عاصم بشیر خان ماہرِ معاشیات ہیں اور سماجی مطالعے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں آپ نے پاکستان میں تعلیم سے محروم، اسکولوں سے باہر بچوں کے لیے تعلیمی اصلاحات کے مربوط پروگرام پر جامع تحقیقی رپورٹ لکھی ہے۔ آپ نے حکومتِ بلوچستان کے نویں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے ٹیکنیکل ایکسپرٹ کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ نویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے بلوچستان کا جامع مقدمہ پیش کیا، بلکہ آپ سوئی گیس کے حوالے سے تاریخی ناانصافی کے مقدمے، اور نقصان کے دعوے کی حتمی مالیت کے حوالے سے بلوچستان حکومت کے لیے چھ رپورٹوں پر مبنی جامع کیس کے مصنف ہیں۔ آپ نے نوآبادیاتی دور کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 سے اٹھارویں ترمیم تک پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے مالیاتی نظام کی تاریخ بھی لکھی ہے۔ آپ کے تحقیقی موضوعات میں پاکستان میں مقامی حکومتیں، مقامی حکومتوں کے قوانین، معاشی اصلاحات، حکومتی مالیات، بین الاقوامی تجارت، زراعت، غربت، عدم مساوات اور معاشی اصلاحات شامل ہیں۔ کراچی میں عالمی بینک کے مقامی بلدیات کے اصلاحاتی پروگرام میں بحیثیت پبلک فنانس ایکسپرٹ کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔2012ء سے 2016ء تک آپ حکومتِ سندھ میں توانائی، سرمایہ کاری، تجارت، پالیسی سازی، اور اصلاحات جیسے موضوعات پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ آپ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سینٹر آف ایکسی لینس برائے صحافت، آئی بی اے کراچی، پاکستان پریس فاؤنڈیشن، ڈی ڈبلیو جرمنی، سری لنکا پریس انسٹی ٹیوٹ، کالج آف جرنلزم کولمبو جیسے اداروں میں ڈیٹا جرنلزم کے ٹرینر اور اُستاد کی حیثیت سے تدریسی فرائض بھی سر انجام دے چکے ہیں۔ آپ کراچی کی مختلف جامعات میں درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی سے وابستہ ہیں۔ آپ سے کراچی اور اس سے جڑے چند اہم ایشوز پر مبنی انٹرویو یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث بننے کے ساتھ ان کی معلومات میں اضافے کا ذریعہ بھی بنے گا۔
فرائیڈےاسپیشل: چوں کہ یہ انٹرویو فرائیڈے اسپیشل کی خصوصی اشاعت ”کراچی نمبر“ کی مناسبت سے ہے، ہم چاہیں گے کہ آپ قارئین کی دلچسپی کے پیشِ نظر سندھ اور کراچی کی جغرافیائی تاریخ پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔ کراچی کی تاریخ، کراچی کب اور کیسے آباد ہوا، نوآبادیاتی دور اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی کے پھیلاؤ وغیرہ کے بارے میں قارئین کو کچھ بتائیے۔
عاصم بشیر خان: وادیِ سندھ اور یہاں کی تہذیب بہت قدیم ہے، لیکن موجودہ کراچی شہر اتنا قدیم نہیں ہے۔ چوں کہ کراچی شہر نوآبادیاتی دور میں چارلس نیپئر کی انتظامیہ نے آباد کیا تھا، لہٰذا ہم 1843ء کو ایک ریفرنس پوائنٹ مان کر یہاں سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ فروری 1843ء میں چارلس نیپئر نے سندھ پر قبضہ کیا اور 1847ء تک وہ سندھ کا چیف کمشنر اور گورنر رہا، اپنے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہوئے نیپئر نے سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ بنادیا۔
چارلس نیپئر نے سندھ کے میروں کو قید کرنے کے بعد سندھ کا دارالحکومت حیدرآباد سے کراچی منتقل کردیا۔ سندھ میں اُس وقت انتظامی اعتبار سے صرف تین اضلاع بنائے گئے: کراچی، حیدرآباد، شکارپور۔ ٹھٹہ، سجاول، کیٹی بندر، دادو، جوہی… یہ سب کراچی ڈسٹرکٹ کی تحصیلیں، تعلقے یا سب تعلقے ہوتے تھے۔ کراچی کا رقبہ 19182 مربع میل تھاجبکہ آج کے کراچی کا رقبہ صرف 2062 مربع میل ہے۔ دراصل جو آج کا کراچی ہے یہ نوآبادیاتی دور یا 1947ء کے کراچی ڈسٹرکٹ کا ایک ٹاؤن ہوتا تھا جو سندھ کا سب سے جدید ٹاؤن تھا۔ یہاں پر بندرگاہ، ایئر پورٹ اور تجارتی مراکز بھی تھے۔
1853ء میں کراچی تا کوٹری ریلوے لائن جو کہ سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا مواصلاتی منصوبہ تھا، مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد 1870ء میں کوٹری تا ملتان ریلوے لائن کی تعمیر کا آغاز ہوا۔1870ء میں وائسرائے ہندوستان لارڈ میو نے جب مقامی حکومتوں کے اختیارات کی حدود کی ازسرِنو تشکیل کے مسئلے پر غور کیا تو سندھ کو پنجاب کے ساتھ الحاق کی تجویز پیش کی گئی، لیکن یہ تجویز مسترد ہوگئی۔
سندھ کے ساتھ خیرپور ایک خودمختار ریاست تھی۔ سندھ اور ہندوستان کے مابین تجارت کا معاہدہ 1932ء میں ہوا، جبکہ ریاست خیرپور کے میروں کا ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ بالکل مختلف تھا۔ 1934ء میں اِس معاہدے پر دستخط ہوئے۔ سندھ کے اُمورِ سرکار کا ریاست خیرپور کے ساتھ براہِ راست کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
سندھ کی شناخت کی بحالی کے لیے ایک طویل سیاسی جدوجہد ہے۔ آپ نے سائمن کمیشن کا نام سنا ہوگا، وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ کی متعارف کردہ اصلاحات کے بعد ہندوستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کے تحت نیا نظام متعارف کرایا گیا۔
فرائیڈےاسپیشل: 1919ء کے قانون پر نظرثانی اور آئینی اصلاحات کے لیے کئی کمیٹیاں بھی قائم کی گئی تھیں؟
عاصم بشیر خان: جی، سندھ کے مستقبل کے حوالے سے سرشاہنواز بھٹو کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی، جس کے تمام ارکان بشمول سرشاہنواز بھٹو نے سندھ کی بحیثیت علیحدہ صوبہ شدید مخالفت کی، اس کمیٹی کے دو ارکان سر غلام حسین ہدایت اللہ (جو تقسیم کے بعد سندھ کے پہلے گورنر بنے) اور میران محمدشاہ نے اِس حوالے سے اختلافی نوٹ لکھا اور سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے علیحدہ صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی۔ اِس کے بعد جناح نے 1927ء میں ہندو مسلم اتحاد کے امکانات پر غور کی غرض سے مسلمان رہنماؤں کی کانفرنس میں اور بعد ازاں چودہ نکات میں اس معاملے کو اجاگر کیا۔
آخرکار گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت 3 مارچ 1936ء کو سندھ بمبئی پریزیڈنسی سے الگ ایک صوبہ بن گیا۔
فرائیڈےاسپیشل: کراچی کے پھیلاؤ کے حوالے سے بات ہورہی تھی؟
عاصم بشیر خان: جہاں تک تقسیم ِہند کے بعد کراچی کے پھیلاؤ کی بات ہے تو اس ضمن میں عرض ہے کہ کراچی شہر (نوآبادیاتی دور میں کراچی ڈسٹرکٹ کا ٹاؤن) کی آبادی تقسیم سے بہت پہلے بھی تیزی سے بڑھتی رہی ہے اور اس شہر کی آبادی ہر دو یا تین مردم شماریوں میں دگنی ہوجاتی تھی۔ دیگر علاقوں سے لوگ ہمیشہ یہاں روزگار کی تلاش میں آتے رہے ہیں۔ سنہ1900ء کے کراچی کے گزٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہاں کے مزدوروں اور کام کرنے والوں کی آمدن دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کراچی کے ایک قلی کی آمدن باقی علاقوں میں کام کرنے والوں کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ تقسیم ِہند کے بعد کراچی کی آبادی پر مہاجرین کی آمد کی وجہ سے دباؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق 1947ء سے 1950ء تک 5 لاکھ سے زائد افراد کراچی آئے۔ 1947ء میں کراچی کی آبادی تقریباً ساڑھے چار لاکھ تھی جو 1951ء کی مردم شماری کے مطابق 11 لاکھ ہوگئی تھی۔
کراچی کے پہلے پانچ سالہ منصوبے میں بھی لکھا ہے کہ اگلے چند سال میں مزید مہاجرین کی آمد متوقع ہے، لہٰذا شہری منصوبہ بندی کے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
فرائیڈےاسپیشل: کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے،لیکن اس کی گورننس بہت ہی کمزور اور پیچیدہ ہے۔ شہر میں حکومتی اداروں کے درمیان ملکیت اور حدود کے تنازعات ہیں۔ کیا یہ ہمیشہ سے ایسے ہی غیر فعال تھے یا اب ہوچکے ہیں؟ اسٹیک ہولڈرز اور صوبائی اور مقامی حکومتوں کا کیا کردار رہا ہے؟
عاصم بشیر خان: ایسا نہیں ہے، کراچی کے ادارے بہت منظم، فعال اور بہترین کارکردگی کے حامل تھے۔ وقت کے ساتھ اِن اداروں اور اِن کی گورننس میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے بد انتظامی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔
1947ء سے 1974ء تک کراچی ایک ضلع تھا۔ 1974ء میں کراچی کو تین ضلعوں شرقی، غربی اور جنوبی میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ حد بندی بڑی حد تک سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر کی گئی، پھر ضیاء الحق کے دور میں 1987ء میں ضلع شرقی اور غربی میں سے ایک ضلع الگ کیا گیا جسے ضلع وسطی کہتے ہیں۔پھر 1994ء میں پی پی پی کی حکومت نے ضلع شرقی میں ضلع ملیر کو الگ کیا، اِسی طرح 2013 ءمیں شرقی، اور چھوٹا سا حصہ ملیر سے نکال کر نیا ضلع کورنگی بنایا گیا۔ اب حالیہ واردات یہ ہے کہ 2020ء میں پی پی پی کی صوبائی حکومت نے ضلع غربی میں سے کیماڑی کو الگ ضلع بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
1994ء میں صوبائی حکومت نے کے ڈی اے کو تین حصوں میں تقسیم کردیا: ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی۔ ملیر اور لیاری کی ان اتھارٹیز کا انتظامی نظم و نسق براہِ راست صوبائی حکومت کو منتقل کردیا گیا۔ کے ڈی اے کے فنڈ میں بھی کٹوتی کردی گئی، اس طرح کے ڈی اے کی انتظامی حدود کم ہوگئی اور ترقیاتی منصوبہ بندی کی صلاحیت شدید متاثر ہوئی۔
فرائیڈےاسپیشل: کراچی کی بلدیاتی حکومتوں کی کارکردگی آپ کے خیال میں کیسی رہی ہے؟ قانونی اور انتظامی اعتبار سے کہاں بہتری کی گنجائش ہے؟ اِسی سوال کو آگے بڑھاتے ہوئے سندھ میں بلدیاتی نظام کی تاریخ پر بھی کچھ روشنی ڈالیے۔ اس حوالے سے ہم جاننا چاہیں گے کہ 2001ء کے بلدیاتی نظام اور 2013ء والے نظام میں کیا فرق ہے؟ دونوں میں کون سا نظام بہتر ہے؟
عاصم بشیر خان: یہ ایک اہم سوال ہے اور اِس کا تعلق کراچی کے اداروں اور سیاسی تاریخ سے ہے۔ اس پر مجھے حافظؔ کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے:
ہزار نقطہ ہائے باریک تر ز مُو این جا است
(اِس مقام پر بال سے زیادہ باریک ہزاروں نکات ہیں)
میں کوشش کروں گا سوال کے ساتھ انصاف کرسکوں۔ سندھ سمیت پورے پاکستان میں بلدیاتی نظام کے پانچ مختلف تجربات ہمارے سامنے ہیں، سب سے پہلے The West Pakistan Basic Democracy Order, 1959 کا نظام متعارف کرایا گیا جس کے تحت الیکشن ہوئے اور بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔
1971ء کے بعد پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، اور بلدیاتی نظام کا ایک نیا قانون منظور کیا گیا جسے
The Sindh Peoples Local Government Act,1972کہتے ہیں۔
لیکن اس قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے، اور بلدیاتی اداروں کے انتظامی اور مالیاتی ڈھانچوں میں بہت ساری تبدیلیاں کی گئیں، کراچی کو ایک ضلع سے تین اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا، پراپرٹی ٹیکس کو صوبائی حکومت نے اپنے دائرہ اختیار میں لے لیا۔چوں کہ ایک دہائی سے زیادہ بلدیاتی اِنتخابات نہیں ہوئے، سیاسی مداخلت ہوتی رہی، اس لیے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی میں کئی خرابیاں پیدا ہو گئیں۔
1979ء میں ضیاء دور میں دوبارہ قانون سازی کی گئی اور دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں جماعتِ اسلامی کے میئر افغانی منتخب ہوئے، وہ لیاری میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے،انہوں نے کراچی میں پانی اور سیوریج کے نئے منصوبوں کا آغاز کیا۔ پی پی پی نے غیر ضروری تاخیری حربے استعمال کیے، اس کے بعد پھر انتخابات ہوئے اور فاروق ستار میئر منتخب ہوئے۔
اِن تمام ادوار میں کراچی میں ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن ہوتی تھی اور 5 زونل میونسپل کارپوریشن، جنہیں 2013ء کے نظام میں ڈسٹرک میونسپل کارپوریشن کہا جاتا ہے۔
2001ء میں پرویزمشرف دور میں قومی تعمیرِنو بیورو کے زیرِانتظام مقامی بلدیات کا ایک نیا نظام متعارف کرایا گیا جس میں کراچی کو 18 ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا۔ گڈاپ کو چھوڑ کر باقی تمام ٹاون آبادی اور رقبے کے ایک خاص تناسب سے بنائے گئے تھے، یہی اِس نظام کی کامیابی کی سب سے اہم وجہ تھی۔
فرائیڈےاسپیشل: کراچی کے ماسٹر پلان بنتے رہے ہیں لیکن ماسٹر پلان کا عکس اس شہر پر نظر نہیں آتا، ان ماسٹر پلان پر آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
عاصم بشیر خان: ابتدا میں کراچی کے ماسٹر پلان اور ترقیاتی منصوبہ بندی کی ذمہ داری کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پاس تھی، 1951ءمیں کے ڈی اے نے کراچی کا پہلا ماسٹر پلان بنایا، پھر 78-1977 ءمیں دوسرا ماسٹرپلان بنایا، پھر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور کے ڈی اے نے مل کر 2005ء کا ماسٹر پلان بنایا۔ اب سندھ حکومت ایک سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی بنانے کی خواہش مند ہے۔ اس طرح پہلے ماسٹر پلاننگ کے ڈی اے سے لے کر صوبائی محکمہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو دی اور اس کےلیے ایک ادارہ اور بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی مستحکم اور دیرپا حل نہیں ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز اور ایک بہترین مقامی بلدیاتی نظام کے بغیر اس شہر کی ماسٹر پلاننگ نہیں کرسکے گی۔2013ء میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کرکے، خالصتاً کراچی شہر کے ایک ادارے کو صوبائی حکومت نے اپنی انتظامی حدود میں لے لیا۔ آج بھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ساری آمدن کراچی سے ہوتی ہے۔ چوں کہ اِسے صوبائی حکومت نے لے لیا ہے لہٰذا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں دوسرے ڈسٹرکٹ اور علاقوں سے بھی افسران اور ملازمین بھرتی کیے گئے ہیں۔
عاصم بشیر خان: یہ موضوع تفصیل کا متقاضی ہے۔
فرائیڈےاسپیشل: جی فرمایے، یہ بہت اہم موضوع ہے، اس کے بغیر کراچی کے مسائل کو سمجھنا مشکل ہے۔
عاصم بشیر خان۔ دیکھیے، حکومت ٹیکس کی آمدن پس ماندہ علاقوں میں خرچ کرکے عوام کے زندگی کو بہتر بناتی ہے، لیکن یہ صرف مخصوص ٹیکسوں کی آمدن سے کیا جاسکتا ہے۔ بلڈنگ، کچرے کی فیس، اور بلدیاتی ٹیکس کے حوالے سے پوری دنیا اِسی اُصول پر چلتی ہے۔ یہ ٹیکس جہاں سے جمع ہوتے ہیں وہیں خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس سرکاری خدمات کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں، لیکن سندھ حکومت ان ٹیکسوں کی آمدن کراچی سے باہر مختلف طریقوں سے خرچ کرتی ہے۔ یہ سراسر غیر منصفانہ ہے، اور لاجک اور انتظامی دانش کے بھی عین خلاف ہے۔ اِس طرح کراچی کی بلدیات کے پاس سالڈ ویسٹ (کچرا) اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے تمام قانونی، انتظامی اختیارات تھے، فروری 2014ء میں سندھ حکومت نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنا کر یہ بلدیاتی اختیارات بھی صوبے کو دے دیے۔
کراچی کے شہری شاید یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ سندھ سالڈ ویسٹ اتھارٹی کا دفتر کہاں ہے۔ فرائیڈے اسپیشل کے توسط سے میں بتادیتا ہوں کہ شہیدِ ملت روڈ پر کوکن ہاؤسنگ سوسائٹی کے اختتام پر ایک سفید رنگ کے بنگلے میں اس کا آفس ہے۔ دیکھیے جب یہ ذمہ داریاں مقامی نمائندوں کے پاس ہوتی ہیں آپ انہیں نیند سے اٹھا کر بھی اپنی شکایت اور احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ صوبائی اداروں کی صورت میں کسی دور افتادہ علاقے کا رہائشی کتنی دور شکایت جمع کرانے جائے گا؟ بالکل اسی طرح کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے متوازی ایک نیا صوبائی ادارہ سندھ فوڈ اتھارٹی بنا کر کے ایم سی کے بلدیاتی ادارے کو انتظامی اور مالیاتی اعتبار سے غیر فعال کردیا گیا۔
2013ء کے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت میئر اور بلدیات کے پاس اب شجر کاری مہم، مچھر مار ادویہ کا چھڑکاؤ، کتا مار مہم اور بچت بازار وغیرہ رہ گئے ہیں، 2013ء کے ایکٹ میں موجود بہت سے اختیارات پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے سلب کرلیے ہیں۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، حال ہی میں کے ایم سی کے زیرِ انتظام تمام ہسپتالوں کو بھی صوبائی تحویل میں لینے کے لیے صوبائی حکومت مختلف اِقدامات کر رہی ہے۔ اور جب وفاق نے جناح اور سول ہسپتال کو اپنی تحویل میں لینے کی بات اور عملا ًکوشش کی تو پیپلز پارٹی نے اسے غیر آئینی قرار دیا۔بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی وفاق سے اختیارات کا شکوہ کرتی رہتی ہے جس میں سے بیشتر صداقت پر مبنی نہیں ہے، لیکن خود مقامی بلدیاتی اداروں کے تمام اختیارات کو ختم کرتی جارہی ہے۔
آپ نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے بیانات سنے ہوں گے کہ وفاق نے قومی مالیاتی کمیشن میں سندھ کے پیسے کاٹ لیے۔ یہ ایک غیر منطقی اور غیر اصولی بات ہے۔ جب وفاق کا ٹیکس ٹارگٹ مکمل نہیں ہوتا تو بلوچستان کے سوا تمام صوبوں کے پیسے برابر تناسب سے کٹتے ہیں اور اس کی پیشگی اطلاع دی جاتی ہے، لیکن صرف سندھ حکومت اس پر احتجاج کرتی ہے۔ کوئی پیپلز پارٹی سے پوچھے کہ 2008ء سے 2013ء تک ہر سال سندھ کے پیسے کیوں کاٹے گئے؟ اُس وقت تو مرکز میں آپ کی اپنی حکومت تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ہر سال اپنا ٹیکس ہدف مکمل نہیں کر پاتا جس کی وجہ سے بجٹ میں اعلان کی گئی رقم میں کٹوتی ہوتی ہے۔ اسحاق ڈار کے دور میں 2016ء وہ واحد سال ہے جس میں ٹیکس ہدف مکمل ہوا اور صوبوں کو بجٹ میں اعلان کردہ حصے سے زیادہ پیسے دیے گئے۔ اس پر کسی نے کوئی شکریہ ادا نہیں کیا۔ کم ازکم شکوہ کرنے والوں کو بآوازِ بلند اظہارِ تشکر بھی کرنا چاہیے تھا۔
فرائیڈےاسپیشل: شہرکراچی اور اس کے اداروں کو اپنی آمدن، منصوبہ بندی اور اخراجات کے حوالے سے خود مختار بنانے کے لیے آواز اٹھتی رہتی ہے، اس بارے میں آپ کیارائے رکھتے ہیں؟ کراچی کو اس کا جائز حق کیوں نہیں ملتا؟ ہمارے قارئین کے لیے یہ بھی بتایے کہ اٹھارویں ترمیم کے باوجود بلدیاتی نظام اتنا غیر فعال کیوں ہے؟
عاصم بشیر خان: یہ دو مختلف سوالات ہیں۔ میں ایک ایک کرکے ان پر بات کروں گا۔ سب سے پہلے نظامِ محصولات اور منصوبہ بندی کی خودمختاری پر بات کرتے ہیں۔ جون 1999ء تک پاکستان میں مقامی بلدیات میں آکٹرائے اور ضلع ٹیکس کا نظام نافذ تھا۔ کئی سال سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) آئی ایم ایف کے ساتھ اس نظام کو ختم کرکے ایک نئے نظام کے مندرجات پر بات چیت کررہے تھے۔ آئی ایم ایف کی ایماء پر یہ نظام ختم کرکے اس کی جگہ وفاقی سیلز ٹیکس کی شرح 12.5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردی گئی۔ اس فیصلے کی توجیح یہ بیان کی گئی کہ آکٹرائے اور ضلع ٹیکس محصول چنگی سے آپ کے ملک کی برآمدات کی بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں مقامی بلدیات کی مالیاتی خودمختاری پر زبردست ضرب پڑی۔ مقامی حکومتیں صوبائی مالیاتی کمیشن اور وفاق کی محتاج ہو کر رہ گئیں۔ اسی دوران تمام صوبوں نے اس بات پر اتفاقِ رائے کیا کہ جس مقامی حکومت کو محصول ٹیکس ختم ہونے سے جتنا نقصان ہوتا ہے گرانٹ میں اس کا حصہ بھی نقصان کے حصے کے برابر ہوگا۔ اس کے حوالے سے ایک اہم بات بتاتا چلوں کہ سندھ کے آکٹرائے ٹیکس میں کراچی کا حصہ 72 فیصد تھا جو کہ 2008ء تک تو کسی حد تک صحیح چلا، اِس کے بعد صوبائی حکومت نے اس شق کو ختم کرکے کراچی کے حصے میں ہر سال بے حساب کٹوتی کی۔جولائی 2010ء کے بعد سے آج تک صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ نہیں دیا گیا، حکومتِ سندھ اپنی صوابدید پر ضلعوں اور مقامی بلدیات کو پیسے منتقل کرتی ہے۔کراچی کا حصہ اب اوسطاً 29 سے 30 فیصد کے قریب رہ گیا ہے۔ یہ کراچی کی زبوں حالی کی ایک اہم وجہ ہے۔ لیکن چوں کہ اس کے حوالے سے ماہرین اور لوگ زیادہ جانتے نہیں ہیں اس لیے یہ کبھی میڈیا میں زیرِ بحث نہیں آتا۔ چوں کہ اب کراچی کا برا حال ہوچکا ہے، انتظامی اور مالیاتی اختیارات سندھ حکومت دینے کو تیار نہیں ہے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کراچی کی ترقیاتی منصوبہ بندی اور زیادہ تر منصوبے بین الاقوامی اداروں کے قرض سے چلائے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حل دیرپا نہیں ہے۔ مستقل بنیادوں پر حل مقامی اداروں کے انتظامی اور مالیاتی اختیارات کی بحالی ہی ہے، چاہے وہاں حزبِ اختلاف کی حکومت ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسرا سوال آپ نے اٹھارویں ترمیم سے متعلق کیا۔ ایم کیو ایم نے اٹھارویں ترمیم میں کراچی کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی تھیں، پہلا مطالبہ یہ تھا کہ سندھ میں موجود غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا جائے، دوسرا یہ کہ کراچی بندرگارہ کو شہر کے انتظامی کنٹرول میں دیا جائے اور شہری انتظامیہ کو بھی اختیارات دئیے جائیں، اور تیسرا مطالبہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے [غالباً لندن میں موجود اپنے لیڈر کے لیے کوئی راستہ بنانا چاہتے تھے(ہنستے ہوئے)]۔ بدقسمتی سے یہ تمام مطالبات رد کردئیے گئے، جب کہ اس میں پہلا مطالبہ آئینی اعتبار سے قبول کیا جانا چاہیے تھا۔ پاکستان کے فیڈرل ازم ڈیزائن میں نئے صوبے بنانا تو ممکن ہی نہیں، لہٰذا پاکستانی ریاست صرف اِسی صورت میں معاشی ترقی کا سفر طے کرسکتی ہے جب انتظامی اور مالیاتی طور پر ایک بہترین مقامی بلدیات کا نظام بھرپور طریقے سے فعال ہو۔
فرائیڈےاسپیشل: گزشتہ سال ہم نے دیکھا کہ کراچی اربن فلڈنگ سے شدید متاثر ہوا، اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اور اس مسئلے کا مستقل حل کیا ہے؟
عاصم بشیر خان: اِس سوال کو شہر کی تاریخ اور اِرتقاء کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ شہر بسنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، اور شہروں کی پلاننگ مشکل ترین کام ہے۔ سہراب رستم جی کی کتاب ”کراچی 1857ء سے 1947ء تک“ میں کراچی میں دو دریاوں کا ذکر ہے:دریائے لیاری اور دریائے ملیر۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان دریاؤں میں برطانوی فوجیوں کے لیے پانی اور دیگر سامان لے جانے کے لیے اسٹیمر جہاز چلا کرتے تھے۔اب یہ دریا کہاں ہیں! یہ تو صنعتی فضلے کو سمندر تک لے جانے والے ندی نالے ہیں۔
کراچی میں دو طرح کے نالے ہیں، ایک سیلابی پانی کی گزر گاہیں اور دوسرے سیوریج کے نالے۔ 60 کی دہائی کے بعد بلدیات کے انتخابات ہوئے نہ بلدیاتی ادارے فعال رہے، بلکہ صوبائی حکومت نے پراپرٹی ٹیکس اور لینڈ اینڈ بلڈنگ ٹیکس بلدیاتی اداروں سے عارضی طور پر لے لیا، جو کہ آج تک صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ اسی دوران سیلابی پانی کی گزرگاہیں حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے سیوریج نالوں اور گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہونے لگیں۔ رفتہ رفتہ ان نالوں کے کنارے بہت آبادی ہو گئی۔ پھر 1988ء میں ایک گوٹھ آباد اسکیم کے تحت بہت سے گوٹھ ریگولرائز کیے گئے اور ان نالوں کے اطراف گندگی مزید بڑھ گئی۔ رہی سہی کسر ایم کیوایم نے ان نالوں کے اطراف اور بعض جگہ ان نالوں پر قبضے کرکے چائنا کٹنگ کی صورت میں پوری کی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ بارش کا پانی ان نالوں سے گزرنے کے بجائے شہر میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔دوسری طرف انہی نالوں میں فیکٹریاں اپنا فضلہ پھینکتی ہیںجس پر حکومتِ سندھ کے صنعت اور ماحولیات کے شعبے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔
فرائیڈےاسپیشل: مردم شماری پر سیاسی جماعتوں اور سماجی ماہرین کے تحفظات کس نوعیت کے ہیں، آخر مردم شماری کا قضیہ ہے کیا؟
عاصم بشیر خان: تین سال گزرنے کے بعد مرکزی کابینہ نے 2017ء کی مردم شماری کی منظوری دی ہے۔ جب فروری 2018ء میں مردم شماری کے عبوری نتائج شائع ہوئے، تو ان نتائج کے تجزیے سے مردم شماری میں کئی خامیاں سامنے آئیں، جس سے مردم شماری کے نتائج متنازع ہوگئے، تمام سیاسی جماعتوں نے مردم شماری خاص طور پر کراچی کی مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور عدالتِ عظمیٰ سے بھی رجوع کیا۔ مردم شماری کے حوالے سے ایک جامع تجزیے کی اشد ضرورت ہے۔ مردم شماری کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد بلاکس کے تحقیقی جائزے پر پہلا تجزیہ میں نے پیش کیا جسے کافی پذیرائی ملی۔ اس تجزیے کے مطابق کراچی اور اندرون سندھ میں غیر معمولی آبادی والے بہت سے بلاکس ہیں، کہیں ایک گھر میں 175 افراد ہیں، کہیں بے شمار بلاکس میں صفر گھرانے اور صفر آبادی ہے جب کہ وہاں اچھی خاصی تعداد میں ووٹر ہیں۔ آرام باغ، صدر ٹاؤن اور منوڑہ کی آبادی میں منفی نمو ہوئی ہے۔ پورے پاکستان میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص شہری آبادی بڑھی ہے جب کہ کراچی میں دیہی آبادی کی شرح نمو شہری آبادی کی شرح نمو سے زیادہ ہے۔ کئی علاقے جو تمام شہری سہولیات سے آراستہ ہیں انہیں دیہی علاقے شمار کیا گیا ہے۔ اپنے تجزیے میں سے مثال کے طور پر چند بلاکس کے اعداد و شمار پیش کرتا ہوں۔ صرف ایک ضلع سے ہی آپ کو پوری دیگ کا حال معلوم ہوجائے گا۔ ویسے اس پر 5 فروری کے فرائیڈے اسپیشل میں میرا تفصیلی مضمون چھپا ہے، اسے بھی دیکھ سکتے ہیں۔
کراچی کی ایک سیاسی جماعت، جماعتِ اسلامی نے میرے تجزیے کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں مردم شماری کے خلاف آئینی درخواست بھی داخل کی ہے، غالباً اِس سلسلے میں ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مردم شماری میں خامیاں ہونے کی صورت میں درست سمت میں ترقیاتی منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔