کیا مغرب مررہا ہے؟

مغربی مفکرین کی فکرمندی کی بنیادیں
عہدِ حاضر میں مغربی تہذیب ترقی کی علامت ہے، سیاسی و اقتصادی غلبے کا استعارہ ہے، عسکری فوقیت کا حوالہ ہے، سائنسی و تکنیکی ترقی کا نشان ہے۔ چنانچہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے یہ فرض کرنا بھی محال ہے کہ جدید مغربی تہذیب مررہی ہے، وہ فنا کے مرحلے سے دوچار ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ مغرب واقعتاً مر رہا ہے، اور خود مغرب کے بڑے دانش ور اور مؤرخ ڈیڑھ سو سال سے مغرب کی موت کا اعلان کررہے ہیں، اس کے زوال کا ماتم کررہے ہیں۔ حال ہی میں مغرب کے معروف دانش ور پیٹرک بیچنن کی کتاب Death of the West منظرعام پر آئی ہے۔ جنرل ایوب کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کے بیٹے ہمایوں گوہر نے حال ہی میں اس کتاب کا ایک مرکزی خیال کالم کی صورت میں سپردِ قلم کیا ہے۔ آپ فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے میں اس کا ذکر پڑھ چکے ہیں۔ یہ ذکر اتنا اہم ہے کہ اس کو دوبارہ ملاحظہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمایوں گوہر لکھتے ہیں:
’’یہ دراصل پیٹرک بیچنن(Patrick Buchanan)کی نئی کتاب کا عنوان ہے۔ امریکی مصنف اور سیاست دان پیٹرک بیچنن نے تین امریکی صدور کے ساتھ کام کیا۔ مذکورہ کتاب میں وہ آنے والے دنوں میں مغرب کے زوال کی پیش گوئی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ امریکہ ’’سیاسی اسلام‘‘ کو کس طرح سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ کم و بیش تین عشروں سے سیاسی اسلام کو ختم کرنے کی اُن کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی۔ ان کی ناکامی کی سب سے بڑی علامت امریکہ اور نیٹو کی افغانستان میں ہونے والی شرمناک شکست ہے۔ یہ کتاب دراصل اس شکست پر ردعمل ہے۔ بیچنن کا کہنا ہے کہ اگرچہ یورپ کا بھی یہی حشر ہوگا، لیکن امریکہ بطور خاص اخلاقی سطح پر اتنی گراوٹ کا شکار ہوجائے گا کہ سماج کو جوڑنے والے عامل کے طور پر خاندان کا تصور تحلیل ہوجائے گا۔ اس کے زوال کی بیان کردہ دوسری وجہ قدرتی اموات کی وجہ سے شہری آبادی کے تناسب میں برپا ہونے والی تبدیلیاں ہوں گی۔ مصنف اس صورت حال کو قدرتی اموات سے آبادی میں کمی قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مغرب میں شرح پیدائش میں کمی پر افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آبادی میں کمی بیرونی ممالک سے آنے والے نوجوان آبادکار پوری کریں گے۔ جس رفتار سے مغرب میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وہ یہاں آکر آباد ہورہے ہیں، بہت جلد کچھ مغربی ممالک میں وہ اکثریت میں ہوجائیں گے ، یا کم از کم ایک قابلِ ذکر اقلیت کے طور پر سامنے آئیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو قبول کرنے کے علاوہ مغرب کو انقلاب کی ضد کے طور پر ماضی کی مذہبی اور اخلاقی اقدار کو بحال کرنا ہوگا۔ وہ مغربی عورتوں کی ماں بننے کی شرح پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عموی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ہر عورت اوسطاً دو بچوں کو جنم دے گی، لیکن عملی طور پر یہ شرح ایک سے بھی کم ہے۔ کم شرح پیدائش کی وجہ سے یورپ دم توڑ رہا ہے۔ مصنف زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک جیسا کہ چین، انڈیا اورلاطینی امریکہ، خا ص طورپر مسلمان ممالک کی آبادی میں غیر معمولی رفتار سے 80ملین سالانہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2050ء تک تیسری دنیا کی کُل آبادی چار ارب سے تجاوز کرجائے گی۔ اس طرح مغرب کا ڈرائونا خواب سچ ہوجائے گا کہ یورپ کی سرزمین اُن لوگوں کی ملکیت بننے جارہی ہے۔ وہ حیران ہوتے ہوئے سوچتے ہیں کہ یورپی اقوام نے بچے پیدا کرنے کیوں چھوڑ دئیے؟ اس کا جواب مصنف خود دیتے ہیں کہ یہ مغرب کے تباہ کن کلچر اور اخلاقیات کی موت کی وجہ سے ہے۔ یہ کلچر موت بن کر مغرب پر مسلط ہوچکا ہے۔ مصنف کسی بھی معاشرے کی اولین بنیادی اقدار کے زوال پر بحث کرتے ہیں۔ یہ اقدارخاندان، اخلاقی اور مذہبی اصول ہیں۔ وہ شادی کے بطور اخلاقی اور سماجی ادارے کی تباہی پر ماتم کناں ہیں۔ وہ تنقید کرتے ہیں کہ مغرب نے کس طرح غیر فطری جیسے مکروہ فعل کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا؟ اس نے معاشرے کے مرکزی ستون کو ڈھا دیا۔ آج 1960ء کی نسبت نوجوان امریکیوں میں خودکشی کی شرح تین گنا زیادہ ہے۔ اس میں منشیات کے عادی افراد کو شامل کرلیں تو صرف امریکہ میں ہی ان کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 12 اکتوبر 2021ء)
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ اقبال نے 20 ویں صدی کے آغاز میں مغربی تہذیب پر شدید حملے شروع کردیے تھے۔ وہ ایک جانب مغربی تہذیب کے باطن کو آشکار کررہے تھے، اور دوسری جانب کھل کر مغربی تہذیب کی موت کا اعلان کررہے تھے۔ اقبال کہہ رہے تھے:
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
…٭٭٭…
خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے
…٭٭٭…
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
…٭٭٭…
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
اقبال کے آخری شعر سے ثابت ہے کہ اقبال کو مغرب کی موت کا کامل یقین تھا اور انہیں معلوم تھا کہ مغرب کو مارنے کے لیے کوئی باہر سے نہیں آئے گا، بلکہ جدید مغربی تہذیب اپنے ہی تصورات کے زہر سے خودکو ہلاک کرے گی۔ بلاشبہ تہذیبوں کے لیے خارجی چیلنج بھی اہم ہوتے ہیں، مگر اُن سے زیادہ اہم وہ چیلنج ہوتے ہیں جو خود تہذیبوں کے باطن سے اٹھتے ہیں۔ جو تہذیبیں اپنے باطن سے نمودار ہونے والے چیلنجوں سے عہدہ برآ نہیں ہوپاتیں وہ اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔ قرآن مجید میں ایسی بہت سی قوموں اور تہذیبوں کا تذکرہ موجود ہے جو مادی اعتبار سے بڑی ترقی یافتہ تھیں مگر انہوں نے حق کا انکار کیا اور صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ حق کے انکار کا مفہوم یہ ہے کہ ان قوموں اور تہذیبوں میں حق کو پہچاننے اور قبول کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ اس سلسلے میں ان کی روحانی، اخلاقی، ذہنی اور نفسیاتی استعداد بہت محدود تھی۔ مغرب کے ممتاز مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے کہیں لکھا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ آدمی چیلنج کو قوتِ محرکہ یا Motivation بنا لے اور ایک نئی دنیا خلق کرکے دکھائے۔ یا پھر آدمی چیلنج کو سر کا بوجھ بنائے اور اس کے نیچے دب کر رہ جائے۔ ماضی کی بہت سی قوموں اور تہذیبوں نے حق کے چیلنج کو اپنے سر کا بوجھ بنا لیا اور اس کے نیچے دب کر رہ گئیں۔ اقبال جب اہلِ مغرب سے یہ کہتے ہیں کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی تو وہ دراصل اہلِ مغرب کو یاد دلاتے ہیں کہ تم جس مادی اور تکنیکی ترقی پر اترا رہے ہو وہ تمہیں ایک دن سانپ بن کر کاٹ لے گی۔ اور مغرب کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ مغرب کی مادی ترقی اُس کے زوال کا سبب بن گئی ہے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، مغرب کے ممتاز مفکرین اور دانش ور کہہ رہے ہیں۔
اوسوالڈ اسپنگلر مغرب کے ممتاز ترین مؤرخین میں سے ایک ہے۔ اس کی کتاب ’’زوالِ مغرب‘‘ کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اسپنگلر کی یہ کتاب 1918ء میں شائع ہوئی۔ اسپنگلر نے زوالِ مغرب میں صاف کہا ہے کہ کلچر کے عروج کا زمانہ اُس کے مذہب کے آغاز کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس کے بقول: کلچر کے زوال کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ اس کلچر میں بلند عمارتیں تعمیر ہونے لگتی ہیں۔ کلچر کے زوال کی دوسری علامت یہ ہے کہ اس کی سیاست ’’دولت مرکز‘‘ ہوجاتی ہے۔ کلچر کے زوال کی تیسری علامت یہ ہے کہ قوم کے مزاج میں استعماریت در آتی ہے۔ کلچر کے زوال کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کی سائنس یقین سے محروم ہوجاتی ہے۔ کلچر کے زوال کی ایک علامت اسپنگلر نے یہ بتائی ہے کہ عوام کی اکثریت مشترکہ مقاصد کے اصولوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہے اور وہ ماضی کے تمام قوانین اور ضابطوں کو مسترد کردیتی ہے۔ اسپنگلر کے بقول زوال پذیر تہذیب کا آرٹ فیشن پرست ہوجاتا ہے اور مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ اسپنگلر کے ان خیالات کی روشنی میں جدید مغربی تہذیب کو دیکھا جائے تو وہ بسترِ مرگ پر پڑی نظر آتی ہے۔ مغرب نے اپنے مذہب کو مسترد کردیا ہے۔ جدید مغرب کے لیے مذہب ماضی کی ایک تکلیف دہ یادگار ہے۔ مغرب اپنے مذہبی زمانے کو دورِ ظلمات یا Dark Ages کہتا ہے۔ وہ اپنے مذہب کے زمانے پر شرمندہ ہوتا ہے۔ مغرب کے ممتاز جریدے ’دی اکنامسٹ‘ کے ایک سروے کے مطابق مغربی یورپ کے 75 فیصد اور مشرقی یورپ کے 80 فیصد لوگ کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ مغربی دنیا کے بڑے شہروں کو دیکھا جائے تو وہ بلند عمارتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور مغرب ان بلند عمارتوں پر فخر کرتا ہے۔ اسپنگلر کے خیالات کو دیکھا جائے تو مغرب اپنے زوال پر فخر کرتا ہے۔ مغرب کی سیاست کو دیکھا جائے تو وہ سر سے پیر تک ’’دولت مرکز‘‘ ہے۔ مغرب کی سیاست کو بڑی بڑی کارپوریشنوں نے اچک لیا ہے اور مغرب کی سیاست سرمایہ داروں کی پشت پناہ بن گئی ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ مغرب جیسے جیسے مادی طور پر ترقی کرتا گیا اُس کے اجتماعی مزاج میں استعماریت بڑھتی چلی گئی، اور آج بھی مغرب کی تمام اقوام استعماری ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے مغربی اقوام نے دوسری اقوام کو عسکری طور پر مغلوب کیا ہوا تھا اور اب وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اورآئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذریعے دوسری اقوام کو سیاسی اور معاشی طور پر اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں۔ مغرب کی سائنس کا یہ حال ہے کہ وہ ہائزن برگ کے اصول لا تیقن یا Law of Uncertainty کی گرفت میں ہے۔ ہائزن برگ کہتا تھا کہ حقیقت کو جاننا ممکن نہیں۔ اس کا ایک پہلو سامنے آتا ہے تو دوسرا پہلو چھپ جاتا ہے۔ آئن اسٹائن ہائزن برگ کے اصول لاتیقن کے سخت خلاف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اس اصول کو مان لیا جائے تو سائنس کی کوئی بنیاد ہی نہیں رہتی۔ مگر آج کوانٹم فزکس اصول لاتیقن کی گرفت میں ہے۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ مغرب میں فرد پرستی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اجتماعیت اور دلیل کے اصول باقی ہی نہیں رہے، اور مغرب کے لوگوں کی عظیم اکثریت نے ماضی کی روایات اور قوانین کو مسترد کردیا ہے۔ مغرب کا آرٹ مکمل طور پر فیشن پرست بن چکا ہے اور اداکاروں کے لباس کی طرح ہر دن بدلتا رہتا ہے۔ یہ مغرب کے مکمل زوال اور اس کی باطنی موت کا کامل منظر نامہ ہے۔
مغرب کا ایک ممتاز مؤرخ اسپنگلر تھا، اور دوسرا ممتاز مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی ہے۔ آرنلڈ ٹوائن بی نے 12 جلدوں میں انسانی تاریخ کا مطالعہ مرتب کیا۔ یہ مطالعہ 1934ء سے شروع ہوا اور 1961ء میں ختم ہوا۔ ٹوائن بی مسلمان نہیں تھا، وہ سر سے پیر تک مغربی تھا، مگر اس نے جاپان کے دانش ور اکیدا کے ساتھ ایک مکالمے میں صاف کہا ہے کہ مغرب مر رہا ہے اور اسے بچانے کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ مغربی تہذیب میں روحانیت داخل کی جائے، اور دوسری یہ کہ اسے ٹیکنالوجی کے عشق سے نجات دلائی جائے۔ ٹوائن بی کے بقول اگر مغرب یہ دو کام نہیں کرے گا تو اس کی موت یقینی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کسی بھی صورت میں خدا اور مذہب یا روحانیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی نظر میں خدا اور مذہب پر ایمان ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ چنانچہ جدید مغربی تہذیب میں عیسائیت کی روح تو نہیں پھونکی جا سکتی۔ مغرب کا دوسرا مسئلہ جو اس کی موت کا سبب ہے، ٹیکنالوجی کا عشق ہے۔ بدقسمتی سے یہ عشق کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کی موت یقینی ہے، اِلّا یہ کہ مغرب اسلام قبول کرلے۔ مگر مغرب اسلام کو صرف اُس وقت قبول کرے گا جب اسلام طاقت کی عالمگیر علامت بن کر ابھرے گا۔ مغرب کا ایک ممتاز ماہرِ عمرانیات ایلون ٹوفلر ہے۔ اس کی تین کتابیں مشہورِ زمانہ ہیں، یعنی ’’فیوچر شاک‘‘، ’’تھرڈ ویو‘‘ اور ’’پاور شفٹ‘‘۔ ان کتابوں میں ٹوفلر نے تسلیم کیا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ٹرین انسان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور اس کا حادثے سے دوچار ہونا یقینی ہے۔ البتہ ٹوفلر مذہب کے سخت خلاف ہے، چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس بحران کو حل بھی کریں گی۔ لیکن یہ ایک بچکانہ بات ہے۔ مغرب کے بحران کو حل کرنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی سے زیادہ بڑی قوت کی ضرورت ہے، اور یہ قوت صرف مذہب سے فراہم ہوسکتی ہے۔
پیٹر بیچنن نے اپنی تصنیف ’’مغرب کی موت‘‘ میں مغرب کی آبادی کے بحران پر گفتگو کی ہے، اور یہ بحران بلاشبہ مغرب کی موت کا بھرپور عکاس ہے۔ مغرب کے ایک اور دانش ور بین ویٹن برگ نے اپنی کتاب The Birth Dearth میں لکھا ہے:
’’مغربی ثقافت کم و بیش چالیس سال پہلے ایک غالب ثقافت تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی میں مغرب کا حصہ 22 فیصد تھا۔ آج ہمارا حصہ 15 فیصد ہے اور ہم اب بھی غالب ہیں، مگر 2025ء میں ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا صرف 9 فیصد ہوگی، اور 2100ء میں ہم صرف 5 فیصد ہوں گے۔ چنانچہ یہ کہنا غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ ہماری قدریں جوں کی توں رہیں گی، جب کہ ہماری تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے گی اور ہماری اقتصادی اور فوجی طاقت روبہ زوال ہوگی۔ اگر مغرب کی تولیدی صلاحیت اگلی دہائیوں میں بلند ہو بھی گئی تب بھی تیسری دنیا کی آبادی دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ ہوگی۔ تیسری دنیا کے یہی ممالک خوشحال اور طاقت ور بھی ہوں گے۔ کیا ہم چینیوں، ہندوستانیوں، انڈونیشینز، نائجیرینز اور برازیل کے باشندوں کے بارے میں مناسب علم رکھتے ہیں؟ کیا ہم ان کی زبانیں جانتے ہیں؟ کیا ہمیں ان کی ثقافتوں کا پتا ہے؟ ہمیں یہ سب معلوم ہونا چاہیے، کیونکہ یہی اگلی صدی کی عظیم آبادیاتی طاقتیں اور آبادی کے اعتبار سے سپرپاورز ہیں۔‘‘ (صفحہ 97)
اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب کی موت کوئی افسانہ نہیں بلکہ سامنے کی حقیقت ہے۔ مغرب کو آج سے نہیں کئی صدیوں سے موت کا لاعلاج مرض لاحق ہے۔