آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی نژاد بزنس مین مبین احمد عزیز وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے یونیورسٹی آف آکلینڈ نیوزی لینڈ سے کمپیوٹر سائنس میں Ph.D کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ نیوزی لینڈ کے کالج میں درس وتدریس کے فرائض سرانجام دینے کے بعد آسٹریلیا نقل مکانی کی، اور وہیں کی شہریت اختیار کرلی۔ ڈاکٹر مبین آسٹریلیا میں پاکستانی سالٹ، لیمپ قالین اور فرنیچر کا بزنس کامیابی سے چلارہے تھے اور اسی سلسلے میں ان کا پاکستان آنا جانا لگا رہتا تھا، خاص کر کراچی میں جہاں ان کے خاندان کے دیگر افراد رہائش پذیر ہیں اور جس شہر کی محبت ان کے دل کی اتھاہ گہرائیوں تک اتری ہوئی ہے۔ ڈاکٹر مبین ایک دردمند اور حساس پاکستانی ہیں، انہوں نے گہرے دکھ کے ساتھ اس بات کو محسوس کیا کہ یہاں ناقص اور متروک ادویہ مارکیٹ میں عام ہیں، یہاں چند ٹکوں کی خاطر انسانی صحت اور جانوں سے کھیلاجاتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی بڑھتی ہوئی خطرناک شرح کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کراچی کی فضا کو، زیر زمین پانی کو، جھیلوں کو اورسمندر کو آلودگی سے پاک کرنے کا ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر پانے کے لیے وہ شہر کراچی میں دوبارہ آبسے۔ ڈاکٹر مبین احمد عزیز نے پاکستان کی بدترین صنعتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان میں سب سے جدید پلانٹ لگایا جو پورٹ قاسم کے کیمیکل زون میں واقع ہے۔ یہ پلانٹ کیا ہے؟ کیسے کام کرتا ہے؟ اور اس کے آئندہ اہداف کیا ہیں؟ یہ سب تفصیلات جاننے کے لیے ہم نے ڈاکٹر مبین احمد عزیز کے ساتھ ایک ملاقات کی جس کا احوال آپ کے سامنے پیش خدمت ہے۔
…………٭٭٭…………
سوال: نیوزی لینڈ میں Ph.D اور درس وتدریس، پھر آسٹریلیا میں کامیاب بزنس کے بعد اچانک اس پلانٹ کا خیال کیسے آیا؟
جواب: کراچی میں موجود میرے چند دوستوں نے بتایا کہ پاکستان میں صنعتوں میں جو فاضل مادہ پیدا ہوتا ہے اسے ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی موزوں طریقہ کار نہیں ہے۔ ان کے پاس ICI کے Sludge (کیچڑ) کو ٹھکانے لگانے کے لیے آفر ہے اور یہ ایک بڑا کام ہوگا۔ لہٰذا دھابے جی میں 8 ایکڑ کی جگہ خرید لی گئی اور ایک چھوٹا Incinerator پلانٹ لگایاگیا، اور کام شروع ہوگیا۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک آپ خود موجود نہ ہوں کام اس طرح نہیں ہوسکتا جیسے آپ چاہتے ہیں۔ لہٰذا مجھے خود آکر کنٹرول سنبھالنا پڑا تب حالات قابو میں آئے۔ یہ ہمارا پہلا پروجیکٹ تھا۔
سوال: اس کام کو شروع کرنے کا اصل مقصد کیا تھا؟ ابتدائی طور پر آپ نے کون سے اقدامات کیے جن سے آپ کی ساکھ بنی اور آپ کا پہلا ہی پروجیکٹ کامیاب رہا؟
جواب: ہمارا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں تھا، بلکہ ماحول کو بہتر بنانا تھا۔ لہٰذا اپنے نقصان کی پروا نہ کرتے ہوئے صرف اور صرف ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ یعنی اگر ہم ICI کے Sludge کو صرف سُکھاکر جلانے کا کام کرتے رہتے تو زیادہ فائدہ تھا، مگر ہم نے Ph.D کے طالب علموں کو اسکالر شپ دے کر آلودگی پر کام کرایا۔ یہ تجویز دی کہ یہ Sludge کوئلے کی طرح جلنے کی طاقت رکھتا ہے، لہٰذا اس کو اس طرح استعمال کیا جانے لگا۔ ہم نے تحقیق کروائی کہ راکھ کو سمینٹ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، اس سے ایسی اینٹیں بنائی جاسکتی ہیں جو مارکیٹ میں بکنے والی اینٹ سے زیادہ سستی اور مضبوط ہوں گی۔ اور پھر ہم نے اس کو کرکے بھی دکھایا۔ ہم نے یہ بھی معلوم کیا کہ راکھ میں کتنی مقدار میں ایسی بھاری دھات ہے جس کو اس میں سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہمارے اندازے کمپنی کے ماہرین کے اندازوں سے زیادہ بہتر تھے، لہٰذا معاشی طور پر ہم کو نقصان بھی اٹھانا پڑا، مگر ماحولیات کے لیے یہ بہتر اقدام تھا۔
سوال: آپ کی Waste Mangementکمپنی ’’جیو لیکس پرائیوٹ لمیٹڈ‘‘ کس طرح دوسری کمپنیوں سے مختلف ہے؟
جواب: ہماری وہ واحد کمپنی ہے جو نہ صرف SEPA (Sindh Environmental Protection) سے منظور شدہ ہے بلکہ ہم کو ISO 90001 اور14001 کا سرٹیفکیٹ بھی ملا ہوا ہے جو کہ انتہائی پیچیدہ اور تفصیلی چھان بین کے بعد ہی ملتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم حکومت کے ماحولیاتی اور بین الاقوامی قوانین کی سختی سے پابندی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس PEPAیعنی Punjab Environmental Protection Agency سے بھیEIAـ (Environmental Impact Assessment) موجود ہے۔ سندھ میں بھی ہم نے باقاعدہ تمام قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ایک سال کے مسلسل عمل کے بعد EIA حاصل کیا تھا۔ یہ لائسنس یا سرٹیفکیٹ یا منظوری اُس وقت تک حاصل رہتی ہے جب تک ہم کوئی بڑی تبدیلی اپنے نظام میں نہیں لاتے ہیں۔ ہمارے پاس پورٹ قاسم کے کیمیکل زون میں نہ صرف دو عدد بڑے Incineration کے پلانٹ ہیں بلکہ اس میں دھویں کے درجہ حرارت اور اس میں شامل بھاری ذرات اور گیسوں کو ماحولیاتی قوانین کے مطابق ایک حد کے اندر رکھنے کے لیے نہ صرف Water Scruber ہے بلکہ bag filters کا انتظام بھی ہے جو پاکستان میں کہیں اور نہیں ہے، اور نہ سٹی کونسل کے پاس ہے۔ ہماری کمپنی کا پلانٹ تین ایکڑ کے علاقے میں ہے۔ یہ اتنا صاف ستھرا ہے کہ آپ کہہ نہیں سکتے کہ یہاں Waste Management ہوتی ہے۔
سوال: ویسٹ مینجمنٹ میں آپ کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے؟
جواب: پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قوانین تو بہت ہیں اور اچھے ہیں، مگر ان کو لاگو کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ اتنے سرخ فیتے، دلچسپی کا فقدان، ماحولیات سے لاعلمی، غلط ذرائع کا استعمال اور کرپشن ہے کہ آپ کا سیدھا سادہ کام انتہائی دشواری کے بعد ہوگا۔ جبکہ غلط کام فوری ہوجائے گا۔ ماحولیات کا محکمہ ہے لیکن ماحولیات کا ماہر موجود نہیں، اور اگر آٹے میں نمک کے برابر ہے بھی تو اُس کی معلومات اٹھارہویں صدی کی ہوں گی۔ ہمارے یہاں جعلی دوائیں عام ہیں۔ اس لیے کہ اکثر کمپنیوں کی Out dated اور خراب ادویہ کسی نہ کسی طرح مارکیٹ میں آجاتی ہیں۔ یہی حال فارماسوٹیکل پروڈکٹ کا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اسپتالوں کا کچرا بھی بک جاتا ہے، اور اس میں موجود خطرناک جراثیم اور بیکٹیریا زدہ اشیاء کو دھو دھلا کر پیک کرکے مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس میں ایک وجہ تو ان کمپنیوں میں کام کرنے والے ذمہ داروں کا لالچ ہے جو مجرمانہ طور پر پیسہ بچانے کے نام پر ایسے لوگوں کو سامان دے دیتے ہیں جو کم پیسوں پر بٹ کرتے ہیں۔ ذمہ داروں کو کمیشن مل جاتا ہے۔ کام کرنے والے اس میں سے چھانٹ کر بیچ دیتے ہیں، باقی کچرا سڑکوں کے کنارے، گڑھوں میں، یا نالوں میں ڈال دیتے ہیں۔ پوچھنے والا ’’خوش‘‘ ہوچکا ہوتا ہے، لہٰذا سوال کی گنجائش نہیں ہوتی۔
سوال: اس سلسلے میں محکمۂ ماحولیات کیا کرتا ہے؟
جواب: محکمہ ماحولیات اس قسم کے ٹھیکے داروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ ان کو سال بھر کا ایک NOC جاری کردیتا ہے جو بظاہر Non Hazar کچرے کے لیے ہوتا ہے، اس میں کچھ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے پاس ماحولیاتی قوانین کی پابندی کے لیے کیا کیا سہولتیں موجود ہیں۔ اس میں نہ (Initial environment examination) IEE اور نہ ہی EIAکی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کس قانون کے تحت بغیر IEE اور EIA کے سال بھر کے لیے این او سی جاری کرتے ہیں؟ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ بس ہر سال این او سی لیتے جائو اور ماحول کا بیڑا غرق کرتے جائو۔ این او سی جاری کرنے والے کا بھی کام بن جاتا ہے اور ٹھیکے دار کا بھی۔ اب ان حالات میں جو کمپنی پوری طرح قانون کے تحت کام کررہی ہے وہ ان کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتی، کیونکہ اس کو اپنا خرچ پورا کرنا پڑتا ہے، جبکہ یہ ٹھیکے دار ماحولیات کو بگاڑ کر کما رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ یہ ٹھیکے دار سال بھر کے لیے آزاد ہوتے ہیں، جبکہ معیاری کمپنی پر مختلف اقسام کا دبائو ڈالا جاتا ہے کہ ہم کو تمہارے کام سے نہیں صرف اپنے کام سے مطلب ہے۔
سوال: کراچی کی کچرا کنڈیوں کا بھی کوئی حل ہے آپ کے پاس؟
جواب: کراچی میں اربوں روپے کا کچرا بکھرا ہوا ہے جس میں سے قابلِ استعمال اشیاء کو چننے کے لیے تقریباً 40 ہزار بچے جن کو اسکول کا بیگ پکڑنا چاہیے تھا، کچرے کا بیگ پکڑے نظر آتے ہیں۔ یہ قومی المیہ ہے۔ یہ بچے کس کس عمر میں کن کن بیماریوں کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں اس کے اعداد و شمار کسی کے پاس نہیں، اور نہ کسی کو دلچسپی ہے۔ اس کو منظم طریقے سے اکٹھا کیا جائے تو کئی چھوٹی صنعتیں لگائی جاسکتی ہیں جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے، اور اس کچرے سے توانائی بنائی جاسکتی ہے۔ مگر کون کرے گا یہ؟ ایسا لگتا ہے کہ کراچی شہر کچرے کے ڈھیر پر بسا ہوا ہے۔
سوال: آپ نے تذکرہ کیا کہ آپ کی کمپنی Incinerators بھی بناتی ہے۔ یہ کس حد تک کامیاب ہیں؟
جواب: جی ہاں ہم ملکی سطح پر بہتر ڈیزائن اور گنجائش کے Incinerators بناتے ہیں۔ ہماری ورک شاپ فیصل آباد میں ہے جہاں بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے، اور پھر جس جگہ لگانا ہو وہاں مکمل کیا جاتا ہے۔ ہمارے بنائے ہوئے Incinerators زیادہ تر بہتر انداز سے کام کررہے ہیں، کیونکہ ہم اس میں بہتر سائز کا لوع اور بیرونی ممالک کی موٹریں لگاتے ہیں۔ ہمارا عملہ تربیت یافتہ ہے جو ہر وقت خدمت کے لیے تیار ہوتا ہے۔ درآمد شدہ میں ذرا سا بھی نقص نکل آئے تو ماہر کو باہر ملک سے بلانا ہوتا ہے جس پر وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوتے ہیں۔ ہم خود کیونکہ اپنے ہی بنائے ہوئے Incineratorاستعمال کرتے ہیں لہٰذا فروخت کے بعد بہترین سروس مہیا کرتے ہیں، اور ظاہر ہے بیرونی ممالک کے مقابلے میں ان کی قیمت بھی خاصی کم ہوتی ہے اوران کو چلانا بھی نسبتاً زیادہ آسان ہوتا ہے۔ ہم کسٹمر کی خواہش پر مختلف سائز اورگنجائش کے تیار کرتے ہیں۔
سوال: ہمارے قارئین کی سہولت کے لیے بتائیے کہ یہ انسینی ریٹر(Incinerator)دراصل ہوتے کیا ہیں اور کس طرح کام کرتے ہیں؟
جواب: یہ ایک خاص قسم کی بھٹی ہوتی ہے جس کے پہلے حصے میں فضلے کو مکمل راکھ میں تبدیل کرنے کے لیے اس کا درجہ حرارت 800 سینٹی گریڈ تک رکھا جاتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر اسپتال کے فضلے کے جراثیم وغیرہ بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ دوسرے حصے میں درجہ حرارت 1100سینٹی گریڈ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بننے والی گیسیں بھی ڈی کمپوز ہوجاتی ہیں۔ اب جو دھواں چمنی تک پہنچتا ہے اس میں کاربن کے ذرات بھی ہوتے ہیں، لہٰذا ذرات کو اسکریبر کے ذریعے پانی میں روک لیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں ہوا، جلنے اور جلانے والی گیس، نکلنے والے دھویں اور مضر صحت گیس سب کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔ ہمارے اس جدید ترین پلانٹ کی صلاحیت 500 کلو فی گھنٹہ ہے۔
سوال: کون سی کمپنیاں یا ادارے آپ سے رجوع کرتے ہیں؟
جواب: وہ انٹرنیشنل فارما سیوٹیکل، کیمیکل، کھانے پینے کی اشیاء بنانے والی کمپنیاں اور اسپتال جو ماحولیات اور آلودگی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ان کے پاس باقاعدہ اس مقصد کے لیے فنڈز رکھے جاتے ہیں، اور جو نہیں چاہتے کہ ان کی پرانی، ناقابلِ استعمال اشیاء دوبارہ مارکیٹ میں آکر ان کی ساکھ اور کوالٹی کو خراب کریں، وہ ہم سے رجوع کرتے ہیں۔ ان کے یہاں باقاعدہ اس کا آڈٹ ہوتا ہے۔ ہم ان کے کچرے کو اپنی سائینی بنیاد پر چلنے والی بھٹیوں (Incinerator) میں بہت زیادہ درجہ حرارت پر جلاتے ہیں، لہٰذا 100 کلو کچرا جل کر 10 کلو رہ جاتا ہے جس کو ٹھکانے لگانا آسان ہے۔ کچرے کو دراصل لینڈ فِل سائٹ میں جانا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے پورے سندھ میں ایسی جگہ نہیں ہے۔ سٹی کونسل بھی کچرے کو بڑے بڑے گڑھوں میں ڈال دیتی ہے جس سے زیر زمین، ہوائی اور زمینی ماحولیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ نہ صرف سمندری وسائل بلکہ انسانی صحت کو بھی لامحدود خطرات لاحق ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ ہم نے اتنے بڑے بڑے صنعتی علاقے قائم کردئیے ہیں مگر کچرے اور آبی آلودگی کے لیے کوئی انتظام نہیں رکھا ہے، نہ اب توجہ دے رہے ہیں۔ ہم اس طرح بھی دوسری کمپنیوں سے مختلف ہیں کہ ہم خود ملکی سطح پر Incinerator نہ صرف یہ کہ ڈیزائن کرتے ہیں بلکہ بناتے بھی ہیں۔ ہم نے ملیر کینٹ کراچی، سکھر اور شیخو پورہ میں اپنے بنائے ہوئے پلانٹ لگائے ہیں اور مکمل سروس مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم لوگ لینڈ فل سائٹ بنانے کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔
سوال: ڈاکٹر صاحب میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ کی کمپنی میں ورکرز بہت خوش اور مطمئن انداز میں کام میں مصروف ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ؟
جواب: جی ہاں اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پلانٹ پر کام کرنے والے تمام ورکرز مقامی ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے جو مراعات قانونی طور پر ان کو حاصل ہیں اس میں رتی بھر کٹوتی نہیں ہوتی، بلکہ ہماری طرف سے ان کی مسلسل امداد جاری رہتی ہے۔ نیز بیماری میں، بچوں کی پڑھائی میں، عید بقرعید کے موقع پر اضافی تعاون ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارے اور ان کے درمیان مثالی تعلق رہتا ہے، اور اس کا اثر ورکرز کی کارکردگی پر پڑتا ہے، وہ زیادہ جذبے اور لگن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
سوال: آلودگی کو کم کرنے کے لیے مستقبل میں کن اقدامات کی ضرورت ہوگی؟
جواب: صنعتی علاقوں میں ہوائی، آبی اور زمینی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے انتظامات کو ابتدائی طور پر شامل کرنا پڑے گا، یعنی گیسوں کا کنٹرول، پانی کو ٹریٹ کرنے کے پلانٹ، Incinerator اور لینڈ فل کے قیام کو لازمی بنانا ہوگا اس سے پہلے کہ کوئی صنعتی عمل شروع ہو۔ شہروں کے لیے تو ہم کو ایک مکمل منظم نظام بنانا ہوگا، ان کچرا کنڈیوں کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ ان سے آلودگی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ آپ کو دنیا میں کہیں بھی اس قسم کی کچرا کنڈیاں نہیں ملیں گی۔