپنے ذمے لیں۔ روس کے مضطرب ہونے کی کئی وجوہات ہیں، وہ وسط ایشیائی ریاستوں کے بارے میں فکرمند ہے کہ یہاں افغان بحران کے اثرات غالب نہ آجائیں۔ وہ افغانستان میں استحکام کا خواہش مند ہے۔ روس کے بعد بھارت بھی اپنے مفادات تلاش کررہا ہے اور اگلے ماہ افغانستان کے معاملے پر ایک کانفرنس بلانا چاہتا ہے، لیکن کانفرنس میں پاکستان شریک ہوا تو ہی پائیدار فیصلے ہوں گے ورنہ نہیں۔ بین الاقوامی برادری طالبان کے ساتھ کچھ معاملات طے کرنا چاہتی ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر امداد میں تاخیر کی گئی تو افغانستان ایک بہت بڑے انسانی المیے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اہم مسئلہ افغان عوام کو انسانی امداد فراہم کرنا ہے، لیکن کابل میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مخمصہ رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ وہ ممالک بھی جو طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں، طالبان کو اعتدال پسندی اور افغان عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے احترام کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اگر کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوئی تو اس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر ہی پڑے گا، اور ہماری قومی معیشت اس قابل نہیں کہ اسلام آباد افغان بحران کا بوجھ اٹھا سکے۔ پاکستان کی اپنی معیشت گر رہی ہے، روپے کی قدر تنزلی کا شکار ہے، آئی ایم ایف مزید تنزلی چاہتا ہے، بلکہ اس نے روپے کی قدر مزید کم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پاکستانی کرنسی اب ڈالر کے علاوہ یورو، پائونڈ سمیت دنیا کی ہر کرنسی کے مقابلے میں گر رہی ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی سے قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، ملک میں اشیائے ضروریہ کے نرخ بے قابو ہورہے ہیں، اور مہنگائی کے خلاف ہر طبقہ فکر سراپا احتجاج ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے مانچسٹر میں بیان دیا کہ روپے کی قدر کم ہونے سے سمندر پار پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کو فائدہ پہنچے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک پر پاکستانی کرنسی کی حفاظت و نگہداشت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، لیکن ایسا کیوں ہے کہ ڈالر اور پیٹرول دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہوگئے ہیں؟ اگلے ماہ گیس ٹیرف میں اضافہ ہونے جارہا ہے۔ مہنگائی کے معاملے پر حکومت کی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ داخلی محاذ پر ناکام، خارجہ امور کے معاملات سے پریشان حکومت کے لیے ایف اے ٹی ایف ایک نیا امتحان ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے فیصلہ سنایا کہ پاکستان بدستور گرے لسٹ میں رہے گا اور تسلیم بھی کیا کہ پاکستان نے 34 میں سے 30 نکات میں بہتری دکھائی ہے، ایکشن پلان کے 7 میں سے 4 نکات پر بھی عمل درآمد کیا گیا۔ اصل مطالبہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروپس کی سینئر قیادت کے خلاف تفتیش اور سزائیں دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان کا گرے لسٹ میں ہونا کوئی معمولی بات نہیں، اس میں اُن ممالک کو رکھا جاتا ہے جن پر منی لانڈرنگ نہ روکنے کا اندیشہ ہوتا ہے، جس کا دوسرا مطلب ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آپ کی امداد روک سکتے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ محاذ کوئی معمولی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ شدید تشویش ناک ہے۔ پاکستان معاشی، سیاسی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر جن مشکلات اور تنہائیوں کا شکار ہے اور عوام مہنگائی، بے روزگاری اور عدم تحفظ کے جس خوفناک دور سے گزر رہے ہیں، ایسا وقت پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں خوفناک تنزلی نہ آئی ہو۔