امریکہ کی حیثیت ایک سپر پاور کی تھی یا ہے، اب اس کا تجزیہ ہونا باقی ہے۔ امریکہ آج سے 20 سال قبل اپنی قاہرانہ قوت کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور طالبان کو اقتدار سے محروم کردیا، اُس وقت کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہوگا کہ طالبان دوبارہ اقتدار حاصل کرلیں گے اور امریکہ اپنی تمام قوت کے ساتھ طالبان کے ہاتھوں شکست کھائے گا۔
20 سال تک طالبان نے تاریخی مزاحمت کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد امریکی استعمار نے افغانستان میں ذلت آمیز شکست کھائی اور رات کی تاریکی میں امریکی جنرل بھاگ رہے تھے۔ میدانِ جنگ سے بھاگنا اور شکست کھانا ایک ایسا داغ ہے جو قبر تک پیچھا کرتا ہے، اور تاریخ میں شکست خوردہ کا نام احترام سے نہیں لیا جاتا۔ ہم نے اور پوری دنیا نے صدرِ افغانستان اشرف غنی کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اشرف غنی کو امریکہ لایا تھا، امریکہ اُس کا آقا تھا۔ جب آقا اپنے لائو لشکر کے ساتھ فرار ہورہا تھا تو نوکر کیسے ٹھیر سکتا تھا؟ تاریخ اشرف غنی پر ہمیشہ نفرین بھیجے گی، جبکہ سلطان ٹیپو، جھانسی کی رانی اور خان قلات میر محراب خان کا نام تاریخ میں جگمگاتا رہے گا اور تاریخ ان کے ناموں سے روشن رہے گی۔
29 دسمبر 1978ء کو جب سوویت یونین کی سرخ فوج افغانستان کی مقدس سرزمین پر اتر رہی تھی اُس وقت افغانستان کے صدر حفیظ اللہ امین تھے، ان کا تعلق پرچم پارٹی سے تھا۔ اور اس نے جب نور محمد ترہ کئی کا تختہ الٹا تو اس کے خلاف جنرل حفیظ اللہ نے بغاوت کی تھی اور ایوانِ صدر میں اپنی فوج کے ساتھ داخل ہوئے تو اُس وقت نور محمد ترہ کئی ایوانِ صدر میں موجود تھے۔ اس واقعے سے پہلے نور محمد ترہ کئی نے حفیظ اللہ امین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، انہوں نے حفیظ اللہ امین کو فون کرکے کہا کہ آپ ایوانِ صدر آجائیں، میرے ساتھ سوویت یونین کے سفیر بھی موجود ہیں۔ حفیظ اللہ امین فوجی دستے کے ساتھ جب صدارتی محل میں داخل ہوئے تو ان پر حملہ کیا گیا، لیکن وہ بچ گئے۔ اس کے بعد جنرل حفیظ اللہ امین نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے نظریاتی استاد نور محمد کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ اور پھر نور محمد کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا اور ان کی لاش بغیر غسل کے ایک گڑھے میں پھینک دی اور اس پر مٹی ڈال دی۔ یہ کمیونسٹوں کی بدعہدی کا ایک سیاہ باب ہے جس کو افغانستان کے کمیونسٹوں نے لکھا۔ اس کے بعد سوویت یونین کو اندازہ ہوگیا کہ افغانستان اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا تو اس نے حفیظ اللہ امین کی حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کرلیا، اور دسمبر کی ایک یخ بستہ رات کو اس کی سرخ فوج باگرام کے ہوائی اڈے پر اتر رہی تھی اور درہ سالانگ سے بھاری توپ خانہ کابل میں داخل ہورہا تھا۔ صدر حفیظ اللہ امین کو اطلاع مل گئی کہ سرخ فوج داخل ہوگئی ہے۔ وہ اُس وقت صدارتی محل میں موجود تھے، انہوں نے مقابلے کا فیصلہ کرلیا۔ جب سرخ فوج داخل ہوئی تو چند گھنٹے کے بعد صدر حفیظ اللہ امین کی لاش ایوانِ صدر میں بے گورو کفن پڑی تھی جسے گڑھے میں پھینک کر دفن کردیا گیا۔ سردار دائود سے لے کر حفیظ اللہ امین تک، اور صدر نجیب اللہ سے لے کر اشرف غنی تک تاریخ ان کے کردار سے شرمندہ رہے گی۔
اشرف غنی امریکی بینک کا ملازم تھا۔ اس کو جہاز میں بٹھا کر افغانستان لایا گیا اور اس کی حفاظت کے لیے 40 ہزار فوج تھی جو ٹرمپ کے دور میں کم ہوتی گئی اور امریکہ نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ افغانستان سے چلا جائے گا۔ صدر بائیڈن کے دور میں یہ ذلت آمیز باب لکھا گیا۔ فوج بھاگ رہی تھی تو اشرف غنی بھی بھاگ گیا۔ موت اور ڈالروں کے چھن جانے کے خوف نے اسے بھاگنے پر مجبور کردیا اور دنیا نے اس کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا۔ جب وہ بھاگ رہا تھا تو اس نے شرمندگی سے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا، اور طالبان نے جتنی قوت سے افغانستان کو فتح کرتے ہوئے کابل کی طرف رخ کیا تو امریکہ کی تربیت یافتہ فوج بھی بھاگ گئی۔ 3 لاکھ 50 ہزار فوج خوف زدہ تھی اور بھاگ رہی تھی۔ وہ 80 ہزار طالبان کے سامنے ٹھیر نہ سکی، اور دنیا حیران تھی کہ یہ کیا ہوگیا ہے! یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ افغان فوج کے لیفٹیننٹ جنرل سمیع سادات نے اس شکست کے اسباب اور امریکہ کی بے وفائی کا کھل کر اظہار کیا ہے اور اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ نے ہمیں دھوکا دیا اور ہم سے غداری کی ہے۔ جنرل سمیع سادات نے افغان نیشنل آرمی کی 215 مائند کور کی قیادت کی۔ اس سے قبل وہ افغانستان نیشنل انٹیلی جنس کے سینئر ڈائریکٹر تھے۔ وہ ڈیفنس اکیڈمی برطانیہ کے گریجویٹ ہیں اور کنگز کالج لندن سے ماسٹر کی ڈگری رکھتے ہیں (حوالہ نیویارک ٹائمز) مضمون کی سرخی ہے:
I Commanded Afghan Troops This year, We were betrayed. (New York Times)
جنرل سمیع سادات نے کہا:
’’طالبان سے دو عشروں کی جنگ کے دوران ہمارے بمبار اور ٹرانسپورٹ طیاروں کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کنٹریکٹر کے سپرد تھی، جولائی تک 17 ہزار کنٹریکٹرز میں سے بیشتر رخصت ہوچکے تھے۔ ٹیکنیکل مسائل اٹھ کھڑے ہوئے جس کی وجہ سے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، C-130 طیارہ، نگرانی پر مامور ڈرون سبھی کچھ گرائونڈ کردینا پڑا۔ کنٹریکٹرز سوفٹ ویئر اور ہتھیاروں کا سسٹم بھی لے جانے لگے۔ انہوں نے ہمارے ہیلی کاپٹر میزائل ڈیفنس سسٹم کو بھی الگ کردیا۔ اپنی اپنی گاڑیوں، ہتھیاروں اور عملے کا سراغ لگانے کے لیے ہم جس سوفٹ ویئر پر انحصار کرتے تھے وہ بھی غائب ہوگیا، اہداف کی رئیل ٹائم انٹیلی جنس بھی ممکن نہ رہی۔ طالبان اسنائپر، رائفلز اور دیسی ساخت کے بموں کی مدد سے حملے کرتے رہے جبکہ ہم ایک طرف فضائی کارروائیوں کے ذریعے ملنے والی امداد سے محروم ہوگئے اور دوسری طرف لیزر گائیڈڈ اسلحہ بھی ہم سے چھین لیا گیا۔ ہیلی کاپٹر نہ ہونے کے باعث ہم اپنے اڈوں میں موجود فوجیوں کو سپلائی جاری نہیں رکھ سکتے تھے اس لیے سپاہیوں کے پاس اتنا اسلحہ ہوتا ہی نہیں تھا کہ لڑائی جاری رکھ سکیں۔ طالبان نے ہمارے اڈوں پر قبضہ کیا اور کہیں کہیں تو پورے یونٹس نے ہتھیار ڈال دیئے۔ امریکی اور اتحادی فوجیوں اور سفارت کاروں کے تیز رفتار انخلا سے معاملات بگڑ گئے۔ اس حوالے سے زمینی حقیقتوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ طالبان کو امریکیوں کی طرف سے ایک واضح حتمی تاریخ مل چکی تھی، اور اس عبوری مدت کے دوران وہ جو کچھ بھی کرتے اس کے حوالے سے کسی فوجی کارروائی کا کوئی خطرہ نہ تھا، طالبان کو یہ بھی اندازہ تھا کہ امریکہ فی الحال فوجی کارروائیوں کے حوالے سے زیادہ پُرعزم نہیں۔ یوں طالبان کی پیش قدمی جاری رہی۔ جولائی کے دوران اور اگست کے پہلے ہفتے میں میرے یونٹ نے ہلمند میں 7 کار بم دھماکوں کا سامناکیا مگر پھر بھی ڈٹے رہے، میدان نہیں چھوڑا۔
(جاری ہے)