فیاض الیاس پاکستان کی تعمیراتی صنعت میں ایک بڑا نام ہیں ۔اس وقت چیئرمین آباد( ایسو سی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز) کے عہدے پر فائز ہیں اور ملک بھر میں تعمیراتی صنعت سے جڑے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ڈائریکٹر فلک ناز گروپ آف کمپنیز ہیں اور 28سال سے اس گروپ سے وابستہ ہیں۔شہر میں50سے زائدکامیاب پروجیکٹس کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ کراچی سے باہر بھی کام کر ر ہے ہیں۔کراچی شہرگذشتہ نصف صدی میںتعمیرات کے لحاظ سے مسلسل ابھرنے والا شہرقرار دیا جاتا ہے۔اس نے لاکھوں کروڑوں افراد کو روزگار اور کئی صنعتوں کو بڑا سہارا دیا ہے۔فیاض الیاس سے ہم نے ’کراچی نمبر‘ کے لیے کراچی کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کیلیے پیش خدمت ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے کورونا ایام میں ’تعمیرات‘ کو بھی باقاعدہ ’صنعت ‘کا درجہ دینے کا بڑاقدم اٹھایا ۔اسی طرح حکومت نے جو خصوصی پیکیج و ٹیکس رعایت دیں، یہ سب انقلابی اقدا م بہر حال ملکی معیشت میں خاصا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اس وقت ملک بھر میں تیزی سے تعمیری صنعت میں اضافہ ہو اہے ۔ ماضی میں کبھی کوئی حکمران اتنا فوکسڈ نہیں ہوئے اس صنعت پر ، خصوصی ٹیکس سبسڈی جو دی گئی ہے ، اس سے بھی بہت فائدہ ہوا ہے ۔ملکی معیشت میں ترقی کے لیے تعمیراتی صنعت اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہ 70کے قریب صنعتوں کا معاشی پہیہ چلاتی ہے۔فکس ٹیکس ریجیم میں جو پروجیکٹ رجسٹر ہوتا ہے اور جو ٹیکس آپ ادا کرتے ہیں اُس کا دس گنا آپ کما لیتے ہیں۔وہ زمینیں جو ظاہر نہیں کی گئی ہیں اُن زمینی اثاثہ جات کو بھی ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کے لیے جو چھوٹ دی گئی وہ بھی بہت بہتراقدام ہے۔پروجیکٹ کمپلیشن کی ٹائم لائن میں بھی رعایت دی گئی، اسی طرح30مارچ تک جو لوگ پراپرٹی میںسرمایہ کاری کریں گے ان کو بھی اثاثہ جات ظاہر کرنے کی چھوٹ دی گئی ہے ۔جب ہمارا پروجیکٹ پلان ہوتا ہے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس میں سے کتنے پیسے ریونیو بورڈ کے پاس جائیںگے۔ہم بھی بلیک منی کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ لوگ اطمینان سے کام کر سکیں۔بلڈرز و ڈویپرز کے ساتھ ساتھ خریداروںو سرمایہ کاروں کو بھی رعایات دی گئیں۔عام آدمی کے لیے سستے گھر کی جو اسکیم متعارف کرائی گئی ہے یہ بہت بڑی اسکیم ہے ۔12ملین سے زائد گھروں کی ضرورت ہے ، ایسے میں50لاکھ گھر کوئی بڑا فرق نہیں ڈالتے لیکن بہر حال یہ کام بھی بہت بڑا سنگ میل ہے۔کراچی میں انفرا اسٹرکچر کی عدم دستیابی بڑا مسئلہ ہے ،علاقوں میں بستی بسانے کے لیے سڑکیں، بجلی ، گیس کی سہولیات نہیں میسر ہوتی۔کراچی کی آباد ی کا 50فیصد حصہ کچی بستیوں میں رہائش پذیر ہے ، اسلیے گھر مزید بننے چاہیے جو کہ اچھے ماسٹر پلان کے تحت کام کرتے ہوئے ممکن ہوگا۔نیا پاکستان یا آسان گھر اسکیم صرف ایک عام آدمی کے لیے ہے جس کا خواب ہے کہ وہ اپنی چھت بنا سکے۔ یہ اسکیم بلڈرز، اُمراء یا ڈویلپرز کے لیے نہیں ہے ۔ اس پر پنجاب ، کے پی کے میں بلوچستان میں بھی ابتدائی پالیسی میٹر پر کام ہو چکا ہے ۔ سندھ خصوصاً اس وقت کراچی جو کہ ملک کا سب سے بڑا شہر بھی ہے اور صنعتی و تعمیراتی حب بھی ہے اس وقت خاصا پیچھے جا چکا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہے، اسکیم کا اعلان ہوجاتا ہے مگر وہاں تمام بنیادی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے ۔ اس وقت کراچی میں54فیصد کچی آبادیاں ہیں، صرف کراچی کے لیے کم از کم35-40لاکھ گھر مزید بننے چاہیے تاکہ کچی آبادیاں ختم ہوں جو کہ کچی آبادیوں کے مقابلے میںشہر میں امن و امان کا بھی باعث بنے گا۔شہر کے اربن ایریا میں تو جگہ ہی نہیں ہے اس لیے نئے ماسٹر پلان کے ساتھ سندھ حکومت کوذمہ داری کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا، جس میں اس حوالے سے مکمل منصوبہ بندی ہو کہ صنعتی علاقے، رہائشی و کمرشل علاقے بہترین انداز سے بنائے جائیں۔ تب جا کرنیا شہر آباد ہوگا اور وہی وقت کی ضرورت ہے ۔ آباد نے متعدد بار سندھ حکومت کو اس ضمن میںکئی تجاویز دی ہیں، کچی آبادیوں کے حوالے سے بھی اور کراچی کے نئے باب کے لیے سندھ حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی پیش کش بھی کی ہے۔ایف بی آر کے حوالے سے فکس ٹیکس ریجیم میں رجسٹر کروا کر ہمارے لیے بہت آسانی کی گئی ہے ۔سارے بلیک منی کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ایف بی آر پالیسیز کے سلسلے میں تو خاصی بہتری آئی ہے ۔ ایس بی سی اے کے پروجیکٹ اپروول کا مرحلہ بہت طویل ہے جو کہ کاروباری طبقات کے لیے اچھا نہیں رہتا۔ اس کے حل کے لیے ہم نے ون ونڈو آپریشن شروع کرایا اور چیزوں کو آٹو میشن پر لے کر آئے تاکہ کرپشن کا عنصر ختم ہو۔45دن میں مکمل ہونا تھا 2020ستمبر میں ون ونڈو آپریشن کھولی تو گئی لیکن اس پر ایس او پی کے مطابق عمل درآمد شروع نہیں ہو سکا۔اب بھی چھ ماہ ، سال سے اوپر کا وقت لگتا ہے ایک پروجیکٹ کی منظوری میں جس کے نتیجہ میں ناجائز تعمیرات کا ایک جال بچھ گیا ہے ۔ باقاعدہ پروجیکٹ کی منظوری دینا ٹیکس ، ملک، شہر سب کے فائدہ میں ہوتا ہے ۔کرپشن کے خلاف آباد ہمیشہ جنگ لڑتا رہا ہے ۔اس تاثر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر گراؤنڈ پلس ون یا بلڈنگ بنانے والا بلڈر نہیں ہوتا ، ٹھیکیدار ہو سکتا ہے۔ یہ عارضی طور پر زیادہ ترغیر قانونی تعمیرات کے لیے میدان میں نظر آتے ہیں پھر اپنے کام میں لگ جاتے ہیں ، اسکی کوئی دستاویزات نہیں ہوتیں اسلیے ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کرتا۔ ایسے لوگ آباد کا کوئی حصہ نہیں۔ پورے پاکستان میں ہر قسم کے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ہم مذمت کرتے ہیں ۔قواعد کے مطابق ہم نے سب سے پہلی شرط برائے بلڈر لائسنس کے لیے آباد کی ممبر شپ لینا لازم رکھی ہے۔ آباد کے ممبران کی خاصی اسکروٹنی ہوتی ہے ،پھر ہم نے خود 400گز کی کمرشل جگہ کی ملکیت کو لازم رکھا ہے ۔انکم ٹیکس رجسٹرڈ، ریٹرن فائلر جیسے دستاویزات ہم لیتے ہیں۔
’آباد‘ کے پاس لوگ مسائل لاتے ہیں کہ پوزیشن نہیں مل رہا، لیز کا مسئلہ ہو، رہائش کا مسئلہ ہو، پروجیکٹ بند ہو یا تاخیر ہورہی ہو، کینسیلیشن کا مسئلہ ہو آباد ہر ہفتہ میٹنگز کال کر تا ہے اور عام عوام کی شکایات پر عمل درآمد کرتے ہیں ،یہی نہیں نان مممبرز بلڈرز کو بھی ہم کئی مسائل سے نکالتے ہیں۔ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے ایک کلائنٹ کی طرف سے کہ وہ بروقت ادائیگیاں کرے تاکہ بلڈر کو بھی موقع نہ ملے بھاگنے کا اور ہم بھی بھرپور انداز سے کام کر سکیں ۔پوری دنیامیں اس طرح زمین کی قیمتیں نہیں بڑھتی جیسا پاکستا ن میں ہوتا ہے ،خصوصاً کراچی میں جس طرح قیمتیں بڑھتی ہیں ۔ اس میں بیرون ملک سرمایہ کاری، لوگوں کے پاس پڑا ہوا کیش بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ان قیمتوں کے فرق کے تناظر میں مارکیٹ پرائز کا حل بھی ’آباد ‘ نے دیا ہے کہ ایف بی آر ویلیو ،ڈی سی ویلیو، مارکیٹ ویلیو کو بتدریج قریب لایا جائے ۔جہاں دس روپے ڈی سی ویلیو ہو اور ایف بی آر کی20روپے ہو مگر مارکیٹ ویلیو50 روپے ہو تو اس 10کو فوراً 50نہیںلایا جا سکتا ۔ اس کے لیے فرق کو بتدریج کم کرتے ہوئے مارکیٹ ویلیو کے قریب لے آئیں تاکہ پرانے معاملات آسانی سے حل ہو سکیں۔