ٓٓٓٓآدمی کی اصل… زندگی کی ابتدا اور تسلسل

قرآن کا خاص وصف جو اسے انجیل سے ممتاز کرتا ہے، وہ الوہی وحدانیت کی تکرار ہے۔ یہ کتاب مظاہرِ فطرت کا کثرت سے ذکر کرتی ہے۔ ان تمام مظاہر کے بارے میں کہ وہ کس طرح گردش میں ہیں، تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ ان مظاہرِ فطرت کے اسباب اور اثرات کی بابت آگاہ کرتی ہے۔ انسان کے بارے میں قرآن کے بیان نے مجھے سب سے زیادہ ششدر کیا۔ جب میں نے پہلی بار براہِ راست عربی میں مطالعہ کیا تو ایک جہانِ حیرت مجھ پر وا ہوا۔ صرف اصل زبان ہی قرآن کے بیان کی وہ معنوی روشنی سامنے لاسکتی ہے، کہ جسے اکثر غلط ترجموں کی نذر کیا گیا۔
جو بات ان اکتشافات کو اہم بناتی ہے وہ ایسے بہت سے رجحانات کی جانب اشارہ ہے، جونزولِ قرآن کے زمانے میں پائے نہ جاتے تھے، اور جو آج چودہ سو سال بعد جدید علم سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ اس سیاق و سباق میں فضول مباحث پر نظر کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ تاریخِ ادویہ سازی کی بابت کہا جاتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) طبی ماہر تھے، اور قرآن میں کئی طبی نسخے پائے جاتے ہیں، ایک ایسا خیال جو سراسر غلط ہے۔
قرآن یقینی طور پر اُن معاملات پر صاف احکامات نازل کرتا ہے جوپاکیزگی اور طہارت کی عادتوں سے متعلق ہیں: فرد کی صفائی، خوراک میں منع واجازت جیسے شراب نوشی کی ممانعت، اور رمضان کے روزے جو اِن عادات میں پختگی لاتے ہیں۔
زندگی کی اصل پر قرآن کا بیان اس سوال کا واضح جواب دیتا ہے کہ زندگی کب شروع ہوئی؟ اس حصے میں مَیں قرآن کی وہ آیات پیش کروں گا، جوکہتی ہیں کہ زندگی کا ماخذ پانی ہے۔ پہلی آیت تشکیلِ کائنات کا حوالہ بھی دیتی ہے:
’’کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے، غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ کیا وہ (ہماری اِس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟‘‘(انبیا، آیت 30)
یہ نظریہ کہ ’کوئی شے کسی دوسری شے سے وجود میں آتی ہے‘ کسی شبہ سے مبّرا ہے۔ یہاں ہرشے کی تخلیق میں پانی کا کردار واضح ہے۔ اشیاء پانی میں خلق ہوئیں، یا یہ کہ ہر زندگی پانی پر استوار ہے… یہ دونوں ممکنہ معانی ہیں، اور سائنسی ڈیٹا سے قطعی مطابقت رکھتے ہیں۔ زندگی کی اصل دراصل پانی سے ہے، اور پانی ہر زندہ خلیے کا بڑا جُز ہے۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ جب کبھی بھی کسی دوسرے سیارے میں زندگی پر بات ہوتی ہے تو پہلا اور بنیادی سوال یہی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اُس سیارے پر پانی کے آثار پائے جاتے ہیں؟ یا یہ کہ پانی کی اتنی مقدار اُس سیارے پر پائی جاتی ہے کہ زندگی کی بقاء ممکن ہوسکے؟
جدید ڈیٹا ہماری رہنمائی اس خیال کی جانب کرتا ہے کہ قدیم زندہ اجسام غالباً نباتات کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے: ایک ایسی کائی ملی ہے جو بیالیس سے باون کروڑ سال قدیم Cambrian period سے متعلق کہی جاتی ہے۔ وہ اجسام جو جانوروں کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، کچھ عرصے بعد غالباً منظر پرابھرتے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب بھی سمندر ہی سے آئے تھے۔ (قرآن میں) پانی سے مراد وہ دونوں طرح کا پانی ہے جوآسمانوں اور زمین پر پایا جاتا ہے، یا کسی بھی قسم کا سیّال۔ پہلے معنی میں، پانی وہ عنصر ہے جو ہرطرح کی نباتاتی زندگی کا لازمی جزو ہے:
’’وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعے سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔‘‘(طہٰ، آیت 35)
یہاں دوسرا معنی پانی کی ایسی قسم کی جانب اشارہ کرتا ہے جو حیاتِ حیوانات کی تشکیل میں بنیادی جوہر کے طور پر بیان ہوا ہے۔
’’اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر، اور کوئی چار ٹانگوں پر۔ جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘(نور، آیت 45)
اس طرح زندگی کی اصل پر قرآن کے بیانات… خواہ زندگی پر عمومی گفتگو ہو، ایک ایسا جزو (پانی) جو پودوں کو مٹی میں زندگی دیتا ہے، یا جانوروں کی زندگی میں جس سے بیج پڑتا ہے… یہ سب سائنسِ حاضرکے ڈیٹا سے مکمل مطابقت میں نظرآتے ہیں۔ زندگی کی ابتدا سے متعلق قرآن کے بیانات میں اپنے عہد کی کسی دیو مالائیت کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ زندگی کے تسلسل اور استحکام کی بابت قرآن جانوروں اور نباتات کی زندگی پر کئی پہلوؤں سے رہنمائی کرتا ہے۔ تاہم حیوانات کی نسبت نباتات کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ جب انسانوں میں نسلی تسلسل کا بیان آتا ہے تو بہت سی آیات ہمارے سامنے آتی ہیں۔ یہ نکتہ بھی یہاں قابلِ توجہ ہے کہ قرآن نباتات میں جوڑے کا حوالہ دیتا ہے:
’’اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دُہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘(رعد)
پھلوں میں جوڑوں کا بیان بہت بعد کے اُس ڈیٹا سے مکمل مطابقت میں ہے جو پھلوں کی تشکیل کے ضمن میں دریافت ہوا ہے۔ ہر قسم کے نباتات باہمی جنسی تعامل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ قرآن میں حیوانات کی زندگی کے تسلسل میں جنسی تعامل کا ذکر کم ہے۔ اس باب میں انسان کی استثنائیت بالکل واضح ہے۔ اس موضوع پرقرآن کے بیانات بہت سارے، اور مفصل ہیں۔
(جاری ہے)