سیالکوٹ:بے ہنگم ٹریفک کے مسائل ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی، سوالیہ نشان

وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہر اب بے ہنگم ٹریفک کا بھی شکار ہورہا ہے، ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن رہی ہے۔ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، سیالکوٹ نے ہمیشہ ہی مرکز میں ضرور ایک شخصیت دی ہے جس کا تعلق اس شہر سے تھا۔ تحریک انصاف کے عثمان ڈار مرکزی حکومت میں ہیں، مگر شہر کی قسمت نہیں سنور رہی، پولیس کلچر عام ہے، شہریوں سے ناروا سلوک بڑھ رہا ہے، اگرچہ گزشتہ دنوں ایک آفیسر کی معطلی ہوئی ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے یقین دلایا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، اے ایس آئی کے خلاف ضابطے کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں سے ناروا سلوک، رشوت ستانی کی شکایات سمیت اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی، شہریوں سے حُسنِ سلوک اور نرم رویہ اختیار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بننے والے پولیس افسروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ضلع میں بے ہنگم ٹریفک اور مسائل کے باوجود ایک ماہ سے ڈی ایس پی کا عہدہ خالی ہے۔ ایک ماہ قبل وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے اپنے دورے کے دوران ڈی ایس پی لائسنس اتھارٹی مقصود احمد لون کو اس بنا پر عہدے سے ہٹایا تھا کہ شہر میں ٹریفک کے مسائل ہیں، جبکہ ٹریفک کنٹرول کے لیے ڈی ایس پیز کے دو الگ عہدے ہیں۔ ایک ماہ گزر جانے کے باوجود نہ تو ڈی ایس پی لائسنس اتھارٹی کے عہدے پر کوئی تعیناتی عمل میں آسکی اور نہ ہی ضلع سیالکوٹ کی ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے دو ڈی ایس پیز کی تعیناتی ہوسکی۔ ڈی ایس پی مقصود احمد لون کے بعد عارضی طور پر ایک انسپکٹر کو چارج دیا گیا تھا، ریٹائرڈ انسپکٹر قلب عباس کی جانب سے کرپشن کے الزامات کی درخواست کے بعد انسپکٹر ٹریفک سے چارج واپس لے کر انسپکٹر اسد رشید کو ڈی ایس پی کے عہدے کا عارضی چارج دیا گیا ہے۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ ڈی ایس پیز کے تینوں عہدوں پر افسروں کو تعینات کیا جائے تاکہ شہر میں ٹریفک کے بے ہنگم ہجوم کو کنٹرول کیا جا سکے۔