محض ایک شہر کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کی ترقی پورے ملک کی مجموعی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے کراچی کے بحران کو محض کراچی کی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے قومی سیاست کی عینک سے دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ کراچی کا بحران ملک کی مجموعی ترقی کو منفی بنیادوں پر متاثر کرتا ہے۔کراچی کے بحران کے حل کے لیے یقینی طور پر ایک قومی سوچ اختیار کرنے کی ضرورت کراچی ہے، اور اس شہر کو محض لسانی یا کسی سیاسی گروہ بندی کے بجائے اس کے حقیقی مسائل کو بنیاد بناکر ترقی کے موجودہ ماڈل کے مقابلے میں ایک متبادل سوچ، فکر، زاویہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان، سیاسی جماعتیں، میڈیا، اہلِ دانش اور سکہ بند لکھاری یا سمجھ بوجھ رکھنے والے سیاسی کارکن بھی جمہوریت، حکمرانی کے نظام اور مقامی حکومتوں کے نظام کے باہمی تعلق کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہاں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر تو بہت زور دیا جاتا ہے، لیکن اگر کئی کئی برس تک ملک میں سیاسی حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام سے ہی انحراف کریں تو ہماری صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی جمہوری لوگوں کو جمہوری نظام خطرے میں نظر آتا ہے۔
کراچی روشنیوں کا شہر اور ہماری معاشی ترقی کا ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے، لیکن آج یہ شہر بربادی کا منظر پیش کررہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کراچی شہر سے جڑے مسائل ظاہر کرتے ہیں کہ یہ شہر سیاسی طور پر لاوارث ہوکر رہ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کی کھینچا تانی یا بداعتمادی کی کراچی شہر کو بڑی بھاری قیمت اپنی بربادی کی صورت میں ادا کرنا پڑی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کراچی کی بربادی کو کیسے روکا جائے اور ایسی کیا حکمت عملی اختیار کی جائے کہ کراچی شہر کی روشنیاں بحال ہوسکیں؟ سیاسی طور پر ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے پاس کراچی کی قیادت ہے، جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ ان جماعتوں نے ایک دوسرے کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول نہ کرکے اس شہر کا بڑا استحصال کیا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی کی قیادت کو اپنا مخالف سمجھتی ہے، اور چار سال کراچی کی شہری حکومت کو مفلوج بنانا پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کا ہی حصہ تھا۔ صاف پانی کی عدم فراہمی، گندے نالے، صفائی کا ناقص انتظام، جدید ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا، تجاوزات کی بھرمار، امن و امان، اسٹریٹ کرائم ایسے مسائل ہیں جو کراچی کی زندگی کو مفلوج بنا رہے ہیں، اور بدقسمتی سے سندھ حکومت اس بحران کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں، اور مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانا بھی اس کی ترجیحات کا حصہ نہیں۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس جدید دور میں بھی مرکزیت کے نظام پر کھڑے ہیں۔ ہماری ترجیحات میں عدم مرکزیت یعنی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کہیں واضح اور شفاف نظر نہیں آتی۔ اگرچہ ہم نے 2010ء میں ایک تاریخی کامیابی 18ویں ترمیم کی بنیاد پر حاصل کی۔ اس ترمیم کا مقصد مرکز سے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات کی منتقلی اور خودمختاری تھی۔ اسی اصول اور نظریے کے تحت صوبوں کی ذمے داری ضلعی اور تحصیل نظام کو خودمختار بنانا تھا۔ لیکن چاروں صوبائی حکومتوں کا سیاسی ریکارڈ دیکھیں تو مقامی حکومتوں کا نظام اوّل تو کہیں نظر نہیں آتا، اور اگر یہ نظام عدالتی دبائو کی وجہ سے دیکھنے کو ملتا بھی ہے تو اسے مصنوعی انداز میں چلایا جاتا ہے۔ آج بھی ملک کے چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کا نظام موجود نہیں، اور صوبائی حکومتیں انتخابات کروانے سے مسلسل گریز کررہی ہیں۔
سیاسی جماعتیں اور قیادتیں جمہوریت کی بات بہت شدت سے کرتی ہیں۔ 1973ء کے آئین کو بنیاد بناکر قانون اورآئین کی حکمرانی کا بھی بہت زیادہ شور سننے کو ملتا ہے۔ لیکن اسی آئین کی شق 140-Aکے تحت صوبے مقامی حکومتوں کے انتخابات بروقت کروانے، انہیں سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دینے سمیت یہ اختیارات بیوروکریسی کے مقابلے میں عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کے آئینی طور پر پابند ہیں۔ اسی طرح آئین کی شق32کے تحت اس نظام کے تحت عورتوں، اقلیتوں، کسانوں اور مزدوروں کی نشستوں کو بھی یقینی بنانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ کچھ ماہ قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی کہا تھا کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بنانا ان کا احسان نہیں بلکہ یہ ان کی سیاسی اور آئینی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔ چیف جسٹس کے بقول صوبائی حکومتیں مقامی نظام حکومت پر عمل درآمد نہ کرکے آئینی طور پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے جو نظام موجود ہیں ان کا آئینی، انتظامی اورقانونی بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو یہ نظام عملی طور پر آئین کی شق 140-Aاور 32کی نفی کرتے ہیں۔کیونکہ مقامی حکومتوں کے ان نظاموں میں عوامی نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کو زیادہ بااختیار بنایا گیا ہے۔ اسی طرح اس نظام کی ایک بڑ ی خرابی یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان یا صوبائی حکومتیں بھی مقامی نظام کے خلاف ہیں۔ان کے بقول اگر ضلع کی سطح پر مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط ہوگا تو ان کی سیاسی حیثیت کمزور ہوگی۔ کیونکہ مقامی حکومتوںکا نظام بنیادی طور پر ترقیاتی امور سے جڑا ہوتا ہے، جب کہ ہمارے ارکانِ اسمبلی کی پوری توجہ زیادہ سے زیادہ ترقیاتی فنڈ کے حصول پر ہوتی ہے۔جب تک قومی، صوبائی اورمقامی حکومتوں کے نظام میں توازن قائم نہیں کیا جائے گا اور ترقیاتی امور کو براہِ راست مقامی حکومتوں کے نظام سے نہیں جوڑا جائے گا، مقامی نظام کی مضبوطی کا خواب، خواب ہی رہے گا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام متعارف کروایا تھا۔یہ نظام عملی طو رپر ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا سبب بھی بنا تھا۔ جو لوگ بھی مقامی حکومتوں کے نظام کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس نظام کے آنے سے مقامی ترقی کا عمل بہت آگے بڑھا تھا۔ اس نظام میں بیوروکریسی کو عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے جواب د ہ بنایا گیا اورمالی طور پر اختیارات کی بہتر تقسیم نظر آتی تھی۔ اگرچہ جنرل پرویزمشرف کا نظام بھی کوئی حقیقی نظام نہیں تھا، اس میںبھی بہت سی خرابیاں موجود تھیں،لیکن اس کے باوجود اس وقت تک کے مقامی نظاموں میں اسے ایک بہتر نظام سمجھا جاتا تھا۔ اگر اسی نظام کو کچھ بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا تو آج ملک میں ایک اچھا اورمضبوط طرز کا مقامی نظام دیکھنے کو مل سکتا تھا۔کراچی کی سطح پر تین بڑے میئر گزرے ہیں، ان میں میئر عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کو بہترین، اور مصطفیٰ کمال کو کسی حد تک بہتر سمجھا جاتا ہے۔ کراچی کے لوگ آج بھی تسلیم کرتے ہیں کہ افغانی مرحوم اورنعمت اللہ خان مرحوم جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا، کراچی کے سب سے بہتر حکمران تھے۔ مصطفیٰ کمال نے نعمت اللہ خان کے کام کو آگے بڑھا کر پذیرائی حاصل کی۔کراچی میں ہونے والی ترقی بھی ان ہی مقامی حکومتوں کے نظام کی وجہ سے ہے ،اور لوگ سمجھتے ہیں کہ واقعی مقامی نظامِ حکومت ہی ہماری بنیادی ضرورت ہے۔
حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر وہ صوبائی خود مختاری کے حامی ہیں تو مقامی اضلاع کے نظام کو بھی مکمل خود مختاری دیں۔کیونکہ مقامی نظام حکومت کی مضبوطی کے بغیر صوبائی خود مختاری کا حصول بھی بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔مقامی نظام حکومت کیونکہ لوگوں کی رسائی میں ہوتا ہے اور منتخب نمائندوں سے لوگوں کا ملنا، بات چیت کرنا اور اپنے مسائل اُن کے سامنے پیش کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بنیادی ضرورتوں سے جڑا نظام وفاقی یا صوبائی نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کا نظام ہوتا ہے۔یہی نظام عام آدمی اور معاشرے کے کمزور طبقات کو زیادہ بااختیار اورمضبوط بناتا ہے۔ اسی طرح یہ نظام ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان حکمرانی کے نظام کی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے کا بھی سبب بنتا ہے۔ جب تک ہم مقامی وسائل کو مقامی قیادت کی مدد سے یا اُن کی ترجیحات کو بنیاد بنا کر منصفانہ تقسیم نہیں کریں گے ،حکمرانی کا حقیقی بحران حل نہیں ہوسکے گا۔
اسی طرح اربابِ اختیار کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بڑے شہروں کا نظام چھوٹے اور درمیانے شہروں سے مختلف ہونا چاہیے۔ کیونکہ آج دنیا بھر میں جو میگا شہر ہیں اُن کے لیے ایک منفرد مقامی نظام حکومت ہوتا ہے۔ کراچی، لاہور، ملتان، پنڈی، پشاور اورکوئٹہ جیسے شہروں کو اب غیر معمولی انداز میں چلانا ہوگا۔ ان بڑے شہروں کو جہاں آبادی کا پھیلائو بہت زیادہ ہے، اب روایتی اور فرسودہ نظام یا طریقہ کار کے تحت نہیں چلایا جاسکتا۔ ان بڑے شہروں کے نظاموں کو چلانے کے لیے ماسٹر پلان درکار ہیں۔ یعنی بڑے شہروں کی منصوبہ بندی ردعمل کی سیاست یا جذباتی انداز میں کرنے کے بجائے بڑے ماسٹر پلان کی صورت میں ہونی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ان بڑے شہروں کے معاملات بھی چھوٹے شہروں کی طرح چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہورہے ہیں، اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔
مقامی حکومتوں کے عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر آپ کو کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کے نظام جانچنا ہے کہ یہ نظام کس حد تک جمہوری ہے تو سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے نظام کو پرکھنا ہوگا۔ اگرنچلی سطح پر جمہوری نظام نہیں تو اوپر کی سطح پر موجود جمہوری نظام کی کوئی اہمیت نہیں۔ تعلیم، صحت، ماحولیات، آلودگی، صفائی، تجاوزات، کھیل کود کے میدان، انصاف، تحفظ، نقل و حمل، صاف پانی، فضلہ کی صفائی، مہنگائی یا ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنا، مقامی امن و امان سمیت مقامی ترقی ایسے مسائل ہیں جن کا براہِ راست تعلق مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح مقامی سطح پر سوک ایجوکیشن کا فروغ بھی مقامی نظام کے زمرے میں آتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کو مختلف امراض یا بیماریوں سے بچانے کی مہم بھی اسی نظام کا حصہ ہے۔ اگر یہ نظام بہتر ہو اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کررہا ہو تو لوگوں کی زندگیوں میں ترقی اورخوشحالی کا پیدا ہونا ممکن ہوگا۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہماری ضرورت مقامی بلدیاتی ادارے نہیں بلکہ مقامی حکومتیں ہیں، یعنی قانون کے تحت وفاق اور صوبے کے بعد مقامی حکومت تیسری سطح کی حکومت سمجھی جاتی ہے۔ ہم ابھی بھی ’مقامی حکومتوں کا نظام‘ تو کہتے ہیں لیکن ہمارا چال چلن بلدیاتی اداروں کا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ اختیارات صوبہ اپنے تک محدود کرکے مقامی نظام کا استحصال کرتا ہے۔ جب تک ملک میں این ایف سی، پی ایف سی کے بعد ضلعی نظام میں وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کا نظام قائم نہیں ہوگا، مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔ ابھی بھی پس ماندہ اضلاع کے لوگوں کو شکایت ہے کہ ان کے وسائل بڑے شہروں کی ترقی پر لگادیے جاتے ہیں اور انہیں عملی طور پر محروم کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ نظامِ حکومت سے پورے ملک کی ترقی متاثر ہوتی ہے، اور محض چند بڑے شہروں کو فوقیت دے کر ہم باقی شہروں یا قصبوں کو ترقی کے عمل سے محروم کردیتے ہیں۔
مقامی حکومتوں کا نظام کیونکہ صوبائی معاملہ ہے اور وفاق کا اس میں کوئی کردار نہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کرتی ہیں، یا انتخابات کروانے سے انکاری ہیں تو وفاق کچھ نہیں کرسکتا۔ حالانکہ اس نظام کو یقینی بنانے کے لیے وفاق کا اہم کردار ہونا چاہیے جو چار بنیادی باتوں کویقینی بنائے:
(1) صوبائی حکومتیں بروقت اور تسلسل کے ساتھ مقامی انتخابات کے نظام کو چلائیں اور نظام کے تسلسل کو قائم رکھیں۔
(2) تمام صوبائی حکومتیں اس نظام کی تشکیل میں آئین کی شق 140-Aاور 32کو یقینی بنائیں، اور جو بھی صوبائی حکومت اس آئین کے خلاف نظام بنائے وفاق اُس کو جواب دہ بنائے۔
(3) بڑے شہروں کے متبادل نظام قائم کیے جائیں جس میں وفاق کا بھی کردار ہونا چاہیے، اوریہ سب کچھ ماسٹر پلان کے تحت ہو۔
(4) تمام صوبوں کے نظام میں یکسانیت پیدا کی جائے، نہ کہ ہر صوبہ اپنی مرضی کا نظام بنا کر اپنی من مانی کرے۔
اسی طرح اس نظام میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ جو بھی نئی حکومت آتی ہے وہ سب سے پہلے مقامی حکومتوں پر شب خون مارتی ہے اوراس نظام کو ختم کرتی ہے۔ کیونکہ اس نظام میں اُس کے سیاسی مخالفین کی حکومت ہوتی ہے۔ یہی کچھ پنجاب میں ہوا کہ تحریک انصاف کی صوبائی سطح پر حکومت بننے کے بعد مسلم لیگ (ن) سے جڑی مقامی حکومت کو ختم کردیا گیا۔ ا س کا ایک طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ وفاقی اور صوبائی نظام کے عام انتخابات کے فوری بعد مقامی نظام حکومت کے انتخابات ہوں اوران کا سیاسی دورانیہ ایک ہی ہونا چاہیے۔ وگرنہ دوسری صورت میں کوئی بھی منتخب حکومت اپنے مخالفین کی مقامی حکومت کو قبول نہیں کرے گی۔ اسی طرح جب ہم مقامی نظام کو جمہوریت کی نرسری کہتے ہیں تو ان میں انتخابات کا عمل بھی جماعتی بنیادوں پر ہونا چاہیے، اور غیر جماعتی انتخابات سے برادری کی سیاست کو مضبوط بنانے کے بجائے سیاسی نظام کو ہی مضبوط کرنا چاہیے۔
بہرحال مقامی نظام حکومت ہماری بنیادی ترجیح ہونی چاہیے، خاص طو رپر جب ہم بڑے شہروں یعنی کراچی جیسے نظام کی بات کررہے ہیں تو ان کے مسائل کے حل کا براہِ راست تعلق ایک مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہے۔لیکن یہ نظام سیاسی، انتظامی اورمالی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ خود مختار ہونا چاہیے۔ کراچی کے بڑھتے ہوئے مسائل ہم سے ایک مضبوط مقامی نظام کا تقاضا کرتے ہیں، اوریہی ان بڑے شہروں کی حکمرانی کے نظام کا حل بھی ہے کہ ہم اختیارات کی تقسیم کا ایسا نظام قائم کریں جو ان بڑے شہروں کی انتظامی حالت کو درست کرنے میں مدد فراہم کرسکے۔ لیکن اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ان ہی پرانی غلطیوں اور فرسودہ نظام کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا تو یہ نظام اپنی اہمیت کھودے گا اورحکمرانی کا بحران لوگوں کو شدید سیاسی انتشار میں مبتلا کرے گا۔