فرائیڈے اسپیشل: آرکی ٹیکٹ تو ملک میں بہت ہیں، آپ منفردہیں، نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس شعبہ کا انتخاب کیسے کیا ؟
عارف حسن :میرے خیال میں جو بھی جس شہر یا محلہ میں رہتا ہے اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کے گردو پیش کے حالات بہتر ہوں۔میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میں یہاں پلا بڑھا ہوں،کیونکہ میں چار سال کی عمر میں دلی سے کراچی آیا، اس کے بعد میرے والد کو انٹیلی جنس اسکول میں گھر ملا، جہاں حکومت کے سینئر افسران رہائش پذیر تھے جنہیں آرمی بیرکس دی گئی تھیں، ان بیرکس کے درمیان ہجرت کرکے آنے والے خاندان جھگیاں بنا کر رہا کرتے تھے۔ میری زندگی کے ابتدائی تیرہ سال اسی ماحول میں گزرے، امیر اور غریب سب اکٹھے رہتے، ساتھ کھیلتے تھے۔ اس زمانے میں اسکول بھی سرکاری ہوا کرتے تھے، کالج بھی سرکاری ہوا کرتے تھے، تعلیمی نظام کا کوئی نجی تصور نہیں تھا، اس طرح سے یہ ایک رشتہ بنا، جس کی وجہ سے میرے خیال میں فلاح و بہبود کے کام کا خیال ابھرا، دوسرا میرے والدین اور خاندن کا کچھ رجحان سوشلسٹ خیالات سے رہا تھا۔ ہم پانی پت کے تھے اور ان کا کام بھی لکھت پڑھت اور شاعری وغیرہ کا تھا۔
مگر تبدیلی جو اصل معنوں میں آئی جب میں واپس آیا تو انہی کچھ لوگوں میں سے جو میرے ساتھ بڑے ہوئے تھے وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ دیکھیں! ہمارے پاس ایک زمین ہے جس پر ہم اب جاکر بیٹھے ہیں اور حکومت نے یہ کہا ہے کہ ہمیں دے دی جائے گی جب کہ ہم پیسے جمع کررہے ہیں اور اپنے حالات بہتر کرنا چاہتے ہیں لہٰذا آپ ہمیں مشورہ دیں۔ اس قسم کی چیز میں نے کبھی پڑھی تو تھی نہیں ہم تو عمارتیں بنانا جانتے تھے، علاقوں کو ٹھیک کرنا نہیں جانتے تھے۔ کچھ دن بعد وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حکومت نے تو کہا ہے کہ ہم زمین نہیں دیں گے بلکہ تمہیں یہاں سے نکال کر بلدیہ بھیج دیں گے، جو کہ اس زمانے میں بہت دور تھا اس علاقے تک جانے کے لیے کو سڑک بھی درست نہیں تھی۔ میرے جاننے والے ایک بڑے سرکاری افسر تھے جن کا میں مکان بنا رہاتھا ان سے میں نے جاکر درخواست کی کہ یہ آپ رکوا دیجیے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ آپ رہنے دیں یہ لوگ ٹھیک لوگ نہیں ہیں اور بہتر ہے کہ انہیں شہر سے باہر نکال دیا جائے۔ یہ لوگ شہر کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ ان کی خواتین کا کردار بھی درست نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ میں تو بچپن سے انہیں جانتا ہوں آپ کیا بات کررہے ہیں؟ خیر بحث ہوئی اور میں نے ان کا مکان نہیں بنایا۔ چند دن بعد اس علاقے میں مکانات پر بلڈوزر چلادیے گئے، میں نے وہ تمام مناظر دیکھے۔ مردوں کو نعرے لگاتے دیکھا، خواتین کو سامان نکالتے دیکھا۔ بچوں کو روتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پھر سوچنا شروع کیا کہ یہ زمین کا جو مسئلہ ہے یہ ہے کیا اور ساتھ ساتھ پڑھنا بھی شروع کیا۔ ویسے تو شہر سے بہت محبت تھی ،اس کی ثقافت اور تاریخ سے بھی گہرا لگائو تھا۔ تو میرے خیال میں وہاں سے ایک تبدیلی آئی۔
دو تین واقعات اور بھی ہوئے جس نے لکھنے پر مجبور کیا۔ ایک تو دریائے سندھ میں جہاں وہانہ کے ساتھ آیا جایا کرتا تھا۔ سکھر سے کشمور اور کشمور سے واپس سکھر، کئی دفعہ کوٹری سے کراچی بھی آیا۔ ان سے جان پہچان ہوئی۔ ایک دن مجھے ایک ٹیلی گرام آیا کہ وہانہ جس کے ساتھ ہم جاتے تھے وہ انگریزی تو جانتا نہیں تھا مگر ٹیلی گرام پر یہ لکھا ہوا تھا کہ Help Needed ۔ معلوم نہیں کیا بات ہو میں چلا گیا، پتا لگا کہ جہاں پر وہ صدیوں سے بسے ہوئے تھے وہاں سکھر ماسٹر پلان کے حوالے سے انہیں بے دخل کیا جارہا تھا اور دریا کے دوسری طرف انہیں آباد کیا جارہا تھا جبکہ ان کا کہنا تھا کہ دریا کے دوسرے طرف وہ مچھلیوں کا شکار نہیں کرسکتے۔ کیونکہ وہاں کرنٹ ہے، میں ظاہرہے اس وقت تو کچھ نہیں کرسکتا تھا میں نے ایک نقشہ بنایا کہ اتنا حصہ وہائونائوں کو دے دو، اتنا جو پارک بنانا چاہتے تھے ماسٹر پلان کے مطابق وہ پارک کو دے دو اور ایک خط لکھ دیا ان کی طرف سے اور کہا کہ اپنے رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سے بات کرلو۔ رکن قومی اسمبلی اس زمانے میں علی حسن منگی تھے، ان کے بیٹے سے میری واقفیت بھی اچھی تھی بعد میں دوستی بھی ہوگئی تھی۔ وہ خط انہوں نے علی حسن منگی کو دے دیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کس نے لکھ کر دیا ہے، میرا نام لیا تو انہوں نے مجھے بلالیا اور بات سنی اور کہا کہ ٹھیک ہے میں دیکھ لوں گا۔ صرف یہی کہا۔ وہ نہیں کرپائے۔ میں نے بعد میں منگی صاحب سے پوچھا بھی کہ آپ نے بچالیا ان کو ؟ کہنے لگے میں نے نہیں بچایا۔ جب سے لے کر چند سال پہلے تک وہ موہانہ وہاں پر آباد تھے جب پیپلز پارٹی نے دریا کے ساتھ ساتھ علاقے کو سیکور کیا تو انہیں کوئی تیس چالیس سال بعد وہاں سے نکال دیا۔ اس طرح کے دو تین واقعات اور بھی ہوئے جو میں شاید نوٹ بھی نہ کرتا اگر وہ مکان نہ گرائے جاتے۔ یہاں سے سوچنا شروع کیا، لکھنا شروع کیا اور اسی لکھت پڑھت کے نتیجے میں غلام کبریا صاحب جب وہ …(کسی ادارے کا نام ہے 11:26)… ٹیکنالوجی کے ہیڈ بنے تو انہوں نے مجھے اپنا کنسلٹنٹ بنادیا تب مجھے پاکستان کے مختلف علاقوں میں کام کرنے کا موقع ملا اور اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اسی بنیاد پر جب اختر حمید خان نے اپنا پروجیکٹ بنایا تو مجھ سے کہا گیا کہ آپ میری مدد کریں۔ یہ وجوہات تھیں جس کی وجہ سے میں ان چیزوں میںدلچسپی لینے لگا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے جب شعوری طور پر کراچی کو دیکھا تو کیسا تھا کراچی؟
عارف حسن :مجھے دلی سے کراچی کا سفر یاد نہیں ہے مگر مجھے کراچی کنٹونمنٹ اسٹیشن پر اترنا اچھی طرح یاد ہے اور مجھے اسٹیشن سے پناہ گزینوں کے کیمپ( ریفیوجی کیمپ) میں جانا بھی اچھا طرح یاد ہے،جس روز ہم پناہ گزین کیمپ پہنچے تو شام کو وہاں سے اس گھر جانا جو حکومت نے اس وقت فراہم کیے تھے یاد ہے۔ بہت دھیمی روشنی تھی سڑک پر گاڑیوں کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا کچھ لوگ سائیکل پر نظر آتے تھے اور چھوٹی چھوٹی پتھر کی عمارتیں تھیں کوئی بڑی عمارت ریلوے اسٹیشن سے پناہ گزینوں تک نہیں تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے تو کنکریٹ کی بھی نہیں تھی۔ جب میں تھوڑا بڑا ہوا آٹھویں یا نویں جماعت میں پہنچا تو میرے بابا نے مجھے ایک سائیکل دلا دی، کالج بھی سائیکل پر جاتا تھا، اسکول بھی سائیکل پر گیا۔ اسی پر ہر جگہ میں باآسانی جاسکتا تھا۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی میں کس قسم کا ماحول تھا؟
عارف حسن :کبھی یہ خیال نہیں ہوا کہ کوئی اغوا کرلے گا یاگولی لگ جائے گی، سائیکل پر آزادی سے کہیں بھی جاسکتے تھے۔مگر سائیکل کے بھی عجیب و غریب قوانین تھے۔ ایک تو وہ رجسٹرڈ ہوتی تھی اور اس کا ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ پولیس والا روک کر کہتا تھا ٹیکس رسید دکھائو۔ اس پر لائٹ ہونی ضروری تھی، ڈبل سواری ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ ’’کمبخت‘‘ پولیس والا صرف رشوت نہیں مانگتا تھا، کہتا کہ چالان ہوگا۔ تو جو آپ کے انگریز دور کے قوانین تھے ان پر عمل ہوتا تھا جو آج بھی موجود ہیں ختم نہیں ہوئے مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔ کتابوں کی بہت دکانیں تھیں جس کا تذکرہ میں نے اپنی کتابوں میں بھی کیا ہے۔ صدر میں بہت تھیں، پرانے شہر میں بہت تھیں۔ شہر ویسے بٹا ہوا تھا۔ تانگہ بھی مخصوص علاقوں میں تھا جو مہاجر اپنے ساتھ لائے تھے جبکہ یہاں وکٹوریہ گھوڑا گاڑی ہوا کرتی تھی جن میں سے اب بھی اکا دکا نظر آتی ہیں، سیرکرانے کے لیے اگر آپ کا فریئر ہال جاناہوتو وہاں اب بھی شاید ایک دو کھڑی نظر آئیں۔ وکٹوریہ بہت خوبصورت ہوتی تھی۔ خاندان کا خاندان اس میں بیٹھ کر جاتا تھا، بعد میں پھر تانگے آگئے مگر وہ مخصوص علاقوں میں چلتے تھے لائنز ایریا، لالو کھیت وغیرہ میں جبکہ وکٹوریہ پورے شہر میں چلتے تھے مگر جو سب سے اہم ٹرانسپورٹ تھی وہ ٹرام تھی، جو کیماڑی کی بندرگاہ سے عبداللہ ہارون روڈ سے آگے ایمپریس مارکیٹ سے ہوتی ہوئی کنٹونمنٹ ریلوے اسٹیشن تک جبکہ دوسری ٹرام سولجر بازار جاتی۔ ایک شاخ نکلتی تھی نیپیئر روڈ تک اور وہ لی مارکیٹ تک جاتی تھی چنانچہ آپ کہیں بھی کراچی میں ٹرام وے سے دو کلو میٹر سے زیادہ کے فاصلے پر نہیں تھے۔ ٹرام وے سستی بھی اور کھلی اور کشادہ بھی اس میں کوئی دروازہ کھڑکیاں نہیں ہوتی تھیں، لمبی نشستیں ہوتی تھیں، آہستہ آہستہ چلتی تھی، چنانچہ بہت لوگ چلتی ٹرام پر چڑھ اور اتر جایا کرتے تھے۔ یہ سب سے آسان اور سستا طریقہ تھا سفر کا۔
جب کراچی پاکستان کا دارالحکومت بنا تو یہاں کوئی بیس سے پچیس بسیں تھیں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں تھی، ٹیکسیاں تھیں جو کہ بڑی امریکن گاڑیوں سے بنائی جاتی تھیں یہ بھی کوئی تیس سے چالیس تھیں۔ ٹرام کی وجہ سے سفر کی پریشانی نہیں تھی جبکہ سائیکل کا استعمال عام تھا۔ سائیکل کے استعمال میں ایک بہت بڑا مسئلہ تھا کیونکہ یہاں ہوا مسلسل چلتی ہے مغرب سے سال کے نو مہینے اور اتنی تیز چلتی ہے کہ اس کی مخالف سمت سے سائیکل چلانا وہ صرف جوانوں کا کام تھا چنانچہ بوڑھوں کے لیے سخت ہدایات تھیں کہ وہ سائیکل استعمال نہ کریں۔
فرائیڈے اسپیشل:عض لوگوں کا خیال ہے کہ کراچی کی تباہی کا آغاز ایوب خان کے اس دور میں ہوگیا تھاکہ جب دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا،کہتے ہیں کہ اگر کراچی ملک کا دارالخلافہ رہتا تو اس کی یہ حالت نہ ہوتی ؟
عارف حسن :نہیں میں اس نظریے سے اختلاف کرتا ہوں۔ ایک اور سوال ہے کہ آپ تباہی کس نظریے سے کہتے ہیں؟ میرے خیال میں کراچی اور سندھ کے ساتھ جوبہت بڑی زیادتی ہوئی اور جس کی وجہ سے تعلقات آج دو کمیونٹیز کے درمیان مناسب اور ٹھیک نہیں ہیں جیسے ہونے چاہئیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ قائد اعظم نے 1947ء میں سندھ اسمبلی سے درخواست کی کہ قرارداد پاس کرے کہ جس کے تحت سندھ کا دارالحکومت کراچی سے سڑک حیدرآباد چلا جائے تاکہ یہ دارالحکومت رہے۔ سندھ اسمبلی نے انہیں لکھا کہ جناب دونوں چیزیں یہاں رہ سکتی ہیں سندھ کا دارالحکومت بھی اور پاکستان کا دارالحکومت بھی اور سندھ حکومت اس کی ضمانت دیتی ہے کہ جو بھی آپ کو رئیل اسٹیٹ یا زمین چاہیے وہ ہم وفاقی حکومت کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ اور انہوں نے نشاندہی کرائی ان ممالک کی جہاں وفاقی اور صوبائی دارالحکومت ایک ہی شہر میں ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ آپ ہمارے ساتھ یہ نہ کریں، کیونکہ کراچی ہی ہے جو ہمارے پاس ایک ایسٹ ہے اور صرف ایسٹ ہی نہیں ہے، کلچر بھی یہی ہے اور ہماری تاریخ بھی یہی ہے جبکہ ہماری معیشت بھی اسی سے وابستہ ہے۔ اس کے بعد چند ماہ بعد پھر درخواست آئی کہ آپ اس پر عمل درآمد کریں اور اس کی قرارداد منظور کرائیں مگر سندھ اسمبلی نے انکار کردیا۔ اس کے انکار کے نتیجے میں ایمرجنسی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 1935 انڈیا ایکٹ کے مطابق قائد اعظم نے سندھ اسمبلی کو برخاست کردیا اورایوب کھوڑو وزیر اعلیٰ کی گرفتاری عمل میں آئی ( تب صوبوں کے وزیراعظم ہوا کرتے تھے) اس کے نتیجے میں یہاں جتنے بھی سندھی زبان والے اسکول تھے وہ سب اردو زبان والے کردیے گئے اور سندھی میڈیم اساتذہ کو یہاں سے دوسری جگہ بھیج دیا گیا، جو نئے اساتذہ آئے تھے اسکول ان کے حوالے کردیے گئے۔ یہ ابتدا ہے سندھ میں لسانی تقسیم اور دوری کی، اس کے بعد سے یہ سارا قصہ شروع ہوا کہ سندھ کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے، سندھی قیادت پر مقدمے ہوئے، جیلوں میں گئے۔ میں بعض دفعہ سوچتا ہوں اگر کراچی سندھ کا دارالحکومت رہتا تو میں سندھی بول رہا ہوتا اور سمجھ رہا ہوتا؟۔ بہت دفعہ سوچتاہوں کہ اگر یہ رہتا تو کیسا ہوتا؟ یہ اتنی دوری ہوئی اور سارے پاکستان سے لوگ یہاں آکر بس گئے وہ اس طرح سے نہ بستے، پولیس اہلکار آپ کے مقامی ہوتے باہر کے نہ ہوتے، یہ جو وفاقی حکومت اور صوبے کی کوئی دلچسپی رہی نہیں اس سیاست سے نہ صرف صوبے کو بلکہ پاکستان کو بہت نقصان پہنچا۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کہہ رہے ہیں کہ دارالحکومت جانے سے اتنا نقصان نہیں ہوا؟
عارف حسن :جی ہاں، کراچی کی ترقی اور ان کے جو مسائل اس کی ابتدا اس سے پہلے ہوئی اس سے پہلے ہوا مثلاً پہلا ترقیاتی منصوبہ کراچی کا 1952ء میں بناجو ایم آر وی منصوبے کہلاتا تھا اس پلان کے تحت یونیورسٹی وہاں بننی تھی جہاں وہ آج ہے اوریونیورسٹی کے سامنے جو پہاڑیاں ہے ان پر فیڈرل کیپٹل ایریا بننا تھا۔ 1953ء میں یونیورسٹی کی تعمیر شروع ہوگئی اور فیڈرل کیپٹل ایریا ڈیزائن ہورہا تھا جب ایک طلبہ تحریک کراچی میں وجود میں آئی اس کے جلسے جلوس ہوئے اور جو مہاجر آبادی تھی جس کے پاس نہ رہنے کو گھر تھے نہ جگہ تھی، کاروبار کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا حالانکہ حکومت کوشش بہت کررہی تھی۔ وہ تمام آبادی اس تحریک میں شامل ہوگئی اور ایک سال میں اس تحریک نے تین حکومتوں کو گرایا۔ اس کے بعد سارے بیوروکریٹس بیٹھے اور یہ فیصلہ کیا گیا جس کی اطلاعات مجھے تین مختلف ذرائع سے موصول ہوئیں کہجو ایم آر وی پلان ہے اسے اسکریپ کیا جائے کیونکہ فیڈرل کیپٹل ایریا کو یونیورسٹی کے پاس ہونا ہی نہیں چاہیے۔’’یہ بات کرکے عارف صاحب نے میری طرف دیکھ ا ور کہا ذرا آپ سوچ دیکھئے!‘‘۔ دوسرا مسئلہ مہاجر آبادی کا تھا یہ ورکنگ کلاس ہے اسے شہر میں نہیں رہنا چاہیے۔ یہ متاثر کرتی ہے اس کا کوئی اور حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں کہاں آباد کیا جائے؟ یہ بحث تین چار سال چلتی رہی پھر ایوب خان برسراقتدار آگئے اور انہیں کسی سے بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی تو انہوں نے فیصلے کر لیے اور یہ جو مہاجر آبادی ہے ان سے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ انہیں کراچی سے دور سیٹلائٹ ٹائونزمیں بسایا جائے۔ ایک لانڈھی کورنگی، دوسرا نیو کراچی تاکہ یہ شہر نہ آئیں۔ یہاں انڈسٹریلائزیشن کا فیصلہ کیا گیا، یہ سب یہیں کام کریں گے اور شہرمیں نہیں آئیں گے اور دوسرے صوبوں سے آنے والے لوگ یہیں رہیں گے۔ تو ایک قسم سے ایک نئی جغرافیہ قائم کرنے کی کوشش تھی۔ دو لاکھ نئے مکانات بنانے تھے جس کے پہلے مرحلے میں چالیس ہزار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر وہ نہیں بنے۔ لانڈھی کورنگی دس ہزار مکانات کی تعمیر ہونے کے بعد منصوبہ بند ہوگیا جبکہ نیو کراچی میں صرف ڈھائی ہزار مکانات تعمیر کیے گئے۔ انڈسٹریز قائم نہیں ہوئیں، ذرائع روزگار میسر نہیں آئے، اس کا دارالحکومت کے جانے سے کوئی تعلق نہیں ہے، پراجیکٹ سارا فیل ہوگیا، جن بے چاروں کو ویرانے میں بھیج دیا گیا تھا وہاں نوکری نہیں تھی ان کے پاس لہٰذا انہوں نے روزگار اور رہائش کے لیے شہر میں واپس آنا شروع کیا یہاں سے کراچی میں ٹرانسپورٹ کی پریشانیاں شروع ہوئیں۔ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر اتنا طویل سفر لوگوں کرنا پڑتا تھا جس کا دارالحکومت کی منتقلی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آپ نے اتنی انڈسٹری لگائی مگر اس انڈسٹری کے ساتھ ورکرز کالونیاں تعمیر نہیں کیں اس کا بھی دارالحکومت کی منتقلی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ شہر کی ٹریڈ یعنی کامرس بڑھتی چلی گئی اس کے لیے آپ کو ٹرانسپورٹر ٹرمنلز چاہیے تھے، کارگو ٹرمنلز چاہیے تھے آپ کو شہر سے ایگزٹ چاہیے تھے وہ آپ نے فراہم نہیں کیے بلکہ وہ زبردستی جگاڑ میں بن گئے۔ اس کا بھی درالخلافہ کی منتقلی سے کوئی تعلق نہیں تھا، چونکہ وہ جگاڑ میں بنے تھے آج ان کا بہت بڑا مسئلہ ہے، آپ شہر سے نہیں نکل سکتے جب آپ کی کنٹینر ٹریفک شروع ہوجاتی ہے۔ گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے جناح برج پر دیکھ لیں، گلبائی پر دیکھ لیں۔ اسی طرح سے آپ نے ملازمتیں فراہم کرنے کی کوششیں کیں، یہ نہیں ہے کہ حکومت بے بس تھی یا اس میں تمیز نہیں تھی کہ ملازمین چاہئیں چنانچہ اس نے بے شمار دکانیں بنائیں، ایمپریس مارکیٹ ہی میں تقریباً دو ہزار دکانیں بنائیں یہ سب چیزیں کیں مگر جب کی تھیں تو منصوبہ یہ تھا کہ اس کو آگے چل کر ٹھیک کریں گے۔ یہ ایک عارضی منصوبہ تھا کہ لوگوں کو فوری روزگار کی ضرورت تھی جو کہ ایوب کے زمانے میں ہوا۔ ان تمام چیزوں کا تعلق شہر کی منصوبہ بندی سے تھا۔
فرائیڈے اسپیشل:منصوبے پر عمل کے لیے مالی وسائل کی کمی تھی یا کوئی اور بات تھی؟
عارف حسن :پیسہ بہت خرچ ہوا،پیسے کی کمی نہیں تھی کراچی میں کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ ایک تو سب سے بڑی بات یہ تھی کہ تمام چیزوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے معقول لوگ نہیں تھے۔ منصوبہ بندی کے لیے لوگ نہیں تھے، وہی ہندوستان کے گنتی کے منصوبہ ساز اور لوکل انجینئر تھے وہی کام کرتے تھے یا تو باہر سے کنسلٹنٹ بلانے پڑتے تھے۔ مگر 1975ء اور1985ء کے پلان سے ایک بہت بڑی تبدیلی آئی جو اقوام متحدہ کی مدد سے بنا تھا جوکہ بھٹو کے دور میں مکمل ہوا اور اس پر عمل شروع ہوا۔ اس کے بڑے منصوبوں میں ماس ٹرانزٹ تھا جس پر کام شروع ہوگیا تھا پلاننگ ہوچکی تھیں تخمینہ لگایا جاچکا تھا۔ کینیڈا کے ساتھ روڈنگ اسٹاپ کے لیے بات چیت ہورہی تھی۔ دوسرا پانی کے بہت سے پروجیکٹس پر عمل شروع ہوگیا تھا، کچھ مکمل ہوچکے تھے جن میں کے ٹو تھا۔ روڈ ٹرانسپورٹ کافی حد تک مستحکم ہوچکی تھی۔ کے آر ٹی سی اور کے ٹی سی کی بڑی بسیں تھیں جن میں شروع میں ڈبل ڈیکر بھی تھیں۔ پھر جب بھٹو کی حکومت گئی تو اس پلان پر عمل درآمد ہوروک دیا گیا اور ایک کمیٹی بنی تھی یہ دیکھنے کے لیے کہ اس میں کیا کیا بدعنوانی کی گئی ہے مگر اس نے کوئی رپورٹ کبھی نہیں دی۔ وہ چیزیں جن پر کام ہوا وہ روڈ نیٹ ورک تھا اور پانی کے پراجیکٹس تھے۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی کے ماسٹر پلان تو بنتے رہے ہیں، لیکن جیساکہ آپ نے بھی کہا ان پر مکمل عمل نہیں ہوا ناکامی کی کیا وجہ ہے؟
عارف حسن :1985ء کا تو میں نے آپ کو بتادیا کہ حکومت کی تبدیلی تھی اور ہمارے یہاں تو ایک قاعدہ ہے کہ جو بھی گزشتہ حکومت نے کیا ہے اس کا کھاتہ کھول کر بیٹھ جائو اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرو کہ اس میں بدعنوانی تھی، خیر وہ ثابت نہیں ہوسکا۔ منصوبہ رک کیا اور جو چیز رک جائے اس کو پھر سے شروع کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بعد میں جو پلان بنا ’’2000کراچی ترقیاتی منصوبہ‘‘ اس کا میں ایویلویٹر بھی تھا۔ وہ 1995ء سے 2000ء تک کا پلان تھا۔ وہ منصوبہ کبھی بھی منظور نہیں ہوا، نہ وہ قانون بنا، وہ منصوبہ ہی رہا۔ اسی کی جو سفارشات تھیں ان پر عمل نہیں ہوا اور سب سے بڑی وجہ عمل درآمد نہ ہونے کی صلاحیتوں کا فقدان ہے ایک تو افسران کو کمپیوٹر جاننے کی ضرورت تھی اس زمانے میں کمپیوٹر استعمال کرنے کو ہتک سمجھا جاتا تھا۔ انفارمیشن کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا چونکہ وہ سارا مانیٹرنگ کا پلان تھا کہ ہم مانیٹر کریں گے، نشاندہی کریں گے کہ یہ، یہ کمزوریاں ہیں اور جیسے جیسے شہربڑھتا رہے گا اور آبادی بڑھتی رہے گی ہم اسے ڈیل کرتے رہیں گے، وہ نہیں ہوسکا۔ دوسری وجہ جوتھی ، وہ یہکہ جب وہ پلان بنا تو ہمارے اداروں کی حالت اس قدر خراب ہوچکی تھی کہ جو بھی سروسز لوگوں تک پہنچائی جارہی تھیں وہ ایک غیر رسمی سیکٹر پہنچا رہا تھا، بہت حد تک پانی کا نظام ان کے حوالے ہوگیا، سرکلر ریلوے کی بری حالت تھی، ایم کیو ایم کے فسادات اور جھگڑوں کی وجہ سے بے شمار بسیں کے ٹی سی کی جلائی جاچکی تھیں، جس کے نتیجے میں وہ بہت بڑے خسارے میں تھی۔ اس پلان نے اس غیر رسمی سیکٹر کو نہ سمجھا اور نہ اس کے لیے کوئی کردار رکھا۔ آپ کی منی بسوں کا ٹرانسپورٹ ان کے حوالے ہوچکا تھا،اس کے لیے کوئی کردار نہیں رکھا، کچی آبادیوں کے ذریعے لوگوں کو گھر دیے جارہے تھے اس کے لیے آپ نے کوئی کردار نہیں رکھا، تو وہ ایک مانیٹرنگ پلان تھا لیکن یہ رول ڈیٹرمن کرنا پلان کے دوران ہونا تھا لیکن جب مانیٹرنگ ہی نہیں ہوئی تو پلان کیسے بنتا اور کیسے عمل ہوتا؟ سو نہیں ہوا۔ تو میرا یہ خیال تھا جس کی میں نے رپورٹ بھی دی کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو صلاحیتیں ہیں اس پلان پر عمل کرنے کی ان کا شدید فقدان ہے اور اس کے لیے جس تربیت کی ضرورت ہے، وہ تربیت بھی نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ جو غیر رسمی سیکٹر تھا وہ بڑھتا گیا اور اس کے پاس اب افغان جنگ کا پیسہ بھی آگیا جو پہلے نہیں تھا، زمینیں بھی خریدی جائیں، حکومتی افسران کو بھی خریدا جاسکتا تھا، اپنی مرضی کے قوانین بھی پاس کرائے جاسکتے تھے۔ یہ جو آپ کی ڈیولپمنٹ ہوئی ہے پلازے وغیرہ بنے ہیں آپ کے خیال میں اس کا پیسہ کہاں سے آیا؟ اس پر کوئی غور تو کرے کہ کہاں سے آیا۔ یہ پیسہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا پیسہ ہے، یہ ہیروئن کا پیسہ ہے، یہ آپ کے آرمڈ اسٹیٹ کا پیسہ ہے، ورنہ کوئی ذریعہ بتائیں، انکم ٹیکس سے تو نہیں آیا، نہ کسی ریونیو سورس سے آیا اور یہ اربوں کا پیسہ ہے، کہیں سے تو آیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ کوئی اس کو اون نہیں کرتا ہے۔کراچی دس سے پندرہ لاکھ پنجابیوں کا شہر ہے لیکن پنجابی بس کواون نہیں کرتا،کراچی دس، بیس لاکھ پٹھانوں کا شہر ہے لیکن پٹھان اون نہیں کرتا،کرچی سندھیوں کا شہر ہے سندھی اون نہیں کرتا،کراچی مہاجروں کا شہر ہے لیکن مہاجروں کی تنظیم ایم کیو ایم نے ہی زد پہنچائی ہے،غرض کراچی کو تو ملک کی اسٹبلشمنٹ بھی اون نہیں کرتی ہے،آپ کا کیا خیال ہے۔؟
عارف حسن :آپ اس کو اس طرح سے دیکھیں کہ یہ واحد شہر ہے پاکستان کا جس کی آبادی ملی جلی ہے اور کوئی شہر آپ کو ایسا نہیں ملے گا مثلاً دارالخلافے لے لیجیے جو بھی صوبوں کے ہیں۔ تو کراچی غیر سندھی زبان بولنے والاشہر ہے ایک سندھی بولنے والے صوبے کا، تقریباً اگر میں کہوں کہ ایک تہائی صوبے کی آبادی کراچی میں رہتی ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ مگر صرف بارہ فیصد پنجاب کی آبادی لاہور میں رہتی ہے اور اس سے کم وہ پنجابی بولتی ہے۔ جبکہ پشاور میں اس سے بھی کم آبادی صوبے کے حساب سے پشاور میں رہتی ہے۔ اور ان تمام شہروں میں اکثریت زبان صوبے کی زبان ہے، یہ واحد شہر جس میں اکثریت زبان صوبے کی زبان نہیں ہے۔ دو بڑے گروپ ہیں کیونکہ سب سے بڑی اقلیت اردو بولنے والوں کی ہے کیونکہ اکثریت تو کوئی ہے نہیں۔ جو اردو بولنے والے ہیں وہ اس شہر کے وسائل پر قبضہ نہیں کرسکتے جب تک سارا نظام ڈی سینٹر لائزڈ نہ ہو۔ جب ڈی سینٹرلائزڈ ہوگا تب ان کی نمائندگی ہوگی۔ جو آپ کی سندھی بولنے والی آبادی ہے جب تک وہ ہائیگلی سینٹرلائزڈ نہیں ہوگا وہ قبضہ نہیں کرسکتے۔ اگر یہ غریب شہر ہوتا تو کسی کو قبضہ کرنے کی دلچسپی نہ ہوتی مگر مسئلہ یہ ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ ریونیو سندھ کا کراچی دیتا ہے۔ سب سے اچھے اسپتال یہاں ہیں، سب سے اچھی یونیورسٹیاں یہاں ہیں، سب سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع یہاں ہیں۔ 78 فیصد فارمل سیکٹر سندھ کی ملازمتیں یہاں ہیں۔ میڈیا کا سینٹر یہ ہے۔ اب جو بھی حکومت کرے گا اس کی خواہش ہوگی کہ یہ سب چیزیں اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال کرے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کراچی کا مقدمہ کوئی نہیںوفاقی سطح پر اٹھاتا۔ آپ کو سرکلر ریلوے جیسے بہت سے منصوبوں کی منظوری نہیں ملتی۔ لاہور کو مل جاتی ہے، پشاور، ملتان کو مل جاتی ہے یہاں کیوں نہیں ملتی؟ دوسری بات یہ ہے کہ کراچی والے بھی غلط کہتے ہیں کہ کتنے فیصد ہم دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جو کسٹمز کا ہے وہ سبھی کا ہے۔ لیکن ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ہی ہیں۔ چلیں قبول کرلیتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ میں آپ کو وجہ بتادوں کہ لاہور کے باشندے سبھی ایک خاندان کے ہیں، آپ کے ایلیٹ لاہور کے، آپ کی اکیڈیمیا لاہور کی، آپ کی سول سروس لاہور کی، آپ کے دانشور لاہور کے، آپ کے بڑے بزنس مین اور انڈسٹریلسٹ لاہور کے یہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ان سب کے ایک دوسرے سے تعلقات ہیں، ان میں سے بیشتر ایک ہی خاندان کے ہیں اور سب پنجابی بولنے والے ہیں اور اگر نہیں ہیں تو وہ پنجابی بولنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی واسطے جو بھی وہاں پرپوزہوتا ہے اس پر خود بخود ایک اتفاق رائے ہوجاتاہے، آپ کے ہاں کوئی بھی ایک خاندان کا نہیں ہے۔ کراچی کا ایلیٹ الگ ہے، کراچی کی مڈل کلاس الگ ہے، کراچی کی بیوروکریسی الگ ہے، کراچی کی بزنس کمیونٹی الگ ہے اور ان میں آپس میں زبان کے بھی جھگڑے ہیں، ان میں آپس میں مذہب کے بھی جھگڑے ہیں، ایک جھگڑا شروع ہوجائے تو پھر اختلافات تلاش کیے جاتے ہیں۔ کوئی اونر شپ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بٹا ہوا شہر ہے۔ اور فسادات کے بعد یہ اتنا بٹ گیا ہے کہ اب آپ یہ دیکھیں کہ آپ کہیں کرائے پر مکان لینے کے لیے جائیں تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ ہیں کون۔ سندھی ہیں، پنجابی ہے، بلوچ ہیں۔ دوسرا سوال ہوتا ہے شیعہ ہیں، سنی ہیں، اسماعیلی ہیں؟ علاقے بن گئے ہیں کہ یہ بوہریوں کی بستی ہے، یہ فلاں کی ہے جبکہ آج سے تیس سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس کو میں نے دستاویزی شکل دی ہے اور یہ فاصلہ بڑھتا جارہا ہے تو اس صورتحال میںآپ ہی بتایے کہ اس کی سیاسی طاقت کیا رہ گئی ہے۔ صوبائی حکومت کے ممبران یہاں کے نہیں ہیں وہ کہیں اور کے ہیں اور جو یہاں کے ہیں وہ بٹے ہوئے ہیں اور ان کے پاس طاقت نہیں ہے۔ اونر شپ تو نہیں ہے اور یہ حقیقت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:حل کیا ہے؟
عارف حسن : ایک حل تو یہ ہے کہ ووٹوں کی سیاست چھوڑ کر آپس میں بیٹھ کر طے کریں کہ شہر کے لیے یہ بہتر ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ بہت بڑی لابی ہو کہ جس میں مختلف گروپس شامل ہوں اور وہ مل کر یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں کراچی کے لیے اس قسم کی بلدیاتی حکومت چاہیے، اس قسم کا رشتہ چاہیے صوبائی حکومت سے، اور اس قسم کی پلاننگ چاہیے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ ایسا کئی شہروں میں ہوچکا ہے خاص طور پر لاطینی امریکہ میں اور اس سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ پورے طور اگر نہ سہی لیکن کچھ سیاسی حقائق تبدیل ہوئے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:گزشتہ ہونے والی بارشوں میں کراچی مکمل طور پر ڈوب گیا اور پہلی بار لوگوں کو معلوم ہوا کہ کراچی کے مضافاتی علاقے ہی نہیں بلکہ ڈیفنس جیسے متمول علاقے میں بھی نکاسی آب کا کوئی بندوبست نہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔؟
عارف حسن :یہ ڈوبنا تو تھا ہی، اصل وجہ یہ ہے کہ نالوں کا اتنا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سمندر پر آئوٹ فال کا ہے۔ آپ نے جب راستہ بند کردیا پانی کا سمندر میں داخل ہونے کے لیے تو پانی جائے گا کہاں؟۔ میرے نزدیک سب سے بڑا سوال یہ ہے۔ ڈیفنس سوسائٹی نے تین نالے بند کردیے، ایک نالہ بند کردیا محمود آباد کا جو کہ تھوڑا سا باقی ہے جب بارش ہوتی ہے تو پانی باہر جانے کے بجائے اندر آتا ہے۔ مائی کلاچی بائی پاس نے آپ کے تین نالے بند کردیے بہت کم کردیے۔ ایک سولجر بازار والا، ایک پچار نالہ،ایک ریلوے لائنز کا نالہ تو سب سے پہلے تو ان کو ہٹانے کی ضرورت ہے تاکہ پانی نکلے۔ پھر نادرن بائی پاس آپ نے خاصا اونچا بنایا گلبائی کے پاس سے جو گزرتا ہے وہ شمالی سے آنے والا پانی وہاں آکر رک جاتا ہے وہ اسے پار نہیں کرسکتا اس میں ندی کی جانب کٹ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پانی ندی میں جائے وہ نہیں جاتا اور یہ جو بھی کوشش ہوتی ہے نالے صاف کرنے کی یہ اتنی آسانی سے صاف نہیں ہوں گے ان میں بہت وقت لگے گا۔ جہاں جہاں چوکنگ ہے اسے صاف کرنے کی ضرورت ہے جو کہ آپ کرسکتے ہیں، پورے نالے صاف کرنا تو بہت بڑی چیز ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کئی جگہ تو بڑے بڑے پلازے بن گئے ہیں۔عدلیہ بھی اس حوالے سے متحرک رہی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک چیز بن جائے،استعمال میں ہو اور برسوں بعداسے توڑنے کی بات ہو؟
عارف حسن :میں تو اس کے سخت خلاف ہوں کہ جو بھی چیز بن جائے اور نقصان دے رہی ہو اس کو آپ ہٹائیں۔ اگر اسے گرانا ہی ضروری ہے اور کوئی حل نہیں ہے تو پھر آپ اس کو گرادیں مگر اصول یہ ہونا چاہیے کہ ہم کچھ نہیں گرانا چاہتے۔ یہ ایک بنیادی اصول ہو۔ پہلی ترجیح یہی ہو، اگر اس میں ہم کامیاب نہیں ہوسکتے تو ہم اسے گرائیں گے اور متبادل انتظام رکھیں گے۔ اسی لحاظ سے میں سپریم کورٹ کے بیان کے بالکل حق میں نہیں ہوں۔ نہ صرف یہ ظلم ہے کہ قانون پر ہی عمل ہوگا۔ ٹھیک ہے قانون پر عمل کررہے ہوں گے مگر وہ انصاف نہیں دے رہے۔ یہاں انصاف اور قانون کا بہت بڑا جھگڑا ہے۔ دوسری بڑی وجہ جس کا آپ کو حل تلاش کرنا ہی ہوگا وہ یہ ہے کہ آپ کا جتنا بھی بارش کا پانی ہے وہ سڑک پر نکلتا ہے آپ ایک کالونی بسائیں کالونی کا پانی کہاں جائے گا، سڑک پر۔ آپ مکان بنائیں بارش کا پانی کہاں جائے گا؟ سڑک پر۔ آپ کوئی پبلک بلڈنگ بنائیں پانی کہاں جائے گا؟ سڑک پر۔ اب یہ سارا پانی جب سڑک پر جائے گا تو سڑک تو دریا بنے گی ناں! اور کیا ہوگا؟ تو جیسے دیگر شہروں میں ہوتا ہے آپ کو ایک ڈریننگ سسٹم کی ضرورت ہے، سیوریج سسٹم نہیں اور ڈریننگ سسٹم آپ ایک دن میں نہیں بناسکتے وہ آپ کو کئی برسوں میں بلکہ دس بارہ برسوں میں آہستہ آہستہ جگہ جگہ عمل درآمد کرتے ہوئے بنانا ہوگا۔ اس کے لیے پہلے حکمت عملی طے کی جائے گی۔ پلاننگ کے لیے بھی ادارے چاہئیں، کیونکہ کنسلٹنٹ یہ نہیں کرسکتا وہ کام کرکے چلا جاتا ہے۔ آپ کو ادارے چاہئیں کہ وہ پلان کریں اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ اور بہت ضروری جو چیز ہے جس کو ہم نے بالکل ہی نظر انداز کیا ہے وہ مینٹیننس ہے، جو بھی آپ بنائیں اس کی دیکھ بھال کی جائے اور اس کے لیے بجٹ ہو۔ یہ سب چیزیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:ایک بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے، دنیا کے تما م بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کی اہمیت ہوتی ہے وہاں سرکولر ریلوے، زیر زمین ریلوے کا نظام ہوتا ہے،بڑی بسوں کا کوئی بیڑا ہوتا ہے لیکن یہاں ان میں سے کچھ نہیں ہے اس مسئلے کا کیا حل ہے؟۔رکشوں اور ٹیکسیوں کی صورتحال بھی آپ کے سامنے ہے۔
عارف حسن :میں نے تو بہت پہلے سے یہ تجویز کیا تھا کہ آپ سرکلر ریلوے کی ہی توسیع کردیں، ایک شاخ اورنگی، ایک شاخ کورنگی، ایک شاخ بلدیہ، لانڈھی کورنگی کا لوپ بند کردیں اور یہ کراچی کو کافی سہولت دے گا اور جیسے جیسے آبادی بڑھتی جائے ویسے ہی اسی کوریڈور پر اس کو بڑھاتے جائیں۔ بہر حال شاید غلط فیصلہ تھا میرا، غلط تجویز تھی میری ،حکومت نے بی آرٹیز بنائیں جس کا میں اتنا حامی نہیں ہوں کیونکہ جتنی رقم میں آپ بی آر ٹیز بنارہے ہیں اتنے میں آپ کراچی کو تقریباً بیس ہزار بڑی بسیں دے سکتے تھے۔ اور حساب یہ ہے کہ اگر بی آر ٹیز ساری کی ساری بن بھی جاتی ہیں تو زیادہ سے زیادہ چھ فیصد آبادی اس سے استفادہ کرسکیں گے جبکہ بیس ہزار بسیں بہت بڑے رقبے کو سہولت فراہم کرسکتی ہیں اور ان میں اضافہ آسان ہے۔ آپ جوڑتے جائیں، نئے روٹس قائم کرتے جائیں جبکہ بی آرٹیز کے لیے روٹس شامل کرنا اور اس کو بڑھانا ایک مشکل کام ہے جس میں تکنیکی پیچیدگیاں بھی ہیں اور لاگت بھی زیادہ ہے۔
ایک اسکول قائم کریں وہ بھی اسی پیسے میں ہوجائے گا۔ کنڈکٹر، ڈرائیور، ٹرانسپورٹ منیجر، میٹنی ننس کرنے والے سب لوگ ٹریننگ پائیں اس کو لنک کردیں آٹو موبائل انڈسٹری کے ساتھ تاکہ اس کی مینٹی ننس میں اس کا عمل دخل رہے
فرائیڈے اسپیشل:کراچی میں 12 سو ملین گیلن روزانہ (ایم جی ڈی) پانی کی ضرورت ہے لیکن 6 سو ملین گیلن مل رہا ہے آدھا بھی مشکل سے مل رہا ہے۔آپ کے نزدیک اس کی کیا وجہ ہے؟
عارف حسن :پانی ہے ہی نہیں، پانی یا تو چوری ہوجاتا ہے یا بہہ جاتا ہے۔ یہ کراچی ترقیاتی منصوبے2020 کا ایک اہم حصہ تھا کہ جو کیرتھر کی پہاڑیاں ہیں ان میں ڈیم بنائے جائیں گے جہاں پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔ اس کو بنے ہوئے 16سال ہوگئے اس عرصے میں آپ نے کون سے ڈیم بنالیے؟۔ یہی میرا کہنا ہے کہ چھوٹی چیز نہیں کرسکتے۔ ایک تھڈو ڈیم ہے جو پہلے ہی بن گیا تھا اور اس سے سارے علاقے میں زرخیزی اور تبدیلی آئی۔ آپ بنائیں ڈیم اور پانی جمع کریں۔
فرائیڈے اسپیشل:کیا رکاوٹ ہے؟
عارف حسن :مجھے کیا پتا کیا رکاوٹ ہے…میں تو کہتا ہوں صلاحیت نہیں ہے۔ اس کام کو کرنے کے لیے ادارے چاہئیں، کیونکہ کنسلٹنٹ یہ کام نہیں کرسکتا اور پھر اس کی دیکھ بھال کی بھی ضرورت ہے۔ اس سے آمدن ہوگی، دوسرا آپ کا مسئلہ پانی ہے آپ کا سارا پرانا شہر ہے اس کی پرانی لائنیں گل کر ختم ہوگئی ہیں، سب لیک کرتی ہیں، آپ کے پمپس قدیم زمانے کے ہیں بجلی خرچ کرتے ہیں، بجلی نہیں ہوتی چلنا بند کردیتے ہیں، ڈیزل پمپس ساتھ ہے بجلی نہ ہو تو ڈیزل سے چلا دیں اس کے لیے ڈیزل نہیں ہوتا تو وہ چلیں گے کیسے اور پانی کہاں سے آئے گا؟
فرائیڈے اسپیشل:شہر کیسے چل رہا ہے؟
عارف حسن : لائن مین چلا رہا ہے۔ میرا جو تجربہ ہے حکومت کے جو بھی اعلیٰ افسر ہیں وہ کچھ نہیں کرتے، یہ نہیں کہ ان میں کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ روز تبدیل ہوتے ہیں ان کی کوئی کنٹی نیوٹی نہیں ہے۔ کچھ کو سزا کے طور پر کہیں بھیج دیا جاتا ہے کچھ کوترجیح کے طور پر کہیں بھیج دیا جاتا ہے یہ سلسلہ تو میں نے چلتا دیکھا ہے، دوسری بات انہیں علاقے کا پتا نہیں ہوتا۔ آپ ان سے پوچھیں کہ فلاں علاقہ کہاں ہے؟ انہیں نہیں معلوم، وہ کبھی گئے ہی نہیں ہیں وہاں مگر جو آپ کا درمیان کا فرد ہے وہ سب جانتا ہے اور جو نچلی سطح کا بندہ ہے وہ اس سے بہتر جانتا ہے کیونکہ وہ وہاں برسوں سے ہے وہ کہیں جاتے ہی نہیں۔ ان کا لوگوں سے واسطہ ہے، لوگ وہاں آکر انہیں پتھر مارتے ہیں۔ گالیاں بکتے ہیں، ٹائر جلاتے ہیں۔ افسر کے پاس کون کیا کرتا ہے؟ کوئی بھی نہیں، وہ بیٹھا ہوا ہے ریڈ زون میں اسے تو کچھ نہیں معلوم۔ میرا تو تجربہ یہی رہا ہے۔ تو ایک طرح سے سب کچھ بدلنے کی ضرورت ہے اور شہر کو اگر صحیح معنوں میں چلانا ہے تو ایک ادارہ بہت ضروری ہے شہر کے لیے اور وہ ہے میٹروپولیٹن ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، یہ سب سے پہلے قائم کیا گیا تھا بھٹو کے زمانے میں اور کلفٹن میں اس کی عمارت بنائی گئی تھی۔ غلام کبریا صاحب کا برسوں سے یہ مشورہ تھا، بھٹو کے آنے سے بھی بہت پہلے سے کہ یہ ادارہ بننا چاہیے۔ جہاں آپ کے سیاستدان، یونین کائونسل سے اوپر تک ان کو تربیت دی جائے کہ شہر ہوتا کیا ہے؟ اس کی ضروریات کیا ہیں؟ اور ایک اچھی فیکلٹی اس کے لیے لائی جائے اور اس کی تحقیق بھی ہو۔ بد قسمتی یہ کہ اس ادارے نے چند سال کام کیا اس کے بعد وہ عمارت حکومت نے لے لی اور وہ مارشل لا عدالت بن گئی۔ دفتر بن گیا۔ اب وہ عمارت حال ہی میں ’’آزاد‘‘ ہوئی ہے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وہاں پر کیا ہورہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی میں کچرا اٹھانا بھی ایک مسئلہ بنادیا گیا ہے بلکہ کہاجائے راکٹ سائنس بنادیا ہے۔اس کاحل کیا ہے۔؟
عارف حسن : بالکل صحیح بات ہے کہ نہیں اٹھا پاتے۔ آپ کی دو لینڈ فل سائٹ ہیں اور دونوں ڈسٹرکٹ ویسٹ میں ہیں۔ اگر آپ ڈسٹرکٹ ایسٹ میں رہتے ہیں تو آپ کچرا لے کر آئیں گے تیس کلو میٹردور؟۔ نہیں لائیں گے، ہرگز بھی نہیں لائیں گے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہوگیا، اتنی مرتبہ تجاویز پیش کی گئی ہیں ہماری طرف سے جو ایک تفصیلی تجویز پیش کی گئی وہ 2002ء میں تھی۔ دوسرا جو بہت بڑا مسئلہ ہے وہ یہ کہ آپ کا جو کچرا ہے وہ سارا ری سائیکل ہوتا ہے۔ یہ جو افغان بچے یا دوسرے بچے ہیں جو بڑے بڑے تھیلے لے کر سائیکل پر پھرتے ہیں یہ ایک ٹھیکیدار کے ماتحت کام کرتے ہیں، ان کے علاقے بٹے ہوئے ہیں۔ تو کچرے کے تین حصے ہیں جسے انگریزی میں اسٹریم کہتے ہیں۔ پہلا ہے صاف کچراجو کباڑی آپ کے گھر سے لے جاتا ہے، بوتل، ٹین، ردّی وغیرہ اور وہ سیدھا ری سائیکلنگ انڈسٹری کے پاس لے جاتا ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دوسری ہے گندا کچرا وہ کچرا کنڈی سے یہ بچے اٹھاتے ہیں اور کسی پل کے نیچے یا کسی خالی پلاٹ میں لے جاکر اس کی سارٹنگ کرتے ہیں، شیشہ الگ، گتہ الگ پھر یہ سوزوکیوں میں لاد کر ری سائیکلنگ انڈسٹری میں لے جایا جاتا ہے۔ پلاسٹک الگ کرکے گرینیولیٹ ہوتا ہے اور گوجرانوالہ مین سینٹر ہے جہاں اس کے کھلونے وغیرہ بنتے ہیں وہاں جاتا ہے ہڈیوں کو کریش کیا جاتا ہے اور وہ مرغیوں کی فیڈ میں ملایا جاتا ہے کوئی چیز ضائع نہیں جاتی نہ شیشہ، نہ ٹین، نہ کچھ۔ ان کے جو ٹھیکیدار ہوتے ہیں یہ کے ایم سی کے اہلکاروں کو پیسے دیتے ہیں کہ کوڑا مت اٹھائو تاکہ یہ بچے اٹھاسکیں اور تقریباً ایک لاکھ لوگ اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ جو انڈسٹری یہ ساری کی ساری ان فارمڈ ہے بیشتر شیر شاہ میں ہے۔ تیسری ٹاکسک اسٹریم ہے وہ اسپتالوں کا کچرا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ جب ان سب کو سمیٹ کر اکٹھا کریں گے آپ تب آپ کا کام بنے گا ورنہ نہیں بنے گا، آپ اس انڈسٹری کو ختم نہیں کرسکتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ اس کو حصہ کیسے بنائیں گے۔ اتنے فاصلے آپ کوڑ الے کر طے نہیں کرسکتے اس لیے جہاں بھی نالہ ملا کوڑا ڈال دیا۔ کورنگی کریک میں لے جاکر ڈال دیا، ڈیفنس کو دیکھیں حالانکہ پرائیویٹ کنٹریکٹر ہے وہاں لیکن وہ سارا کوڑا کورنگی کریک کے ساتھ ڈالتا ہے۔ اگر آپ حقیقت کو تسلیم کریں تو آسان ہے اگر آپ نہیں کریں تو مشکل ہے۔ آپ حقیقت کے برخلاف جائیں تو مشکل ہے۔ ہماری جو تجویز ہے وہ ہم نے غیر رسمی ری سائیکلنگ انڈسٹری کے ساتھ مل کر بنایا ہے وہ یہ تھا کہ ان کو چار جگہ لینڈ فل سائٹ دیں ہر لینڈ فل سائٹ کے ساتھ ایک انڈسٹریل ایریا بنائیں اور اس ری سائیکلنگ انڈسٹری کو وہاں بھیج دیں۔ بجلی دے دیں، پانی دے دیں، گیس دیے دیں اور ہم یہاں خوش ہیں ہم اس کے پیسے بھی دیں گے کیونکہ کوڑا خود بخود وہاں آنا شروع ہوجائے گا اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں رہے گی اور وہیں سارٹنگ اور دیگر عوامل ہوں گے۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی کے مسائل کاحل تو اس وقت نکلے گا جب کراچی کی اصل آبادی کا ہمیں پتا ہو۔ مردم شماری متنازع ہوگئی ہے، گزشتہ مردم شماری میں آبادی ڈیڑھ کروڑ آبادی دکھائی گئی ہے عام خیال ہے کہ یہ آبادی تین کروڑ ہے؟
عارف حسن :اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جب آپ ادارے ہی نہیں بنائیں گے تو چاہے آبادی دو کروڑ ہو یا دس کروڑ فرق نہیں پڑے گا۔ مسئلہ تو سارا اداروں کا ہے اور ایک تصور کا ہے ایک ویژن کا ہے۔ اس وژن کے لیے ادارے چاہئیں۔
فرائیڈے اسپیشل:مختلف بلدیاتی حکومتیں رہی ہیں، فوجی حکومتوں کے تحت بھی مختلف ناموں سے، ان کے دور میں جو کچھ کام ہوا اسے آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
عارف حسن :دیکھیں صاحب کام تو کے ڈی اے کرتا تھا، ان کا بیشتر کام تو مینٹی ننس کا تھا،پارکوں کی دیکھ بھال اور تعمیر کا تھا۔ کوئی وژن تھا توصرف کاغذوں کی حد تک تھا۔ آخری وژن تھا Karachi will be a world class cityورلڈ کلاس سٹی کیا ہوتا ہے ہمیں تو پتا نہیں۔ ہم نے تو اسی دوران تجویز دی تھی جب یہ منصوبہ بن رہا تھا کہ کراچی Karachi should be a pedisaron and commuter friendly city یعنی، پیدل چلنے والوں کا شہر، اور جو لوگ ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں ان کا شہر ہونا چاہیے۔ اگر ان کی ضروریات کو ترجیح دی جاتی تو آج شہر کی صورتحال بہت مختلف ہوتی مگر نہیں ورلڈ کلاس شہر چاہیے تو اس کے لیے انویسٹمنٹ فنڈ انفرا اسٹرکچر چاہیے۔ وہ کیا ہوتا ہے تیز رفتار سڑکیں اور مواصلات۔ کمیونی کیشن بھی نہیں ہوا۔ جو چیز اچھی ہوئی لوکل گورنمنٹ کی نعمت اللہ خان صاحب کے دور میں بھی اور ایم کیو ایم کے دور میں وہ پارکس تھے۔ جو محلے کے پارکس بنائے اس سے بہت فائدہ ہوا۔ وہ میری نظر میں واحد مثبت چیز تھی۔ ڈرینج پر انہوں نے دھیان نہیں دیا۔ سوئچ کے پلان بنے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا، کے فور کی کہانی کو دس سال سے زیاہ ہوگئے کچھ نہیں ہو سگنل فری تیز رفتار سڑکیںبنیں جس نے پیدل چلنے والوں کی زندگی اجیرن کردی۔ بہت بڑا مسئلہ ہے یہ چھوٹا نہیں ہے اور اس سے فائدہ بھی نہیں ہوا۔ نان رش ہاورز میں بڑا مزا آتا ہے تیزی سے آپ گاڑی چلاتے ہیں، جب رش ہاور میں آئیں گے تو آپ بیٹھے رہیں گے انتظار میں کہ اب چلے اب چلے تو کیا فائدہ ہوا؟ یہ ساری مسائل کراچی کی پلاننگ کے حوالے سے ہیں کہ کراچی کے عوام سے مشورہ نہیں کیا جاتا۔ کراچی کے عوام بے وقوف نہیں ہیں، جس قسم کی مشکل زندگی وہ برداشت کرتے ہیں اور جیتے ہیں اس وجہ سے انہیں بہت کچھ پتا ہے اور حل بھی پتا ہے۔ میں تو مستقل اس حوالے سے لکھتا بھی رہا ہوں اور کہتا بھی رہا ہوں کہ آپ جو بھی منصوبہ بنائیں ایک جگہ مقرر کرلیں۔ ایکسپو سینٹر ہی سمجھ لیں اور بتائیں کہ ہمارا منصوبہ یہ ہے ایک بندہ ہو جو وضاحت کرے کہ یہ منصوبہ ہے، آپ اپنی رائے دیں آپ دیکھیں گے کہ کتنی اچھی اچھی رائے آئیں گی اور آپ دیکھیں گے کہ یہ منصوبے عوام دوست منصوبے کیسے بنیں گے مگر آپ لوگوں کی بات مانیں تو۔ آپ لوگوں کی زندگیاں تبدیل کررہے ہیں یا لوگوں کا جیناحرام کررہے ہیں ان کے روزگار چھین رہے ہیں،کیونکہ عدالت نے کہہ دیا چھین لو تو آپ چھین رہے ہیں بغیر ان کے مشورہ کے، بغیر ان کو بتائے، بغیر ان کو سمجھائے تو شہر تو برباد ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ سے اگر یہ پوچھا جائے کہ کراچی کی سب سے اچھی بات کیا ہے تو کیا جواب ہوگا؟
عارف حسن :میرے نزدیک سب سے اچھے کراچی کے لوگ ہیں۔ کراچی کا ایک مزاج بن چکا ہے اور یہ مزاج بننے میںبہت وقت لگا ہے ،اس مزاج کا ایک بہت اہم حصہ جسے انگریزی میں ’’سینس آف ہیومر‘‘ کہتے ہیں یہ بہت اچھا ہے۔ یہاں کے لوگوں میں، چاہے وہ پٹھان ہو جو چاہے اردو بولنے والا ہو، چاہے گجراتی بولنے والا ہو، دوسرا اسے حکومت کی کسی بات پر یقین نہیں ہے۔ یہ بھی بہت اچھی بات ہے اور ہر ایک کی اپنی رائے ہے اور وہ اختلاف کرنا جانتا ہے۔ اس کی تہذیب کا حصہ بن گیا ہے اختلاف کرنا، جو کہ میرے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔