ستّربرس کے ریکارڈ توڑتی مہنگائی اور ہمارے بے حس حکمران

وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد ملک میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے اقتدار کے تین برسوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تبدیلی تو یقیناً آئی ہے، یہ الگ بات کہ یہ عوام کو راس آئی ہے نہ قوم کو بھائی ہے، بلکہ اس تبدیلی سے لوگوں کی جان پہ بن آئی ہے۔ تین برس میں مہنگائی نے ستّر سال کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ کسی اور نہیں بلکہ خود وفاقی حکومت کے ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی اشیا گھی، چینی، آٹا، دالوں اور گوشت وغیرہ کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ وفاقی ادارۂ شماریات کے حساس اشاریے کے مطابق کھانے پینے کی چیزوں میں سب سے زیادہ اضافہ گھی اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ گھی کی فی کلو قیمت 108 فیصد اضافے کے بعد 356 روپے تک پہنچ گئی ہے، جبکہ خوردنی تیل کا پانچ لیٹر کا کین 87.6 فیصد اضافے سے 1783 روپے کا ہوگیا ہے۔ چینی کی قیمت میں تین برس میں 83 فیصد اضافہ ہوا، اور 54 روپے کلو فروخت ہونے والی چینی وسیع پیمانے پر درآمدات کے باوجود سو روپے کلو سے تجاوز کرچکی ہے۔ دالوں کی قیمتوں میں 60 سے 76 فیصد، آٹے کے تھیلے کی قیمتِ فروخت میں 52 فیصد، مرغی کے گوشت کی قیمت میں 60 فیصد، گائے میں 48 فیصد اور بکرے کے گوشت کی قیمت میں 43 فیصد، جبکہ تازہ دودھ کی قیمتوں میں 32 فیصد اضافہ بتایا گیا۔ قیمتوں میں اضافے کا یہ اعتراف سرکاری سطح پر کیا گیا ہے، جبکہ بازاروں اور منڈیوں کی صورتِ حال اس سے بھی ابتر ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین حکومت خود کرتی ہے۔ ان کو بھی حکومت نے اس بلند سطح تک پہنچادیا ہے جس کا چند برس قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ تاہم حکومت اب بھی ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘ کی حکمت عملی پر کاربند ہے اور پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں آئندہ چند دنوں میں مزید بڑھائے جانے کی اطلاعات ذرائع ابلاغ سے عوام تک پہنچ رہی ہیں۔ ڈالر کی اوپر کی جانب پرواز بھی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ سونے کا بھی یہی عالم ہے جو ایک لاکھ 28 ہزار روپے فی تولہ تک پہنچ چکا ہے، جبکہ ڈالر 176 روپے کو چھو رہا ہے اور اب بھی یہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
تمام سیاسی و سماجی حلقے اور عوام الناس اس صورتِ حال پر سراپا احتجاج ہیں۔ پی ڈی ایم نے شہر شہر میں احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے، بلاول بھٹو زرداری نے 29 اکتوبر کو ملک بھر کے پریس کلبوں کے سامنے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبات میں احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں، جبکہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف 31 اکتوبر کو نوجوانوں کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی ہے، جہاں بڑے پیمانے پر احتجاج کے لیے دھرنا دیا جائے گا۔ اس ضمن میں سوات میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بجا طور پر حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیاں عوام اور ملک کے لیے تباہ کن ہیں، پاکستان تین برس میں دہائیاں پیچھے چلا گیا ہے، تحریک انصاف کی حکومت نااہل ہے جس کے پاس ملک کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری گھر گھر ناچ رہی ہے، پہلے سے کمزور معیشت تین برس میں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، بھوک سے تنگ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک پر عملاً آئی ایم ایف کی حکمرانی ہے۔ پاکستان کے مسائل کا حل اسلامی جمہوری نظام میں ہے۔ جمہوریت، پارلیمنٹ، عدلیہ، نظامِ تعلیم اور دیگر شعبوں کو قرآن و سنت کے تابع ہونا چاہیے۔ خوش حالی اور ترقی کے لیے عدل و انصاف، اور عام آدمی کی فلاح پر مبنی اسلامی تعلیمات پر عمل لازم ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے مہنگائی، غربت، بے روزگاری، بے مقصدیت، بے حیائی اور بے راہ روی جیسے مسائل کا حل وہی ہے جس کی نشاندہی جناب سراج الحق نے سوات میں نوجوانوں سے خطاب کے دوران کی ہے۔ مگر دوسری جانب ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور دیگر صاحبانِ اقتدار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مغرب کی غلامی کا قلادہ اپنی گردنوں سے اتارنے پر آمادہ نہیں۔ حالاں کہ مصورِ پاکستان، شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے کم و بیش ایک صدی قبل امت کی رہنمائی کردی تھی کہ
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
(حامد ریاض ڈوگر)