بلوچستان ’’کنگز پارٹی‘‘میں بحران

بلوچستان میں حکمران جماعت کے اندر وزیراعلیٰ جام کمال پر عدم اعتماد کی باتیں شروع ہوئیں تو اس دوران چند افراد رکنِ بلوچستان اسمبلی جان محمد جمالی کی رہائش گاہ پر جمع ہوئے۔ جان محمد جمالی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے مرکزی آرگنائزر ہیں۔کہا گیا کہ مختلف ڈویژن کے آرگنائزر پر مشتمل منعقدہ اجلاس میں تنظیمی امور پر تبادلہ خیال اور جام کمال خان سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ چناں چہ لب لباب اخبارات کو یہ جاری ہوا کہ جام کمال خان پارٹی کو وقت نہیں دے سکے ہیں، لہٰذا وہ پارٹی صدارت چھوڑ دیں۔ جان محمد جمالی سینئر آدمی ہیں، صوبے کے وزیراعلیٰ رہے ہیں، ایوانِ بالا کے ڈپٹی چیئرمین اور بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر رہے ہیں۔ مگر سرشت عمر اور تجربے کے برعکس اظہار کرتی ہے۔ پیرانہ سالی میں بھی انہوں نے چوٹ دینے کی روش اپنا رکھی ہے۔ کئی دن تک سمجھا جارہا تھا کہ وہ مصالحت کے حامل ہیں، لیکن وہ جام مخالفین کی قطار میں نمودار ہوئے، اُن کے چند مخالفین کے ساتھ اسلام آباد گئے۔ کوئٹہ کے اندر بھی جلی و خفی نشستوں میں جام مخالفین کے ساتھ منصوبہ بندیوں میں شامل رہے۔ وزارتِ اعلیٰ کی خواہش انہیں بھی دامن گیر ہے۔ پھر12 اکتوبر کو نواب زادہ طارق مگسی کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں الٹی زقند لگائی کہ معاملہ پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں باہمی طور پر حل کرتے ہیں، اور کہا کہ انہیں اور جام کمال کو قربانی دینی پڑی تو دیں گے۔ اگر طارق مگسی کو کوئی ذمے داری دینی پڑے تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی ذومعنی بات کہہ ڈالی اور اشارہ طارق مگسی کو آگے کرنے کا دیا۔
کنگز پارٹی کے اندر صدارت کا معاملہ اس طرح آگے بڑھا کہ جام کمال خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پارٹی صدارت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا، البتہ ضابطے کے تحت تحریری طور پر استعفیٰ نہ دیا، جس کے بعد مخالف افراد کو مزید موقع ملا۔ اس طرح چند دن بعد کنگز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر منظور کاکڑ نے ظہور بلیدی کا بطور قائم مقام صدر نوٹیفکیشن جاری کیا، جس پر جام نے اپنے حامیوں کے کہنے پر پارٹی صدارت کی ذمہ داریاں پھر سے سنبھال لیں۔ یہ فیصلہ12اکتوبر2021ء کو پارٹی اجلاس میں کیا گیا۔ اس پر مخالف حلقہ چیں بہ جبیں ہوا، کیونکہ وہ پارٹی صدارت کے ذریعے جام کے خلاف مزید مشکلات پیدا کرنے میں جُت گیا تھا، جسے جام کمال اور ان کے حامیوں نے بھانپ لیا۔ بات دستور کی، کی جائے تو جام کمال خان درست کہتے ہیں کہ جب تحریری استعفیٰ اپنے دستخط کے ساتھ پارٹی کو نہیں دیا تو کس طرح کوئی عہدے دار قائم مقام صد کے تقرر کا مراسلہ جاری کرسکتا ہے؟ جام کمال اور پارٹی کے دوسرے سینئر ارکان اس باب میں پارٹی دستور کا نکتہ یہ بیان کرچکے ہیں کہ قائم مقام صدر کا انتخاب فردِ واحد نہیں بلکہ ایگزیکٹو کونسل یا کمیٹی کرتی ہے۔ بقول جام کمال خان کے، دفتری اقدام و کارروائی کے بغیر قائم مقام صدر بنادیا گیا ہے۔ بوقتِ ضرورت بھی قائم مقام صدر کے تقرر کے لیے کونسل کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ بہرحال مخالف دھڑا جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، سینیٹر منظور کاکڑ، سینیٹر نصیب اللہ بازئی، سینیٹر سعید ہاشمی، ظہور بلیدی، عبدالقدوس بزنجو، صالح محمد بھوتانی، محمد خان لہڑی، عبدالرحمان کھیتران وغیرہ شامل ہیں، اپنے راستے پر ہی ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ وہ عوامی اور میڈیا فورم پر جام کمال خان سے وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اگر بات اسمبلی قوانین اور دستور کی کی جائے تو کیا یہ شخص آئینی طور پر مزید اس منصب کے لیے اہل ٹھیر سکتا ہے؟ جبکہ اسپیکر کے عہدے پر موجود شخص سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالاتر اور غیر جانب دار رہے گا، اور حزبِ اختلاف اور حکومتی بنچوں کے درمیان توازن کو برقرار رکھے گا، مگر یہاں تو خود اسپیکر فریق بنا بیٹھا ہے۔
یہ سارے افراد اسلام آباد جاکر بڑوں سے ملاقات کے لیے وقت دینے کی التجائیں کرچکے ہیں۔ دراصل ان ساڑھے تین برسوں میں محروم ان میں سے کوئی بھی نہیں رہا ہے۔ حیرت ہے کہ ان کے ساتھ صوبے کے سرمایہ دار اور ٹھیکیدار بھی متحرک ہوئے ہیں، جنہوں نے پیسہ لگانا شروع کردیا ہے۔ ظاہر ہے ہوا موافق چلے گی تو ان کی دولت دوچند ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ بلوچستان میں اتھل پتھل و گڑبڑ ہوتی ہے تو لامحالہ وفاق، خیبر پختون خوا اور پنجاب میں بھی ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ ویسے بھی پی ڈی ایم اور جماعت اسلامی حکومت مخالف احتجاج پر ہیں۔ بلوچستان میں جام مخالفین اور پی ڈی ایم کی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کا ملن ہوچکا ہے۔گویا وفاقی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا اور بلوچستان کے اندر بے یقینی پیدا ہوگی۔ یہاں ویسے بھی جام مخالفت میں منفی کوششیں ہوئی ہیں۔ 2 اکتوبر کو تربت کے علاقے بلیدہ میں پولیس چھاپے کے دوران فائرنگ سے ایک بچہ جاں بحق ہوا تھا۔ اس کی رپورٹ درج نہ کرائی گئی، ڈیٹھ سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا، جس پر ورثا نے میت کے ساتھ کوئٹہ پہنچ کر ریڈ زون پر دھرنا دیا۔ مختلف سطح کے لوگ یکجہتی کے لیے گئے، طرح طرح کی تقاریر ہوئیں۔ بالآخر رکن بلوچستان اسمبلی سید احسان شاہ کی کاوش سے مسئلہ حل ہوا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات میں لواحقین کی دادرسی ہوئی۔ ظہور بلیدی بلیدہ تربت سے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں۔ وزارتِ خزانہ کا قلمدان ان کے پاس تھا۔ چاہتے تو مسئلہ وہیں حل ہوجاتا۔ لواحقین نے وزیراعلیٰ جام کمال سے کہا کہ رکن اسمبلی انہیں کوئٹہ جانے کی ترغیب دے چکے تھے۔ ایسا ہی تربت کے علاقے ہوشاب میں 10اکتوبر کو دو بچوں کے بم دھماکے میں جاں بحق ہونے کے سانحے کے بعد ہوا۔ وہاں کی انتظامیہ رپورٹ دے چکی ہے کہ بچوں کے ہاتھ دستی بم لگا، انہوں نے کھیلتے ہوئے پن نکالی اور نتیجتاً وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوئے، ایک بچہ زخمی ہوا۔ اس کے برعکس لواحقین نے الزام لگایا کہ ایف سی نے مارٹر گولہ فائر کیا ہے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ کیسے جانا کہ ایف سی نے گولہ فائر کیا؟ غرض یہ میتیں بھی کوئٹہ پہنچائی گئیں، 13اکتوبر کو ریڈ زون پر میتوں کے ہمراہ دھرنا دیا گیا۔ یہاں بھی مختلف الخیال لوگوں کا تانتا بندھا رہا، نازیبا نعرے ایف سی اور فوج کے خلاف لگتے رہے۔ سننے میں آیا ہے کہ اس خاندان کو بھی ایم پی اے صاحب نے کوئٹہ میتیں لے جانے کی ترغیب دی تھی، اور سبکی حکومت اور سیکورٹی اداروں کو اٹھانی پڑی۔ معاملہ منشا کے مطابق یوں انجام کو پہنچا کہ 18اکتوبر کو بلوچستان ہائی کورٹ نے بچوں کی ہلاکت کے واقعے میں غفلت برتنے پر ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ، اسسٹنٹ کمشنر تربت اور نائب تحصیلدار کو معطل کرکے ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔ عدالتی احکامات کے تحت واقعے کا مقدمہ مکران کے سی ٹی ڈی تھانے میں ایف سی اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ، دھماکہ خیز مواد ایکٹ، قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج کرلیا گیا۔ عدالت نے چھ دنوں سے کوئٹہ میں میتوں کے ہمراہ دھرنے پر بیٹھے لواحقین کو احتجاج ختم کرکے بچوں کی تدفین کی ہدایت بھی کی۔گویا ترغیب کاری کا عمل جام مخالف کڑی میں دیکھا جاتا ہے۔