عرفان واحد ، جی ایف ایس بلڈرز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔پاکستان کی تعمیراتی صنعت سے تعلق رکھنے والی ایک معروف شخصیت ہیں ، ابتدائی تعلیم پاکستان پھر اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے لے کر واپس آئے اور خاندانی کاروبارکا حصہ بنے اور انتہائی کم وقت میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا۔کراچی نمبر کے لیے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ جی ایف ایس بلڈر کی خاص بات یہ ہے کہ کئی پروجیکٹس بروقت تیار کر کے دے چکا ہے پھرانہوںنے اپنے پروجیکٹس میں خوبصورت پارکس ،واٹر پارکس ،چڑیا گھر جیسی سہولیات بھی مہیا کی ہیں ۔یہ پروجیکٹس کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے لے کرملیر، نارتھ کراچی، سرجانی ، ڈی ایچ اے سپر ہائی وے تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اکثریت مڈل کلاس شمار کی جاتی ہے جوہمیشہ اپنے گھر ، اپنی چھت کا خواب لیکر جیتے ہیں ، فلیٹس میں آپ کے پاس گھر تو آجاتا ہے مگر چھت نہیں ملتی۔اس لیے ہم نے اپنا پیٹ کاٹ کر آنے والوں کی اس خواہش کی باآسانی تکمیل کے لیے کم قیمت پروجیکٹس لانچ کیے ہیں ۔ کراچی کے مسائل اور انکے حل کے بارے میں بڑا وژن رکھتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ بلڈر کو بروقت کام مکمل نہ کرنے کا شکوہ کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے سے تاخیر سے جو مہنگائی ہوتی ہے اس کا سارا بوجھ بلڈر پر ہی آتا ہے، اس لیے وہ کبھی تاخیر نہیں چاہتا کیونکہ اس تاخیر کی وجہ سے اس کا اپنا نام و مقام بھی تنقید و بدنامی کی زد میں آتا ہے۔موجودہ حکومت نے تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے کر مستحسن اقدام اٹھایا ہے ، جیسا دبئی کے لیے تعمیرات کا شعبہ گیم چینجر بنا پاکستان کے لیے بھی یہ ایک معاشی انقلاب لا سکتا ہے ۔جتنی ڈیولپمنٹ ہوگی، نئی عمارتیں بنیں گی، پوری دنیا سے لوگ آئیں گے، سرمایہ کاری ہوگی، نوکریاں نکلیں گی۔کراچی ،پورے ملک کے لیے معاشی ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے، یہاں کا کوئی چھوٹا علاقہ بھی دیکھ لیں کئی شہروں سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے ۔اس شہر کو اللہ تعالی نے بہت نعمتیں دی ہیں پورے ملک سے لوگ یہاں آتے ہیں یہ سب کو پالتا ہے۔اصولاً تو دونوں صوبائی و وفاقی حکومتوں کو مل کر کراچی کو ماڈل انٹرنیشنل شہر بنانا چاہیے ۔پرانی باتیں بھلا کر نئے عزم کے ساتھ اب آگے کی طرف بڑھنا ہوگا ۔میرا یہ کہنا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے جیسے انقلابی پروجیکٹس کی ضرورت ہے جو کراچی سے حیدر آباد کو ملا دے گا ، اسی طرح ڈیفنس سٹی سے لے کرہائے وے کا چند منٹوں میں فاصلہ طے ہوجائے گا ۔یہ سب کراچی کے لیے بہت فائدہ مند ہیں ۔اسی طرح کراچی میں پانی کا اور بجلی کے مسئلے کا حل نکلنا چاہیے ۔اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہونی چاہیے ۔ سڑکوں کا حال دیکھیں تو کیا ایسی سڑکیں ہوتی ہیں کہ ہر سال نئے روڈ بن رہے ہوتے ہیں ،اب بارشوں کا موسم آئے گا تو سب سڑکوں کی صورتحال آپ کے سامنے ہوگی۔کچرے کا ہی فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ کون اٹھائے گا، گیس کی لوڈ شیدنگ بھی اب سننے کو مل رہی ہے ، تفریح گاہیں بھی تباہ حال ہوتی جا رہی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ سارے ادارے بھی بیٹھیں ،سارے بزنس مین بھی بیٹھیں ، ساری ملٹی نیشنل کمپنیز بھی آئیں ، سب مل کر کراچی کے لیے بطور اسٹیک ہولڈر سب ملکرکراچی کی تعمیر کریں ۔ جیسا سیالکوٹ میں ائیر پورٹ بنا کر دیا گیا۔اس کے لیے ایک مضبوط لیڈر شپ بھی ہونی چاہیے جو سب کو لیکر چلے جو کراچی کو او ن کرے ۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ سارے اسٹیک ہولڈرز مل کر معروف لوگوں کی ایک کمیٹی بنائیں ۔ یہ لوگ کراچی شہر کے ہوں اچھی شہرت رکھتے ہوں ، ماضی صاف ہو اور کراچی کو اون کرتے ہوں۔ اس میں سیاسی و فلاحی جماعتیں بھی آن بورڈ لی جا سکتی ہیں تاکہ کسی کا کوئی مسئلہ ہے تو کمیٹی اُن اداروں سے بات کرے گی اپنی نگرانی میں ڈیولپمنٹ کرائے گی۔ اگر میڈیا اس ضمن میں کوئی اشتراک بنا دے تو یہ کراچی کے لیے بہت فائدہ مند بات ہوگی ۔نئی نسل کے لیے انہوں نے یہ پیغام دیا کہ جیت کے لیے آپ کو محنت کرنی ہے اور جب محنت آپ کرو گے تو وہ اوپر والا دیکھ رہا ہے ، آپ کی نیت صاف ہونی چاہیے تاکہ جو بھی آپ کا م کریں وہ آپ کو بھی نکھارے ، کسی کو نقصان نہ پہنچائیںاللہ تعالی جو آپ کو دیتا ہے اس کاایک پارٹ آپ معاشرے کی بہتری کے لیے اللہ کی راہ میں بھی وقف کریں ۔