ثقافتی ورثہ:پکا قلعہ حیدرآباد مکمل زبوں حالی کا شکار

جب سے پکا قلعہ حیدرآباد کا مرکزی دروازہ مرمت کی خاطر توڑا گیا ہے اسی موضوع پر ایک مہینے سے مختلف آراء اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا پر چلی آرہی ہیں۔ یہاں تک کہ صوبائی اور مرکزی حکومت بھی آمنے سامنے ایک دوسرے کی مخالفت میں کھڑی ہوگئی ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ثقافتی ورثہ پکا قلعہ مکمل طور پر زبوں حالی کا شکار ہے اور اس کی تباہی اور بربادی پر سالوں سے کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے، جبکہ گیٹ پر پوری سیاست کھیلی جارہی ہے۔
جنوری 1768ء (1182 A.H) میں 15 ایکڑ پر تعمیر ہونے والا پکا قلعہ اور حیدرآباد شہر یقیناً بہت اہم ورثہ ہے، جس کی بنیاد غلام شاہ کلہوڑا نے ڈالی، اور ان کی حکومت کے بعد حیدرآباد تالپور اور انگریزوں کا دارالحکومت رہا جس کی وجہ سے یہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ میں نے اپنی سرکاری نوکری کا آغاز جون 1979ء میں اسی پکا قلعہ سے کیا۔ یہ محکمہ آثارِ قدیمہ مرکزی حکومت کی زیرنگرانی تھا۔ جب میں پہلی مرتبہ گیلری اسسٹنٹ کے عہدے کے لیے اس قلعہ میں اسی مرکزی دروازے سے داخل ہوا تو دروازہ خستہ حالی کی داستان پیش کررہا تھا، لکڑی کا بڑا دروازہ میر حرم کی دیوار کے ساتھ پڑا ہوا تھا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ آثارِ قدیمہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کا مرکزی دفتر اسی قلعہ میں موجود ہے! میرا کام فورٹ میوزیم بنانا تھا، اس کے لیے خاصا کام کیا، اس کا پورا پلان تیار کیا اور افسرِ اعلیٰ کو پیش کیا، جو بعد میں ایک مضمون کی شکل میں میگزین میں چھپ کر سامنے آیا۔ فورٹ میوزیم کے پلان میں قلعہ کے ماڈلز بھی تیار کرنا تھا۔ یہ کام خود میں نے انجام دیا۔ اس کے قلعہ کی دیوار کا اندرونی اور بیرونی سروے کیا گیا۔ اُس وقت احساس ہوا کہ اندرونی اور بیرونی رہائشی مکانوں کی وجہ سے قلعہ کی دیوار مکمل تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 1980ء سے پہلے مرکزی گیٹ کی PWDنے مرمت کی، اور 1986ء کے بعد دو مرتبہ مرمت کی گئی، جس کا سہرا اُس وقت کے انجینئر مرحوم کلیم کے سر تھا۔ ماڈل بنانے کے دوران اس کے اصل گیٹ کی تصویر تلاش کی گئی اور اس کی پینٹنگ ایک تالپور فیملی سے حاصل کی گئی، اور اسی کے مطابق گیٹ بنایا گیا۔ موجودہ گیٹ بالکل مختلف تھا اور اس کی مرمت میں زمانۂ حال کی بنی ہوئی اینٹیں استعمال کی گئی تھیں اور پلاستر بھی نیا کیا گیا تھا۔ خاص طور پر انگریزوں کے دور میں1906ء میں قلعہ کی اندرونی اور بیرونی تعمیرات کو آتشیں مادے سے بلاسٹ کیا گیا۔ گیٹ سے مشرق کی جانب تقریباً200 گز کی دیوار بھی ختم ہوگئی جو آج تک دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے مؤرخوں نے اس قلعہ کا معائنہ کیا، کسی نے بھی مرکزی گیٹ کا ذکر نہیں کیا۔ انگریزوں نے اپنے استعمال میں لانے کے لیے بہت سی تعمیرات کو تباہ کیا۔ آج بھی واچ ٹاور کو پانی کے ٹینک میں تبدیل کرکے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ واچ ٹاور(Treasury Room)، میر حرم اور قلعہ کی دیوار کو 1957ء میں Antiquity Act کے تحت پروٹیکٹ کیا گیا تھا، لیکن مرکزی دروازے کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا گیا ہے۔ آج دروازے پر سیاست کی جارہی ہے جس کا ماضی اور حال میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
پکا قلعہ حیدرآباد 1768ء میں تعمیر ہوا اور 1947ء سے مہاجرین کی آبادی اور دیوار کا اندرونی حصہ رہائش کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اور دیوار کے باہر کا حصہ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے جو اس کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ ایکٹ کے مطابق قلعہ کی دیوار سے 200 فٹ تک تعمیرات نہیں کی جا سکتیں۔ یہ سب کچھ مرکزی اور صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے ہورہا ہے ۔
1843 A.D میں تالپور سے میانی کی جنگ میں انگریزوں نے فتح حاصل کی اور پھر اس قلعہ پر یونین جیک کا جھنڈا لہرایاگیا۔ آخر کس جگہ لہرایا گیا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ فتح کا جھنڈا ہمیشہ مرکزی گیٹ پر ہی لہرایا جاتا ہے۔ انگریزوں نے استعمال سے پہلے بہت سی تعمیرات کو آتشیں مادے سے اڑایا ،جس کی وجہ سے قلعہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔
قلعہ کی تباہی کے مناظر دیوار کے اندرونی اور بیرونی دونوں طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی طرف جلد از جلد توجہ دی جائے، ورنہ مرکزی دروازے کی توڑ پھوڑ سے لے کر اصل قلعہ کی دیوار بھی تباہ ہوجائے گی اور سب ہاتھ مَلتے رہ جائیں گے، اُس وقت سیاسی دنگل بھی کام نہ آئے گا۔