’’معیشت کی حساس حالت اور اقتداری حلیفوں میں گڑبڑ گھوٹالا‘‘

معروف کالم نگار سہیل سانگی نے اپنے زیرنظر کالم میں وطنِ عزیز کے معروضی سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر بروز جمعۃ المبارک 15 اکتوبر 2021ء کو جوکالم تحریر کیا ہے، اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ مترجم اور ادارے کا کالم کے مندرجات سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔
……٭٭٭……
’’ایشیا کے اس خطے میں جہاں پاکستان واقع ہے، ایک بڑی اتھل پتھل چین اور امریکہ کے مابین جاری نئی سرد جنگ اور کاروباری مقابلہ آرائی کے باعث عروج پر تھی، اور اس پر مستزاد افغانستان میں طالبان حکومت کی تشکیل کی وجہ سے صورتِ حال نے ایک نئی جہت اختیار کر لی ہے۔ ان معاملات پر ملکوں اور ان میں موجود لابیوں اور طبقات کے درمیان نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ خطے کے سارے ممالک اور ان کے پالیسی ساز ادارے آنے والے وقت میں اپنے اپنے ملکی مفادات کے تحفظ اور اپنے فوائد کی تلاش کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کرنے میں مصروف ہیں، کیوں کہ اس تبدیل شدہ صورتِ حال میں صحیح فیصلہ متعلقہ ملک اور قوم کو معاشی اور سیاسی حوالے سے بہت آگے لے کر جائے گا، جبکہ کوئی بھی غلط فیصلہ یا معمولی غلطی اتنا پیچھے دھکیل دے گی جو ناقابلِ بیان ہے، کیوں کہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے شاید کئی عشروں کی محنت ِشاقہ اور قربانیاں درکار ہوں گی۔
پاکستان طالبان حکومت کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس میں ’’پاکستان کی دفاعی حکمت ِعملی کی گہرائی‘‘ کا کار فرما تصور اپنی جگہ پر، لیکن اس سے بھی کہیں بڑھ کر یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب کی بھی یہی فرمائش ہے، جہاں طالبان کو تیل سے مالامال ان دولت مند ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے۔
طالبان کی افغانستان میں آمد نے چین اور امریکہ کے مابین جاری سرد جنگ میں چین کو فائدہ پہنچایا، کیوں کہ ایران اور روس سمیت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک چاہتے ہیں کہ فی الحال طالبان کو اپنا دورانیہ پورا کرنے دیا جائے۔ چین بھی یہی کچھ چاہتا ہے۔ جب کہ پاکستان تو اس پر عمل پیرا ہے۔ اس طرح سے ایک دائرہ تو وہ ہے جس میں افغانستان کے پڑوسی ممالک اکٹھے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ خلیجی ممالک اور سعودی عرب کا کسی معاملے پر یکساں مؤقف قائم ہوا ہو، جو ایران کا بھی ہے۔ ایرانی افواج کے سربراہ دورۂ پاکستان پر تشریف لائے جنہوں نے آرمی چیف اور وزیراعظم سے ملاقات کی۔ دوسرا دائرہ وہ ہے جو چین کے خلاف قائم ہے، جس میں امریکہ کی سربراہی میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک شامل ہیں۔ ایران اور امریکہ کی مخالفت میں ایک تیسرا دائرہ ہے جو خواہ چھوٹا ہی سہی، لیکن بہرحال اہم ہے۔
پاکستان بدلتے ہوئے حالات میں تاحال یہ طے نہیں کرسکا ہے کہ وہ چین اور امریکہ کی جنگ میں کس کے ساتھ کھڑا ہو؟ فی الحال تو وہ دونوں ہی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اگر طالبان کابل فتح نہ کرتے تو شاید پاکستان پر سخت دبائو پڑتا کہ وہ فوری طور پر فیصلہ کرے۔ اس وقت بھی سی پیک کے حوالے سے ملتی جلتی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ سی پیک والے کام کا ہیڈ کوارٹر گوادر سے تبدیل کرکے کراچی منتقل کیا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گوادر کے مقام پر لگ بھگ گزشتہ ایک ماہ سے کام بند ہے، اور یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ کراچی میں متبادل بنایا جارہا ہے۔ بہرحال افغانستان میں طالبان کے آنے سے پاکستان اور چین دونوں کی پوزیشن پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی ہے کہ وہ براہِ راست زیادہ امریکی دبائو میں آنے سے احتراز کرسکتے ہیں۔ لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ سب کچھ عارضی اور خودساختہ ہے جو تادیر نہیں چل سکتا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جب بھی جی چاہے گا عمل شروع کریں گے تو پاکستان کو اس کی موجودہ پالیسیوں کے ساتھ راستہ نہیں دیں گے، اور گھوم پھر کر آگے چل کر بہرحال اس صورت حال کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔
پاکستان کی معیشت کو بڑا سہارا سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اپنے خاندانوں کے لیے بھیجی گئی رقوم اور سعودی عرب سے ادھار پر ملنے والے تیل سے حاصل ہے۔ اگر ان دونوں رقومات کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بالکل گم ہوجائیں گے اور ڈالر کی سطح بہت اوپر چلی جائے گی، جس کی وجہ سے ساری اشیاء کے نرخ بہت بڑھ جائیں گے اور ایک طرح سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔ نتیجتاً پاکستانی روپے کی قیمت بھی بہت گر جائے گی۔ پاکستان کسی بھی طرح سے اپنی امپورٹ کم کرسکا ہے اور نہ ہی اپنی ایکسپورٹ میں کوئی اضافہ کر پایا ہے، جس کے نتیجے میں ہر ماہ بیرونی کاروبار کے سبب جو فرق پیدا ہوتا ہے وہ ہر مہینے کا نقصان ہے، جس کا ازالہ ادھار پر لیے گئے تیل اور سمندر پار مقیم پاکستانیوں سے ملنے والی رقومات سے کیا جاتا ہے، اور اب بھی کیا جارہا ہے۔ ملکی معیشت کا پہیہ تقریباً جام ہوچکا ہے، اور مسلسل زوال پذیر معیشت نے ایک خطرناک صورتِ حال کو جنم دیا ہے۔ ہماری معیشت محض چند بنیادی شعبوں یعنی سروس سیکٹر یا پھر کھانے پینے کی اشیاء تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے، جب کہ کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مینوفیکچرنگ سیکٹر ہوا کرتا ہے، یا ایسی ویلیو ایڈڈ اشیاء جو ایکسپورٹ کی جا سکیں۔ یہ ایک حساس معاشی صورتِ حال ہے۔
خطے کی ایسی صورت حال اور معیشت کی حساس حالت میں اوپر سے اقتداری حلیفوں کے مابین ایک طرح سے گڑبڑ گھوٹالا کی سی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے حوالے سے اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ہر بار سیاسی حکومت کی طرف سے مختلف مؤقف سامنے آئے۔ ڈی جی آئی ایس آئی جو قانون کے مطابق وزیراعظم کے ماتحت آتا ہے اور وزیراعظم کو اس کی تقرری کرنی ہوتی ہے، ان کی منظوری سے پیشتر ہی فوج کے میڈیا ونگ نے پریس ریلیز جاری کرڈالا، اور پھر جب بیانات آئے تو خبریں آئیں کہ جرنیلوں کے ناموں کی سمری وزیراعظم کو بھیج دی گئی ہے۔ اور پھر میڈیا میں یہ خبریں بھی آئیں کہ وزیراعظم ان تینوں (مجوزہ ناموں) کے انٹرویو لیں گے۔ اس کے بارے میں وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کا کہنا یہ ہے کہ وزیراعظم کی نئے ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات محض رسمی ہے یا ایک روایت ہے۔ بہرکیف یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وزیراعظم نے ایسے معاملات میں اس انداز سے اپنا اختلافِ رائے ظاہر کیا ہے۔ اس بارے میں جو بھی وضاحتیں آتی ہیں ان میں کوئی نہ کوئی چیز کم دکھائی دیتی ہے۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ تمام معاملات اور امور درست ہیں، سب ایک پیج پر ہیں، بعض امور پر اختلافات ہیں جنہیں ٹیکنیکل یا طریقہ کار کا نام دیا جارہا ہے۔ اگر یہ بھی ہیں تو ان کا سامنے آنا خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ فی الحال تو یہ الجھن کسی نہ کسی طور سے سلجھ گئی، لیکن اس سارے عمل میں مختلف مقامات پر جو دوری پیدا ہوئی اور جو اختلافات سامنے آئے اُس سے بات بدمزگی سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوجائیںگے۔ جن چیزوں کو طریقہ کار کا نام دیا گیا ہے اُن کے پسِ پردہ حقائق اور حکمتِ عملیاں بھی سامنے آئیں گی۔ مجھے ایک دوست کا کہا ہوا جملہ یاد آتا ہے، جس نے عمران خان کے وزیراعظم ہونے اور اپوزیشن کی جانب سے انہیں سلیکٹڈ کہنے پر کہا تھا کہ ’’معاملے کو ذرا آگے بڑھنے دیں۔ حکومت چلانا بذاتِ خود ایک سیاسی عمل ہے۔ اس لیے عمران خان چاہے مقتدر قوتوں کا کتنا ہی من پسند فرد ہو اور رہے، اُسے (عمران خان کو) بالآخر ایک دن سیاسی بننا ہی پڑے گا اور سیاسی طور پر عمل بھی کرنا پڑے گا‘‘۔ معلوم نہیں کہ وزیراعظم کے اس عمل کو صحیح معنوں میں سیاسی عمل کہا بھی جا سکتا ہے کہ نہیں؟ جب بھی کسی سیاسی حکومت کے ساتھ اس نوع کی سیاسی صورتِ حال پیش آئے گی تو وہ ردعمل بھی پھر اسی طرح کا دے گی جو موجودہ حکومت نے دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ردعمل کے بعد کس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔‘‘