انسان کی ترقی نے جہاں زندگی کو آسان بنایا، وہیں کئی طرح کے مسائل بھی پیدا کیے۔ بہتر اور سہل زندگی کے حصول کی چاہ میں ترقی یافتہ ملکوں نے صنعت کو فروغ دیا اور منافع کمانے کی دھن میں وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں فضائی آلودگی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا، اور مضرِ ماحول و صحت گیسوں مثلاً گرین ہائوس گیسوں، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین وغیرہ کی زیادتی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی آئی۔ اس تبدیلی نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا اوراس کے ساتھ ہی کئی اقسام کی حیاتیات کی افزائش کوبھی خطرے میں ڈال دیا۔ ترقی یافتہ ملکوں نے اس مسئلے کو جلد ہی محسوس کرلیا اور اقوام متحدہ کی سرکردگی میں مختلف پروگرام تشکیل دیے گئے، لیکن مسئلہ تیسری دنیا کی ترقی پذیر اقوام کے لیے ہے جن کی بڑھتی ہوئی آبادی انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کریں۔
پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ اور براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ اپنے محلِ وقوع کی وجہ سے پاکستان براہِ راست ان تبدیلیوں سے متاثر ہورہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلی صدی میں پاکستان میں درجہ حرارت 0.6ڈگری تک بڑھا جو کہ 2050ء میں 2.5-2.8ڈگری تک، اور 2080ء میں 3.9-4.4ڈگری تک بڑھ چکا ہوگا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ کثرت سے قدرتی آفات مثلًا سیلاب، زلزلے وغیرہ کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کا کچھ اندازہ ہم پچھلی چند دہائیوں میں آنے والی قدرتی آفات سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔
ویسے تو پاکستان کے تقریباً تمام علاقے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں، لیکن سب سے بڑا اور صنعتی و تجارتی شہر کراچی براہِ راست ان تبدیلیوں سے متاثر ہورہا ہے۔ روشنیوں کا یہ شہرمجموعی ملکی قومی آمدنی (GDP)کا تقریباً 25فیصد مہیا کرتا ہے۔ ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی گہرے پانیوں کی بندرگاہ کا اعزاز بھی اسی شہر کے پاس ہے جو کہ ملک کے تقریباً 60فیصد کارگو کو ہینڈل کرتا ہے۔ ملکی ترقی میں یہ شہر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی نے اس شہر کو بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر کیا ہے۔ کم و بیش تیس ملین سے زائد آبادی کے اس شہر کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس کے فقدان کی وجہ سے بے ہنگم آباد کاری ہورہی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کی ترجیحات اپنی بنیادی ضروریات کے حصول تک محدود ہیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنا اور اس بارے میں معلوماتی پروگرام بناکر اس پر کام کرنا ان کے مقصد ہی میں شامل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شہر بہت تیزی سے موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آتا جارہا ہے۔
عموماً ساحلی شہر موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور کراچی جو کہ بحیرہ عرب کے کنارے واقع ہے، اپنے ساحلی قرب کی وجہ سے بحیرہ عرب میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھی براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ، طوفانوں کا خدشہ، بارشوں میں اضافہ اور سمندری درجہ حرارت میں اضافہ وہ چند تبدیلیاں ہیں جو کسی بھی ساحلی شہر کو تباہ کرکے رکھ سکتی ہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں یہ تمام تبدیلیاں بحیرہ عرب میں دیکھی جا رہی ہیں، جن کا براہِ راست اثر شہر کراچی پر ہوگا۔ اس کے علاوہ فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے سے سمندری پانی کی تیزابیت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے جو کراچی کی سمندری حیاتیات کے لیے مضر ہے۔ کراچی کی بہت بڑی آبادی کا روزگار سمندری حیاتیات سے متعلق ہے، اور اس میں تبدیلی کی وجہ سے آبادی کے ایک بڑے حصے کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے جو حکومت اور ماحولیاتی ماہرین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
بنیادی طور پر چار عوامل کراچی کے موسمی نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں:
(1) منطقہ حارہ کے طوفان، جو اپریل سے جون اور پھر ستمبر سے نومبر تک بحیرہ عرب میں اٹھتے ہیں۔
(2) جنوب مغربی مون سون جو جولائی سے ستمبر تک رہتا ہے اور اپنے ساتھ بارشیں بھی لاتا ہے۔
(3) مغربی ہوائیں جو سردی کے موسم میں آتی ہیں اور درجہ حرارت میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔
(4) براعظمی ہوائیں جو عموماً خشک ہوتی ہیں اور موسم کو خشک کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ سمندری و ماحولیاتی تبدیلیاں بھی کراچی کے موسم پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں نے ان تمام عوامل پر اثر ڈالا ہے، جس کی وجہ سے اس بات کا خطرہ بڑھ گیا ہے کہ یہاں قدرتی آفات مثلاً سمندری طوفان وغیرہ آسکتے ہیں۔ کراچی کے تناظر میں موسمیاتی تبدیلیاں مندرجہ ذیل ممکنہ مسائل پیدا کرسکتی ہیں:
٭سطح سمندر کا بڑھ کر ڈیلٹا کی زمین میں آجانا، جس کی وجہ سے قابلِ استعمال زمینی رقبہ سمندر میں ضم ہوجائے گا۔
٭گلیشیرز کے پگھلنے کی وجہ سے دریائے سندھ کے چڑھائو میں اضافہ، جو دریائی سیلاب لانے کا باعث ہوسکتا ہے۔
٭ بارشوں میں اضافے سے سیلاب آنے کے خدشات۔
٭درجہ حرارت میں اضافے سے خشک سالی کے خدشات اور شدید گرمی کی لہریں۔
اگر پچھلی کچھ دہائیوں کو تاریخی تناظر میں دیکھیں تو یہ تمام ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کراچی کے پس منظر میں ابھرتے نظر آئیں گے۔ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے قطع نظر، ہم لوگ بالواسطہ اور کم علمی کی وجہ سے بھی ان تبدیلیوں کو تیز کرنے میں سرگرم ہیں۔ کراچی پورٹ اور انڈسٹریل ایریا کو دیکھا جائے تو کیمیکل ملا پانی اور فضلہ کثرت سے سمندر کی نذر کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ساحل پر آنے والے لوگ بھی کوڑا کرکٹ میں بے تحاشا اضافہ کرتے ہیں جو آخرکار سمندرکی نذر ہوجاتا ہے۔ اس تمام فضلے میں پلاسٹک کی بڑی تعداد سمندری حیات کے لیے تباہ کن ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی گرمی کی لہروں نے پچھلی دو دہائیوں میں عالمی سطح پر تشویش ناک صورت حال پیدا کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن آفس کے مطابق 2000ء سے 2019ء کے درمیان گرمی کی شدت سے مرنے والے لوگوں کی شرح مجموعی عالمی آفات میں مرنے والے لوگوں کا 13فیصد رہی۔ 2015ء کی گرمی کی لہروں میں 1229لوگ پاکستان میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان اور خاص کر کراچی کو شدید متاثر کررہی ہیں۔ گرمی کی اس لہرکا ماخذ وہ دبائو ہے جو عموماً وسط ایشیا میں پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے شدید گرمی کی لہر پیدا ہوتی ہے اور وہ پاکستان کی طرف حرکت کرتی ہے۔ کراچی اس لہر کی زد میں آنے سے شدید گرمی کا شکار ہوتا ہے۔ اس دوران سمندری ہوائیں رک جاتی ہیں اور ہوا میں نمی کے دبائو سے سانس لینے تک میں دشواری ہوتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اسی دوران ٹریفک سے نکلنے والا دھواں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ صنعتوں کی چمنیوں سے نکلنے والا مضر صحت دھواں بھی ماحول کو بدتر کردیتا ہے۔
اگر ان مسائل کے حل پر نظر ڈالی جائے تو سب سے ضروری چیز کثرت سے درخت لگانا ہے، تاکہ درجۂ حرارت کنٹرول میں رہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس تناظر میں لوگ بالکل سنجیدہ نہیں ہیں۔ اوپر سے حکومتی سطح پر بھی اس مسئلے کے حل کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جاتے۔ گاڑیوں اور چمنیوں سے نکلنے والے دھویں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی حقیقی معنوں میں اقدامات کا فقدان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موسمیاتی مسئلے کے حقیقی پہلوئوں کو اجاگر کیا جائے اور حکومتی کوششوں کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی سنجیدگی کے ساتھ اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم اتنے عظیم الشان ساحلی شہر میں سونامی جیسے طوفان دیکھیں گے۔
کراچی کے ضمن میں ایک اور مسئلہ تیزی سے بنتی اور پھیلتی اونچی اونچی عمارتوں کا بھی ہے۔ ان عمارتوں کی تعمیر کے دوران ماحولیات سے متعلق تمام قوانین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، اور ایسی جگہیں بھی ان عمارتوں کی زد میں آجاتی ہیں جو ماحولیاتی لحاظ سے انتہائی حساس نوعیت کی حامل ہیں۔ ساحلِ سمندر سے قریب تر ایسی عمارتیں بنانے سے یقیناً سمندری حیات کو خطرات لاحق ہوجائیں گے، کیونکہ ان عمارتوں سے نکلنے والے فضلے اور گندے پانی کی ٹریٹمنٹ وغیرہ کا کوئی پلان موجود نہیں ہے۔ ماحولیات سے متعلق قانون 1997ء سے ملک میں نافذ ہے، اور خاص سندھ کا ایکٹ بھی 2014ء سے نافذ ہے، مگر بدقسمتی سے یہ شعبہ بھی بلڈر مافیا اور رئیل اسٹیٹ ڈیلروں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ چلیں ہم بے حس ہوتے ہوئے ماحولیات اور اس سے وابستہ بے شمار حیاتیات سے صرفِ نظر بھی کرلیں تو ہماری آبادی تو بہرحال خطرے کی زد میں ہے، کیونکہ جس کثرت سے اونچی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں وہ شاید ساحلی قدرتی آفات میں مزید نقصان کا پیش خیمہ ہوں گی ۔
میڈیا اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے، لیکن پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کو ابھی تک کوئی اہمیت نہیں دی گئی، خاص کر میڈیا اس معاملے میں بالکل خاموش ہے، اور اپنے کردار سے غافل۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو میڈیا نے موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے اور اس عالمی مسئلے کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ آج کے دور میں میڈیا تک ہر شخص کی رسائی ہے اور نئے فکری رجحانات متعین کرنے میں میڈیا بنیادی کردار ادا کررہا ہے، لیکن پاکستان میں میڈیا کا کردار سیاسی مباحث تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور حقیقی مسائل اجاگر کرنے میں میڈیا ناکام رہا ہے۔ کبھی کبھار اکا دُکا خبر کہیں میڈیا میں دیکھنے میں آجاتی ہے جس میں موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کو اجاگر اور حل کرنے کی بات کی گئی ہو، لیکن عمومی طور پر اس مسئلے کو ابھی تک میڈیا کے نزدیک ایک سنجیدہ مسئلے کے طور پر نہیں لیا گیا۔ ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم ماحولیاتی حالات کو بہتر کرلیں اور میڈیا کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں اس بارے میں معلومات مہیا کریں اوراس ضمن میں سنجیدہ کوششیں کریں، ورنہ شاید قدرتی آفات آنے کے بعد ہم نوحہ کناں ہونے ہی کے قابل رہیں گے۔