آئین میں مقامی حکومت کا ذکر ہی نہیں ہے!ڈاکٹر قیصر بنگالی کا خصوصی انٹرویو

معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کا پاکستان اور بیرون ملک معاشی موضوعات پر تدریس و تحقیق میں بڑا نام ہے۔ بے باک انداز میں تجزیہ اور تبصرہ کرتے ہیں آپ بوسٹن یونیورسٹی امریکہ سے معاشیات میں ماسٹر ڈگری کے ساتھ یونیورسٹی آف کراچی،سےمعاشیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔پاکستان کے کئی اہم اداروں اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر(AERC)، یونیورسٹی آف کراچی، سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ،اسلام آباد، (SZABIST ) سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر کراچی کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔آپ کی دلچسپی کے موضوعات میں پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ میں درپیش مسائل، میکرو اکنامک اور مالیاتی پالیسیاں، خاص طورپر عوامی اور علاقائی عدم مساوات، غربت، بےروزگاری، سماجی انصاف،شہری اور علاقائی منصوبہ بندی، مرکز سے اختیارات کی منتقلی اور مقامی حکومت ، فنانس اورتعلیم شامل ہیں۔آپ نے مختلف حکومتی عہدوں پر بھی خدمات انجام دیں۔ بلوچستان حکومت کے چیف منسٹر زپالیسی ریفارم یونٹ کے سربراہ رہے ۔اس سے پہلے وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون برائے پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے طورپر کام کرچکے ہیں۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پہلے سربراہ رہے۔آپ کےملکی اور بین الاقوامی جریدوں اور کانفرنسوں میں 50سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں اورآپ 8کتابوں کے مصنف بھی ہیں،اخبارات میں سیاسی اور معاشی مسائل پر کالم لکھنے کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے 2019ء میں بورڈ میں شمولیت اختیار کی۔قیصر بنگالی دور طالب علمی ( 1972) میں طلبہ سیاست میں بائیں بازو کی طرف سے خاصے متحرک رہے۔آپ سے کراچی کی معاشی اہمیت ،معاشی مسائل اور ان کے حل سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی جو نذرقارئین ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:کراچی پورے ملک کو پالتا ہے لیکن خود ان تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے، جو ایک شہر کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہوتی ہیں، یعنی کراچی کو اس کی آمدن کا پچاس فیصد بھی منتقل نہیں ہوتا ، اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں بندرگاہ ہے، بن قاسم اور کراچی بندرگاہ دونوں اسی شہر میں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بیرونی تجارت کا ذریعہ کراچی بندرگاہ ہے،ملک میں پیدا ہونے والا چاول یا ودیگر اجناس کراچی پورٹ سے ہی برآمد ہوتی ہیں۔ تمام تیل کراچی کے ذریعے ہی درآمد ہوتا ہے،کراچی کا پورے ملک میں ایک اہم کردار ہے، لیکن ملک کے دیگر علاقوں کا بھی اپنا کردار ہے۔ مثلاً گھوٹکی، سوئی وغیرہ جہاں پر گیس نکلتی ہے ۔پاکستان کی دیگر صنعتیں اگرچہ بہت زیادہ پنجاب منتقل ہوچکی ہیں لیکن معاشی حب ابھی بھی کراچی ہی ہے۔دوسری بات جو کہی جاتی ہے کہ کراچی سے جو ٹیکس ریونیو ہوتے ہیں وہ کراچی کو نہیں ملتے۔ ٹھیک ہے کہ کراچی ملک کی واحد پورٹ ہے، تمام درآمدات بلٹی کراچی میں وصول ہوتی ہیں لیکن وہ مال جو لاہور کی کسی فیکٹری میں چلا جائے گا اس کی امپورٹ ڈیوٹی تو کراچی میں وصول ہوگی لیکن وہ مال لاہور میں استعمال ہوگا، اس حوالے سے جو اعداد و شمار ہیں ان کے مطابق کراچی کی آمدنی جس میں امپورٹ ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس ہے، اس کا حصہ تقریباً پینتیس سے چالیس فیصد ہے۔ کسی ایک شہر کا حصہ تیس سے چالیس فیصد ہونا انتہائی اہم بات ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ کراچی ملکی معیشت میںستر فیصد حصہ ڈالتا ہے یا وفاق کو دیتا ہے کیایہ مفروضہ غلط ہے ؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :جی ہاں! ٹیکس کراچی میں جمع ضرور ہوتا ہے لیکن کراچی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ وہ مال ملک کے کسی دوسرے علاقے میں استعمال ہونے کے لیے آیا ہے تو اس کا ہم حساب کتاب اس طرح کرتے ہیں کہ وصولی اور اورپیداوار میں تفریق کرتے ہیں۔ یہ ٹیکس کراچی میں وصول ہوتا ہے لیکن پیداوارکہیں اور ہوئی۔ تو کراچی کا وصولی کے حصے میں تقریباً ستر فی صد ضرور ہے لیکن پیداوار کا حصہ پینتیس سے چالیس فی صد ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:معاشی ترقی کے لیے جو بھی حصہ بنتا ہے بظاہر تو وہ بھی نہیں مل رہا، اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :کراچی پر کافی پیسہ لگا ہے لیکن جتنا لگنا چاہیے اتنا نہیں لگا، اور جو لگا بھی ہے اس کا معیار اچھا نہیں ہے، جس سے کراچی کے عوام کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔
بیس سال میں جتنے فلائی اوور بنے، جتنے انڈر پاسز بنے سارے حکومت سندھ کے پیسے سے بنے ہیں۔ کیونکہ کے ایم سی کے پاس تو ٹیکس جمع کرنے کے لیے ذرائع ہی نہیں ہیں، جس طرح صوبوں کا دار و مدار وفاق پر ہے، وفاق کا ٹیکس این ایف سی کے ذریعے صوبوں کو ملتا ہے تو اسی طرح ہماری مقامی حکومتوں کا انحصار اپنی صوبائی حکومت پر ہے۔ تو جتنے بھی بیس سال میں تعمیر و ترقی کے منصوبے مکمل ہوئے ہیں، نئی سڑکیں بنی ہیں، یونیورسٹی روڈ کی تعمیر ہوئی، پل بنے، یہ سب سندھ حکومت کے پیسوں سے بنے تو یہ کہہ دینا کہ کراچی میں پیسے نہیں لگتے یہ غلط ہے۔ رقم کی مقدار کا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے، لیکن جو رقم لگے چاہے کم ہی ہو لیکن اگر صحیح لگے تو عوام کے استعمال میں آتا ہے۔ مثلاً یونیورسٹی روڈ بالکل نئی بنائی گئی لیکن ابھی بھی جگہ جگہ مین ہول کور اوپر اٹھے ہوئے ہیں اس پر سے گاڑی گزارنا مشکل ہے۔ ایسے پیسے خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟
فرائیڈے اسپیشل:کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز ہے، لیکن کراچی میں بد امنی اور بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی کی وجہ سے کبھی بھی بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ نہیں آیا، اس وجہ سے کراچی کی معاشی نمو متاثر ہوئی یا یہ کہ جو ہونی چاہیے وہ نہیں ہوئی، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی : جو سرمایہ تھا وہ ہمارے دیکھتے دیکھتے! کراچی سے باہر چلا گیا، مثلاً دو تین غیر ملکی کارپوریشن کے ہیڈ کوارٹر کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے اور یہ 80سے 90 کی دہائی میں ہوا، کیونکہ 1985ء کے بعد کراچی کے حالات بگڑنا شروع ہوگئے تھے، آئے دن کرفیو لگنا اور ہنگاموں کے باعث بہت ساری کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹر دوسرے شہروں میں منتقل ہوئے۔ انٹرنیشنل کمپنیاں اسلام آباد منتقل ہوگئیں، کچھ مقامی کمپنیاں اسلام آباد اور لاہور گئیں۔ جب سرمایہ جارہا ہوتا ہےتو مزید سرمایہ آنے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اب کرفیو بھی نہیں لگتا اور جس قسم کے حالات 90 کی دہائی میں ہوا کرتے تھے وہ بھی نہیں ہیں لیکن کراچی کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، کچرا پڑا ہوا ہے، گٹر بہہ رہے ہیں ان حالات میں کراچی کے سرمایہ دار بھی سوچ رہے ہیں کہ کہیں اور جاکر کارخانہ لگائیں۔ مثلاً آپ سائٹ انڈسٹریل اسٹیٹ چلے جائیں وہ تو کھنڈر بن گیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:اس کا ذمہ دار آپ کسے سمجھتے ہیں، یہ نا اہلی کا مسئلہ ہے یا سیاسی؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی : جب تعلیمی ڈھانچہ ٹھیک نہ ہو تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلتے، اس ڈھانچے میں اگر کوئی اچھا کام کرنا چاہتا ہو وہ بھی نہیں کرسکتا ہے یہ جو مقامی حکومتوں کا مسئلہ ہے وہ آئینی مسئلہ ہے۔ ہمارا جو 73 19ء کا دستور ہے اس میں دو چیپٹرز ہیں ایک وفاقی حکومت کی تفصیل بیان کرتا ہے جبکہ دوسرا صوبائی حکومت کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ ڈھانچہ کیا ہوگا۔ یعنی صدر ہوں گے، وزیراعظم ہوں گے، کابینہ ہوگی، پارلیمان ہوگی، سینیٹ ہوگا، قومی اسمبلی ہوگی اسی قسم کی تفصیل صوبائی چیپٹر میں بھی ہے اور ان کے کام بھی طے ہیں کہ وہ کیا کریں گے، اور ان کے اختیارات کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ اس قسم کا کوئی چیپٹر مقامی حکومت کا نہیں ہے۔ صرف ایک سطر میں لکھا گیا ہے کہ جو صوبائی حکومت ہے وہ مقامی حکومت قائم کرے گی۔ کیسے قائم کرے گی؟ ڈھانچہ کیا ہوگا؟ اختیارات کیا ہوں گے؟ کیا کام کریں گے کیا نہیں کریں گے؟ کچھ نہیں لکھا ہوا۔ ہوتا یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے چاہے وہ فوجی ہو یا سیاسی، وہ مقامی حکومت کے ڈھانچے میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کرتی ہے۔ کچھ اختیارات لے لیتی ہے، کچھ دے دیتی ہے۔ کبھی پیسے زیادہ دے دیتی ہے، کبھی پیسے کم کردیتی ہے اور یہ سب ایوب خان کے زمانے سے چل رہا ہے۔ ایوب خان نے بنیادی جمہورتوں کا نظام بنایا، ایوب خان گئے تو وہ نظام بھی ساتھ چلاگیا۔ یا ضیاء الحق نے ایک اور نظام دیا وہ تبدیلی کے ساتھ چلتا رہا، جنرل مشرف نے اپنا ایک نظام دیا اور جیسے ہی جنرل مشرف گئے ان کا نظام بھی چلا گیا۔ اس لیے کہ ہماری مقامی حکومتوں کا نظام فرد سے منسلک ہوجاتا ہے وہ آئین کا حصہ نہیں ہے، تو بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں آئین میں ایک چیپٹر چاہیے جو مقامی حکومتوں کا ڈھانچہ، اختیارات اور جو کام اس نے کرنا ہے وہ طے کرلے مثلاً ہماری 18ویں ترمیم کے آگے جوآئین تھا اس میں ایک کنکرنٹ لسٹ تھی۔ وہ سبجیکٹ جس پر وفاق اور صوبے دونوں قانون سازی کرسکتے ہیں لیکن اٹھارہویں ترمیم میں اسے خارج کردیا گیا، اب اس سبجیکٹ میں وفاق قانونی سازی نہیں کرسکتا یہ خالصتاً صوبوں کے اختیار میں ہے، اسی طرح اگر آئین میں مقامی حکومت ہو تو صوبائی حکومت اس میں مداخلت نہیں کرپائے گی۔ تو قصور کسی فرد کا نہیں، قصور کسی پارٹی کا نہیں، قصور یہ ہے کہ آئین میں مقامی حکومت کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔
فرائیڈے اسپیشل:یعنی آپ کے نزدیک بنیادی مسئلہ آئین میں تبدیلی کرکے بنیادی ڈھانچے کو ٹھیک کرنے کا مستقل بندوبست کرنا ہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں ہے یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے، مثلاً اگر کراچی میں گٹر بہہ رہے ہیں تو لاڑکانہ وہ شہر ہے کہ جس کے پندرہ کلو میٹر آگے موہن جو دڑو ہے، پانچ ہزار سال پہلے ان کو یہ بات پتا تھی کہ پانی کی نکاسی کیسے کرنی ہے۔ اکیسویں صدی میں لاڑکانہ کو نہیں پتا کہ کیسے کرنی ہے۔ لیکن لاڑکانہ کے عوام کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، وہ کراچی کو دیکھتے ہیں کہ کراچی والے کچھ کریں گے۔ جب آپ مقامی حکومتیں بنائیں گے اور وہ با اختیار ہوں گی تو وہ کچھ کرسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ نے بتایا کہ کراچی سے بہت سی صنعتیں ملک کے دوسرے شہروں میں چلی گئیں تو اس کی وجہ کراچی کی بد امنی تھی، کوئی اتفاقی امر تھا یا یہ کسی خاص منصوبے کا حصہ تھا، آپ ایک ماہر معاشیات ہونے کی حیثیت سے اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :پتا نہیں پردے کے پیچھے کیا ہوتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے گئیں، میں خود چلا گیا، میں جامعہ کراچی میں پڑھاتا تھامیں اسلام آباد چلاگیا۔ میرے جیسا فرد اگر جاسکتا ہے تو لوگ اپنا سرمایہ لے کر بھی جاسکتے ہیں۔ میں اس لیے گیا کہ میں جامعہ کراچی کے جس شعبے میں تھا وہاں روزانہ گولیاں چلتی تھیں اور ہم تو وہاں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ہماری گاڑی لے جاتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہم گاڑی لے جاتے ہیں پیٹرول بھروا کرکے واپس لاکر کھڑی کردیں گے۔ ہمارا اختیار نہیں ہوتا تھا کہ ہم کہیں کہ نہیں جی ہماری گاڑی کیوں لے جارہے ہیںآپ؟، ہمیں ڈر ہوتا تھا کہ پتا نہیں اس گاڑی سے کیا واردات ہوئی ہے، بعد میں ہم پکڑے جائیں گے۔ تو اس قسم کے جب حالات پیدا ہوئے تو صرف میں ہی نہیں گیا کئی میرے ساتھی پروفیسر بھی گئے جو ہارورڈ، ایم آئی ٹی وغیرہ کے تھے، 99ء میں اپلائیڈ اکنامک ریسرچ سینٹر ایک بہت بڑا ادارہ ہوا کرتا تھا کراچی یونیورسٹی کا وہ تقریباً خالی ہوگیا۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی میں بڑی صنعتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی صنعتوں کے بھی بہت وسیع امکانات تھے لیکن حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ امکانات بروئے کار نہیں آسکے۔ اس کے اب کتنے امکانات ہیں؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :چھوٹی صنعتیں اسی وقت پنپتی ہیں، جب بڑی صنعتیں چل رہی ہوں۔ کیونکہ بڑی صنعتوں سے ہی یہ منسلک ہوتی ہیں مثلاً اگر ایک بڑا کارخانہ ہے تو اس کے چھوٹے موٹے کام کے لیے یہ اپنا شعبہ نہیں کھولتے بلکہ وہ کام چھوٹی کمپنیوں کو دے دیتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ بیرنگ بنادو۔ جیسے ایک بوتل کی فیکٹری ہے اور اس کے بوتل میں کیپس لگتے ہیں تو وہ کیپ بنانے کی مشین خود نہیں لگاتے ہیں وہ کسی کو دے دیتے ہیں، وہ سارے بوتل والوں کے لیے کیپس بناتے ہیں تو اس طرح سے بڑے اور چھوٹے کارخانے کا ایک رشتہ ہوتا ہے، تو جہاں بڑے کارخانے بیٹھ جاتے ہیں یا بند ہوجاتے ہیں یا چلے جاتے ہیں تو چھوٹے کارخانوں کو آرڈر نہیں ملتے۔ گاڑی بنانے کی فیکٹری نے اپنی چھوٹی موٹی چیزیں مثلاً شاکس آبزرور کسی اور فیکٹری کو دے دیے وہ فیکٹری صرف شاکس آبزرور بناتی ہے، جسے سب کانٹریکٹنگ کہتے ہیں وہ ختم ہوگیا، اس وقت سے چھوٹی صنعتیں بھی بند ہوگئیں۔
فرائیڈے اسپیشل:پاکستان اسٹیل مل ملکی معاشی ترقی میں ایک اہم علامت تھا لیکن گزشتہ تین چار حکومتوں میں سے کوئی بھی اسے منافع بخش ادارے میں تبدیل نہیں کرسکا۔ ایک خیال یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل مل سیاسی مفادات کی نظر ہوگیا۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو ان کے گیارہ سالہ دور میں جو ایک انویسٹمنٹ سرمایہ کاری کے لیے ہوتی ہے لیکن سرمایہ لگانے کے بعد بھی انویسٹمنٹ کی ضرورت ہے مثلاً ری پیئر، مینٹی ننس اور ٹیکنالوجی کو ایڈوانس کرنا وغیرہ وغیرہ جب آپ ایک مشین لگا لیں اور بعد میں اس کی ری پیئر اور مینٹی ننس میں پیسہ نہیں لگاتے ہیں تو وہ مشین بگڑتی چلی جائے گی اور پیداوار نہیں دے گی، جس کی آپ توقع کرتے ہیں یا جو پہلے دے رہی تھی تو اسٹیل مل کا یہی حال ہے۔ 80 کی دہائی سے اس کی مشینری میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ 80 کا مطلب چالیس سال ہوگئے۔ دنیا میں اسٹیل کی صنعت میں بہت نئی ٹیکنالوجیز آگئی ہیں ہم 1950 کی ٹیکنالوجی سے اس کو چلانا چاہتے ہیں، تو یہ نا ممکن ہے۔ ہمارے یہاں یہ بڑا مرض ہے کہ ہم ہر مسئلہ پر اگر انگلی اٹھاتے ہیں تو وہ کسی فرد پر اٹھاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب نظام بگڑ جائے گا تو اچھا آدمی بھی وہاں بیٹھ کر کوئی اچھا کام نہیں کرسکتا ہے۔ پاکستان اسٹیل مل کا بھی مسئلہ یہی ہے کہ اس کی مشینری پرانی ہے اور تب سے اب تک اس نے ایک نٹ بولٹ یا اسکرو بھی نہیں لیا، ظاہر ہے اس طرح اس کی پیدوار گر گئی، جب پیداوار گری اور ملازمین تو اتنے ہی تھے ان کو تو تنخواہ دینی تھی اس طرح وہ خسارے میں چلی گئی۔ یا تو آپ طے کرلیں کہ ہم ملازمین کو فارغ کردیں گے لیکن اگر ریاست نے ملازمین کو فارغ کرنا ہے تو ریاست سے یہ سوال پوچھا جائے گا کہ معیشت کس لیے چلائی جارہی ہے؟ معیشت تو اسی لیے چلائی جارہی ہے کہ عوام کے پاس روزگار ہو! اگر اسٹیل مل بند کرنا ہے تو ان لوگوں کے لیے پہلے متبادل پیدا کریں۔ لوگوں کو فارغ کرنا تو ایک گھنٹہ کا کام ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جو ان کے گھر والوں پر گزرے گی اس کا کون ذمہ دار ہوگا۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کی روٹی کا انتظام کرے۔ اسٹیل مل اب بھی چل سکتی ہے، اس کی نجکاری کی ضرورت نہیں ہے، اس کی جو انتظامیہ ہے اس کی نجکاری کی جائے۔ یعنی ایک پرائیویٹ کمپنی کو کہیں کہ یہ اسٹیل مل ہے آپ نے اس کو چلانا ہے۔ اس میں کئی طرح کے ارینجمنٹ ہوتے ہیں۔ آپ دس فیصد منافع حکومت کو دیں اور نوے فیصد خود رکھ لیں یا اتنے پیسے حکومت کو دے دیں، منافع سارا آپ رکھ لیں۔ یہ سارے طریقے دنیا میں اپنائے گئے ہیں۔ توملکیت حکومت کی رہے گی، اسٹیل مل بھی چلے گی، لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ اسٹیل کی مصنوعات یعنی مشینری بنے گی اور اس طرح نئی صنعتیںپیدا ہوں گی۔
فرائیڈے اسپیشل:ملک کی معاشی ترقی کے سلسلے میں بجلی کا بڑا کردار ہے اور کراچی میں تو دس دس، بارہ بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور کراچی کو فراہم کی جانے والی بجلی مہنگی بھی ہے، اس صورت حال نے کیا کراچی کی معاشی نمو کو متاثر نہیں کیاہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :یہ مسئلہ صرف کراچی میں نہیں ہے بلکہ کراچی میں تو کم لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، ملک کے باقی علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں جو بڑی صنعتیں ہیں انہوں نے اپنے جنریٹر لگا لیے ہیں یعنی پیسے والے لوگوں نے جنریٹر لگالیے ہیں، میرے خیال میں ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں نوے فیصد گھر ایسے ہیں جن کے اپنے جنریٹر چلتے ہیں تو وہ تو اپنا انتظام کرلیتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:لیکن جب کراچی کی انڈسٹری میں بھی جنریٹر لگے گا تو اسی طرح اشیا کی قیمتیں بھی زیادہ ہوں گی؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :جی! اسی لیے تو ہماری برآمدات بیٹھ گئی ہیں کیونکہ آپ اگر مہنگی چیزیں بنائیںگے تو برآمد کیسے کریں گے؟ آپ کا سوال بالکل درست ہے لیکن اس وقت پاکستان میں بڑی عجیب صورت حال ہے کہ بجلی کی پیداوار زیادہ ہے یعنی ہم ضرورت سے زیادہ بجلی بناتے ہیں لیکن ہم پہنچا نہیں پاتے کیونکہ بجلی کے پلانٹ لگانا تو آسان تھا لگالیا اور چالو کردیا، دو تین سال لگتے ہیں اس کو بنا کر چالو کرنے میں لیکن جو ٹرانسمیشن لائنز ہیں جس سے بجلی پہنچائی جاتی ہے وہ بہت خستہ حال ہیں، اس میں بیس ،پچیس سال ہوگئے کوئی پرانے تار تبدیل نہیں کیے گئے اور جو لگے تو وہ دو نمبر لگے۔ اب بجلی گھر سے ڈبوں میں تو لا نہیں سکتے تو بجلی کے تین حصے ہوتے ہیں۔ پیداوار، ترسیل اور تقسیم۔ یہ نظام درست نہیں اسے ٹھیک کرنا ہے۔ اس لیے کہ ٹرانسمیشن کا نظام بوسیدہ ہوچکاہے۔ اگر پوری طرح سے بجلی آئے گی تو یہ پی ایم ٹیز اڑ جائیں گے۔ جو کہ اکثر اڑتے رہتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:یہ جو کراچی میں چین کی مدد سے دو ایٹمی بجلی گھر قائم کیے جارہے ہیں، جو پانچ چھ سالوں میں کام بھی شروع کردیں گے، تو کیا یہ غیر ضروری ہے ،ان سے لوڈ شیڈنگ میں کمی واقع ہوگی؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :بجلی کا نظام کچھ بھی ہو ، ایک نیشنل گرڈ ہے۔ آپ بجلی کا پلانٹ کراچی میں لگائیں یا گلگت بلتستان میں لگائیں گرڈ میں پاور آجاتا ہے اورپھر وہ ڈسٹری بیوٹ ہوتا ہے۔ گرڈ سے پھر یہ طے ہوتا ہے کہ یہ پاور کہاں پہنچایا جائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ نے کہا کہ بجلی موجود ہے، ٹرانسمیشن لائن کا مسئلہ ہے تو پھر ان دو نئے ایٹمی بجلی گھروں کی ضرورت تھی؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :تو نہیں لگنے چاہئیں۔ دوسرا نقصان جو ہم نے اپنا کیا ہے وہ یہ کہ جو نئے بجلی گھر بنائے گئے ہیں وہ امپورٹڈ کوئلے کے ہیںیعنی کوئلہ درآمد کرکے بجلی پیدا کریں گے ہمارا اپنا کوئلہ تھر میں رکھا ہوا ہے وہ استعمال نہیں کررہے۔ اب جب آپ درآمد کریں گے تو زر مبادلہ سے کریں گے، جو ہمارے پاس ہیں نہیں، ہم ہمیشہ آئی ایم ایف، سعودی عرب اور چین سے بھیک مانگتے رہتے ہیں اوپر سے ہم نے درآمد شدہ کوئلے کے پاور پلانٹ لگا دیے۔ یہ تو بہت ہی بے وقوفانہ فیصلہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:تو ہمارے یہاں یہ کے الیکٹرک ، کراچی کے عوام اور حکومت کے کیا مسائل ہیں؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :کراچی میں کے الیکٹرک ہے، اس کو ہم نے نجی تحویل میں دے دیا، پہلے یہ حکومت کے پاس ہوتا تھا تو اگر واپڈا کے پاس سرپلس بجلی ہوتی تھی تو وہ کے الیکٹرک کو بھی دے دیتی تھی یہ ایک جیب سے دوسری جیب میں ڈالنے والی بات تھی، جب آپ نے کے الیکٹرک کو الگ کمپنی بنادیا تو اب اگر کے الیکٹرک بجلی لے گی تو پیسے دینے پڑیں گے وہ کے الیکٹرک دے نہیں رہی ہے۔ جس وقت یہ نجی تحویل میں دیا جارہا تھا اس وقت بھی ہم نے مخالفت کی تھی کہ یہ نجی کمپنی نہیں چلاسکتی تو انہوں نے یہی کیا ہے کہ جو امیر علاقے ہیں وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی ہے لیکن غریب علاقوں میں بہت لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آج کے الیکٹرک کے بارے میں آپ کا کیا مؤقف ہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :کے الیکٹرک کی نجکاری بالکل ایک غلط فیصلہ تھا،میرے خیال میں اس غلط فیصلے کو واپس لینا چاہیے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جسے ہم انگریزی میں پبلک یوٹیلیٹیز کہتے ہیں جیسے صاف پانی ہے، گندے پانی کی نکاسی ہے، بجلی ہے، گیس ہے، پبلک ٹرانسپورٹ ہے یہ نجی شعبے میں چل ہی نہیں سکتی۔ یہ تو عوام کی خدمت کے ادارے ہیں۔ اب آپ نے جب نجکاری کردی تو کے الیکٹرک تو منافع کے لیے کام کرتا ہے۔ کے الیکٹرک کے جو مالکان ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کسی کو بجلی پہنچتی ہے یا نہیں پہنچتی۔ ان کو جب تک منافع ملتا رہے گا وہ اسے چلاتے رہیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل:معاشی ترقی کے سلسلے میں آجر اور اجیر کے تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن کراچی کی اکثر صنعتوں میں مزدور طبقے کا استحصال کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :یہ پورے پاکستان میں ہوتا ہے، دیہاتوں میں بھی ہوتا ہے۔ استحصالی نظام میں تاجروں، صنعتکاروں کے لیے تو ریاست ہے مزدوروں اور کسانوں کے لیے ریاست نہیں ہے۔ آپ دیکھیے بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی، تقریباً تین سو لوگ جل کر مر گئے اور ان کے مالکان دبئی میں بیٹھے ہیں، ہماری پولیس پارٹی ان کا بیان لینے کے لیے دبئی گئی۔ ہمارے ٹیکس کے پیسے خرچ کرکے ، جن کو جیل میں ہونا چاہیے ان کو اتنی عزت دی جارہی ہے۔ ان کو یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ بیان لینا ہے تھانے آجائو! یہ تو ریاستی اشرافیہ کے لیے ہے باقی مزدور تو پرزے ہیں جل جائیں تو انہیں ہٹا کر پھینک دو نیا لگادو، نئے پرزے آجائیں گے اور یہ مسئلہ صرف کراچی کا نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے استحصالی نظام کا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی کے وہ بنیادی مسائل کیا ہے کہ ان کے حل ہونے سے سرمایہ کار کراچی واپس آئیں اور اپنا پیسا لگائیں اور یہ سرمایہ کاروں کے لیے ایک پرکشش شہر بن جائے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :سب سے پہلے پانی اور پانی کی نکاسی کے نظام کو درست کیا جائے، وہ پہلے آپ ٹھیک کریں گے تو سڑکیں ٹھیک ہوں گی۔ آپ پہلے سڑکیں ٹھیک کریں گے اور بعد میں پانی کا نظام درست کریں گے تو آپ سڑکیں کھودتے رہیں گے۔ اور ایک شہر میں ایک ہی نظام ہوسکتا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ کہیں آپ نے موٹا پائپ لگا دیا، کہیں پتلا پائپ لگادیا، کراچی کا اس وقت جو حال ہے۔ سارا پانی تو سمندر میں جائے گا چاہے صاف ہو یا گندا، سمندر کے راستے بند کیے ہیں ڈیفنس سوسائٹی نے اور جیسے مائی کلاچی بائی پاس بناکر تو پانی جانے کا راستہ ہی نہیں بچاہے، جب بھی بارش ہوتی ہے پانی شہر میں کھڑا رہتا ہے۔ یہ کام سب سے پہلے کرنا ہے۔ پھر سڑکوں کا نظام ٹھیک کرنا ہے۔ کچرا ٹھکانے لگانے کا نظام ٹھیک کرنا ہے، کچرا روزانہ کی بنیاد پر اٹھنا چاہیے اور اس کو تلف کرنے کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے، آپ کچرا کہیں بھی نہیں پھینک سکتے، وہ بدبو، جراثیم پیدا کرے گا کیونکہ وہ سڑنے لگے گا اور پوری دنیا میں کچرے کو ٹریٹ کرنے کا ایک نظام ہوتا ہے کہ سڑک کے کناروں پر کچرا نہ پڑا رہے اور جہاں کچرا پھینکا جاتا ہے وہیںاس کو ٹھیک کرنے کا نظام ہے۔
اس کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ ٹھیک ہونی چاہیے، یہاں تو بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر لوگ جاتے ہیں تو کوئی غیر ملکی سرمایہ کار جب یہاں آئے گا اور یہ سب دیکھے گا تو وہ فوراً ایئر پورٹ کی طرف جائے گا اور کہے گا کہ مجھے واپس لے جائو ! یہ بہت بنیادی چیزیں ہیں کسی بھی شہر کی، چاہے غیر ملکی سرمایہ آئے یا نہ آئے۔ پانی کی فراہمی، پانی کی نکاسی، کچرے کو ٹھکانے لگانا، پبلک ٹرانسپورٹ یہ انتہائی بنیادی چیزیں ہیں۔ اس کے بعد یہاں انڈسٹری لگانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ سائٹ اور کورنگی انڈسٹریل اسٹیٹ 1950 میں بنے تھے اس کے بعد کوئی انڈسٹریل اسٹیٹ نہیں بنا، آپ اندازہ لگائیں۔ میں دو سال حکومت کی جانب سے پی این بی کا مشیر رہ چکا ہوں۔ قائم علی شاہ کی کابینہ میں، میرے پاس سرمایہ کار آتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں کارخانہ لگانا ہے کسی زمین کا انتظام کریں۔ تو جہاں زمین نہیں ہوگی تو وہاں سرمایہ کار کہاں سے آئے گا۔ یہاں کراچی میں بنگلوں میں لوگوں کے دفاتر بنے ہوئے ہیں کیونکہ دفتر بنانے کی جگہ نہیں ہے۔ جتنے بھی دنیا کے بڑے اور کامیاب شہر ہیں،نیویارک، ہانگ کانگ ، لندن وغیرہ ان میں بزنس ڈسٹرکٹ ہوتے ہیں ایک جگہ ہوتی ہے جہاں پر بلڈنگ ہوتی ہیں دفاتر ہوتے ہیں اور دفاتر کو جو سہولتیں چاہئیں، یعنی وہاں پر ہوٹل بھی ہوتے ہیں کیونکہ اگر میری باہر سے کوئی پارٹی آئی ہے میرے مال خریدنے کو اور ہمارے ساتھ میٹنگ کرنی ہے تو اس کو ہوٹل میں ٹھہرنا ہے اور دوسری سہولیات ہوتی ہیں۔ لندن، پیرس، برلن، ہانگ کانگ، سنگاپور یہاں تک کہ بمبئی بزنس ڈسٹرکٹ ہیں کراچی میں نہیں ہیں۔ کراچی کا آئی آئی چندریگر روڈ دیکھ لیں کس حال میں ہے؟۔ 2010 ء میں سیلاب آیا تو بہت بڑے پیمانے پر امدادی اداروں کے لوگ آتے تھے ان کے ساتھ میں رہتا تھا، مجھے موقع ملا پورے سندھ کا ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے کا، کراچی کو میں نے دیکھا ہے اوپر سے بہت خوبصورت شہر ہے اگر اسے ہم زمینی سطح پر بہتر کریں تو یہ شہر مزید خوبصورت ہوسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی میں ٹیکس دینے کی کیا صورت حال ہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی :جو مقامی حکومتیں ہیں ان کا سب سے بڑا ذریعہ پراپرٹی ٹیکس ہوتا ہے اور اس کے بعد موٹر وہیکل ٹیکس ۔ ہمارے ہاں پراپرٹی ٹیکس کی شرح بہت کم ہے اور دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کی کوئی ایک مقامی حکومت بن نہیں سکتی ہے کیونکہ کے ایم سی سندھ حکومت کے ماتحت ہے اس کا اختیار صرف پچیس فیصد کراچی ہے۔ باقی کراچی وفاقی اداروں کے پاس ہے۔ جس میں فوج ، ریلوے وغیرہ شامل ہیں۔ اگر میں پوائنٹ اے سے پوائنٹ بی تک ایک سڑک بنائوں تاکہ کسی دوسری سڑک پر دبائو کم ہو اور وہ گزرتی ہو اس علاقے سے جو کہ وفاقی حکومت کے پاس ہے اور وہ اجازت نہیں دیتے اس لیے وہ سڑک نہیں بن سکتی اور جس سڑک پر ٹریفک جام ہوتا ہے وہ جام رہے گا، کراچی کا یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے، صرف یہ مسئلہ نہیں ہے کہ پیسے نہیں لگائے جارہے یا پیسے لگائے جارہے ہیں تو وہ ٹھیک نہیں لگ رہے یا کم لگائے جارہے ہیں۔
کراچی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کراچی کا جو میئر ہوگا یا ناظم ہوگا اس کا اختیار ایک چوتھائی حصے پر ہوگا اور باقی پر نہیں ہوگا۔ اس صورت میں کراچی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی۔ میں1988-89ء میں کراچی کا ماسٹر پلان بنانے والی ٹیم کا حصہ رہا ہوں، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، میں یونیورسٹی میں ہوتا تھا لیکن انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں ہمارے شعبے کی مدد لی تھی اور میں کام کرتا تھا لیکن جو ماسٹر پلان اس وقت بنایا گیااور کراچی جو بعد میں بنا وہ بہت مختلف ہے۔