جنوبی ایشیا کی نوآبادیاتی سیاست میں سید احمد خان کا زاویۂ نظر

سید احمد خان کے کاموں کو مجموعی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ کام جو بحیثیت مصنف انھوں نے تاریخ، مذہب، معاشرت اور ادب کے موضوعات پر تصنیف وتالیف کے ذریعے انجام دیے۔ دوسرے وہ کام جو بحیثیت مصلح انھوں نے مذہبی اور معاشرتی اصلاح اور تعلیمی ترقی کے لیے کیے۔ اور تیسرے وہ کام جو انھوں نے سیاسی اور قومی سطح پر مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے انجام دیے۔ انھوں نے مسلمانوں کی حالت اور ملکی صورت حال کا جائزہ لے کر مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی تھی، اس میں ’’تعلیم‘‘ کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اپنی قوم کو ہندوستان کی دوسری قوموں کی سطح پر پہنچا دیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کو سنبھلنے اور ترقی کرنے کے لیے پہلے یورپ کے علمی کارناموں سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے۔ ان کی یہ حکمت عملی اپنے نتائج کے اعتبار سے مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کے مقابلے میں جدید تعلیم کے ہتھیاروں سے مسلح کرنے کی تحریک تھی۔ علی گڑھ میں (جنوری1877ء میں) ان کا قائم کیا ہوا کالج بظاہر ایک تعلیمی ادارہ تھا، مگر اسے برعظیم پاک و ہند کے ایک اہم سیاسی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ سید احمد خان چوں کہ مسلمانوں کے سیاسی رہنما بھی تھے، اس لیے علی گڑھ کالج صرف تعلیم ہی میں نہیں، ملکی سیاست میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی کے فرائض انجام دیتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ سید احمد خان ’’محمڈن اینگلو اورینٹل ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ (قائم شدہ1886ء) کے بھی روحِ رواں تھے۔ یہ انجمن جس کا نام بعد میں ’’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ ہوگیا تھا، ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے قیام(1906ء)تک قومی و سیاسی معاملات میں مسلمانوں کے حقوق کی نمائندگی کرتی رہی۔
سید احمد خان کے قائم کیے ہوئے ان اداروں نے مسلمانوں میں شعور پیدا کرنے اور ان کی سیاسی بیداری میں ایسے وقت پر ایک اہم کردار ادا کیا، جب مسلمان اپنے زوال کی انتہا پر پہنچ چکے تھے۔ اپنی قوم میں جدید تعلیم رائج کرکے سید احمد خان نے اسے ایک نیا حوصلہ دیا۔ اسی کے طفیل مسلمانوں نے سیاست میں جدید رجحانات کو قبول کیا اور ہندوستان کی سیاسی زندگی میں اپنی حیثیت اور قومیت کے اظہار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلمانوں میں وہ پہلے شخص تھے،جنھوں نے ہندوؤں کے مقاصد کو سمجھا تھا۔ ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی ہندو نواز حکمتِ عملیوں اور بعض ہندو رہنماؤں کی مسلم دشمن تحریکوں کے خلاف ان کے دیے گئے بیانات کو اُس وقت کے ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا نصب العین قرار دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے بارہا اس خیال کا اظہار کیا کہ ہندوستان کی آبادی میں یکسانیت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہمیشہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علیحدہ قومیں تسلیم کرتے رہے۔ جہاں کہیں انھوں نے اتحاد کی تلقین کی ہے وہاں بھی دو جداگانہ قوموں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا یہ جملہ کہ ’’ہندوستان ایسی حور شمائل دلہن کی صورت ہے جس کی ہندو اور مسلمان دو آنکھیں ہیں۔۔۔‘‘ ان کے دو قومی نظریے ہی کا ثبوت دیتا ہے۔ کیوں کہ اس میں ہندو اور مسلمانوں کو ’دو آنکھیں‘ کہا گیا ہے، کوئی ایک شے نہیں کہا گیا۔ ان کی تحریریں، ان کی تقریریں اور ان کے کام ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ایک علیحدہ قوم ہونے پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ یہ یقین جیسے جیسے وقت گزرتا گیا زیادہ مضبوط اور پختہ ہوتا گیا۔ ان کی جدوجہد اور ان کی تحریک بنیادی طور پر مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف جدید تعلیم کے ہتھیاروں سے لیس کرنے کی کوشش تھی۔ اس کے تحت وہ مسلمانوں کی مذہبی، معاشرتی اور ادبی اصلاح و ترقی چاہتے تھے۔ لیکن اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ تحریک پاکستان اور حصولِ پاکستان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوئی۔ اگر سید احمد خان علی گڑھ کالج قائم نہ کرتے تو نہ نوجوانوں کی ایک باشعور اور پُرجوش نسل اُس سے نکلتی، نہ اس قدر سیاسی ہلچل پیدا ہوتی، اور نہ تحریکِ آزادی اس قدر شدت اور وسعت اختیار کرتی جس کا انتہائی مرحلہ قیامِ پاکستان ہے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں سید احمد خان کا خیال یہی تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مفادات میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ لیکن جب ہندوؤں نے اعلانیہ ایسا رویہ اختیار کیا جو مسلمانوں کے ساتھ تعاون اور اتحاد کے جذبات پر مبنی نہیں تھا، تو سید احمدخان کی سیاسی حکمت عملی نے ایک دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ ہندوؤں کی ایسی پہلی کوشش جس سے براہ راست مسلمانوں اور ان کی تہذیب سے نفرت کا اظہار ہوتا تھا، یہ تھی کہ ہندی زبان کو ہندوستان کی قومی زبان کا درجہ دلایا جائے۔ سید احمد خان جو واقعات و رجحانات کا بغور مشاہدہ کرتے تھے، اردو کے مقابلے میں ہندی کے حق میں (1867ء میں) ابھرنے والی اس تحریک کی حقیقت کو سمجھ گئے۔ ان کے خیال میں اردو کی جگہ ہندی کو رائج کرنے کا مطالبہ مسلمانوں اور ان کی تہذیب سے ہندوؤں کی نفرت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مطالبے کے ساتھ ساتھ اُس دور میں بعض متعصب ہندو رہنماؤں نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور اُن کے خلاف دوسرے ہندوؤں میں نفرت کے جذبات پھیلانے کے لیے مختلف فرقہ وارانہ ادارے قائم کیے اور تحریکیں چلائیں۔ پھر اسی دور (1885ء) میں بعض ممتاز ہندو رہنماؤں نے ہندوؤں کے قومی و سیاسی معاملات کی دیکھ بھال، سیاسی امور میں ان کی نمائندگی، اور ان میں قومی شعور عام کرنے کے لیے ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی تشکیل کی۔ یہ بظاہر تمام ہندوستانوں کے لیے قائم کی گئی تھی، جنھیں ہر لحاظ سے ایک ہی قوم قرار دیا گیا، لیکن کانگریس نے ابتدا ہی سے ایسا رویہ اختیار کیا جو مسلمانوں کے مفاد اور حقوق کے خلاف تھا۔ اس جماعت کی ساری کوششیں یہ تھیں کہ ہندو اکثریت کے لیے جو مسلمانوں کے مقابلے میں پہلے ہی بہتر حالت میں تھی، زیادہ سے زیادہ اختیارات، اعلیٰ عہدے اور منصب حاصل کیے جائیں۔ اس کے دوسرے سال کے اجلاس (1886ء) میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ گورنر جنرل کی کونسل اور صوبائی کونسلوں میں انتخابات کا اصول رائج کیا جائے۔ یعنی صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے لیے عام انتخابات ہوں۔ اس طرح یہ یقینی بات تھی کہ عام انتخابات سے ہندوؤں کو فائدہ پہنچتا، جو اکثریت میں تھے۔
سید احمد خان اس صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ ان کے سامنے اُن متعصب ہندوؤں کی وہ تحریکیں بھی تھیں جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف اٹھ رہی تھیں۔ پھر ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘کا قیام اور اُس کے مقاصد اور مطالبات بھی ان کے سامنے تھے۔ وہ کانگریس کے عزائم کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ چناں چہ جب انھیں بھی کانگریس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے دو اہم تقریریں کیں۔ ایک28 دسمبر1887ء کو لکھنؤ میں، اوردوسری16مارچ1888ء کو میرٹھ میں۔ ان تقریروں میں سید احمد خان نے کانگریس کے مقاصد اور اس کے خطرناک مطالبات اور ان کے پس منظر کا تجزیہ کیا اور مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کی تلقین کی۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ سیداحمدخان اب دونوں قوموں کے تعلقات میں کسی بہتری کی امید نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے دراصل آنے والے زمانے کی جھلک دیکھ لی تھی۔ چناں چہ اب ان کی ساری کوششیں اس بات پر مرکوز ہوگئیں کہ کسی طرح مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار بحال ہو اور انھیں ہندوستان کی دوسری قوموں کے برابر حقوق اور اختیارات حاصل ہوجائیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا یہ خیال پختہ ہوتا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں۔ ان کا مذہب،تمدن اور نظریۂ حیات جدا ہے۔ اس لیے یہ دونوں قومیں مل کر زیادہ عرصے تک متحد نہیں رہ سکتیں۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ہندو اپنی زبان اور تہذیب پر اسی طرح اصرار کرتے رہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں قومیں علیحدہ ہوجائیں گی، اور یہ کہ اگر مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ ہوجائیں تو زیادہ فائدے میں رہیں گے۔ (باقی صفحہ 41پر)
ذیل میں سید احمد خان کا جو خطبہ پیش ہے، اُس میں سید احمدخان کا ایک بڑا مقصد یہ بات ثابت کرنا تھا کہ کانگریس کے ہندو رہنماؤں نے مختلف ذرائع سے جو مشہور کرنا شروع کیا تھا کہ مسلمان بھی عام طور پر کانگریس میں شریک ہیں، یہ بات غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ بہت کم تعداد میں مسلمان اس میں شریک ہوئے ہیں، اور ان کے شریک ہونے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسلمان بحیثیت قوم کانگریس میں شریک ہیں۔ اور پھر جو مسلمان کانگریس میں شریک ہوئے ہیں، انھوں نے غلطی کی ہے۔ اس خطبے کے ذریعے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اب سید احمد خان کو یقین ہوچکا تھا کہ ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ اور باہمی تعلقات بھی اس سے متاثر ہورہے تھے اور مستقبل میں بھی سید احمد خان ان تعلقات کی بہتری یا محبت ویگانگت کے آثار نہیں دیکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس خطبے سے یہ بھی ظاہر ہوسکے گا کہ سید احمد خان مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیوں آمادہ کرنا چاہتے تھے اور وہ مسلمانوں کو تجارت کی طرف کس طرح راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ بھی کہ انگریز حکومت کے حامی ہونے کا جو ایک تاثر اُن کے بارے میں اُن کے مخالفین عام کرتے رہے ہیں، اس کے بجائے انگریز حکومت کے وہ کس قدر خلاف ہیں۔