محسن شیخانی کا تعلق کراچی کی معروف تعمیراتی صنعت سے ہے۔ انہوں نے اور ان کے والد ابوبکر شیخانی نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ کراچی کے عوام کو کم قیمت اور اچھی تعمیرات سے مزین گھر دیا جائے، اور اب بھی ان کی یہی کوشش ہے۔ جسارت نے معروف ماہرِ تعمیرات محسن شیخانی سے کراچی میں تعمیراتی شعبے کے مسائل اور کراچی میں اس شعبے سے عوام کی شکایات پر گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
سوال: کراچی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟
محسن شیخانی: کراچی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جہاں سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بہت بڑا ٹیکس وصول کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ دونوں ہی اس شہر اور یہاں کے شہریوں کو اپنا نہیں سمجھتیں۔ کراچی کی ترقی کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کراچی کے بارے میں بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کرتی پھرتی ہیں لیکن عملی میدان میں دونوں کی اس جانب کوئی توجہ نظر نہیں آتی۔
سوال: کراچی میں تعمیراتی مسائل کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
محسن شیخانی: کراچی میں 50فیصد سے زائد عوام کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں، جس کی وجہ سے بے پناہ مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ کچی آبادیوں میں دن بہ دن اضافے کی وجہ سے کراچی میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں مسائل میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟
محسن شیخانی: بنیادی وجہ یہ ہے کہ کچی آبادیوں میں سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔ ماسٹر پلان میں یہ علاقے شامل نہیں ہوتے، اور بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے عام آبادی کو دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔
سوال: ماسٹر پلان تو کراچی کے لیے بنتے رہے ہیں؟
محسن شیخانی: درست کہا آپ نے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ماسٹر پلان تو کراچی کے لیے بنتے ہیں لیکن اس کا فائدہ صرف افسران کو ہوتا ہے۔ بدعنوانی نے کراچی کے بہت سارے منصوبوں کو تباہ کردیا ہے، جس کی وجہ سے کراچی کے تعمیراتی منصوبوں میں تیزی سے کمی آرہی ہے، اس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
سوال: یہ صورتِ حال صرف کراچی میں ہے یا دوسرے صوبوں کا بھی یہی حال ہے؟
محسن شیخانی: لاہور میں ایک سال کے دوران 300، اور اسلام آباد میں 150تعمیراتی منصوبوں کی منظوری دی جارہی ہے۔ اس کے برعکس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بڑی مشکل سے ہر سال 22 سے 24 منصوبوں کی منظوری دی جاتی ہے، جبکہ کراچی میں ہر سال 400 سے 500 تعمیراتی منصوبے بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ کراچی میں آبادی کا بہاؤ پورے ملک سے زیادہ ہے، اور یہاں حکومتوں کی لاپروائی کی وجہ سے ہر ماہ ایک نئی کچی آبادی پولیس کی نگرانی اور صوبائی حکومت کی منشا اور رضامندی سے بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے شہر میں پانی، بجلی اور صفائی ستھرائی کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
سوال: کیا ”آباد“ ان مسائل کو حکومتِ سندھ کے سامنے نہیں رکھتی؟ اور اس کے پاس اِس کا کیا حل ہے؟
محسن شیخانی: ”آباد“ نے مسائل کے حل کے سلسلے میں حکومت کو درجنوں رپورٹ اور تجاویز دی ہیں، اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن جس طرح اب تک ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہوئی ہے اُس سے ان مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں تک ”آباد“ کے کام کرنے کی بات ہے تو اس سلسلے میں مسائل کا حل اسی صورت میں ممکن ہے جب کراچی کو تمام پارٹیاں مل کر ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ تمام جماعتیں ایک متفقہ میئر کو اختیارات دیں۔ یہ اختیارات سیاسی مفادات سے الگ ہوں اور ان اختیارات کو کسی بھی جماعت کے مفادات کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ کراچی کے یہ ادارے جن میں پولیس بھی شامل ہے، شہری حکومت کے پاس ہونا ضروری ہیں، اور امن و امان کی ذمہ داری بھی میئر کے پاس ہونی چاہیے۔ میئر کو محدود اختیارات دینے سے مسائل حل ہونے کے بجائے کراچی کی ترقی کو بریک لگ جائے گا، جیسا کہ ایک طویل عرصے سے کراچی میں ہورہا ہے۔ کراچی میں غیر قانونی کام جلدی اور قانونی کام کرانے کے لیے بھاری رشوت کا مطالبہ ہوتا ہے، اور یہ حالات کراچی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
سوال: تعمیراتی منصوبوں میں این جی اوز کے کردار اور رکاوٹ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
محسن شیخانی: ایک بہت بڑا مسئلہ پوش علاقوں میں ہے، جہاں این جی اوز اور سول سوسائٹی رکاوٹ ڈالتی ہیں، اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے منصوبوں کو روکنا پڑتا ہے۔ اسی لیے میرا کہنا ہے کہ پورے شہر کو ایک متفقہ میئر دیا جائے تاکہ مسئلے کو حل کرنے میں تاخیر نہ ہو۔ کراچی میں قبضہ مافیا بھی یہاں کی ترقی اور قانونی کاموں میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ قبضہ مافیا جب اور جہاں چاہتا ہے قبضہ کرکے ہر طرح کے ماسٹر پلان کو نیست ونابود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اس کے پیچھے ہوتے ہیں۔ یہ مافیا شہر کو تباہ کرنے میں مصروف ہے اور حکومت اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے، اس سے قانونی کام کرنے والے کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔
سوال: آپ کی باتوں سے پتا چل رہا ہے کہ بدعنوانی تعمیراتی شعبے کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، اس کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟
محسن شیخانی: ٹھیک کہا آپ نے، یہ ایک ایسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے کراچی کے عوام کو کم قیمت مکان نہیں مل رہے ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں کاغذی کے بجائے ڈیجیٹل تعمیراتی منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ تمام چیزوں کو ڈیجیٹل کرنے سے حالات میں بہتری آئے گی، لیکن ”آباد“ کے باربار کہنے کے باوجود ڈیجیٹل کرنے پر حکومت توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اگر حکومت ڈیجیٹل کی جانب جائے تو اس سے بدعنوانی کا خاتمہ ہوگا، لیکن پھر مافیا کی دکان بند ہوجائے گی۔ ڈیجیٹل نہ ہونے کی وجہ سے شہری اداروں سے منسلک افسران کی کمائی میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے اور حکومت کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ کون سے افسر کی کمائی میں کس قدر اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور ایک لمبے عرصے تک جاری رہے گا۔ اس کی وجہ سے کراچی کے عوام کے تعمیراتی مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کراچی کے بہت سارے ماسٹر پلان بنائے جاتے ہیں، ان منصوبوں کا مقصد افسران کی جیبوں کو بھرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ڈیجیٹل نظام بنانے سے اُن لوگوں کو نقصان ہوگا جو بدعنوانی کے زینے پر چڑھ کر اپنے آپ کو دولت مند بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوال: کراچی میں بے تحاشا تعمیرات جاری ہیں لیکن اکثر آبادیاں پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں، آپ کی کیا رائے ہے؟
محسن شیخانی: کراچی میں پانی کی قلت کے خاتمے کے لیے بہت پہلےK4 منصوبہ شروع کیا گیا تھا، لیکن اس کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے پانی کی قلت بڑھتی جارہی ہے، اور اب بھی میں یہی کہوں گا کہ اس منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ پانی اور نکاسیِ آب کے منصوبوں پر تسلسل سے حکومتی سطح پر منصوبہ بندی کی جاتی۔ لیکن یہاں تو کچرا اُٹھانے کے لیے بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں، جس کی وجہ سے شہر کوڑا دان بنتا جارہا ہے۔
سوال: کراچی میں بلڈر اپنے منصوبوں کی قیمتوں میں لیز کے وقت اضافہ کردیتے ہیں، اس سے الاٹیز کو مالی بحران کا سامنا رہتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
محسن شیخانی: اس کی وجہ مہنگائی اور حکومتوں کی غیر مستحکم پالیسیاں ہیں۔ منصوبے جب شروع کیے جاتے ہیں اُس وقت یہ تصور بھی نہیں ہوتا کہ مہنگائی کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوجائے گا۔ اس لیے الاٹیز سے بقایا رقوم وصول کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں اگر کسی الاٹی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اس کے لیے ”آباد“ میں ایک الگ کمیٹی بنائی گئی ہے، جو اُس کے مسائل کو حل کرتی ہے۔
سوال: عوام کو کم قیمت گھروں کی فراہمی کے لیے کوئی تجویز بتائیں؟
محسن شیخانی: عوام کو کم قیمت گھروں کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ تعمیراتی شعبے کو مکمل طور پر کاغذی عذاب سے نجات دلاکر ڈیجیٹل نظام پر کام جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ پالیسیاں آسان اور ٹیکس سے عوام کو نجات دلائی جائے۔ تعمیراتی شعبے حکومتی پیکیجز پر دیے جائیں، اور سرکاری زمین نجی شعبے کو دے کر عوام کے لیے کم قیمت گھر تیار کیا جائے۔ بدعنوان افسران سے تعمیراتی شعبے کو نجات دلائی جائے۔ بدعنوانی اور ترقی کا آپس میں مل کر چلنا ناممکن ہے، اس کو جلد درست کرنا ہوگا۔