کراچی مسائل کی آماجگاہ

حقیقت میں تو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری ٹیکسوں کا 60 فیصد سے زائد حصہ کراچی سے جمع ہوتا ہے، مگر برسرِاقتدار حکومتوں نے کراچی کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں کی۔ دوسری طرف آبادی میں اضافہ ہوتا رہا۔ پھر کراچی مذہبی، لسانی اور سیاسی فسادات کا شکار رہا، جس کے نتیجے میں صورتِ حال گمبھیر تر ہوگئی۔ 28 اگست 2020ء کو صرف ایک دن شدید بارش ہوئی۔ اس بارش نے غریبوں کی بستیوں اور امراء کی سوسائٹیوں کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی میں بحیرۂ عرب کے ایک بہت بڑے شہر ممبئی کی طرح ایک ہفتہ بارش ہوجاتی تو شہر کا صد فیصد علاقہ پانی میں ڈوب جاتا اور مرنے والوں کی تعداد تین ہندسوںکو عبور کرجاتی۔ کراچی کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو زندگی کے ہر شعبے میں ابتری ظاہر ہوتی ہے۔ 27 اگست کی بارش سے ہونے والے نقصان کی بنیادی وجہ پانی کے اخراج کے فطری راستوں کا بند ہونا تھا۔ کراچی شہر کی آبادی میں اضافے کے ساتھ سیوریج کا نظام بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی نہیں پاسکا۔ نچلی سطح پر بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد ہر گلی، ہر سڑک پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جمع ہوگئے۔ پھر کوڑے کےیہ ڈھیر غریبوں اور امیروں سب کی بستیوں میں ٹیلوں میں تبدیل ہوئے۔ پھر اس کے ساتھ سیوریج کا نظام مفلوج ہوا۔ کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے وضع کردہ بلدیاتی نظام میں مقامی کونسلر کے کردار کو محدود کردیا گیا۔ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم کیا گیا اور کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ ایک چینی فرم کو دیا گیا۔ چین کی اس فرم نے کچھ علاقوں میں بڑی شاہراہوں پر ہیوی ڈسٹ بن لگائے اور کوڑے کی خودکار منتقلی کے لیے ہیوی ڈیوٹی گاڑیاں خریدی گئیں، مگر چینی فرم نے تن دہی سے کام نہیں لیا۔ بلدیاتی کونسلر کے پاس صفائی کے عملے کو متحرک کرنے کے اختیارت نہیں تھے، یوں حکومتِ سندھ کی خطیر رقم بھی خرچ ہوئی، مگر صفائی کی صورت حال مزید خراب ہوگئی۔ اس جمع ہونے والے کوڑے نے سیوریج کی لائنوں کو بند کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت یہ الزام لگاتی ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکن گٹر لائنوں میں بوریاں ڈالنے کا کام منظم انداز میں کرتے ہیں، آج تک کوئی ملزم گرفتار نہ ہوا، یوں چھوٹی گلیوں سے لے کر اہم شاہراہوں پر گندے پانی کی جھیلیں نمودار ہونا عام سی بات بن گئی۔ بہت سارے علاقوں میں گٹر کا پانی صاف پانی کی لائنوں میں ملنے کی صورت حال کئی برسوں سے ہے، مگر متعلقہ عملہ اس مسئلے کا حل تلاش نہ کرسکا۔
کراچی کی سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقے میں پہاڑیاں ہیں جو خضدار سے کوہ سلیمان کے سلسلے سے منسلک ہوجاتی ہیں۔ ان پہاڑی علاقوں میں ہونے والی بارشوں کا پانی ہزاروں سال سے لیاری اور ملیر ندی اور 20 کے قریب نالوں سے گزر کر سمندر میں گرتا تھا، مگر ایک منصوبہ بندی کے تحت ان نالوں پر عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ نالوں پر تجاوزات قائم کرنے میں صرف انفرادی یا گروہی کوششیں ہی شامل نہیں بلکہ سرکاری ادارے تک ملوث رہے ہیں۔ ان نالوں پر رہائشی مکانات کے علاوہ دکانیں، سرکاری دفاتر، حتیٰ کہ پولیس تھانے تک تعمیر کیے گئے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے دو نالوں کو ختم کرکے پلاٹنگ کردی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیفنس اتھارٹی نے مائی کلاچی کے سمندر سے پانی جذب کرکے زمین حاصل کرنے کی تیکنیک استعمال کی جس سے ایک طرف سمندری درخت مینگروز ختم ہوئے، مچھلیوں کی افزائش رکی، اور دوسری طرف بارش کے پانی کے سمندر میں جانے کا عمل رک گیا۔ 27 اگست کی بارش کے بعد وفاقی حکومت کے ساتھ جی ایچ کیو میں بھی ہلچل پیدا ہوئی، یوں کراچی بحالی (Rehabilitation) منصوبہ تیار ہوا، وفاقی حکومت نے 1100 ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا، مگر بعد میں پتا چلا کہ وفاقی حکومت صرف 40 فیصد رقم ادا کرے گی، جبکہ بقیہ رقم سندھ حکومت فراہم کرے گی۔
کراچی میں پانی کی کمی پائی جاتی ہے۔ کچھ علاقوں میں ہفتے میں 5 سے 6دن پانی فراہم کیا جاتا ہے، کچھ علاقوں میں کئی ماہ بعد کچھ گھنٹوں کے لیے پانی نلوں کے ذریعے ملتا ہے، مگر کراچی کے مختلف علاقوں میں ہائیڈرنٹ قائم ہیں جہاں سے ٹینکر پورے شہر میں پانی فروخت کرتے ہیں۔ ہر سال ان ہائیڈرنٹ کے خاتمے کی خبریں آتی ہیں مگر ہائیڈرنٹ قائم رہتے ہیں۔ واٹر بورڈ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیو ں کا کہنا ہے کہ کچھ ہائیڈرنٹ بااثر لوگوں اور کچھ سرکاری اداروں کے ہیں۔ کراچی میں مختصر عرصے کے لیے تعینات ہونے والے ایک کمشنر آصف علی شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی کو وافر مقدار میں پانی فراہم ہوتا ہے مگر بد انتظامی کی بنا پر پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی۔ گزشتہ 10۔ 12 برسوں سے پانی کے نئے منصوبے K-4 کی دھوم ہے۔ پہلے یہ منصوبہ صوبائی حکومت کے پاس تھا، مگر فزیبلٹی رپورٹ کے علاوہ کام آگے نہ بڑھ سکا، اور اب منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر اسد عمر دعویٰ کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت اس منصوبے کو مکمل کرے گی۔ دنیا کے جدید شہروں کی طرح ابھی سمندر کے پانی کو قابلِ استعمال بنانے اور پانی کی ری سائیکلنگ جیسی تجاویز پر کسی سطح پر غور نہیں ہورہا ہے۔
کراچی میں 16 سے زائد بلدیاتی فرائض انجام دینے والے ادارے کام کرتے ہیں۔ شہر کا 50 فیصد سے زائد حصہ کنٹونمنٹ بورڈ کے پاس ہے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی مکمل خودمختار ہے اور کسی بلدیاتی ادارے کے دائرے میں پورا شہر نہیں آتا۔ کراچی کے مسئلے کا حل نہ تو کراچی کو صوبہ بنانے میں ہے، نہ وفاق کے حوالے کرنے میں ہے۔ اس سے نئے تضادات پیدا ہوں گے اور پورا سندھ تشدد کا شکار ہوگا۔ کراچی کے مسئلے کا حل ایک ’’سپر میونسپل کارپوریشن‘‘ کے قیام میں ہے، جو نچلی سطح تک اختیارات کے اصول کے تحت قائم کی جائے، اور شہر میں کوئی دوسری اتھارٹی یا بورڈ نہ ہو، بلکہ پورا شہر سپر میونسپل کارپوریشن کا دائرۂ کار میں ہو۔