ہر پانچ سال بعد100ملین گیلن پانی کا اضافہ ہونا چاہیے

ماہر آبی وسائل ڈاکٹر بشیر لاکھانی سے بات چیت

ڈاکٹر بشیر لاکھانی نے این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی، پھر امریکہ سے واٹر ریسورسز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ پھر پاکستان واپس آئے اور اپنی محنت، تجربے و خدمات سے ماہرِ آبی وسائل کی شناخت حاصل کی۔ کراچی کے پانی کے کامیاب ترین پروجیکٹ ’کے تھری‘ کے ڈیزائن اور بروقت بغیر کسی اضافی قیمت کے مکمل کرنے کاکریڈٹ بشیر لاکھانی اور ان کی کنسلٹنٹ کمپنی کے پاس ہے۔ پانی ربِ کائنات کی عظیم نعمت ہے۔ سمندر ہمیں پانی کے بڑے ذخیرے کے طور پر ملا ہوا ہے۔ انسان براہِ راست سمندری پانی پینے کے لیے استعمال نہیں کررہا۔ ہمیں پینے کا پانی سمندر میں جانے سے قبل دریاؤںسے حاصل ہوتا ہے۔ اس پانی کو بڑھتی آبادی کے مطابق دانش مندی سے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پانی کے تمام تر پروجیکٹ سیاست کی نذر ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں جولائی تا ستمبر بھرپور بارشیں ہوتی ہیں، لیکن ہم اس قیمتی پانی کو بچا نہیں پاتے، اس کے ساتھ ہی انسانوں کے لیے پانی کی ضروریات مستقل بڑھ رہی ہیں۔ حقائق یہی ہیں کہ ہمارا سارا پانی کالا باغ، بھاشا، یا کھوڑی کی جگہ ڈیم نہ بننے کی جنگ میں ضائع ہوتا رہا ہے۔ پانی کو استعمال کرنے کے لیے اس پانی کو ذخیرہ کرنا ہی واحد حل ہے۔کراچی جیسے شہر میں پانی کے مسئلے اور حل پر ڈاکٹر بشیر لاکھانی کے ساتھ ’کراچی نمبر‘ کے لیے خصوصی گفتگو ہوئی جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

سوال: پاکستان میں ڈیم کے ایشو پر ہمیشہ شور اٹھتا ہے۔کیا پاکستان بھی پانی کی کمی کا شکار ہے؟ کیا ہم سمندر کے پانی کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرح استعمال میں نہیں لا سکتے؟
بشیر لاکھانی: پانی کا مسئلہ سمجھنے کے لیے ایک بنیادی بات کو سمجھنا ہوگا۔ جیسا کہ ہم سب اپنے گھروں میں کرتے ہیں، کراچی میں اکثر مقامات پر چند ہی دن پانی آتا ہے تو ہم اپنے گھر میں اسٹوریج ٹینک یا دیگر ٹنکیاں لگا کر اپنے کام نکالتے ہیں۔ یہی کیفیت ملک کی ہے کہ ہر وقت بارشیں نہیں ہوتیں۔ اس لیے ہمیں پانی کو ذخیرہ کرنا ہوگا جس کو ’ڈیم‘کہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں پانی اسٹور کرنے کی صلاحیت صرف 17ملین ایکڑ فٹ ہے، لیکن ضائع ہونے والے پانی کی مقدار اوسطاً 100 ملین ایکڑ فٹ کے قریب ہے۔ یوں ہم اپنی ضرورت کا بڑا حصہ سمندر میں بہا رہے ہیں۔ امریکہ و دیگر ممالک میں ضرورت سے زائد پانی کو اسٹور کرلیا جاتا ہے تاکہ اگر کسی وقت پانی کم آئے، بارشیں نہ ہوں تو کیری اوورڈیم کی صورت وہ پانی استعمال ہوجائے۔ ہمارے ملک میں جولائی اگست میں زبردست بارشیں ہوتی ہیں تو نومبر دسمبر میں ارسا اپنے معاہدے کے مطابق اعلان کردیتی ہے کہ پندرہ فیصد کٹوتی ہوگی کہ ہمیں پانی چھوڑنا ہے۔ بہت طویل عرصے بعد بھاشا ڈیم بننا شروع ہوا ہے۔ اس ڈیم کی لاگت بہت زیادہ ہے، اس کے ایک طرف گلگت بلتستان ہے، اس زمین پر بڑے مالیاتی ادارے قرض نہیں دیں گے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ وہاں صرف بھاشا ڈیم بنایا جائے اور بجلی کا پلانٹ نہ لگایا جائے۔ اس ڈیم کو اپنے وسائل سے مکمل کرنے کے لیے14 بلین ڈالر درکار ہیں، اس میں سے 4 بلین ڈالر اس کی فنانشل کاسٹ تھی، باقی بجلی تیاری و قرض کا سود شامل تھا۔ مطلب یہ کہ 5سال کے لیے ہمیں صرف 100ارب روپے نکالنے ہیں تاکہ اپنے خرچ سے ڈیم بن سکے۔ ایک بار ڈیم بن جائے گا تو پانی کا مسئلہ بہت حد تک حل ہوجائے گا۔ پاور جنریشن کا معاملہ یہ ہے کہ اگر ڈیم کھڑا ہوگا تو کئی پاور جنریشن کمپنیاں خود آئیں گی کہ ہم سے اُدھار پر رقم لے کر سامان خرید لو۔ اس کے علاوہ کئی اور ڈیم بن سکتے ہیں۔ ہمیں پانی کی ہر صورت ضرورت ہے۔ دوسری بات سمندر کے پانی کی اہم ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایسے پلانٹ ہیں جو نمکین پانی کو میٹھا کردیتے ہیں۔ کراچی میں بھی بہت شور اٹھتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سمندری پانی کو میٹھا کیا جائے۔ اس ضمن میں سندھ حکومت نے لیاری اور کیماڑی میں کئی پلانٹ لگائے، لیکن وہ بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ بہت اچھا پلانٹ لگایا گیا، مگر یہ پانی اتنا مہنگا پڑرہا ہے کہ برداشت سے باہر ہوجائے گا۔
سوال: کراچی میں کتنا پانی آرہا ہے،کہاں سے آتا ہے اور کس ترتیب سے آتا ہے؟
بشیر لاکھانی:کراچی میں اصولاً تو 680ملین گیلن پانی آنا چاہیے۔ 580 ملین گیلن پانی انڈس سسٹم سے اور 100ملین گیلن حب ڈیم سے آنا چاہیے، جو کہ دو تین سال بھی بارش ہو تو بھر جاتا ہے۔ اس وقت حب ڈیم پورا بھرا ہوا ہے لیکن کینال سسٹم کی تباہی کی وجہ سے پانی سوکھ کر ضائع ہورہا ہے اور ہم پورا پانی نہیں لے پا رہے، بمشکل 30-40ملین گیلن پانی پہنچ پاتا ہے۔ دوسرا انڈس سسٹم سے 580ملین گیلن پانی روانہ ہوتا ہے۔ وہاں سے دو کینال کراچی آتی ہیں، ایک 280 ملین گیلن کی بڑی گرڈ ہے جو کراچی کینال ہے۔ یہ 1965ء میں تیار ہوئی۔ نیچے استعمال کم تھا توآہستہ آہستہ پمپنگ بڑھائی گئی اور 1988ء میں جاکر پورا پانی ملنا شروع ہوا۔ اس کے بعد 1998ء میں پانی کی کمی محسوس ہوئی تو K-2 پروجیکٹ بنایا گیا اور کراچی کے لیے 100ملین گیلن پانی بڑھایا گیا۔ اس کے بعد 2005ء میں K-3 پروجیکٹ تیار کیا گیا، اس کے ذریعے مزید 100ملین گیلن پانی کا اضافہ ہوا۔ اس طرح مجموعی طور پر 580ملین گیلن پانی کراچی کے لیے وقف ہوا۔
سوال: کیا کراچی میں آنے والا پانی مکمل پہنچ پاتا ہے؟ چوری، لیکیجز یا عوام جو زیر زمین پانی استعمال کرتے ہیں اس کی کیا کیفیت ہے؟
بشیر لاکھانی: واٹر بورڈ کی ریڈنگ ہے کہ دھابیجی کی پمپنگ سے کم از کم 70-80ملین گیلن کی لیکیج ہورہی ہے۔ اسے لیکیج کہیں کہ چوری کا نام دیں! بہرحال یہ پانی لائنوں میں نہیں پہنچ پاتا۔ اس وقت محتاط اندازے کے مطابق 400 ملین گیلن پانی لائنوں سے تقسیم ہورہا ہے، جبکہ ضرورت 650 ملین گیلن کی ہے۔ اگر ہم کراچی کی آبادی 2کروڑ مان لیں تب بھی ہمیں 1100ملین گیلن پانی چاہیے جس کا نصف بھی نہیں مل پا رہا۔ اس لیے پانی کی کمی محسوس ہورہی ہے۔ نتیجتاً لوگ زیر زمین پانی استعمال کررہے ہیں جو بہت زیادہ آلودہ ہے۔ ہم سیوریج کے منصوبے پر بھی کام کررہے ہیں۔ ہم نے کراچی کے مختلف حصوں کے سیوریج کے پانی کو ٹیسٹ کیا توپتا چلا کہ وہ 3000 ٹی ڈی ایس پر مشتمل ہے، جبکہ انڈس واٹر کا پانی 300 ٹی ڈی ایس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ بتارہا ہے کہ ہم اتنی بڑی مقدار میں زیر زمین پانی جس کا 4000کے قریب ٹی ڈی ایس ہوتا ہے،گھریلو کاموں میں استعمال کررہے ہیں، جو کہ لائن میں مکس ہوکر مجموعی ٹی ڈی ایس بڑھا رہا ہے۔ انسانی صحت کے لیے صفر ٹی ڈی ایس کا پانی استعمال نہیں ہوتا، صرف انجیکشن وغیرہ میں ڈسٹل واٹر استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میںکم از کم 200-300 ٹی ڈی ایس کا پانی پینے کے لیے مناسب ہوتا ہے۔ اس لیے ریورس اوسموسس کے طریقے سے ہم کھارے پانی کو میٹھا کرتے وقت اس میں نمکیات شامل کرکے اسے 200 تا 250 ٹی ڈی ایس تک لاتے ہیں۔ اگر لیکیج یا چوریاں ختم ہو بھی جائیں تو کراچی کو اس کی ضرورت سے نصف پانی ہی ملے گا۔
سوال: کراچی میں پانی کے نئے منصوبوں کے لیے کیا کوششیں رہی ہیں؟ ہم اس ضمن میں K-4 منصوبے کا نام سنتے ہیں۔ اس کی کچھ تفصیل بتائیں۔
بشیر لاکھانی:کراچی کی آبادی کا جو پھیلاؤ ہے اس کے حوالے سے ہم نے نعمت اللہ خان کے دور میں یہ تجویز کر دیا تھا کہ ہر پانچ سال بعد100ملین گیلن پانی کا اضافہ ہونا چاہیے۔ لیکن K-3کے بعد سے کوئی پروجیکٹ نہیں بن سکا۔ کراچی کا پانی جب دریائے سندھ سے آتا ہے تو اس کا ایک کوٹہ ہے ارسا کے تحت، وہ کوٹا 1200کیوسک پر مشتمل ہے۔ اسے ہم K-3کے ساتھ خرچ کر چکے ہیں، مزید پانی چاہیے تو مزید کوٹا منظور ہونا تھا، اس پر طویل خط کتابت اور معاملات چلتے رہے۔ آخر میں260ملین گیلن پانی بڑی مشکل سے منظور کیا گیا۔ کراچی سندھ میں ہے، لیکن زیادتی یہ ہے کہ پانی دینے کے لیے ارسا کہتی ہے کہ سندھ کراچی کواپنے کوٹے سے پانی دے۔ اب بظاہریہ بات درست ہے کہ کراچی سندھ کا حصہ ہے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا۔لینے کے لیے سب کراچی سے حاضر ہیں مگر دینے کو کوئی بھی تیار نہیں۔بہر حال اس منظوری کے بعد K-4منصوبے پر کام شروع ہوا۔ہمارے انجینئرز کی ’’مہربانی‘‘ یہ رہی کہ کے فور پروجیکٹ شروع سے ہی غلط ڈیزائن و پلان کیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک وہ پورا نہیں ہوسکا۔ اس میں غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ایک نہر کے ذریعے کراچی پانی لانے کا منصوبہ تیار کیا۔ نہر ڈھلوان والے علاقوں میں تو چل سکتی ہے مگر پہاڑی علاقے میں ممکن نہیں ہوتی۔وہاں تولائنیں ڈالی جاتی ہیں۔ روٹ انہوں نے بنایا ، کام بھی کیا، پیسہ بھی خرچ کیا، پھر دو بارشیں آئیں جنہوں نے اس کو تباہ کردیا تو سمجھ میں آگیا کہ نہر بند کی جائے جو کہ ہر برساتی ریلے کے بعد تباہی مچا دے گی۔ اب کام روک دیا گیا ہے۔ پھر نیسپاک کو ٹھیکہ دیا گیا کہ وہ مسئلے کا حل ڈھونڈے اور ڈیزائن کا تجزیہ کرے۔ نیسپاک نے وہی بات بتائی کہ طریقہ کار غلط ہے۔ لیکن انہوں نے بھی نئے روٹ کا حل پیش کیا۔ اُس وقت بھی میں نے یہی رائے دی کہ روٹ بدلنا درست فیصلہ نہیں، کیونکہ روٹ بدلنے میں مزید وقت لگتا۔ اب بھی میری رائے یہی ہے کہ پانی جہاں نہر کے ذریعے نہیں پہنچتا وہاں پائپوں سے پہنچایا جائے۔ یہ معاملہ واٹر بورڈ سے واپڈا کے پاس چلا گیا۔ واپڈا نے اپنی ریسرچ کے بعد یہی کہا کہ نہر بنانا درست فیصلہ نہیں۔ تو سوال کھڑا ہوا کہ نہر پر جو پیسے خرچ کیے گئے اس کا کون جواب دہ ہوگا؟ بہرحال واپڈا نے پائپ لائن کے ذریعے ہی حالیہ عرصے میں کنسلٹنٹ ہائر کرنے کا اشتہار دیا ہے جس میں انہوں نے پمپنگ اسٹیشن ، پریشرائزڈ پائپ لائنزکا ذکر کیا ہے جس سے کراچی میں پانی پہنچ سکے گا۔ اگلے چار پانچ مہینے میں کنسلٹنٹ ہائر کرلیں گے، اور امید ہے کہ وہ صحیح طرح کام کریں گے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ کینال سسٹم کی بہ نسبت پائپ لائن کے ذریعے پانی پہنچانا آسان ہے۔ امید ہے کہ اگلے ڈھائی سے تین سال میں پانی آسکتا ہے۔ اگرواپڈا ٹھیک چلتا رہا اور یہ 260 ملین گیلن پانی کراچی کو مل گیا تو یہ بہت بڑا اضافہ ہوگا، اور مزید 50، 60 لاکھ لوگ پانی سے مستفید ہوں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے K-3 پروجیکٹ مکمل کیا تھا 2006ء میں، اس کے بعد دو سال تک کراچی میں پانی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا۔ بہرحال اب یہ پروجیکٹ ٹریک پر آچکا ہے۔
سوال: یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سیاسی بھرتیوں و نااہلی کی وجہ سے پانی کی درست تقسیم نہیں کرپاتا۔ یہاں ٹینکر مافیا کے راج کی بات کی جاتی ہے۔ اس میں کتنی حقیقت ہے؟
بشیر لاکھانی : عمومی طور پر معاشرے میں نااہلی کا مسئلہ موجود ہے جس کو کرپشن سے مدد مل رہی ہے۔ سندھ میں خاص طور پر کرپشن اور نااہلی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ پانی کی کمی ہو تو پھر من مانیاں چلتی ہیں کہ مرضی کی جگہ پانی چھوڑا جاتا ہے۔ لائن مین، کنڈی مین سب اپنے مفادات کے مطابق سوچتے ہیں،کیونکہ آگے والا ایسا سوچنے کی آفر دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ زیر زمین سسٹم بھی بہت پرانا ہوچکا ہے، لیکیج بھی ہیں، آپ دیکھتے ہوں گے کہ کئی علاقوں میں پانی آتا ہے تو ساری گلیاں پانی سے بھر جاتی ہیں۔ پھر تباہ حال لائنوں کا مسئلہ یہ ہے کہ میرے اپنے گھر میں جب لائن کا پانی آتا ہے تو میں پہلے پانی کو باہر بہاتا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ لائن کا ابتدائی پانی لیکیج کی وجہ سے گندا آتا ہے۔ سکشن پمپ مزید آس پاس کے گندے پانی کو بھی کھینچ لیتا ہے۔ ٹینکر مافیا کی آپ نے بات کی، اگر ہم ایک محتاط اندازہ بھی لگائیں کہ اگر کراچی میں 10ہزار ٹینکر کام کررہے ہوں تو فی ٹینکر اگر 3000گیلن پانی لے جاتا ہے تو بھی یہ 30ملین گیلن پانی ہے۔ اگر ہر ٹینکر دو چکر لگالے تو بھی یہ 60ملین گیلن پانی بنتا ہے۔ اس میں لائن کا، اور زیر زمین پانی بھی بھرا جاتا ہے۔ یہ تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا جیسا ہی ہے۔ پانی کی سپلائی ضرورت کے مطابق 1100ملین گیلن کی جگہ اگر صرف 450ملین گیلن ہوگی تو کمی تو لازمی ہوگی اور مسئلہ تو آئے گا۔ اب اسی میں سے صرف 60ملین گیلن بٹ جائے تو اندازہ کر لیں کہ شارٹیج میں یہ کتنا معنی رکھتا ہے۔اس لیے اگر پانی کی سپلائی منصفانہ انداز سے ہو جائے تو یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہوجائے گا۔اسی طرح اگر پانی کراچی میں درست طریقے سے سپلائی ہو، سکشن پمپ استعمال نہ ہوں تو بھی میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے متاثرین کوبھی پانی مل سکے گا۔یہ کام بہر حال واٹر بورڈ کر سکتا ہے۔اس کے لیے ہی ایک اوربہت بڑا پروجیکٹ KWSSIP (کراچی واٹر اینڈ سروسز امپرومنٹ پروجیکٹ ) کے نام سے لانچ کیاگیا ہے۔یہ ورلڈ بینک اور چین کے ایک بینک کی فنڈنگ سے1.6بلین ڈالرکے ساتھ کام شروع کرنے جا رہا ہے۔ یہ کراچی کے واٹر اور سیوریج کے سسٹم کو بہتر کرنے ، تقسیم کے عمل کوبہتر کرنے ،پانی کی سپلائی پر کنٹرول کے ساتھ لیکیج کو کنٹرول کرنے کا ایک جامع پروجیکٹ ہے۔اس پر اگر ڈیزائن کے مطابق عمل شروع ہو جائے اور اس دوران K-4کا پانی بھی آجائے تو اگلے تین چارسال میں خاصی بہتری آجائے گی۔
سوال: پانی کے حوالے سے کوئی پیغام آپ دینا چاہیں، عوام و حکمرانوں کے نام ؟
بشیر لاکھانی: ہمیں پانی کو زندگی جیسی نعمت کے طور پر ہی ٹریٹ کرنا ہوگا، احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا، حتیٰ کہ استعمال شدہ پانی کے استعمال کو بھی فروغ دینا ہوگا۔اچھی پلاننگ سے ہم استعمال شدہ پانی کو دوبارہ مختلف کاموں میں استعمال میں لا کر صنعت، زراعت ودیگر جگہ استعمال کر کے لیکیجز، چوریوں اور دیگر مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔