کی تیز رفتار زندگی اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ ان میں عامتہ الناس کی تفریح طبع کے وافر سامان بہم پہنچائے جائیں، وگرنہ یہ زندگی اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ کئی مسائل پیدا کرتی ہے۔ دنیا بھر کے میٹرو پولیٹن اور کاسموپولیٹن شہروں کی خصوصیت یہ ہے کہ سرمایہ داری کا ارتکاز ان میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، اور یہ اپنے شہریوں کو ان کی آزادی اور فطری زندگی کے بدلے ایک بہتر طرزِ زندگی عطا کریں گے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر لوگ شہروں کی مشینی زندگی کا المیہ جاننے کے باوجود اس شہر سے اپنا مستقبل کیوں وابستہ کرتے ہیں؟ اور کیا شہری طرزِ زندگی ہی بہتر زندگی کی ضمانت ہے؟ نیز کیا شہری زندگی کا تصور کوئی نیا تصور ہے، یا یہ اس سے پہلے کی تہذیبوں میں بھی موجود تھا؟ کیا شہر کی زندگی جبرِ مسلسل ہے، یا اس سے جڑے مسائل لامتناہی ہیں؟ ان تمام سوالات کی اپنے اندر موجود فکری بنیادیں شہری زندگی کا ایک اور رخ ہمارے سامنے پیش کرسکیں گی، لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس لامحدود موضوع کو سمیٹنے کے لیے اس کی کوئی حد متعین کرلیں، تاکہ بات ایک پیرائے سے باہر نہ جائے۔ کراچی جسے پاکستان کا پہلا دارالحکومت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، پاکستانی ادب میں بھی اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتا ہے، اور نثری یا شعری دبستان ہوں یا صحافت کے میدان… کراچی کا نقطہ نظر ملکی و غیر ملکی ہر لحاظ سے اہم سمجھا جاتا ہے۔
شہروں کی زندگی میں ادبی رجحانات کا پھلنا پھولنا اس بات کا ثبوت بھی ہوا کرتا ہے کہ اس شہر کے لوگ سانس لینے کی حالت میں ہیں۔ لیکن اگر ان شہروں پر کوئی آفت آئے تو کیا ان کا ادب اس کی منظرکشی کرپاتا ہے؟ اور عالمی ادب میں اس کی کتنی مثالیں موجود ہیں، اس بات کا خصوصی مطالعہ ہی ہمیں یہ بتا سکے گا کہ کیا کراچی کے بارے میں لکھا گیا فکشن بالخصوص ناول اس شہر کا نمائندہ بھی ہے یا نہیں؟ اور کراچی کے المیے کو برتنے میں ہمارے اردو اور انگریزی ناول نگار کس قدر کامیاب ہوسکے ہیں؟
پاکستان کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا شہر کراچی کئی حوا لوں سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اگر پاکستان کا ثقافتی دارالخلافہ لاہور کو سمجھا جائے تو کراچی کو پاکستان کا معاشی دارالخلافہ سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کی جانب ہجرت کا رجحان بھی زیادہ رہا اور ملکی نظام معیشت سمیت مملکت کا نظام چلانے کے لیے سرکاری حکام کی اس شہر میں موجودگی نے بھی اس شہر کی اہمیت کو دوچند کردیا، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی کراچی ویسا ہی تھا جیسا کسی نئی سلطنت کا پہلا دارالحکومت ہوا کرتا ہے، لیکن آبادی کے ایک مستقل بے ہنگم جھکڑ اور غیرمنظم منصوبہ بندی نے اس شہر کی شناخت کو مسخ کردیا، اور آج یہ عالم ہے کہ اس شہر کو بدنظمی کا نقشِ اوّل سمجھتے ہوئے اس کے عبرت ناک انجام کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ شہر اس حال کو کیسے پہنچا اور ادبی زندگی سے جڑے لوگ اس شہر کو اپنے فن بالخصوص ناولوں میں کیسے پیش کرتے رہے، اس بات کا تعین کرنے کی کوشش اس مضمون میں کی جائے گی۔
ہر قوم اپنی ایک معروف ادبی صنف رکھتی ہے جیسے انگریزی ڈراما، روسی ناول، فرانسیسی شاعری… مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہمارے ادبا اور شعرا ہر صنفِ ادب میں اظہارِ خیال کرتے رہے، لہٰذا ہم کسی ایک ادبی صنف کو پاکستان کے ادبی ماحول و رجحان سے منسلک نہیں کرسکتے۔ مگر یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کئی ایک رجحان ساز ادیب اس بات پر کاربند نظر آئے کہ انہوں نے ایک ہی ادبی صنف میں قسمت آزمائی کی اور اسے ہی عمر بھر حرز ِ جاں بنائے رکھا۔ دبستانِ کراچی سے منسلک ادیبوں کی اگر بات کی جائے تو ان کی ادبی خدمات پر کئی تحقیقی مقالے سپردِ قلم کیے جا چکے ہیں، لیکن اردو اور انگریزی میں لکھے گئے کراچی کے بارے میں ناولوں کا مطالعہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے ،جس میں بطورِ خاص اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ایسے ناول منتخب کیے جائیں جو اس شہر کی سماجی حرکیات کی تبدیلی کی منظرکشی بھی کرتے ہوں اور اس شہر کے المیے کو بھی بیان کر نے پر قادر ہوں۔
اگر ہمیں شہر کے اندر شہر کو آباد ہوتے دیکھنا ہو تو ہم کیا کریں گے ؟ اہلِ کراچی سرجانی ٹاؤن ،نا ظم آ باد یا خدا کی بستی جانے کو ترجیح دیں گے، مگر معروف ترقی پسند ادیب شوکت صدیقی ،اس تجربے کو اپنے شہرۂ آفاق ناول’’ خدا کی بستی‘‘میں برت چکے ہیں، جو اس شہر کے بارے میں ایک باقاعدہ دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔اس ناول کی اشاعت کو 60 برس ہونے کو آئے ہیں،مگر کراچی کی زیر زمین جرائم کی دنیا جو اس ناول میں بیان کی گئی ، آج بھی اسی طرح ترو تازہ نظر آتی ہے جیسی اپنے ہیبت ناک آغاز کے وقت تھی۔بوڑھا کوڑھی گداگر،پیڈرو ،نوشا،نیاز کباڑی،یہ اس ناول کے وہ کردار ہیں جو آج بھی ہمیں کراچی کے استحصالی نظام کا شکار نظرآتے ہیں۔ناول کے آخر میں بظاہر جیت سرمایہ دار سیاست دان اور موقع پرست طبقے کی ہوتی ہے، مگر اس ناول کا پیغام بہت سادہ ہے:اگر اس شہر کو ان لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیا گیا تو کوئی اور خدا کی بستی بننے کے بجائے پورا شہر ہی خدا کی بستی بن جائے گا۔شوکت صدیقی کراچی کے باسی ہونے کے سبب اس ناول کو برتنے میں اسی طرح کامیاب ہوئے ہیں، جیسے کوئی مصور اپنی انگلیوں کا نقش کسی کاغذ پر اتار رہا ہو۔
’’آگ کا دریا‘‘ معروف ادیبہ قرۃ العین حیدر کا ایسا ناول ہے جو پورا ہندوستان اپنے اندر سمو لیتا ہے، مگر اس ناول کا اختتام بھی نئی مملکت کے دارالحکومت کراچی میں ہوتا ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اردو ناول میں کراچی کی عکاسی کا آغاز کب سے ہوا، اور اس شہر کی سماجی حرکیات کا مطالعہ کس قدر وسیع معنی رکھتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ قرۃ العین حیدر نے کراچی کی پارسی اور عامل کالونی، کراچی کے پرانے باسیوں کی منظرکشی بھی اپنے ایک ناولٹ میں کی ہے۔ اس ناولٹ کا نام ’’ہاؤسنگ سوسائٹی ‘‘ہے جو کراچی اور حیدرآباد کے درمیان آباد خاندانوں کے روابط سے شروع ہوتا ہے اور اس میں موجود کراچی، ایک ایسا شہر ہے جو مہاجرین کے لیے بانہیں پھیلائے منتظر ہے، اور اس شہر میں آباد پارسی، اس شہر کی قدیم ترین قوم ہیں۔ یہ ناولٹ تعمیراتی سرگرمیوں کا احوال بھی ہے اور اس میں کراچی کے مستقبل کی پیش بینی بھی کی گئی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے پاکستان کے مختصر قیام کے دوران کراچی کے ابتدائی نقشے اور مناظر سے اخذ کرتے ہوئے اس ناول کا تارو پود بُنا ہے۔ قرۃ العین حیدر کا پاکستان سے ہجرت کرجانا بھی ایک ادبی موضوع ہے، اور انہوں نے اپنی آپ بیتی ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ میں بھی اس امر کی تفصیلی وضاحت کی ہے کہ کراچی کے ادبا و شعرا کس طرح ملکی ادبی منظرنامے پر اپنی گوناگوں صلاحیتوں کے سبب چھائے ہوئے ہیں۔
کراچی کو ون یونٹ کے دور سے ہی نظرانداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جب کہ اس شہر پر ایک اور آفت سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹا سسٹم کے نفاذ کے بعد ٹوٹی۔ معروف شاعر رئیس امروہوی کی نظم’’اردو کا جنازہ‘‘ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، مگر یہ ایک ایسا نقطہ ارتکاز بھی ہے جہاں سے یہ شہر باضابطہ طور پر حزبِ اختلاف کا شہر کہلانے لگا، اور سرکاری ادیب اس شہر سے یا تو ہجرت کرکے اسلام آباد جا بسے، یا پھر اس شہر کے المیے کو ادب میں جگہ دینے سے کترانے لگے۔ یہاں نسبتاً روشن خیال طبقہ اس شہر کی حمایت میں آگے بڑھا اور دو ناول نما ایسی تحاریر ہمیں ملتی ہیں جو کراچی کی سماجیات اور معاشی حرکیات کو ایک تخلیقی عمل سے جوڑ کر دیکھتی ہیں۔ معروف مگر متنازع شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کراچی کے المیے اور مارشل لا کے تناظر میں ایک طویل تحریر لکھی جسے کچھ ادبی حلقے ناول بھی قرار دیتے ہیں۔ اس تحریر کا عنوان ہی کراچی ہے اور اس میں مختلف اخبارات کی سرخیوں کے اثرات کا جائزہ، شہر کی مختلف بستیوں کے احوال سمیت ہتھیار بند دستوں کا شہر میں گشت کرنا بھی شامل ہے۔ اپنی بے باکی اور تانیثیت پسند شاعری کے سبب فہمیدہ ریاض کئی برس پاکستان سے جلا وطن بھی رہیں۔ کراچی کے بارے میں ایک اور تانیثیت پسند شاعرہ کشور ناہید کا ناول ’’میں اور موسیٰ‘‘ ایسا ناول ہے جو ہمیں کراچی میں نئی بستیوں کے آباد ہونے سمیت بچوں کے پرانے کھیلوں کے گم ہوجانے کی داستان سناتا ہے۔ کراچی کی بے ہنگم تعمیرات کی اس سے بہتر منظر کشی شاید ممکن نہ ہوپاتی، کیونکہ اس ناول کا لوکیل مکمل مقامی ہے۔ ناول کے مرکزی کردار دو بچے ہیں جو طبقاتی فرق کو اپنی معصوم عقل کی بنا پر سمجھنے سے قاصر ہیں، اور ان کی جدائی اس شہر کے ایک اور المیے کو جنم دیتی نظر آتی ہے کہ اسی طرح اس شہر کے باسی اپنے پیاروں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان عالمی جنگ اور افغانستان پر روسی حملے کا ایک نقصان کراچی کو اس لحاظ سے بھی اٹھانا پڑا کہ اب اس شہر کو پناہ گزینوں کے ایک سیلاب کا سامنا تھا، جو شمالی علاقہ جات سمیت برادر ملک افغانستان سے چلے آرہے تھے۔ کراچی نے یہاں بھی برادر خورد کے بجائے ایں خانہ ہمہ آفتاب است والی کہاوت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے دامن کو وسیع کیا، اور اب یہ شہر اس کے اپنے شہریوں کے لیے تنگ ہونے لگا۔ یہاں سے اردو ناول میں کراچی کی ایک نئی منظرکشی کا آغاز ہوتا ہے، اور اب کراچی کا ہر تخلیق کار بشمول ناول نگار اپنے تحفظ کے حوالے سے فکرمند بھی ہونے لگا اور اس پیرائے میں بھی سوچنے لگا کہ آخر اس شہر کی عکاسی کیسے کی جائے؟ یہاں سے اردو ناول میں کراچی کی علامتی منظرکشی نظرآتی ہے اور ہمارے انتظار حسین کا ایک ایسا ناول منظرعام پر آتا ہے جس کا اسلوب گویا کراچی کی مقامی بولیوں جیسا ہے۔ کراچی کے اخباروں کی پرانی فائلوں میں موجود ایک سابق وزیراعلیٰ کا یہ سیاسی جملہ اس ناول کا نقطہ آغاز بنا کہ ’’کراچی والے ہجرت کرکے کہاں جائیں گے؟ سندھ سے آگے کراچی ہے، مگر کراچی سے آگے سمندر ہے‘‘۔ انتظار حسین نے اپنے ناول کا عنوان ہی’’آگے سمندر ہے‘‘ رکھا، اور علامتی پیغام دینے کی کوشش کی کہ جو لوگ کراچی کی تہذیب میں رہتے ہوئے ہندوستان کو نہیں بھولے، ان کے لیے ہی آگے سمندر ہے۔ یہ ناول ہجرت کے تناظر میں لکھا گیا اور اس میں انتظار حسین کی ماضی پرستی عروج پر نظر آتی ہے، مگر اس میں کراچی کی سماجیات کا ویسا بیان موجود نہیں جیسا انتظار حسین کا خاصہ ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کراچی کے المیے کی عکاسی کرنا یوں آساں نہیں، بلکہ ’لہو رونا‘ کے مترادف ہے۔
کراچی کے صحافی بھی اس شہر سے اپنی شناخت کو وابستہ کرتے نظر آتے ہیں، اور رضیہ بھٹی سمیت احمد علی کو کون بھول سکتا ہے! مگر جبر و استبداد کے اس دور میں جہاں اپنی بات کو صحافت کے ذریعے کہنا ممکن نہ تھا،کراچی کے چند صحافی بھی ناول نگاری کے توسط سے اپنا پیغام دینے میں کامیاب رہے۔ اشرف شاد،آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں جن کا کراچی سے ایک قلبی تعلق رہا ہے، اور اسی لیے انہوں نے اپنے دو ناولوںمیں ملک میں جاری سیاسی بے چینی کو کراچی کے المیے سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے، جن میں ’’بے وطن‘‘ اور’’وزیراعظم ‘‘ نامی ناول شامل ہیں۔ کراچی کے صحافی ناول نگاروں کی اس فہرست میں نجم الحسن رضوی کا نام شامل نہ کرنا زیادتی ہوگی، جو جامعہ کراچی سے بطور استاد بھی منسلک رہے اور ایک لسانی سیاسی جماعت کے کارندوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بھی بنے۔ ان کے لکھے گئے دو اہم ناول’’ماروی اور مرجینا‘‘، ’’مٹی کا درخت‘‘ سمیت کئی افسانے بھی کراچی کی بدلتی سیاسی فضا سمیت تشدد کے ہر ہتھکنڈے کو نمایاں کرتے ہیں، جبکہ مٹی کا درخت نامی ناول تو کراچی میں بسائی گئی ایشیا کی ایک اہم ترین کچی آبادی اورنگی ٹاؤن کا نقشہ ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے، جبکہ اس ناول کے کئی کردار ایسے ہیں جن کی زندگی کی کہانی غیر ملکی میڈیا کی زینت بھی بنی۔ پروین رحمٰن، جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، اورنگی ٹاؤن کے پائلٹ پراجیکٹ سے منسلک تھیں، جنہیں غریبوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں قتل کردیا گیا اور ان کے قاتل آج تک آزاد ہیں۔ اس ناول میں بھی پروین رحمٰن جیسے کردار تخلیق کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آخر کراچی پر قبضہ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کون سے لوگ اس شہر سے برگشتہ خاطر ہیں اور اس شہر کی قیمتی زمینیں کوڑیوں کے دام کس کو فروخت کی جارہی ہیں؟ حیرت انگیز طور پر اس ناول میں موجود کئی کردار بالکل حقیقی کرداروں سے مماثلت رکھتے ہیں، اور تحقیق سے علم ہوا کہ یہ تمام کردار کسی نہ کسی طرح ناول کے مصنف سے اس کے تخلیقی سفر کے دوران جڑے بھی رہے، اور اس نے ان کا المیہ اپنے ناول میں ایک اجتماعی المیے کی صورت میں پیش کردیا۔
کراچی میں طبقاتی فرق کوئی آج کی بات نہیں، یہ اس شہر میں زندگی کے آغاز میں ہی شاید طے کرلیا گیا تھا کہ شہر کو چلانے والے اور حکومت کرنے والے کون ہوں گے اور اس شہر میں محکوم کون ہوگا؟ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اردو میں لکھے گئے کراچی کے بارے میں زیادہ تر ناول اس شہر کی سماجیات، نفسیات، سیاسی مسائل، لوگوں کے رویوں اور نوجوانوں کے مسائل کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں، مگر انگریزی ناول نگار اس شہر کو کسی دوسرے ہی آئینے سے دیکھتے ہیں، اور چند چیدہ ناولوں کا اس ضمن میں جائزہ لیا جانا اشد ضروری ہے، تاکہ اس تقابلی مطالعے کو کسی منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔
کاملا شمسی کا نام انگریزی دان طبقے کے لیے نیا نہیں۔ آپ عالمی سطح پر اپنی ادبی تنقید، ناول نگاری اور مدیرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے معروف ہیں۔ آپ کی ادبی زندگی کا ابتدائی حصہ بھی کراچی میں گزرا اور اس تجربے سمیت کراچی کو آپ نے اپنے کئی ناولوں کی زینت بنایا، جن میں آپ نے یہ بتایا ہے کہ کراچی کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے شہر میں ہونے والی تبدیلی اور ہنگامے کا احساس تو دور کی بات، اس کا علم بھی نہیں ہونے پاتا، اور اسی لیے یہ شہر اپنے اصل ورثا کے انتظار میں آج بھی ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر غالب کے اس شعر کی عملی تفسیر نظر آتا ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
Kartography In the city by the sea
مذ کورہ بالا ناول کاملا شمسی کے وہ ناول ہیں جن میں سیاسی بے چینی کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان سے جوڑ کر کراچی کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کراچی کے مسئلے کی اصل تفہیم کیسے ممکن ہے ؟ اس کے علاوہ مشہور و معروف پاکستانی انگریزی ناول نگاروں میں کئی ایسے نام بھی شامل ہیں جو کراچی میں رہتے ہوئے اس شہر کو اپنانے پر تیار ہوئے اور اس شہر کواپنے ناولوں کے موضوعات میں جگہ دی۔اس حوالے سے کراچی پولیس کے افسر اور مشہور زمانہ شاہد حامد کیس سے جڑے،عمر شاہد حامد کا نام لیا جانا بے حد ضروری ہے، کیونکہ ان کے چار میں سے تین ناولوں کا موضوع کراچی ہے… اور کراچی بھی کون سا،جس میں اقتدار پر قبضے کی جنگ جاری ہے اور ملکی اداروں سمیت بیرونی طاقتیں بھی اس رسّا کشی کا حصہ ہیں۔ان کے ناولوں کے موضوعات میں لیاری گینگ وار،کراچی کی شہری حکومت، ڈینیل پرل کیس،مرتضیٰ بھٹو قتل کیس،کراچی کے پرانے پارسیوں کی نقل مکانی سمیت کئی اہم رجحانات کو زیر بحث لا یا گیا ہے ،اور کئی غیر ملکی ادارے ان کے ناولوں پر فلم بنانے کی عملی کوششوں کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی چاہے اردو صحافت کا حصہ ہوں یا انگریزی کا،اس شہر سے سب اپنے طور پر جڑے نظر آتے ہیں جن میں محمد حنیف،صباامتیاز،بلال تنویر،امین الدین، حسن جاوید،اقبال خورشید،سید کاشف رضا،سمیع شاہ اور انیس شیوانی کا شمار ایسے صحافیوں میں کیا جاتا ہے جو اس شہر کے المیے کو اپنے اپنے ناولوں میں بالترتیب جگہ دے چکے ہیں اور ان سب کا احاطہ اس مضمون میں ممکن نہ تھا، لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ کراچی کو اردو اور انگریزی ناول میں اپنی ترجمانی کا جو موقع ملا،وہ پاکستان کے کسی اور شہر کے حصے میں نہیں آیا، اور اس ترجمانی کے نتیجے میں نظر آنے والا کراچی کون سا ہے؟ جس کی تعمیرات بے ہنگم، سیاسی جماعتیں تشدد پسند، لوگ بے حس، طلبہ غافل اور حکمران مفاد پرست ہیں۔ کراچی کی اردو اور انگریزی ناول میں منظرکشی نے ایک بات اور واضح کی کہ اس شہر کو پاکستان کا واحد کثیراللسانی شہر کہا جا سکتا ہے، جس کی زبان اور اسے بولنے کا طریقہ کار ہر دس میل کے بعد بدل جاتا ہے، جس کے حادثے بھی عالمی اخبارات کی زینت بنتے ہیں، جس کے شہریوں کی عادات بھی ملک بھر میں سب سے منفرد ہیں، یعنی اپنے نقصان پر دم سادھ کر بیٹھ جانا، اور اس شہر کا ناول بھی ان ہی خوبیوں کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے، اور ہم بحیثیتِ مجموعی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی اردو اور انگریزی کے فکشن کے حوالے سے اپنی علیحدہ نامیاتی شناخت رکھتا ہے جو اسے پاکستان کے باقی شہروں سے ممتاز کرتی ہے، لیکن اس المیے اور اس کی عکاسی کا کوئی فائدہ عملی سطح پر دیکھنے میں نہیں آیا جس کی وجہ سے آج کراچی کا ناول بھی کراچی کی طرح ریفرنڈم کا مطالبہ کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اس شہر کی حقیقی آواز کون بنے گا؟