سوال:کراچی پاکستان کا سب سے بڑ ا نظریاتی شہر تھا، ایم کیوایم کے ظہور کے بعد ساری دنیا نے اسے لسانی سیاست کا مرکز بنتے ہوئے دیکھا۔ اس صورتِ حال نے کراچی کی سیاست، سماجیات، نفسیات کو کس طرح متاثر کیا؟
حافظ نعیم الرحمن: شہر کا نظریاتی حوالہ بہت اہم ہے۔ ابتدا میں تو بہت چھوٹا سا ایک شہر تھا۔ واحد بندرگاہ ہونے کی وجہ سے ہر دور میں اس کی ایک اہمیت رہی ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد جب یہ دارالحکومت بنا تو اس نے بین الاقوامی حیثیت بھی اختیار کرلی۔ چونکہ اس شہر میں آکر آباد ہونے والے وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کی تحریکِ آزادی میں حصہ لیا، اور ان کو معلوم تھا کہ ہمارا خطہ اور ہماری زمین پاکستان میں شامل نہیں ہوگی لیکن اس کے باوجود اگر وہ تحریک چلارہے تھے تو اس کا سب سے بڑا حوالہ اسلامی اور دینی تھا، انہوں نے نعرہ لگایا تھا پاکستان کا مطلب کیالا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور مسلمانوں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنا تھا، اور قائداعظم کی قیادت میں لوگوں کا اس بات پر متفق ہونا کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک ہونا چاہیے، یہ خود ایک دینی حوالہ ہے۔ اور دوسرا ان میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ یہ انہونی کو ہونی کردینے والے معاشرے سے آئے تھے، اور انہوں نے اسلامی مملکت کے قیام کے لیے قربانیاں بھی دیں۔ یہاں آباد ہونے والے لوگ سیاسی طور پر متحرک اور بیدار تھے ایسے لوگ جن کا دینی و تہذیبی پس منظر بہت نمایاں تھا۔ ابتدا میں غلطیاں تو سب نے کی ہیں، لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر مملکت چلانے والے لوگوں کی حب الوطنی مشکوک نہیں تھی، اور انہوں نے اچھے طریقے سے چیزوں کو چلانے کی کوشش بھی کی، لیکن ساتھ کچھ فاش غلطیاں بھی کیں، جن میں سے ایک بہت بڑی غلطی خود کراچی کی حیثیت کو ختم کرنا تھا۔ اگر اُس وقت کی بیوروکریسی جس میں خود مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی، کراچی کو کراچی کی حیثیت میں برقرار رکھتی اور اس کو ٹھیک طریقے سے لے کر چلتی تو ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، اور کراچی اپنے نظریاتی تشخص کے ساتھ ایک ترقی یافتہ شہر ہوتا۔
سوال:بیوروکریسی نے بھی کراچی کے لیے کوئی کام نہیں کیا؟
حافظ نعیم الرحمن:ابتدائی طور پر تو معاملات ٹھیک چل رہے تھے، نظم و ضبط بھی ٹھیک چل رہا تھا۔ ابتدائی میئر حکیم محمد احسن، سردار خان بہادر، ایچ ایم حبیب اللہ، محمود ہارون وغیرہ نے اچھے طریقے سے شہر کا نظم و نسق چلایا تھا، حالانکہ آبادی کا دبائو کسی بھی جگہ پر اچانک پڑ جائے تو ایک مشکل پیش آتی ہے۔ 1960ء کی دہائی تک حالات اتنے برے نہیں تھے، معاملات ٹھیک ہی چل رہے تھے، لیکن دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد سے یہاں بہت ساری خرابیاں پیدا ہونا شروع ہوگئیںجس کے بعد کراچی کی وہ حیثیت برقرار نہیں رہی۔
کراچی مزاحمت کرنے والا شہر تھا، یہاں ردعمل کا اظہار کرنے والے لوگ تھے، ان کا نظریاتی حوالہ بھی پختہ تھا اور ان میں جمہوری جدوجہد، احتجاج کرنے اور سوال کرنے کا داعیہ موجود تھا، تمام سیاسی تحریکیں کراچی سے شروع ہوتی تھیں جو پورے ملک کو متاثر کرتی تھیںجو حکمران طبقے کو پسند نہیں آتا تھا، اس لیے حکمران طبقے نے کراچی کو اپنے مذموم عزائم کے راستے میں رکاوٹ سمجھ لیا۔
سوال:صورتِ حال کیسے خراب ہوئی؟
حافظ نعیم الرحمن:حکمرانوں کی نالائقیوں کی وجہ سے لسانی تفریق پیدا ہوتی چلی گئی، حالانکہ جب مہاجرین یہاں پر پہنچے تھے تو یہاں کے مقامی لوگوں نے جن میں سندھی ، بلوچ، کچھی، پارسی و دیگر شامل تھے، ان کا استقبال کیا۔ بحیثیتِ مجموعی سندھ میں جہاں شہری آبادیاں بنیں اور اردو بولنے والے لوگ آئے تھے وہاں مقامی سندھیوں نے ان کو بڑے کھلے دل کے ساتھ قبول کیا تھا، اور بھائی چارہ کا ماحول تھا، اور بہت ہی مثالی انصار و مہاجر کا تصور تھا۔ مہاجر چونکہ باصلاحیت اور پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے، ان کی یہ صلاحیت فائدہ پہنچا رہی تھی، اور سندھیوں میں ایک فطری سادگی ہوا کرتی تھی اور سندھیوں کا ماضی جو علم و دانش سے بھرا ہوا ہے، جاگیردارانہ نظام نے مسخ کردیا، اور ان کی صلاحیتوں اور سوچ پر پہرہ بٹھانے کی کوشش کی اور ان کو ایک طرح سے غلام بنایا ہواہے۔ ہم نام لے کر بات کررہے ہیں حالانکہ ہمارے ہاں اس قسم کی کوئی تخصیص موجود نہیں ہے،لیکن جو بلوچ ہیں ان کا اپنا حوالہ بہت مضبوط ہے اور سندھی زبان اپنا ایک کلچر اور تہذیب رکھتی ہے، اس میں صوفیہ کا اپنا ایک کردار ہے۔ محمد بن قاسم کے زمانے میں اور اس کے بعد عرب سے جو لوگ آئے انہوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت میں بہت بڑا حصہ ڈالا، ان کا دینی حوالہ بہت پختہ تھا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اور اس کا جاگیردارانہ پس منظر گہرا ہوتا چلا گیا تب سے اندرون سندھ کے حالات بھی خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔
سوال:کیا کراچی کو منظم طریقے سے برباد کیا گیا؟ تاریخی حقائق کیا ہیں؟
حافظ نعیم الرحمن:ہمارا حکمراں طبقہ کن عناصر پر مشتمل ہے؟ ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہماری بیوروکریسی، ہمارے جاگیردار… یہ تینوں اتحادی ہیں اور پاکستان پرحکمرانی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی اسٹیبلشمنٹ کچھ نہیں کرسکتی اگر جاگیردار ان کے ساتھ نہ ہوں، یا سول بیوروکریسی تعاون نہ کرے۔ سیاست دان تو انہی لوگوں کے تابع ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی عمل یہاں پنپ نہیں پایا اور لوگ آزاد نہیں ہوپائے۔ تو معاملہ یہ ہے کہ سندھ اور اس پورے خطے پر اُن لوگوں نے جو انگریزوں کے شاگرد تھے، حکمرانی کی۔ ہمارا طبقۂ بالا یا جسے اشرافیہ کہہ لیں، حکمران طبقہ کہہ لیں، اس نے اپنی سیاست اور اپنے مفادات کا تحفظ اسی میں سمجھا کہ لوگوں کو تقسیم کرکے رکھا جائے۔ تو ہمارا سندھ تو اس کا شاہکار ہے، اس میں آہستہ آہستہ اس کو پروان چڑھایا گیا اور اس کے نتیجے میں لسانیت فروغ پاتی گئی۔ انگریزی ضرب المثل ہے کہ اگر کہیں پر دھواں ہے تو اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں پر آگ لگی ہوئی ہے There’s smoke there’s fire۔ تو جب یہ محرومیاں طبقۂ بالا پیدا کرتا ہے، لوگوں کو لوگوں سے کاٹنے کے لیے خاص طریقے استعمال کرتا ہے تو ان محرومیوں کے نتیجے میں لوگ اٹھنا شروع ہوتے ہیں اور اسی سے گروہی، لسانی علاقائی عصبیت پروان چڑھتی ہے۔ 1960ء کی دہائی میں یہی کچھ ہوا جب آپ نے دارالحکومت منتقل کیا۔ اور پھر ایک زمانے میں لسانی فسادات حکمرانوں کے زیر سایہ ہی ہوئے تھے۔ اردو کے معاملے پر تو شہدائے اردو کی یادگاریں بھی موجود ہیں۔ یہ سب اسی لیے کروائے جاتے ہیں کہ پہلے کوئی محرومی پیدا کرو پھر اس کے بعد اس میں آگ لگادو اور تفریق پیدا کردو۔ اور بعض اوقات یہ بھی لگتا ہے کہ جو بات کی جارہی ہے، بالکل درست ہے، کیونکہ مسئلہ تو اپنی جگہ موجود ہے۔ ایسے موقعوں پر ایسی جماعتیں جو نظریاتی اساس رکھتی ہیں، یا پورے ملک کے فریم ورک میں کام کرنے والے لوگ ہیں ان کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔
سوال:یعنی کراچی حکمرانوں کے کھیل کا شکار ہوگیا، اور وہ اس کے شعور اور مزاحمت کی طاقت کو برداشت نہیں کرسکے؟
حافظ نعیم الرحمن:جی! کراچی کا اصل قصور یہ ہے کہ کراچی سوال کرتا تھا، کراچی متحد ہوکر بات کرتا تھا اور کراچی اپنی تمام تر صلاحیت کے ساتھ کہ وہ ایک غریب پرور شہر ہے، غریبوں کی ماں ہے اور تمام لسانی اکائیوں کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے، اور تمام لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے… خود اپنے شہر کو نہیں بلکہ پورے ملک کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ تو پھرظاہر ہے اشرافیہ طبقہ یہ سمجھتا تھا کہ اتنی بڑی حیثیت رکھنے والا میٹروپولیٹن شہر ہمیشہ ان کے اقتدار کے لیے خطرے کی علامت رہے گا، لہٰذا اسے ایک سازش کے تحت تقسیم در تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی، اور پھر بالآخر یہ ہوا کہ ان محرومیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایم کیوایم جیسی تنظیمیں وجود میںلائی گئیں اور اُن کی پرورش اقتدار کے ایوانوں سے کی گئی۔
سوال:کراچی کی سیاسی، سماجیات، نفسیات پر اس کے کیا اثرات ہوئے؟
حافظ نعیم الرحمن:لسانیت کا حوالہ تھا اور لوگوں نے ساتھ دیا، لیکن اس کے نتیجے میں خود سب سے زیادہ مہاجروں پر اثرات پڑے، کراچی اور حیدرآباد کے شہری تمدن پر پڑے۔ ہمارے ہاں بزرگوں کا ایک ادب اور احترام تھا، ہمارے سماجی پس منظر میں گلی میں ایک بزرگ ہوتے تھے، انہوں نے جو بات کردی وہ سب کی بات ہوتی تھی۔ ایم کیو ایم نے جب اپنی تنظیم کو بنایا تو اس نے میکسیکن طرزِ سیاست میں جو تنظیمیں کام کررہی تھیں اُن کے ڈھانچے کو کاپی کیا، جس کے الطاف حسین بڑے عاشق تھے۔ اور ان تنظیموں کا بڑا گہرا مطالعہ کیا جو انڈر ورلڈ بھی تھیں اور اسلحہ بردار نوجوان پورے اداروں پر رول کیا کرتے تھے۔ اسی طرح وہ فاشزم سے بہت متاثر تھے، اور جسمیں فردِ واحد کی حکمرانی ہوتی ہے۔ خوف اور محبت دونوں کا منبع وہی شخصیت ہوا کرتی ہے۔ محبت تو اس بنیاد پر کروا لیتا ہے کہ وہ ایک ماحول پیدا کردیتا ہے، تعصب کو ہوا دے دیتا ہے، اور کوئی چیز موجود ہوتی ہے اس کو آواز دے دیتا ہے، اور خوف کا نظام قائم کردیتا ہے۔ یہ دونوں جذبے مل کر جب ایک شخصیت میں مرتکز ہوجاتے ہیں تو فاش ازم پروان چڑھتا ہے۔ وہ اس کا آئیڈیل تھا، اور وہ مسولینی کو آئیڈیل سمجھتا تھا اور اس نے اسی طرز پر اپنی تنظیم کو بنایا۔ ہوا یہ کہ جو مہاجر انٹیلی جینشیا تھی اس نے بہت بڑی نادانی کی، کیونکہ اگر مسئلہ مہاجروں کا ہی تھا تو مہاجروں کی تو نمائندہ تنظیمیں یہاں پر جماعت اسلامی اور جے یو پی تھیں، جو مہاجروں کی بہت سی کمی کو پورا کرتی تھیں۔ یعنی اگر پروفیسر غفور احمد، علامہ شاہ احمد نورانی، محمود اعظم فاروقی اور مولانا ظفر احمد انصاری یہاں سے منتخب ہورہے ہوں، اس طرح کی شخصیات موجود ہوں اور پھر اگر ہم ان ساری شخصیات کے باوجود اپنی تسکین صرف اُن لوگوں میں یاچند نعروں کی بنیاد پر تلاش کرنے کی کوشش کریں جو ان تمام چیزیوں کو نظرانداز کردیتے ہوں تو اس سے ہمیں بہت نقصان ہوا۔ایم کیو ایم نے تہذیب کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا۔ ہمارے نوجوان لڑکوں کی خوبی یہ تھی کہ ان کے پاس صلاحیت تھی۔ کراچی سمیت شہری سندھ کے اندر پڑھے لکھے لوگ تھے۔ وہ مقابلے میں آگے آتے تھے تو ان کو روکا جاتا تھا، میرٹ کو روکا جاتا تھا۔ لیکن میرٹ ہماری اتنی بڑی صلاحیت تھی کہ اگر یہاں پر ہم کچھ نہیں کرپاتے تھے تو ملک کے باقی حصوں میں یا بیرونی ممالک میں ہمیں پذیرائی مل جایا کرتی تھی۔ میرٹ ہمارے پاس تھا، نوجوان پڑھے لکھے تھے، پڑھانا لکھانا ایک فخر سمجھا جاتا تھا، تہذیب تھی، تمدن تھا، بزرگوں کا ادب و احترام تھا۔ ایم کیو ایم نے وقتی طور پر تو یہ ہوسکتا ہے کہ مہاجروں کو کوئی زبان دے دی ہو، لیکن اس نے ہماری تمام خصوصیات پر قدغن لگائی اور ہماری تہذیب، ہماری روایت، ہمارا تمدن اور ہماری شناخت چھین لی۔ اس نے یہ انداز اپنایا کہ چونکہ باہر کے لوگ یہاں نقل کرکے امتحان پاس کرلیتے ہیں اور نمبر لے لیتے ہیں تو ہم بھی اپنے نوجوانوں کو نقل کرائیں گے۔ اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے جیسے جیسے ایم کیو ایم تیز رفتاری سے جڑ پکڑتی گئی نقل بڑھتی چلی گئی اور ہمارے نوجوانوں کے پاس جو ایک صلاحیت تھی وہ ختم ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ 1980ء کے عشرے کے اواخرمیں کراچی اور حیدرآباد میں صورت حال یہ تھی کہ لوگ اپنے گھروں میں پیپر دیتے تھے۔ بے شمار لوگ ایسے بھی تھے اور میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے پیپر خود نہیں دیتے تھے، دوسرے لوگ دیتے تھے، گھر میں بیٹھ کر دیتے تھے، اور کسی کی ہمت نہیں تھی کہ کچھ کہہ سکے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ اگر اس درجہ بگاڑ پیدا ہوگا تو ہماری تعلیم کا معیار کیا رہ جائے گا؟ اچھا پھر جب آپ اقتدارمیں آگئے تھے اورسندھ کے دونوں تینوں شہر آپ کے ہاتھ میں آگئے تھے تو آپ اُس وقت معاملات درست کرلیتے، آپ تعلیم میں آگے بڑھتے، تہذیب میں آگے بڑھتے، آپ میرٹ کو قائم کردیتے تو بات مثبت ہوتی، اور اسی بات کی جانب پروفیسر غفور صاحب اشارہ کیا کرتے تھے کہ اب جب آپ جیت گئے ہیں توہم آپ کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن اس صورت میں جب آپ مہاجروں کی درست رہنمائی کریں۔ لیکن ظاہر ہے اُس وقت وہ مقبولیت، طاقت اور اقتدار کے نشے میں بدمست تھے۔ الطاف حسین کی قیادت اور ایم کیو ایم کے غلبے نے سب کچھ تباہ کردیا۔ ہماری تہذیب کو، ہماری سماجیات کو ادب و احترام اور شرافت محلوں اور سماج سے اٹھ گئی اور کچھ بھی نہیں بچا۔
سوال:گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئے،کیا اس صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ کراچی لسانی سیاست کے دائرے سے نکل آیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمن:آہستہ آہستہ جب ایم کیو ایم پر جبر بڑھا تو ایک بہت بڑی تعداد ایسی سامنے آئی جو ایشوز پر حمایت کرتی تھی، ایم کیو ایم کی مخالفت کرتی تھی لیکن جبر کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے ساتھ رہتی تھی، اور ان کی اتنی بڑی طاقت تھی کہ کسی دوسری جانب دیکھنا مشکل ہوتا تھا۔2001ء میں جب ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا اور نعمت اللہ خان صاحب سٹی ناظم بنے اُس کے بعد 2002ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف تحریک چلی تو کراچی اور حیدرآباد پلٹ گئے تھے اور انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ ایک طرح سے ایم کیو ایم کی مخالفت سے زیادہ انہوں نے امریکہ کی عالمی بالادستی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ کراچی میں تحریک چل رہی تھی، اس کی حمایت کی تھی۔یہ تحریک اس بنیاد پر تھی کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ تو اُس وقت کراچی اپنی اصل شناخت کے ساتھ واپس آرہا تھا، اور پھر ساتھ میں نعمت اللہ صاحب نے شہر کراچی میں کام کرکے دکھادیا، اور2005ء تک کراچی پلٹ چکا تھا، ایم کیو ایم سیاسی اعتبار سے اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اور اس کا فطری انجام یہ نہیں کہ آپ اسے مار کر ختم کردیں، کیونکہ ایسا ممکن نہیں۔ ہم نے 1990ء میں بھی یہی مؤقف اختیار کیا کہ آپریشن مسئلے کا حل نہیں ہے، اس سے تو ایم کیو ایم کومزید تقویت ملے گی۔ تو 2002ء میں کراچی پلٹنا شروع ہوا اور 2005ء میں کراچی جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑا تھا کہ نعمت اللہ خان کو دوبارہ آنا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اُس وقت بھی ایم کیو ایم کے خاصے ووٹ تھے، لیکن اتنے بہرحال نہیں تھے کہ وہ جیت سکتی۔ لیکن اُس وقت امریکہ کے مفادات بھی تھے اور خود پرویزمشرف کا اپنا ذہن تھا کہ اس نے ایم کیو ایم کے ساتھ ایک طرح سے این آر او کرلیا اور شہر دوبارہ ایم کیو ایم کے حوالے کردیا۔ اور وہیں سے ایم کیو ایم نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ اس نے سوچا کہ ووٹ وغیرہ کیا عوام سے لیں گے، جتنا کوئی دیتا ہے دے دے، لیکن اصل میں تو ہم کو خود ووٹ پورے کرنے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے اپنے یونٹ کو اہداف دیے کہ ہمیں اتنے ووٹ چاہئیں۔ چاہے بیلٹ باکس میں سے اتنے ووٹ نکل رہے ہوں جتنے حلقے میں ووٹر نہ ہوں۔ اور یہ سارے تماشے ہم نے دیکھے۔ تو بات ہے کہ ایک طرف باقی ماندہ عوامی حمایت، پھر اس کے بعد جبر، اور پھر اس کے بعد ریاست کی سرپرستی میں لوگوں کی رائے کو کچلا گیا۔ جبر کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک آبادی ہے جو ہماری میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے جو عموماً کاروباری لوگ ہوتے ہیں، انہوں نے 2002ء میں حسین آباد میں ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ ڈال دیا۔ اگلے دو سال تک ان کے کلینک میں کئی ڈاکٹر قتل کردیے گئے اور کے بی سی اے کو استعمال کرکے ان کی دکانیں اور ان کے فلیٹ توڑنے شروع کردیے گئے، بالآخر انہوں نے توبہ کی کہ ہم ان کے خلاف نہیں جاسکتے۔ تو یہ جبر بلکہ ریاست کی پشت پناہی کے ساتھ جبر اور پوری طرح سے یہ بات منوا لینا کہ ہمارے سوا شہر میں کوئی دوسری طاقت نہیں ہے یہ وہ جاگیرداری ہے جو شہری جاگیرداری کہلاتی ہے اسے ایم کیو ایم نے متعارف کروایا ، جبکہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں رورل فیوڈل پر مشتمل ہیں، لہٰذا ان دونوں کا اتحاد ہوجاتا تھا۔ تو ایک طرح سے سندھ کے عوام کی قسمت میں یہ جاگیردار رہ گئے۔ یہ وہ نظام تھا جس نے ذہنی طور پر بھی ہمیں پس ماندہ بنادیا۔ یعنی دیہی آدمی تو اس لیے پس ماندہ ہے کہ وہ اپنے وڈیرے کا غلام ہے، لیکن کتنے برس ایسے گزر گئے کہ کراچی کے لوگ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم اس جبر سے نکل سکتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ کراچی کے لوگوں نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے طرز سیاست اور دعووں سے اختلاف کریں، لیکن چونکہ اس نے نعرہ ایسا دیا تھا اور اس میں طاقت بھی تھی، اس میں حمایتبھی تھی، اس میں اسٹیبلشمنٹ بھی تھی اور اس میں اربوں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی تھی، اور ظاہر ہے عمران خان نے بات بھی ایسی کی تھی کہ ’اسٹیٹس کو‘ ختم ہونا چاہیے اور تبدیلی آنی چاہیے، تو 2013ء اور 2018ء میں جو اس کو رسپانس ملا وہ نیشنل کمپین کا رسپانس تھا۔ لوگ مقامی حالات میں جکڑے ہوئے تھے لیکن نیشنل کمپین سے متاثر ہوکر انہوں نے رسپانس دیا۔ تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ کراچی کے اندر قومی جذبہ، اور اتحاد کا جذبہ موجود ہے۔ اس میں خاص طور پر جماعت اسلامی نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جب سب اپنا بوریا بستر لپیٹ گئے، یہاں تک کہ مذہبی تنظیموں نے بھی پسپائی اختیار کرلی تھی تو اُس وقت جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم ہار نہیں مانیں گے، ہم نظریاتی تشخص برقرار رکھیں گے، ہم امت سے اس شہر کو جوڑتے رہیں گے۔ اس لیے ایم کیو ایم کے بدترین جبر کے ادوار میں بھی جماعت اسلامی نے ان تمام ایشوز کو ٹیک اپ کرکے کراچی کے لوگوں کی اس نفسیات کو برقرار رکھا کہ جن کے اندر ملت، امت، قوم اور وطن کے ساتھ اپنائیت کا جذبہ موجود ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، ہم ضرور انتخاب ہارتے رہے مگر اس جذبے کو سرد نہیں ہونے دیا، اور یہ نظریاتی تشخص ہے جس کی قیمت بھی ہم نے ادا کی۔ ہمارے کارکنان شہید ہوئے لیکن ایم کیو ایم کے جبر اور فاشزم کی مزاحمت کرتے رہے۔
سوال:جماعت اسلامی نے کراچی کے عوامی مسائل پر گفتگو شروع کی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے اپنی جدوجہد کا آغازکیا ہے۔ اس وقت بھی یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ جماعت اسلامی کو عوام کی طرف سے پذیرائی مل رہی ہے۔ ریفرنڈم کے دوران بھی عوام نے جماعت اسلامی کی جدوجہد پر مثبت اظہارِ خیال کیا ہے۔آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمن:دو باتیں ہیں۔ جب ایم کیو ایم کا آغاز ہوا تو انہوں نے سب سے پہلا ہدف جماعت اسلامی کو بنایا۔ ظاہر ہے کہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ جب تک جماعت اسلامی اور جے یو پی کو غیر مؤثر نہیں کریں گے، کام نہیں بنے گا۔ اور یہ بین الاقوامی اور قومی اسٹیبلشمنٹ کے اہداف میں سے ایک ہدف بھی تھا۔ ایک طرف ایم کیو ایم ہمیں نشانہ بنارہی تھی۔ غفور اٹھا، جماعتی ٹھا اور نورانی ٹھا کہہ رہی تھی، اور دوسری طرف ضیاء الحق کی حکومت میں غوث علی شاہ ہماری بلدیہ توڑ رہے تھے، اور اس جرم میں توڑ رہے تھے کہ ہم موٹر وہیکل ٹیکس کا مطالبہ کررہے تھے۔ افغانی صاحب کی پوری بلدیہ کو آپ نے توڑ دیا۔ اگر اُس وقت بلدیہ نہ توڑی جاتی تو شاید چیزیں دوبارہ سے جماعت کی طرف آجاتیں۔ عبدالستار افغانی صاحب اس شہر کے لیڈر کے طور پر سامنے آجاتے، اور وہ جو تعصب والا عنصر تھا وہ بھی ختم ہوجاتا۔ ایم کیو ایم کے نعرے اپنی جگہ چل رہے تھے، اور اس کے علاوہ جو کراچی کی ترجمانی کرسکتا تھا اُس کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ عرض یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اُس وقت ایم کیو ایم کی اس طرح مخالفت نہیں کی، یہ ضرور کہا اور اس پر زور دیا کہ جس طرح آپ چل رہے ہیں اس طرح کبھی بھی حقوق نہیں ملیں گے۔ ایک طرف قومی سیاست کا تڑکا تھا ایم ایم اے، اور دوسری طرف ایم کیو ایم کی چیزوں کو اجاگر کرنا کہ آپ نے نوجوانوں کو کیا بنادیا، بھتہ خور بنادیا، دہشت گرد بنادیا، بوری بند لاشوں کا کاروبار کیا، سب سے زیادہ مہاجروں کا قتل کیا۔ جب ہم نے یہ آواز دی تو اس نے زور پکڑا، اور اگر ہمیں جبری طور پر روکا نہ جاتا تو یہ دونوں چیزیں مل کر کراچی کو ان کے سحر سے آزاد کرسکتی تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے پرویزمشرف نے ان کو سپورٹ کیا اور ان کا جبر بڑھتا چلا گیا۔
جماعت اسلامی نے ڈٹ کر ایم کیو ایم کا مقابلہ کیا، پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے تاریخی طور پر عوامی مسائل اقتدار کے بغیر بھی حل کرنے کی کوششیں کی ہیں۔آج بھی کراچی شہر کے اندر جماعت اسلامی کی خدمات کو پذیرائی مل رہی ہے۔
ایک زمانہ تو ایسا گزرا کہ آپ کسی بھی موضوع پر بات کریں تو آپ کی بات لوگوں کے سامنے نہیں آپاتی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے لوگوں کے لیے یا عوام کے مجموعی مسائل مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ پر گفتگو نہیں کرتی تھی، ساری باتیں ہوتی تھیں، لیکن اس کی نوعیت بہت محدود تھی، آپ بہت زیادہ کر بھی نہیں پاتے تھے، اور جو کرلیتے تھے اس کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا تھا۔ مثلاً اگر ہم ایک بیان دیں کہ کراچی میں سڑکوں کی حالت بدترین ہے تو وہ بیان کہیں لگتا ہی نہیں تھا، الطاف حسین کا بیان بڑا بڑا لگ جاتا تھا۔ محنت ہماری، ادارہ ہمارا، لیکن ہمارا کہیں تذکرہ ہی نہیں ہے۔ تو اس کے نتیجے میں چیزیں سامنے نہیں آپا رہی تھیں۔ مثلاً کے ای ایس سی کی جب نج کاری ہوئی تو ہم نے2005 ء میں اس کی مخالفت کی تھی، لیکن آج کراچی کے لوگوں کے دماغ میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ ہم نے اس کی کوئی مخالفت بھی کی تھی۔ میڈیا پر ان کا اتنا جبر تھا، ان کی مرضی کے بغیر کچھ چل نہیں سکتا تھا۔ کے الیکٹرک سے تو خاص طور پر انہوں نے اتحاد کیا ہوا تھا۔ میں مثال دے رہا ہوں، یہ مسئلہ بھی تھا۔ تبدیل شدہ حالات میں مواقع پیدا ہوتے ہیں، ان مواقعوں کو ہم نے مؤثر طریقے سے پلان کیا اور اس خلاکو محسوس کیا کہ کراچی کے مسائل تو ویسے کے ویسے ہی ہیں بلکہ بڑھ گئے ہیں، شہر پیچھے کی طرف چلا گیا ہے۔ ان تیس چالیس برسوں نے ہمیں مزید تباہ کردیا ہے، اور اگر ہم نے اب آواز بلند نہیں کی تو پھر کوئی لسانی گروہ اٹھ سکتا ہے اور پھر شہر کو پینتیس سال کے لیے مزید تباہ کرسکتا ہے۔ تو ایک طرح سے یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے، فرض بھی ہے، اور جماعت اسلامی جیسی تنظیم کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس کام کو انجام دے، اور ہم نے چیزوں کی نشاندہی کی۔ پہلے ان چیزوں کو ٹیک اپ کیا جن مسائل پر کوئی آواز بلند نہیں کرتا تھا ان پر ہم آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا چلاگیا اور ہم نے مجموعی طور پر کراچی کے حوالے سے 14نکات جن میں خاص طور پر بڑی بڑی چیزیں آبادی، اختیار، کوٹہ سسٹم، ملازمتیں، کے الیکٹرک اور ٹرانسپورٹ وغیرہ پر بات شروع کی ہے جس کا غیر معمولی رسپانس آیا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ کراچی بدل گیا ہے اور جماعت اسلامی کی طرف آگیا ہے، لیکن یہ ضرور محسوس کررہا ہوں کہ لوگوں میں ایک مثبت تبدیلی آرہی ہے، اور لوگوں میں یہ اعتبار بڑھتا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی ہی وہ جماعت ہے جو ہمارے مسائل کو صحیح طرح سے سمجھتی بھی ہے اور انہیں اجاگر کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ پہلے بھی کراچی کی تعمیر و ترقی میں جماعت اسلامی نے بھرپور کردار ادا کیا ہے، اور اب بھی اگر آپ صحیح معنوں میں اور ایمان داری کے ساتھ دیکھیں تو جماعت اسلامی کے سوا کوئی نہیں ہے جو شہر کراچی کی خدمت کرسکے اور یہ بات اب آہستہ آہستہ لوگوں کی سمجھ میں بھی آرہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ لوگوں کی رائے بدل رہی ہے اور بدلے گی، لیکن کوئی بڑی بات کرنے سے ابھی ذرا احتراز کرنا چاہتا ہوں۔
سوال:جماعت اسلامی مردم شماری کو ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے لائی ہے۔ جماعت اسلامی کا مؤقف یہ ہے کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ ہے جب کہ مردم شماری میں صرف ڈیڑھ کروڑ ظاہر کی گئی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟کم کیوں دکھائی گئی ہے؟
حافظ نعیم الرحمن:دو بڑے مقاصد ہیں۔ اورگزشتہ مردم شماری ہی نہیں بلکہ ہر مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس پر تو مجھے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ آبادی ڈیڑھ کروڑ نہیں ہے، کیونکہ اس حوالے سے بین الاقوامی سطح کی، اور آبادیات کے جتنے بڑے سائنس دان ہیں خواہ مہتاب ترین ہوں یا عارف حسن ہوں، یا ہمارے پرانے ماسٹر پلان کے اعداد و شمار ہوں، عالمی بینک کی رپورٹ ہو یا امریکن ریسرچ کے بہت سے ادارے ہوں… ان سب کے مطابق ہماری آبادی ڈھائی سے تین کروڑ تو بنتی ہے۔ دوسرا سوال ہے کہ یہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارا جو طبقہ بالا ہے اُن میں سیاست دان ہوں یا سیاست دانوں کو لانے والے… ان کے ذہنوں میں ہمیشہ سے کراچی کے حوالے سے یہ رہا ہے کہ یہ ابھر نہ سکے۔ یعنی وہ حیثیت اختیار نہ کرجائے کہ ہمارے لیے مسئلہ پیدا کردے۔ چونکہ یہ شہر منی پاکستان کی حیثیت رکھتا ہے اور اب تو مہاجروں کا بھی مسئلہ نہیں ہے، اب تو دوسری آبادیاں بھی بہت ہوگئی ہیں، اگر یہ شہر اٹھ جائے تو سب کے لیے چیلنج پیدا کرتا ہے۔ ایک تو ان کے ذہن میں یہ بات ہے، اور اہلِ کراچی کو سمجھنا چاہیے کہ الگ الگ ہوکر نہیں بلکہ متحد ہوکر ہمیں اپنی اپنی پارٹیوں میں بھی لوگوں کے ذہن بدلنے کی کوشش کرنی ہوگی، اور مجموعی طور پر اپنے آپ کو اس طرح سے منوانا ہوگا کہ کوئی اگر آپ کا حق دیتا نہیں ہے تو آپ چھیننے کی صلاحیت پیدا کریں، اس طرح لوگ خودبخود بات کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سندھ میں ہمیشہ سے ایک لسانی تقسیم پیدا کی جاتی ہے۔ اس لسانی مسئلے کا حل یہ ہے کہ کراچی کی آبادی کو درست تسلیم کرلیا جائے۔ یہ درست تسلیم ہوجائے گی تو صوبائی اسمبلی کے اندر توازن پیدا ہوجائے گا۔ اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کراچی سے ووٹ لے یا کوئی اور لے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن کراچی کا ووٹر یہ سوچ کر ووٹ ڈالے گا کہ میں جس کو ووٹ دے رہا ہوں وہ اقلیت میں نہیں ہوگا بلکہ وہ اکثریت میں آسکتا ہے۔یہ مائنڈسیٹ کا بہت بڑا فرق ہے۔ ابھی کراچی کا ووٹر جس کو بھی ووٹ ڈالتا ہے یہ سوچ کر ڈالتا ہے کہ فیصلہ تو میری مرضی کے مطابق نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہماری آبادی کے درست اعداد و شمار آجائیں اور 62سے 65سیٹیں صرف کراچی کی ہوجائیں تو پھر یہ کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ کراچی کا ووٹر اس بنیاد پر ووٹ ڈال رہا ہے کہ کچھ ہونا ہی نہیں ہے، پھر اس کو ایک امید پیدا ہوگی، جو حقیقی قوت ہوگی اس کی طرف لوگوں کا رجحان ہوگا، اور ہوسکتا ہے کہ پھر کوئی لہر بھی بن جائے اور لوگ پھر اسی کو منتخب کریں جو اسمبلی میں شہر کی درست نمائندگی کرے اور مسائل کو اجاگر کرسکے۔ صرف اکثریت کی بنیاد پر نہ ہارجائے بلکہ اکثریت میں یہ خود بھی آسکتا ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے، نفسیاتی فرق، سماجی فرق اور پورا ایک جمہوری عمل ہے جس کے نتیجے میں بہتر کی امید کی جاسکتی ہے۔
سوال:کراچی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ وفاق کو ستّر فیصد وسائل فراہم کرتا ہے جبکہ سندھ کو پچاسی فیصد فراہم کرتا ہے، جبکہ اس پر قیصربنگالی (ماہر اقتصادیات) کو اعتراض ہے، ان کا کہنا ہے کہ کراچی پینتیس سے چالیس فیصد وفاق کو دیتا ہے، باقی پورٹ اور ایئر پورٹ پورے ملک کا ہوتا ہے۔ لیکن اعدادوشمار کچھ بھی ہوں اس شہر پر رقم پانچ فیصد بھی خرچ نہیں ہوتی،آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمن:یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کراچی یہ کام کرتا ہے ،نہیں کررہے اسی لیے تو تحریک چلارہے ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہے کہ وفاق کے ادارے یہاں پر موجود ہیں اور وفاق کے ہیڈ کوارٹر جتنے یہاں پر ہیں ان کا ٹیکس یہاں کا کہلاتا ہے، لیکن یہ ٹیکس بھی دس سے پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ ابھی ٹیکس کی رپورٹ آئی ہے، اس کے مطابق 41فیصد ٹیکس کراچی کا ہے اور باقی پورے ملک کا ہے۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آپ تو ڈیڑھ کروڑ شمار کرتے ہیں بائیس کروڑ میں سے، جبکہ ہم تین کروڑ کہہ رہے ہیں۔ تو آپ کے حساب سے جو ڈیڑھ کروڑ ہیں وہ آپ کو41 فیصد دے رہے ہیں، اور بقیہ ساڑھے بیس کروڑ آپ کو 59 فیصد دے رہے ہیں۔ اب اگر وہ دس فیصد بھی نکال دیں جو آپ کے حساب سے پورٹ اور دیگر ذرائع سے ہیں، اس کے باوجود بھی ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ٹیکس کے بہت تکنیکی مسائل ہوتے ہیں، ایک انکم ٹیکس ہے، ایک مجموعی ریونیو جنریشن کی بات ہے۔ کراچی کے بہت سارے اداروں کے ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہیں جو وہاں پر شمار ہوتے ہیں، اس کو بھی نکالیں، اس میں بھی کراچی سے تعلق رکھنے والے بہت سارے ہوں گے۔ ہم یہ کہہ بھی نہیں رہے۔ ہم پاکستان کے فریم ورک میں رہتے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ اگر کراچی پورٹ سٹی ہے تو اس کو زیادہ ہی کرنا چاہیے۔ لیکن جتنا کررہے ہیں اس کا تھوڑا سا حصہ تو ہمیں دے دو۔ لاہور میں میٹرو ٹرین آپ کو کافی نہیں لگی تو آپ نے اورنج ٹرین چلادی، آپ نے ملتان اور اسلام آباد میں میٹرو بنادی، اور کراچی میں آپ نے کیا طے کیا، گرین لائن جیسا ناقص منصوبہ… اور وہ بھی نوازشریف نے مکمل کرکے نہیں دیا، اور اس پر پی ٹی آئی بھی اب کام نہیں کررہی ہے۔ کراچی کے عوام کو تو ذلیل و خوار کرکے چھوٹی سی چیز دے دیتے ہیں اور پھر احسان جتاتے ہیں۔
سوال: عمران خان نے کراچی کے لیے گیارہ سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے، لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے؟
حافظ نعیم الرحمن:ڈیڑھ سال پہلے تقریر ہوئی تھی پیکیج کا نمبر مختلف تھا۔ آپ اٹھا کر دیکھ لیں، وہیK-4، وہی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام، وہی کچھ منصوبوں کے نام۔ جب 162ارب روپے تھے۔ لیکن جب زیادہ پریشر بن گیا۔ تو اب گیارہ سو ارب کہہ دیا۔ یہ سب باتوں کی حد تک ہے، یہ سب کرے گا کون؟ پیسے آئیں گے کہاں سے؟ ورلڈ بینک کیوں پیسے دے گا؟ کیوں رکاوٹ بنی ہوئی ہے؟ کے4 کیوں نہیں بن سکا؟ یہ سوالات تو ہیں ناں! سال ہونے والا ہے ابھی تک کون سے سوالوں کے جواب انہوں نے دے دیے ہیں؟ یہ سب دھوکا ہے۔
سوال:اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی بڑا شہر سرکلر ریلوے، زیر زمین ریلوے کے نظام، اور بڑی بسوں کے بیڑے کے بغیر ٹرانسپورٹ کے مسئلے پر قابو نہیں پاسکا ہے۔ بدقسمتی سے کراچی میں ٹرانسپورٹ کی یہ سہولتیں موجود نہیں۔ اس صورت حال میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟
حافظ نعیم الرحمن: کراچی میں ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نام سے ایک کمپنی ہوتی تھی۔ ایم کیو ایم کے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کی موجودگی میں وہ بند ہوگئی تھی۔ اس پر ایم کیو ایم نے چوں بھی نہیں کیا تھا، شاید وہ اس سازش کا حصہ رہی ہوگی۔ کراچی میں سرکلر ریلوے چلتی تھی، ایم کیو ایم جب پوری طاقت میں تھی، عروج پر تھی تو وہ ڈیولپمنٹ کے بغیر بند ہوگئی۔ کراچی کے لوگوں کا سب سے بڑا یہی سوال ہے کہ جن لوگوں کو ہم اتنا سپورٹ کرتے رہے انہوں نے کیا کیا؟ پھر کراچی کے مسئلے کا حل ٹرانسپورٹ بھی ہے اور وہ ٹرانسپورٹ جس جگہ چلنی ہے اس کا سسٹم بھی، جس کو آپ ماس ٹرانزٹ کہتے ہیں۔ نعمت صاحب نے اس مسئلے کو ایڈریس کیا تھا اور نعمت اللہ خان صاحب نے ایک طرف جب گورنمنٹ سیکٹر کی چیزیں بند تھیں، اس پر کام کیا تھا۔ منصوبہ حتمی شکل اختیار کر گیا تھا، چین کی ایک کمپنی سے چالیس سال کا معاہدہ کرلیا گیا تھا، ان لوگوں نے اپنے بینکوں سے بات کرکے پیسے منظور کرا لیے تھے، لیکن اُس وقت ایم کیو ایم حکومت میں تھی۔ بڑا تاثر یہی ہے کہ پرویزمشرف نے حمایت کی۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے، لیکن پرویزمشرف نے اس پروجیکٹ کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے بھی ضمانت نہیں دی گئی، ایم کیو ایم کے وزیروں وغیرہ نے بھی وفاقی سیکریٹری کے ساتھ مل کر میٹنگ میں رکاوٹ ڈالی، اور خود نعمت اللہ صاحب کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ پرویزمشرف نے اس معاملے میں زیادتی کی، اگر وہ چاہتے تو کسی بھی رکاوٹ کے باوجود اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے تھے، لیکن انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے کچھ اور لوگ ہیں جو آئیں گے اور دیکھیں گے‘‘۔ شاید ان کے کچھ عزیز رشتہ دار ہوں۔ اس طرح یہ پروجیکٹ آگے بڑھ سکا اور نہ ہی کراچی کا ٹرانسپورٹ کے حوالے سے انفرا اسٹرکچر بہتر ہوسکا۔
سوال: اس مسئلے کے حل کے لیے آج جماعت اسلامی کے پاس کیا تجاویز ہیں؟
حافظ نعیم الرحمن:ہمارے پاس اب بھی پوری ورکنگ موجود ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی کا انٹی گریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم ہی کراچی کے مسئلے کا طویل المدتی حل ہے، اور کوئی بہت زیادہ سرمایہ کاریبھی نہیں چاہیے، جتنے کا یہ اعلان کررہے ہیں اسی میں یہ سارے کام ہوسکتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ وژن کس کا ہو اور کرنے کی صلاحیت کون رکھتا ہے، اور امنگ کتنی ہے لوگوں میں یہ کرنے کی؟ ورنہ پیپلز پارٹی سے کیا آپ توقع کرسکیں گے کہ وہ کراچی میں کوئی ٹرانسپورٹ سسٹم بنا سکتے ہیں؟ جو گرین بس نعمت اللہ خان صاحب لائے وہ مصطفیٰ کمال کے زمانے میں بند ہوگئی۔ بتیس کالج نعمت اللہ خان نے بنائے، اس کے بعد ایک نہیں بنا۔ K-1 منصوبہ عبدالستار افغانی صاحب نے بنایا، کے ٹو درمیان میں بنا، کے K-3 منصوبہ نعمت اللہ صاحب نے بنایا۔ اس کے بعد K-4 نہیں بن سکا۔ ایک قطرہ پانی کا اضافہ نہیں ہوسکا۔ نہ پانی کا اضافہ کرسکے، نہ ٹرانسپورٹ میں بہتری لاسکے، جو بسیں تھیں وہ بند ہوگئیں، جو کالج تھے ان میں مزید اضافہ نہیں ہوا۔ تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ نعمت اللہ صاحب کے بعد مصطفیٰ کمال نے کیا کیا تھا جس پر اتنا شور ہوتا ہے؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ میڈیا پر ان کی اتنی بڑی طاقت تھی کہ ان کی ہر چیز کی نمود و نمائش ہوتی تھی اور نعمت صاحب کی ہر چیز کو مندمل کردیا جاتا تھا۔ چند منصوبے ضرور اس دور میں مکمل ہوئے جو نعمت اللہ خان صاحب نے شروع کیے تھے۔ کوئی ایک منصوبہ بتادیں جو مصطفیٰ کمال کے زمانے میں بنا ہو اور اس پر کام شروع ہوگیا ہو۔ رُکے ضرور ہیں ۔ مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم کی باقیات اور اس کے تسلسل کے سوا کچھ نہیں ہیں جنہیں زبردستی اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سوال:ایم کیو ایم پوری سیاسی طاقت کے ساتھ سندھ میں موجود رہی، لیکن کراچی کے عوام کے لیے کوئی بڑا کام نہیں ہوا، بلکہ رکے ہوئے کام بھی نہیں ہوسکے، یہ نااہلی تھی یا کوئی اور وجہ تھی؟
حافظ نعیم الرحمن:ظاہر ہے تجزیے والی بات ہے۔ میں طالب علمی میں ایسی باتیں سنتا تھا ان لوگوں سے کہ دیکھو! مسئلہ حل نہ کرائو، مسئلہ حل کرائو گے تو لوگ آپ کے پاس آئیں گے کیوں؟ یہ ان کے بڑوں کی نفسیات تھی۔ عوام کو اتنا پتا نہیں ہوتا، ان کو جو لوگ چلانے والے تھے وہ سپر ڈوپر لوگ تھے اور انہوں نے ان کی پوری اٹھان اسی بنیاد پر رکھی تھی۔ انہوں نے کبھی بھی اصل مسائل کی نشاندہی نہیں ہونے دی۔ یہ مطالبے کیا کرتے رہے؟ ہمیں اتنی نمائندگی وزارتوں میں دی جائے۔ ہمیں یہ محکمہ دے دو، ہمیں وہ محکمہ دے دو، بس! انہوں نے کبھی یہ مطالبہ کیا ہی نہیں کہ کراچی کو ٹرانسپورٹ کا یہ سسٹم دے دو، کراچی کو پانی کا یہ نظام دے دو۔ اور اگر کہا بھی تو اسمبلی میں بات کرکے خاموش ہوگئے۔ ہر حکومت میں موجود رہے مگر کبھی کراچی کے اصل مسائل پر بات نہیں کی۔ مصطفیٰ کمال کے زمانے میں ایم کیو ایم کی کونسلر سے لے کر یوسی ناظم تک، ٹائون، سٹی، صوبہ اور وفاق سب میں سو فیصد اجارہ داری تھی، کوئی رکاوٹ نہیں تھی انہیں، صوبہ سو فیصد ان کی ڈسپوزل پر تھا۔ آج تو پیپلز پارٹی رکاوٹ ہے، اُس وقت نہیں تھی۔ اُس وقت تو ڈمی قسم کے وزرائے اعلیٰ تھے ارباب غلام وغیرہ۔ سارا نظام ایم کیو ایم کے ہاتھ میں تھا، تو کیوں ایم کیو ایم نے مردم شماری کا مسئلہ حل نہیں کروایا؟ کیوں نہیں اختیار کو برقرار رکھا جبکہ 2009ء میں بھی آپ پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صلاحیت کی بھی کمی تھی اور اس طرح یہ سوچتے بھی نہیں تھے۔ یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں اب ہمیشہ کے لیے طاقت حاصل ہوگئی ہے، کچھ بھی ہو لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ تو جب تک طاقت ہوتی ہے اس کا ایک نشہ ہوتا ہے، اس نشے میں یہ سوچتے تھے کہ کوئی ہم سے ہل نہیں سکتا۔ آپ ان کی چار سال پہلے کی چیزیں دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہوگا کہ واقعی ایسا ہی تھا، اور عوام بھی سوچ نہیں سکتے تھے کہ یہ بھی کبھی زوال پذیر ہوسکتے ہیں۔ یہ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، لیکن بہرحال عوام نے بہت سفر کیا، کراچی نے بہت سفر کیا، بہت نقصان پہنچا۔
سوال: کراچی کے ایشوز پر ملک کی قومی و سیاسی جماعتوں کے کردار کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمن: قومی جماعتوں کو ایک ایک کرکے لے لیتے ہیں۔ مسلم لیگ نوازشریف ہے۔ تیس بتیس سال میں نوازشریف کراچی میں کوئی جلسہ کرنے نہیں آئے، انہیں اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ یہاں جلسہ کرنا چاہیے، حالانکہ انہیں یہاں سے ووٹ ملتے رہے ہیں۔ جب ان سے یہ بات کی جائے تو کہتے ہیں کہ ہمیں جلسوں کی ضرورت نہیں، ہم کام پر یقین رکھتے ہیں۔ تو پھر گوجرانوالہ میں کیوں کرتے ہو، لاہور میں کیوں کرتے ہو؟ ان شہروں کو اپنا سمجھتے ہوں ناں! پشاور میں بھی کرلیتے ہو، کم کیے ہیں، لیکن جلسے کیے ہیں۔ کراچی میں جلسہ بھی نہیں کرتے۔ کراچی میں انہوں نے دیا کیا ہے؟ گیارہ مہینے میں انہوں نے لاہور میں میٹرو بنادی، بہت اچھا کیا، سلام پیش کرتے ہیں، لاہور بھی پاکستان کا شہر ہے۔ ان کے اقتدار کے دو سے ڈھائی سال میں گرین لائن پروجیکٹ مکمل نہیں ہوا جو انفرااسٹرکچر میں اس سے چھوٹا پروجیکٹ تھا۔ نواز لیگ نے خود سے پیش رفت کرکے کام نہیں کیا، اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب سے ہمیں ووٹ مل جائیں گے تو ہماری اکثریت ہوجائے گی، اور ہمیں تو کراچی پر اتنی توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ ان کی نفسیات ہے جس کے نتیجے میں نہ تو کوئی لیڈرشپ دیتے ہیں، نہ تنظیم بناتے ہیں، نہ اتنی دلچسپی لیتے ہیں، نہ کوئی سیاسی سرگرمیاں کرتے ہیں۔ اب دوسری طرف ہے پیپلز پارٹی۔ اس نے تو کراچی کو تہس نہس کردیا ہے، اور پیپلز پارٹی یہاں تعصب پھیلاتی ہے۔ ایم کیو ایم جیسی تنظیمیں پیپلز پارٹی کو سوٹ کرتی ہیں۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کا نعرہ لگایا، پیپلز پارٹی سندھیوں کا نعرہ لگاتی ہے، تاکہ دونوں کی دکان چلتی رہے۔ ان کو سوٹ کرتا ہے کہ کوئی صوبے کا نعرہ لگادے اور دونوں پھر اس پر سیاست شروع کردیں۔ جو حقیقی مسئلہ ہے کراچی کی آبادی کا، وہ اس کو کہتے ہیں، گاتے ہیں مگر اسے حل نہیں کرواتے۔ تو پیپلز پارٹی تو کراچی کو کھاگئی، بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اس وقت جتنی کرپشن، لوٹ مار اور تمام محکموں پر قبضہ ہے اور بلدیہ کو بالکل مفلوج کردیا گیا ہے، یہ سب کام پیپلزپارٹی نے کیے۔اس کے بعد پی ٹی آئی ہے اس نے بھی کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔
سوال: کراچی کے مسائل کو جماعت اسلامی نے ملکی سطح پر اجاگر کیا، آپ کراچی سے باہر بھی مختلف پروگراموں میں شریک رہے، کیا تاثر لے کر کراچی واپس آئے؟
حافظ نعیم الرحمن: بہت اچھا تاثر لایا، مجھے بہت اچھا محسوس ہوا، سب سے اچھی بات یہ ہے کہ جو ’’ہمارا حقوق کراچی مارچ‘‘ ہوا تو امیر جماعت نے وہاں اعلان کیا کہ ہم کراچی کے حقوق کے حوالے سے پورے ملک میں14 اکتوبر کو احتجاج کریں گے۔ میں خود اسلام آباد گیا، امیر جماعت وہاں تھے اور ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد کے شہریوں نے کراچی کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، یہ ایک بہت بڑا شفٹ بھی ہے کہ جب کوئی قومی سیاست میں کراچی کو اہمیت نہیں دیتا تو
(باقی صفحہ نمبر 182)
جماعت اسلامی جیسی پارٹی جس کی انتخابی حیثیت بھی نہیں ہے، وہ کراچی کے مسائل کو ملکی سطح پر اٹھائے۔ ہم اس پر شکریہ ادا کرتے ہیں امیر جماعت کا، پوری جماعت اسلامی کے مرکز کا، اور خاص طور پر اُن شہریوںکا جو وہاں نکلے، اور اُن کارکنوں کا جنہوں نے اس کا انتظام کیا۔ مجھے بڑی اپنائیت محسوس ہوئی، اور واقعی پاکستان کے عوام کراچی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی کوشش اور مثبت تاثر ہے جو جماعت اسلامی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ اجاگر کیا۔ ویسے جب کراچی میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے تو جماعت اسلامی آواز اٹھاتی تھی۔ لیکن اس تناظر میں جب کہ حالات امن و امان کے حوالے سے قدرے بہتر ہیں کراچی کے انفرااسٹرکچر اور کراچی کے لوگوں کے مسائل پر اس طرح سے یوم یکجہتی کراچی منانا، لاہور، ملتان، فیصل آباد، گجرات، مردان میں وکلا کا جلسہ کرنا اور وہاں کراچی کے حقوق کے لیے قرارداد پاس کرنا بہت بڑی بات تھی۔ کوئی بھی وفاقی پارٹی اس طرح سے کراچی کو اونر شپ آج تک نہیں دے سکی ہے۔
سوال: حقوق کراچی تحریک کو لسانی رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی، اس پر کیا کہیںگے؟
حافظ نعیم الرحمن: اصل میں کچھ نا سمجھی ہوتی ہے اور کچھ بہت زیادہ سمجھداری ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایسا کرتے ہیں، ہم کسی ایک زبان کی بات نہیں کررہے ہیں، ہم تو کہہ رہے ہیں کہ کراچی کو حق دو، کراچی کی تین کروڑ آبادی کا مقدمہ لڑرہے ہیں، ان تین کروڑ میں پٹھان بھی ہیں، سندھی بھی ہیں، مہاجر بھی ہیں، بلوچ بھی ہیں… سبھی ہیں۔ تو کہاں سے لسانیت آگئی؟ پھر ہم کہتے ہیں کہ کراچی کے نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیں، تو ہم یہ کہاں کہہ رہے ہیں کہ سندھی کو نہیں دی جائے، یا بلوچ کو نہ دی جائے؟ تو یہ بہت ہی غلط تاثر ہے جو کچھ لوگ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر میں اندرون سندھ کے اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ مضبوط کراچی اندرون سندھ کے غریب عوام کی محرومیوں کے ازالے کا سب سے مؤثر ذریعہ بنے گا۔ کراچی کمزور رہے گا تو اسی طرح سے یہ جاگیردار اور وڈیرے ان کو دبا کر رکھیں گے۔ میں مہاجر مضبوط کرنے کی بات نہیں کررہا، میں کراچی مضبوط کرنے کی بات کررہا ہوں۔ اور جب کراچی شہر مضبوط ہوگا تو لاڑکانہ شہر کے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہوگا کہ ہمیں بھی عزت دو، احترام دو اور ہمیں بھی حق دو۔ ہم تو بات ہی یہ کررہے ہیں کہ کراچی ہو، لاڑکانہ ہو، شکارپور ہو، حیدرآباد ہو… سب جگہ شہری بلدیاتی حقوق ملنے چاہئیں۔
سوال: کراچی کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
حافظ نعیم الرحمن:کراچی کے عوام اپنے ستّر سال اور خصوصاً چالیس سال کا تجزیہ کریں، اور پچھلے پانچ سات سال کا بغور جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کون ان کے لیے صحیح ثابت ہوا ہے اور کون ان کی تباہی کا ذمہ دار ہے، خود فیصلہ کریں۔ جماعت اسلامی اپنا کام کررہی ہے اور ہم کراچی کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ دیکھو! کراچی کے لیے ہم کوئی بہت بڑے نعرے نہیں لگارہے ہیں کہ نیویارک، پیرس یا لندن بنادیں گے۔ بلکہ ہم کراچی کو کراچی بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ آپ ہمارا ساتھ دیں تو ان شاء اللہ جماعت اسلامی ہی صلاحیت رکھتی ہے اِس وقت اِس بحران سے نکالنے کی۔ اس کے سوا سب لوگوں کو ہم دیکھ چکے ہیں، ان میں نہ صلاحیت ہے، نہ وژن ہے اور نہ ہی ان میں دیانت داری سے کام کرنے کا ارادہ موجود ہے۔ اہلیت بھی نہیں ہے اور نظم و نسق بھی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی میں نظم و نسق بھی ہے اور اس کی تاریخ بھی ہے۔ وہ تجربہ بھی رکھتی ہے اور ساتھ ساتھ تنظیم بھی۔