عبدالہادی، پاکستان کے اوّلین صنعتی زون سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، جس کا سنگِ بنیاد بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے رکھا۔ 4700 ایکڑ پر پھیلا ہوا چار ہزار سے زائد صنعتی یونٹس پرمشتمل یہ زون 5لاکھ ملازمین کے لیے روزگار مہیا کرتے ہوئے آج بھی کراچی کی معیشت میں اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ وہ صنعتی زون تھا جس کے مثالی انفرا اسٹرکچر کے لیے ملائشیا سے لوگ آتے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان کے حالات خراب ہونے پر سائٹ کا انفرا اسٹرکچر کسی جنگ زدہ علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔ عبدالہادی، اپنے دادا کے زمانے سے شروع ہونے والے ٹیکسٹائل کے کاروبار سے منسلک ہیں جو کہ دھاگے سے کپڑا بنانے سے تعلق رکھتا ہے، اور اب سیکو انٹرپرائز کے نام سے یورپ میں ہوم ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کررہے ہیں۔ کراچی سے بزنس میں گریجویشن تک تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے، لیکن ملک کی محبت اور کچھ کرنے کا عزم اُنہیں واپس پاکستان لے آیا۔ کچھ عرصہ پاکستانی صنعتوں کو سمجھنے کے لیے نوکری بھی کی، اس کے بعد اپنے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ کرکٹ سے شغف رہا، کراچی میں بھی انڈر19کے کھلاڑی تھے اور برطانیہ میں بھی لیگ کرکٹ کھیلی۔ خدمت کے جذبے سے سرشار خاندان سے تعلق ہے، اس لیے ان کا کہنا ہے کہ ’’جس عہدے پر ہو اُس کا حق ادا کرو، کیونکہ لوگوں کی خدمت کرو تو اللہ بند راستے کھول دیتا ہے‘‘۔ سی پی ایل سی میں اسسٹنٹ چیف ہیں، اور اس عہدے کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے خدمت کے ساتھ ساتھ اغوا کنندگان کی بازیابی جیسے کئی کارنامے انجام دیے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے 1970ء کی دہائی تک تو حالات بہتر رہے، مگر اب سائٹ کی صنعتوں کو بدترین مشکلات و مسائل کا سامناہے جس میں انفرااسٹرکچر اور یوٹیلٹی سروسز ہیں جو سندھ حکومت کے ماتحت سائٹ لمیٹڈ کی غفلت اور کرپشن کی وجہ سے مسلط ہیں۔ ملکی برآمدات کا 54 فیصد حصہ رکھنے والے کراچی کے صنعت کاروں کی بدحالی برآمدات پر براہِ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ ایک بلدیہ فیکٹری کے کیس کی وجہ سے ڈزنی جیسا کسٹمر جو 8۔9 بلین ڈالر جتنا کاروبار کرتا، ایک جھٹکے میں واپس چلا گیا۔ اس کے باوجود پورا کراچی اور ملک بھی کراچی کی صنعتوں کی وجہ سے ہی چل رہا ہے۔ ہماری ایک ایک فیکٹری سے ہزار خاندان جڑے ہوئے ہیں۔ یہی کراچی کی بزنس کمیونٹی ہی ہے جس نے زلزلے، کورونا، سیلاب، اور دوسرے سخت حالات میں اپنا بہترین حصہ ڈالا ہے۔ سائٹ انڈسٹریل ایریا کے تمام تر معاملات کی ذمہ داری سائٹ لمیٹڈ کے پاس ہے جو ہم سے پراپرٹی ٹیکس اور پانی کا بل بھی لیتا ہے، صفائی کے لیے ٹیکس بھی لیتا ہے مگر کچرا نہیں اٹھاتا۔ جس ادارے میں 500کی جگہ 1500 افراد موجود ہوں وہاں کا سارا بجٹ تو تنخواہوں میں ہی نکل جاتا ہے۔ہمارے صنعت کار بھائیوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ صفائی، بجلی، پانی، ٹیکسوں کے بدلے کی سہولیات کی فراہمی سائٹ ایسوسی ایشن کا نہیں بلکہ حکومتی سائٹ لمیٹڈ کا دائرۂ کار ہے۔ ہمارا کام متعلقہ اداروں اور حکومت تک اپنے مسائل پہنچانا ہے،البتہ امسال کچھ بہتری آئی ہے۔ حالیہ بارشوں میں بھی بدترین حالات کا سامنا رہا اور صنعت کاروںکا بڑا نقصان ہوا۔ ہم نے ستمبر2020ء میں احتجاج بھی کیا۔ صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت، دونوں نے ہمیں امیدیں دلائیں۔ وزیراعلیٰ نے سڑکوں کی تعمیر کے لیے پانچ ماہ قبل ایک ارب روپے کا وعدہ بھی کیا، لیکن اب تک کئی مرتبہ یاددہانیوںکے باوجود پیش رفت نہیں ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے اوور سائٹ کمیٹی برائے سپرویژن کا اعلان کیا، مگر وہ بھی اب تک نہیں بنائی جا سکی۔ دو میٹنگ وزیراعظم اور صدرِ مملکت سے بھی ہوچکی ہیں، ان کا نتیجہ صرف ایک سڑک کی تعمیر کی صورت میں نکلا۔ صنعتی زون میں انفرااسٹرکچر کی تباہی کراچی میں صنعتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ہم اپنی ایکسپورٹ اس لیے نہیں بڑھا پاتے کیونکہ ہم اپنے یورپی کلائنٹ کو یہاں کا دورہ نہیں کرا سکتے کہ اگر وہ غلطی سے ان کھنڈرات میںکام دیکھنے آگیا تو اُس کے بعد وہ دوبارہ کبھی کام نہیں دے گا۔ یہ تجربہ خود ہماری فیکٹری کے یورپی کلائنٹ کے ساتھ ہوا جو انتہائی اچھے تعلق کے باوجود جب 3دن کے لیے ہماری دعوت پر کراچی پہنچا تو باوجود اس کے کہ ہمیشہ مقررہ وقت پر مطلوبہ کام ملتا تھا، اُس نے ہمارے ساتھ کام کرنے سے صاف انکار کردیا۔ پچھلے سال صرف کورونا کی وجہ سے ہمیں ایکسپورٹ کے آرڈر ملے کیونکہ اطراف بھارت اور بنگلہ دیش میں ہم سے بڑا لاک ڈاؤن تھا تو مجبوری میں ہم سے کام کرا لیا گیا۔ مگر ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ پڑوسی بنگلہ دیش میں فیکٹری مالک کو 5 روپے یونٹ بجلی مل رہی ہے جبکہ ہمیں 16روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے۔ گیس کراچی کے صنعت کار کو 930 روپے میں، جبکہ بھارت میں 500 اور بنگلہ دیش میں 390 روپے میںمل رہی ہے۔ صنعتوں کی تباہی بے روزگاری، بدامنی اور جرائم کو بڑھائے گی، جبکہ صنعتوں کی بحالی ملک میں روزگار، امن، سکون، ٹیکنالوجی اور خوشحالی لائے گی۔