ہماری تاریخ میں دو سانحے ایسے گزرے ہیں جن سے پاکستان کے لیے بدنصیبی کے دروازے چوپٹ کھل گئے لیکن قوم کو اس کا احساس تک نہ ہوا، یعنی:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پہلا واقعہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی۔ وطنِ عزیز کے مشرقی حصے کو قیام پاکستان کے وقت سے ملک کی معیشت پر بوجھ قرار دیا گیا۔ پہلے وزیر خارجہ ظفراللہ خان سے لے کر پہلے آمرِ مطلق ایوب خان تک مغربی پاکستان کے اکثر زعما مشرقی پاکستان کے بارے میں منفی خیالات رکھتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی کو صرف چند ماہ بعد برطرف کرکے بنگالیوں کو ان کی ”حیثیت“ سمجھا دی گئی۔ ایوب خان کے مشیرِ منصوبہ بندی ایم ایم احمد نے اعداد و شمار سے یہ ثابت کردیا کہ بار بار کے سیلاب اور مشرقی پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پاکستانی معیشت کی کمزوری کی بنیادی وجہ ہے۔ اُسی زمانے میں ”بھوکے بنگالی“ کی شرمناک پھبتی عام ہوئی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا معیشت سے زیادہ مقتدرہ کی معاشرت اور اقدار سے تعلق تھا۔ بنگالی سادہ مزاج اور صاف گوتھے، اور یہی انداز ان کی سیاست میں بھی بہت واضح تھا۔ مشرقی پاکستان فرقہ واریت سے محفوظ تھا، اور لسانی مسئلہ بھی نہ تھا کہ سبھی بنگالی زبان بولنے والے تھے۔ وہاں چودھری اور وڈیرے بھی نہ تھے۔ اسلام، جمہویت و شہری آزادی کے بارے میں بنگالیوں کا عزم بڑا واضح تھا جس کا اظہار تحریکِ پاکستان کے وقت ہوا، لیکن ملک کی مقتدرہ نے بہت ہی چالاکی سے سونار بنگلہ میں تعصب کا زہر گھول دیا۔
دوسرا المیہ کراچی کی قومی دھارے سے علیحدگی تھی۔ مشرقی پاکستان اور کراچی دونوں جگہ منظم اقتصادی کرپشن کے ذریعے زمین ہموار کی گئی، اور پھر نفرت و تعصب کے بیج بوکر اس کی آگ و خون کی بارش سے آبیاری کی گئی۔ اس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے شجرِ زقوم نے پوری قوم کو جھلسا کر رکھ دیا۔ ان سانحات کے ذکر کے لیے پوری کتاب درکار ہے، مختصراً یوں سمجھیے کہ جب تک سونار بنگلہ، مشرقی پاکستان اور کراچی، شہرِ قائد رہا، قوتِ قاہرہ اور اقتدار کے باوجود سیاسی مسخروں کو کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکا۔
قیام پاکستان کے آغاز ہی سے کراچی کے قائدین نے شہر کی تعمیرو ترقی کے لیے حکومتی وسائل پر بھروسا کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر و ترقی کا آغاز کیا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری اور پیرالٰہی بخش نے مہاجروں کی باعزت آبادکاری کا اہمتام کیا۔ پیر صاحب نے اپنی آبائی زمین پر آسان اقساط رہائشی اسکیم شروع کردی۔ یہ علاقہ پیر الٰہی بخش کالونی کے نام سے آج بھی شاد و آباد ہے۔ فروغِ تعلیم کے لیے ایک بڑا کارنامہ عبدالرحمان محمد قریشی المعروف اے ایم قریشی نے انجام دیا۔ قریشی صاحب ایک اَن پڑھ مزدور تھے اور خود ہی کہا کرتے تھے کہ ”میں جاہل ہوں مگر میری خواہش ہے کہ ہمارے بچے جاہل نہ رہیں“۔ قریشی صاحب نے کرائے کا مکان لے کر ایک درس گاہ قائم کردی جو آج اسلامیہ کالج کے نام سے مشہور ہے۔
اس دوران جماعت اسلامی کی سماجی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ اس سلسلے میں مٹھی آٹا اسکیم اور گشتی شفاخانوں کو زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ مٹھی آٹا اسکیم کے تحت ہر گھر کے باورچی خانے میں ایک ڈبہ رکھ دیا جاتا، اور خاتونِ خانہ یا لڑکی بالیاں جب بھی روٹی پکانے کو آٹا نکالتیں تو ایک مٹھی آٹا اس ڈبے میں ڈال دیا جاتا، ہر ہفتے جماعت کے کارکنان گھروں سے یہ آٹا جمع کرکے ضرورت مندوں تک پہنچا دیتے۔ ایک مٹھی سے کسی گھر پر بار بھی نہ پڑتا لیکن قطرہ قطرہ دریا بن کر شہر بھر سے منوں آٹا جمع ہوجاتا، اور سب سے بڑھ کر ہر خاتونِ خانہ کو اس نیک کام میں شمولیت سے ایک خاص قسم کی طمانیت محسوس ہوتی۔ ہماری والدہ مرحومہ کہتی تھیں کہ جب سے مٹھی آٹا اسکیم کا یہ ڈبہ گھر آیا ہے آٹے میں برکت ہوگئی ہے۔
قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا آغاز بھی کراچی سے ہوا جب (غالباً) حکیم سلطان مرحوم کے دورِ امارت میں مصارفِ خدمت ِ خلق کے لیے کھالیں جمع کرنے کی مہم چلائی گئی۔ اس سے پہلے قربانی کی کھالیں قصاب لے جایا کرتے تھے۔ چرمِ قربانی مہم سے کراچی میں ٹینری کی صنعت کو بھی فروغ ملا اور قربانی کے بعد کھال اتارنے میں احتیاط پر زور دیا جانے لگا۔ کراچی کے اس تجربے سے نہ صرف دوسرے شہروں کی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا بلکہ مدارس اور دوسرے رفاہی اداروں نے بھی چرمِ قربانی مہم کو اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنالیا۔
کراچی میں پہلا خونریز واقعہ 8 جنوری 1953ء کو پیش آیا جب بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے فیسوں اور درسی کتب کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جلوس نکالا۔ طلبہ وزیر تعلیم فضل الرحمان کے دفتر پر مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ پولیس نے جلوس کو روکا، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے جواب میں پتھرائو ہوا، اسی دوران کچھ مشتعل مظاہرین نے وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی مرسڈیز کار کو آگ لگادی۔ اس ”جسارت“ پر انتظامیہ مشتعل ہوگئی اور فائرنگ سے 30 کے قریب طلبہ اور راہ گیر مارے گئے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے طاقت کے استعمال پر وزیر داخلہ کی گوشمالی کی، تاہم مقتدرہ کی شہہ پر گورمانی صاحب نے انتقامی کارروائی جاری رکھی۔
کراچی کے خلاف متعصبانہ کارروائی کا سرکاری آغاز 1958ء کے مارشل لا کے ساتھ ہوا، اور فیلڈ مارشل نے فرمایا ”کراچی کی آب و ہوا مرطوب ہونے کے باعث سرکاری اہلکاروں کی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں“۔ اسی کے ساتھ کوہِ مری کے دامن میں ایک نئے دارالحکومت کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری دفاتر میں ضروری فرنیچر خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے اور دفاتر میں ”چھوٹی چٹھیوں“ کے لیے سگریٹ کے پیکٹوں کے اندرونی حصے کو استعمال کیا جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور حسین شہید سہروردی نے کہا ”ایوب خان! تم اپنا شوق پورا کرلو، ہم دارالحکومت کراچی واپس لے آئیں گے“۔ دارالحکومت کی کراچی سے منتقلی نے بنگالیوں کے احساسِ محرومی کو مزید بڑھادیا۔
کراچی میں پشتونوں اور مہاجروں کے درمیان نفرت کا آغاز 1965ء کے انتخابات کے دوران ہوا جب صدر ایوب کے صاحب زادے اور وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کے والد گوہر ایوب نے غنڈوں کے لشکر ترتیب دے کر لیاقت آباد (اُس وقت کا لالوکھیت) پر حملے کیے۔ بدقسمتی سے گوہر ایوب کے پالتو غنڈوں کی اکثریت پشتونوں کی تھی جس کی وجہ سے لسانی عصبیت نے جنم لیا، ورنہ کراچی میں مہاجر، سندھی، پشتوں، ہزارہ، بنگالی اور پنجابی دہائیوں سے ساتھ رہ رہے تھے۔ اُس وقت کراچی کی قیادت بردبار ہاتھوں میں تھی، اس